سفرنامہ:ہیں خواب میں ہنوزجوجاگے ہیں خواب سے ۔ ۔ ابنِ بطوطہ ثانی

Share

IBNE BATOOTA

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے

سفرنامہ ابنِ بطوطہ ثانی
– – – – – –
نوٹ : سفر‘ زندگی کا استعارہ ہے اورسفرنامہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان اس جہاں ‘جہاں کے ہر ملک،ملک کے ہرخطہ کی سیرکرے ۔اُس علاقے کی بودوباش،تہذیب ‘تمدن،موسم،آبوہوا،رواج،رسوم،فصلیں،لبااس،شادی،بیاہ، خوشی، غم، تیوہار،زبان،جذبات، اظہار، گیت، تال، ساز، موسیقی،ماضی،حال اوربہت کچھ جان سکے،اوراسے محفوظ بھی کرسکے۔سفرکرنے والے کو یہ شعوربھی ہو کہ وہ کھنڈرکے پہلے پتھرکا مکالمہ سن سکے۔کبھی کبھی سفرصرف شہربدلنے کا نام نہیں بلکہ دہربدلنے کا نام بھی ہے۔تب تو زمین ،ہوا،پانی، موسم، مزاج، پہناوا، بول، زبان سب کچھ بدل جاتا ہے۔
میرامن کی باغ وبہاراورمجاہد علی ولا کی بتیال پچیسی،یاپھر ٖفسانہٗ آزاد،یہ سب اردوکلاسیکی زبان میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔سفرنامہ ابن بطوطہ ثانی کا ذائقہ اسی قبیل کا ہے۔جہان اردو کے خوش ذوق قارئین اس سے کس حد تک محظوظ ہوں گے اورکس اندازمیں پذیرائی کی جائیگی اسی پراس سلسلے کی اگلی اشاعتوں کا دارومدارہے۔ اپنی رائے دینا نہ بھولئے گا۔
– – – – – –

