غالب انسٹی ٹیوٹ‘ نئی دہلی کے زیراہتمام
بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار
رپورتاژ : منیب آفاق
ریسرچ اسکالر‘شعبہ اردو،
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،حیدرآباد۔
اردو زبان وادب کی تحقیق وتنقید میں جہاں یونیورسٹیوں اور اداروں نے خدمات انجام دئے ہیں وہیں سمینار وں نے بھی اہم رول نبھایا ہے اور نبھارہے ہیں۔ہر سال ملک بھر میں مختلف النوع موضوعات پر سمیناروں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے جس میں پروفیسروں کی بھرمار ہوتی ہے اور ان کی موجودگی ہی کو سمینار کی کامیابی سمجھی جاتی ہے ۔ان کے درمیان ریسرچ اسکالرز کو بہت کم موقع دیا جاتا ہے ۔غالب ا نسٹی ٹیوٹ دہلی نے اس روایت سے ہٹ کر ایک ایسے سمینار کی بنیاد ڈالی جس میں صرف ریسرچ اسکالرز ہی مقالے پڑھیں ۔ستمبر11تا13،2015، ’’بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار‘‘ اسی روایت کی ایک کڑی ہے جسے غالب انسٹی ٹیوٹ نے قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے تعاون سے منعقد کیاجس کی رپورتاژ ملاحظہ ہو۔11 ستمبر 2015(جمعہ) صبح 10:30بجے غالب انسٹی ٹیوٹ کا آڈیٹوریم ریسرچ اسکالرزاورسامعین سے بھرا ہوا تھا
تبھی پروفیسر رضا حیدر نے (جو غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر اور سمینار کے روحِ رواں ہیں)نے افتتاحی جلسہ کی صدارت کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر لفٹنٹ جنرل ضمیر الدین شاہ ،سابق وائس چانسلر حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی پروفیسر احتشام حسنین ،مہمانان خصوصی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد، سابق وائس چانسلرپروفیسر سید شاہد مہدی ،پروفیسر گوپی چندنارنگ ،پروفیسر ارتضیٰ کریم ،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور پروفیسر آذرمی دخت صفوی کوشہہ نشین پر مدعو کیا اورسمینار کے تعلق سے بتایا کہ ریسرچ اسکالرز سمینار کی شروعات ایک روزہ پھر قومی سمینار اور اب بین الاقوامی سمینار کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ان سمیناروں میں اردو کے علاوہ شعبۂ فارسی کے ریسرچ اسکالروں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے کیونکہ اردو اور فارسی کا رشتہ کافی مضبوط ہے ۔ان کے مطابق ملک بھر کی 35یونیورسٹیوں کے پچاس ریسرچ اسکالرز کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ ریسرچ اسکالرز میں رابط قائم ہو اور ایک دوسرے کے مسائل سے آگہی ہو ۔انہوں نے ریسرچ اسکالرز سمینار کے آغاز کا سہرااکرام الدین کے سرباندھا ۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے سمینار کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا اصل مقصد ریسرچ اسکالرز کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے علاوہ ازیں ریسرچ اسکالرز کو مستقبل کے لیے تیار کرنا ہے ۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے مہمانوں کا تعارف پیش کرتے ہوئے اپنے زمانہ طالب علمی کے اہم واقعات سنائے ۔انہوں نے ریسرچ اسکالرز کی عدم خود اعتمادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ پہلے اپنے آپ میں خود اعتمادی پیداکریں ۔ان کے مطابق ریسرچ اسکالرزکی طرف سے پچھلے دس سالوں میں ایسی کوئی کتاب منظرعام پر نہیں آئی جس پر فخر کیا جاسکتاہے۔آخر میں ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیا کہ وہ آگے بڑھیں اور خوب محنت کریں تاکہ مستقبل میں بہتر اساتذہ اردو فارسی کو نصیب ہوسکے ۔