قارئینِ کرام آپ سوچ رہے ہوں گے کہ صدیوں بعد پھر ابنِ بطوطہ کا وجود کہاں سے پیدا ہو گیا۔ قصہ ابنِ بطوطہ کا راوی یوں بیان کرتا ہے کہ جس ابنِ بطوطہ کا آپ اب تک تذکرہ سنتے آئے ہیں، نام اُس کا اصل میں ابو عبداللہ محمد ابن عبداللہ التنجی ابن بطوطہ تھا، وہ نا مراد نہیں بلکہ با مراد پیدا ہوا ملک مراقش میں۔ صدی عیسوی کے حساب سے 1304ء مہینہ فروری اورتاریخ 25 تھی۔ پیدائش پراُس کے ماں باپ خوش ہوئے 21فربہ دنبے ذبح کرکے21 الگ الگ تھال سجائے اورضیافت کی تمام قبیلوں کی۔ ان ہی قبیلوں میں ایک نجومی بھی تھا۔ نوالہ آخری نوش جان کر کے لخلخہ کے دو گھونٹ چڑھا کر اس قلندر نے بڑی سی ڈکار لی۔ پہلے تو با آوازِ بلند نعرہ لگایا ’’ ہوسب خیر ہو‘‘ پھر گدڑی کاندھے پہ ڈالی لاٹھی ٹیکتا جاتے جاتے کہہ گیا ’’یہ صرف 21سال رہے گا‘‘۔باپ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اوروہ دوڑا قلندر کے پیچھے، مگر وہ چل دیا نہ جانے کدھر۔ سمجھایا لوگوں نے کہ جانے سودائی تھا کہ مجنوں، تم کیوں کرتے ہو اپنا دل چھوٹا۔ بچہ جب پھرنے چلنے کے قابل ہوا تو پیراُس کا ایک جگہ ٹکتا نہ تھا ، ادھرآنکھ بچی اورنکل پڑا۔ ماں روتی دھوتی، اپنے نین کھوتی بارے کوئی نہ کوئی اُسے تلاش کرکے لے آتا۔
چارسال کا ہوا تو باپ نے مکتب میں دیا بٹھا۔ ادھراستاد نے دیا درس ادھراُس نے سنایا فرفرکہ گویا سب تھا یاد اُس کوازبر۔ مکتب سے اس کو اس کا باپ لینے آتا گھر، مگرپھر وہ آنکھ بچا کر نکل پڑتا باہر، اورٹیلے پرریت کے بیٹھ کردیکھا کرتا دُوردُورتک۔ کبھی کبھی وہ پوچھتا اپنے باپ سے یا پھراستاد سے کہ جہاں سورج غروب ہوتا ہے تو اُس بستی کا نام کیا ہے جہاں وہ رات کو سوتا ہے۔ انسان کو مرغ اورمرغ کو سورج جگادیتا ہے،لیکن سورج کو جگاتا ہے کون؟ پڑھنا لکھنا آ گیا تو استاد نے اسے دوچار کتابیں اپنے پاس سے دے دیں۔ اُس نے پڑھ کر واپس کر دیں اور مطالبہ کیاکچھ اور کتابوں کا۔ استاد نے پوچھا یہ سب کی سب پڑھ لیں؟۔ اس نے سُنا دیں سطر سطر اور معنی و مفہوم بھی ، تب استاد نے اسے ایک اور عالم کے پاس بھیج دیا۔ گزر گئے آخر بیس برس۔ جب اکیسواں سال آیا تب اس نے باپ سے اجازت لی حج کے لئے اور قدموں پہ سر رکھ کر ماں سے کہا کہ دو اجازت تم،تو جاؤں اللہ کے گھراور بعد فراغت پہنچوں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مزار پر اور زیارت کروں ان سب کی جن کے مزاروں پر خورشید سرِ شام شمع جلانے جاتا ہے۔ ماں نے لگایا کلیجے سے اور بولی آنکھوں میں آنسو بھر کے ’’کرے اللہ آرزو تیری پوری اور لوٹے تو با مراد اس زمین پر۔ جا رہا ہے تو ایسی جگہ جہاں سے ملتا ہے دونوں جہاں کو‘‘ ۔باپ کچھ دُور تک ناقے کی مہار تھامے چلا اور کہا ’’اللہ کے گھر کے مسافر! کیا میں نے تجھے اللہ کے حوالے‘‘ بعد حج و زیارت پہنچا جب وہ جدہ تو بحر احمر دیکھ کر سوچااس نے کہ سمندر کے اس پار دیکھ آؤں تو بُرا کیا ہے۔ پھر نہ جانے قسمت ادھرلاوے نہ لاوے۔ سواس نے بھی اورمسافروں کے ساتھ ملاح کو درہم دئیے اوراپنے ناقے کو فروقت کرکے رقم باندھی گرہ میں اورعازمِ سفرہوا۔
بیان کروں گااگر میں سفرنامہ ابن بطوطہ تو ہو گا بہت طویل کہ یہ ہے باتفصیل۔ القصہ مختصر24 سال سفر کر کے وہ مراقش پہنچا۔ باپ تو کب کا گزر چکا تھا ، ماں بھی اپنی کھلی آنکھوں سے راہ تکتی آخرکوچند مہینے پہلے ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرکے رخصت ہو چکی تھی۔ وہ نکل پڑا پھرسفرپر۔ 1354ء میں۔ ملاقات ہوئی اُس کی ابن جوزی سے، اس نے جوکچھ گزری اس پرسنا دی ابن جوزی کواورپھر واپس 1368ء میں مراقش لوٹا تو وہیں دفن ہوگیا۔ آپ کو پڑھنا ہواُس کا سفر نامہ الاسفارتحفتہ الانظار، غرائب الامصار میں پڑھ لیجئے۔ میں کروں گا بیان توآپ کو نہ ملے گا ابن جوزی کا لطفِ زبان۔ گئے سب بھول اُس کو مگر 1830ء میں یہ سفرنامہ شائع ہوا۔ ابن بطوطہ ہوتا اگر صرف ایک نام تو لوگ یاد نہ رکھتے ، لیکن بن گیا وہ علامت سیاحت کی اور تقلید میں اس کے لکھے بیشترسیاحوں نے سفرنامہ اپنے۔ ابن انشاء تعاقب میں گئے ابن بطوطہ کے تو مجتبی حسین صرف پرینیا کی ہنسی اورباردگرہنسی سننے اورمحظوظ ہونے کے لئے جاپان کا سفر کیا اورگئے لندن صرف بگھارے بیگن نوش جاں کرنے کے لئے ، رقم کیا اپنا سفرنامہ۔ پہنچیں لالی چودھری غرناطہ اورلکھا حال وہاں کی سرائے کا اور بھٹیارن کی موٹی موٹی روٹیوں کا۔
فرانسیسی سیاح TAVERNIER نے قطب شاہی عہد میں گولکنڈہ کی سیرکی تو شبنم کو دمکتا دیکھ کرموتی سمجھ بیٹھا اورموتی کو شبنم ، تب سے ہواموتیوں کا شہر۔ میں کہوں سفرصرف شہربدلنے کا نام نہیں ہے ، کبھی کبھی دہربدل جائے تو بھی سفرسفر ہے اوروہ بھی صدیوں کا سفر۔ چھپی ہے ایک کائنات اندرانسان کے بھی ، سفرتواُس کی ذات کے نہاں خانوں میں بھی ہوتودنیا کا سب سے دلچسپ اور انوکھا سفرنامہ پائے تشکیل۔ دہر بدل جائے اوربدل جائے زمان ومکان ، رسوم و رواج ، تہذیب وثقافت ، سکے اورٹکسالیں ، لباس اوربود وباش، فصلیں اورخوراک ، ذائقہ تب بھی دقیانوس کے زمانے سے صدیوں تک غارمیں سونے والوں کا سفر کھینچ لیتا ہے وقت کی طنابیں اوروہ کہتے ہیں ہم تو ابھی ابھی سوئے تھے۔ من کہ ابن بطوطہ ثانی بحالتِ ہوش و حواس بلا جبرواکراہ ، بہ رضا ورغبت خود لکھتا ہوں اس بات پر کہ میں نے شہروں کے سفر سے مانا زیادہ اہم دہر کے سفر کو اور اقرار کرتا ہوں کہ میری معلومات جو سمندر کے ساحل پر ریت کے ذرہ سے بھی کم ہیں ، اسے بلا کم و کاست قلمبند کررہا ہوں کہ من مقر کے بعد سند رہے اورعند الضرورت کام آوے۔
ابن بطوطہ ایران سے افغانستان آئے تھے ہندوستان اورہوئی خواہش کہ رسائی ہو دربارمیں بادشاہ کے اوراورپائیں جلیل القدرعہدہ۔ بادے کشاں کشاں عرض بیگی ، پیشکار، چوبدارسب کو کیا ہمواراورپیش ہوئے سرِدربار۔ اُس وقت محمد تغلق تھا حکمراں اس نے پایا ابن بطوطہ کو بہت بڑا دانا۔ حالانکہ خیال دنیا کا اب تک یہی ہے کہ محمد تغلق تھا دیوانہ ، لیکن ابن بطوطہ نے سمجھایااسے کہ وہ درحقیقت ہے فرزانہ۔ اس فرزانگی اوردیوانگی کا مابین محمد تغلق نے ابن بطوطہ کو فائزکیا عہدہ قضأت پراوربنایا اُسے اپنا مشیرِ خاص۔ ابن بطوطہ نے دیا مشورہ اُسے کہ دہلی بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے غیرمحفوظ ہے اورغیرمحفوظ دارالخلافہ میں حکومت محفوظ نہیں رہتی۔ پوچھا محمد تغلق نے کہ اس دعوے کی دلیل کیا ہے ؟ تو کہا ابن بطوطہ نے کہ اگر محفوظ ہوتی تو آپ اپنے وطن میں خشک خرمے یعنی سوکھے کھجوربیچا کرتے یا اپنے کان میں حلقہ پہن کرکسی امیرکے حلقہ بگوش ہوتے کہ غلاموں کا یہی طورہوتا ہے۔ محمد تغلق نے فوراً ٹٹولا اپنا کان جہاں حلقہ تو نہیں تھا ، لیکن حلقہ کا سوراخ موجود تھا۔ دیکھا اُس نے سوالیہ ابن بطوطہ کو تو کہا اس نے ’’جان کی اماں پاؤں تو کہوں ورنہ کیوں کہوں؟‘‘ فرمایا ترکی نژادغیاث الدین تغلق کے بیٹے اورفیروزشاہ تغلق کے باپ شہنشاہ عالم پناہ نے کہ ’’بیان ہو‘‘ ۔ ابن بطوطہ دو قدم پیچھے ہٹا اورجھک کر سات سلام کر کے کورنش بجا لایا۔ عالم پناہ اُس کی اس ادا سے خوش ہوئے اور گن کر پانچ اشرفیاں عطا فرمائیں۔ابن بطوطہ پھر مجرا بجا لایا۔ اُسے بائیں جیب میں رکھ کرداہنے جیب سے سات اشرفیاں ریشمی رومال میں رکھ کے نیچے ایک اورہاتھ سے سہارا دے کر پہلے تخت بوس ہوا، پھرپابوس ہوا ، پھرنذرکیں اشرفیاں یہ کہہ کر کہ غلام ظل سبحانی کی سلطنت میں عالم پناہ ہی کا رزق کھاتا ہے، بلند ہواقبال جہاں پناہ کا ۔ زمین حضوروالا کے قدوم میمنت لزوم سے قائم ہے، قبول ہونذراپنے اس ادنیٰ غلام کی جانب سے۔ محمد تغلق نے اشرفیوں کو چھوکروزیربا تدبیرپرنظرڈالی ، گویا حکم دیا کہ نذرقبول۔ بعد میں ڈال دی جائے چپکے سے ہماری جیب میں۔ فرمایا پایہ تخت کی محفوظی کی تجویز پیش ہو۔ گرپڑا ابن بطوطہ گھٹنوں کے بل اوردونوں ہاتھ باندھ کرعرض کیا ’’مالک سیاہ و سفید کے حضوروالا ہیں ، تمام عقلیں عاجزہیں حضوروالا کی عقل کے سامنے۔ غلام ایک بندۂ عاجز، کم عقل ، نادان ، ذرۂ خاک اورپھرکن انکھیوں سے داہنے بائیں دربار کی طرف دیکھا۔ سمجھ کر اس اشارے کو ، دیا حکم عالم پناہ نے ’’تخلیہ‘‘ ۔ جب سارا دربار ہو چکا خالی تو ظل الٰہی نے چوبدار ، نقیب ، مورچھل بردارپربھی ڈالی نگاہ غلط انداز۔ جب ہو چکے رخصت سارے تو بیٹھ گیا ابن بطوطہ تخت کے پایہ قریب اور گویا ہوا۔’’ حضور پُرنور اگر بجائے دہلی کے اپنا پایہ تخت دولت آباد منتقل فرما دیں تو نہ صرف یہ تخت محفوظ ہو جائے گا بلکہ تا قیام شمس وقمر، ازمہرتا بہ ماہی سرکارکا جاہ وجلال نسلوں تک باقی رہے گا‘‘۔دوسرے دن شہرمیں منادی کردی گئی کہ حسب الحکم سرکارظل الٰہی ، عالم پناہ ، رعایا پرور ، شہنشاہ معظم تما م رعایا و دفاتر شاہی کو حکم دیا جاتا ہے کہ بوجہ تبدیلی پایہ تخت کوچ بجانب دولت آباد کرے۔ سپہ سالاراعظم فوج کی منتقلی کا اہتمام کریں۔ سفرخرچ خزانہ عامرہ سے ادا کیا جائے گا۔ اگرکوئی انکارکرے یا انحرافِ احکام کرے تو جن بچے کولھو میں پھروا دئیے جائیں گے۔ ظل الٰہی بہ نفس نفیس مع ملکۂ عالیہ ، محلات محترم ، کنیزانِ خاص ، خواجہ سرا وخواجہ تاش ، رکابداروچوبدار شاملِ سفر ہوں گے۔ ہوشیار،ہوشیار، خبردار۔
مقررہ ساعتوں میں انبوہ کثیرحکم حاکم مرگِ مفاجات کی مانند دولت آباد کی طرف روانہ ہو گیا۔ خزانہ آدھا خالی ہو چکا تھا۔ تقریباً 700 برس بعد اب حکومت ہندوستان غورکررہی ہے کہ جنوبی ہندوستان میں ایک اورپایہ تخت ہونا چاہیئے اوروہ حیدرآباد ہو۔محل ہے غورکرنے کا یہ کہ کیا محمد تغلق واقعی پاگل ، دیوانہ اور سودائی تھا یا دانشمند اور آج حکومت ہندوستان میں جمہوری حکومت ہے یا حکومت در حقیقت محمد تغلق ہی کی ہے اور صورتیں بدل گئی ہیں۔
جب خرچ کر کے آدھی دولت پہنچ گیا محمد تغلق دولت آباد اور دشواری ہوئی بام آبادکاری رعایا اور نہ لگا جی وہاں تواس نے ابن بطوطہ سے پھرمشورہ طلب کیااورساتھ ہی فرمایا دلی پھر دلی ہے ہم اپنا دل دلی میں چھوڑآئے ہیں۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ ابن بطوطہ نے کہا ’’ حضورکا بلند ہو اقبال، دل ہے توسب کچھ ہے ، بغیردل کے دنیا کیسی اورپھرحضوروالا کا عمردراز، کس میں اتنا دم خم ہے کہ حضورکی جاں نثار فوج اور عالم پناہ کے حشم و قدم کے روبرو نگاہ اونچی کر سکے۔ دولت آتی جاتی ہے ، دولت آباد چھوڑےئے ، دلی ہے تو دل ہے اور دل ہے تو دلی ہے‘‘۔
دوسرے دن پھرنقارچی نے پھر منادی کردی ’’حسب الحکم شہنشاہ عالم پناہ بندہ خواص وعوام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سرکارحضور پُرنوراپنا دل دلی میں چھوڑآئے ہیں ، تمام افواج باقاعدہ وبے قاعدہ ، محکمہ جات سرکاری ، حضورکے قدوم میمنت لزوم کے ساتھ ہمراہی دہلی ہوں۔ ہاں اگرکوئی جائے جہاں وہ جانا چاہتا ہے توتعرض نہ ہوگا‘‘۔ شہنشاہ معظم پھردہلی پہنچ گئے۔ خزانہ خالی ہوگیا۔
محمد تغلق نے تانبہ کی ٹکیہ پر اپنی مہر ثبت کر کے اسے اشرفی قراردیا۔ سناروں نے خوب تانبے کی اشرفیاں ڈھالیں اورسونا جمع کرلیا۔ 650 سال بعد موجودہ حکومت نے کاغذ پروعدہ چھاپ دیا:
I Promise to pay the bearer sum of one Thousand
اوردستاویزات کے لئے بھی کاغذ کے وثیقے چھاپ دیئے ۔ جعلی کرنسی چھاپنے والوں نے اربوں روپیوں کے نوٹ چھاپ کرسونا جمع کر لیا۔ تیلگی نے جعلی اسٹامپ پیپرچھاپ کرہزاروں کروڑکا سونا جمع کر لیا۔ حاصل ہوا سات صدیوں کے سفرسے کہ کیا محمد تغلق وقت سے پہلے پیدا ہوا یا موجودہ حکومت محمد تغلق کی ہے۔ سمجھتا تو میں ہوں یہی کہ:
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے

Share

۸ thoughts on “سفرنامہ:ہیں خواب میں ہنوزجوجاگے ہیں خواب سے ۔ ۔ ابنِ بطوطہ ثانی”

Comments are closed.

Share
Share