پروفیسر طلعت احمد نے خود کو خوش قسمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی انھیں ریسرچ اسکالرز سمینار کا افتتاح کرنے کا موقع نصیب ہوا ۔انہوں نے تحقیق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دورِحاضر میں ریسرچ اسکالرز تحقیقی معیار کو برقرار نہیں رکھ پارہے ہیں جس کی اہم وجہ تحقیق میں شارٹ کٹس کو اختیار کیا جانا ہے۔پروفیسر طلعت احمد نے اس بات پر زور دیا کہ ہر کوئی ڈگری(سند) کے ساتھ ساتھ اپنی معلومات کو بھی بڑھائیں کیونکہ آج کے طلبہ مستقبل کے ذمہ دار اور امین ہیں ۔صدر شعبۂ فارسی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر آذرمی دخت صفوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو اور فارسی ریسرچ اسکالرز کے مسئلے آفاقی ہیں اور زیادہ تر خود کے تیار کردہ ہیں علاوہ ازیں ہند میں نظامِ تعلیم ،نصاب،اشاعت وغیرہ اہم مسائل ہیں جس کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔آخر میں کہا کہ ان مسائل کو ریسرچ اسکالرز ہی حل کرسکتے ہیں جس کے لیے محنت اور جد وجہد کی ضرورت ہے کیونکہ آج کا دور دونوں شعبہ جات کے لیے بڑاکٹھن دور ہے ۔دہلی میں میٹروریل کا کام زیر تعمیر ہے جس کی وجہ سے ٹریفک نظام میں بڑی مشکلات درپیش ہیں اسی وجہ سے اردو کی شہرہ آفاق شخصیت پروفیسر گوپی چندرنارنگ تاخیر سے افتتاحی جلسہ پر پہونچے مگر بقول پروفیسر رضا حیدر ،نارنگ صاحب بغیر انتظار کیے جلسہ شروع کرنے کو کہا ۔پروفیسر گوپی چندنارنگ نے کہا کہ وہ کلیہ خطبہ دینے کے بجائے ریسرچ کے حالاتِ حاضرہ پر اظہار خیالات کرنا پسند کریں گے ۔اسی کے تحت انہوں نے اساتذہ ،تعلیم نظام ،اسکالرز،موضوع،شعبہ جات ،یونیورسٹیز جیسے مسائل پر مدلل بحث کی ۔اردو شعبوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے اساتذہ کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے جو کسی بھی طرح نااہل ہوتے ہیں، انھیں خود موضوع اور مواد کے تعلق سے علم نہیں ہوتا وہ صرف موضوع دے کر بیٹھ جاتے ہیں ۔آج کا اسکالر عجلت پسند اور سہل پسند ہے جو کم وقت اوربغیر محنت کے پھل چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو میں معیاری کام منظر عام پر نہیں آرہا ہے ۔ان کے مطابق ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ دونوں کو مل کر محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔آگے کہا کہ پاکستان میں اردو کی حالت زار ہندوستان سے ابتر ہے ۔آخر میں یہ کہتے ہوئے ’’اردو میں آدمی بننا اور پیدا ہونا کم ہوگئے ہیں ‘‘ اپنی بات ختم کردی ۔پروفیسر سید احتشام حسین نے اردو کو سائنس کے معیار پر ڈھالنے کی تجویز رکھی کیونکہ سائنس میں ہر دن نیا سورج اگتا ہے ۔انہوں نے ریسرچ اسکالرز کو جنون کی حد تک محنت کرنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی ساتھ پروفیسر ارتضیٰ کریم سے کہا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے تعاون سے ایسا اردو سافٹ ویر تیارکریں جس سے ایم فل ،پی ایچ ڈی کے موضوعات اور دیگر معلومات آن کی آن میں معلوم ہوسکے ۔علاوہ ازیں ایک عالمی معیاری رسالہ جاری کریں۔آخر میں IIT’Sکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا معیار آکسفورڈ اور ہارورڈ سے افضل ہے ۔پروفیسر سید شاہد مہدی نے اردو کو دیگر مضامین سے جوڑنے پر زور دیا اور کہا کہ ریسرچ اسکالرز کی ناکامی کے ذمہ داران کے نگران ہیں جو خود موضوع سے ناواقف ہوتے ہیں اور صحیح طرح سے نگرانی نہیں کرپاتے ۔ان کے خیال میں دکنی ادب سے جتنا فائدہ مورخوں نے اٹھایا اردووالوں نے نہیں اٹھایا۔لفٹنٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے صدارتی کلمات کے دوران کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اہم مقصد اردو زبان وادب کی حفاظت اور فروغ ہے ۔یونیورسٹی کا شعبۂ اردو متحرک اور فعال ہے ،یونیورسٹی سے ملحق گیارہ اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے اور یونیورسٹی میں Choice Base Credit Syrtamکو متعارف کیا گیا ہے جس کے تحت دیگر مضامین کے طلبہ بطور اختیاری مضمون اردو پڑھ سکتے ہیں۔انھوں نے ایسی ریسرچ کو بے سودوبے کار قرار دیا جس سے دوسرے فائدہ نہ اٹھائے ۔پروفیسر رضا حیدر کے ہدیہ تشکر کے ساتھ ہی افتتاحی جلسہ کا اختتام عمل میں آیا ۔سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کا پہلا اجلاس پروفیسر آذرمی دخت صفوی اور پروفیسر امتیاز حسین کی صدارت اور ریسرچ اسکالر محمد فرقان کی نظامت سے شروع ہوا جس کے پہلے مقالہ نگار ایران سے تشریف لائی مہمان ریسرچ اسکالر فاطمہ رجابی نے فارسی میں اپنا مقالہ سنایا ۔دوسرے مقالہ نگار روہیل کھنڈیونیورسٹی سے انور میاں نے’’ کلام غالب کی تفہیم :اسلوبیانی نقطہ نظر سے ‘‘ پڑھتے ہوئے غالب کے کلام پر تنقیدی نظر ڈالی ۔اس ضمن میں انھوں نے غالب کے ردائف ،قوائف،مصوتے ،مصمتے ،بحروں کے نام کا ذکر کیا اور کہا کہ غالبؔ کا کلام ذولسانی ہے اور اس کے پاس استفہامیہ اور تضاد کی کثرت ہے ۔دہلی یونیورسٹی کے شاہنواز ہاشمی نے ’’ٹیلی ویژن اور اشتہار ‘‘ پر مقالہ پڑھتے ہوئے ذرائع ابلاغ ،ریڈیو ،ٹیلی ویژن ،کمپوٹر کی ایجادات اور اشتہارات کی اہمیت کا تذکرہ کیا ۔ناظرین میڈیاکے اشتہارات کو حقیقت سمجھتے ہیں جبکہ وہ کمپنی کا مقصد ہوتا ہے ۔اشتہارات سے متعلق انھوں نے صرف ان اشتہارات کا ذکر اور حوالہ دیا جس میں عورتوں کے اخلاق کو گرتے ہوئے دکھایا گیا جبکہ مردوں سے متعلق بھی کئی اشتہارات ایسے ہیں جنہیں افراد خاندان کے ساتھ دیکھنے میں عار محسوس ہوتی ہے۔شاہنواز نے عورتوں کے جسمانی اعضاء کے ابھار،برہنہ پن ،کا سمٹک سرجری وغیرہ کا تفصیلی تذکرہ کرکے تانیثیت سے خفگی کا اظہار کیا ۔مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کی ریسرچ اسکالر کنیز فاطمہ نے ’’اولیائے خلد آباد کی فارسی خدمات ‘‘پر مقالہ سناتے ہوئے اولیاء کی شخصیت اور خدمات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ۔دورانِ قرأت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ محترمہ پر سفر کی تھکان کا اثر ہنوز باقی ہے جس کی وجہ سے تلفظ اور جملہ سازی میں الٹ پھیر اور خود اعتمادی میں کمی محسوس کی گئی ۔سامعین مقالہ سننے کے بجائے آپس میں چہ گویاں کرتے ہوئے دیکھے گیے۔’’بلونت سنگھ کی افسانہ نگاری کا اجمالی جائزہ ‘‘ جو اہرلا ل نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر ایاز خلیل کا موضوع تھا جس میں انھوں نے بلونت سنگھ کی ادبی زندگی کا آغاز ماہنامہ ’’ساقی ‘‘ سے بتایا اور ان کے ہمعصر بیدی ،منٹو ،کرشن چندر کا تذکرہ بھی کیا ۔آگے ان کے افسانے سزا، پہلی کوشش اور دیگر افسانوں سے اقتباسات پیش کیے علاوہ ازیں ان کے کرداروں گُر نام ،جگا ،دلیب سنگھ کی خوبیوں پر روشنی ڈالی ۔لکھنؤ یونیورسٹی کے محمد یاسر نے ’’اردو شاعری میں سیاسی پہلو ‘‘ کو اپنا موضوع بناتے ہوئے چکسبتؔ ،سرورؔ جہاں آبادی ،اقبالؔ ،جوشؔ ،آتشؔ ،فیضؔ ،ساحرؔ لدھیانوی،مجروحؔ سلطان پوری ،یگانہؔ اور دیگر شعرا کے کلام میں موجود سیاسی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ۔پروفیسر امتیاز حسین نے محاکمہ کے دوران کہا کہ مقالہ نگارکومشق کرنے کے بعد ،پوری تیاری کے ساتھ آنا چاہئے اور ریسرچ کے معیار کو برقرار رکھیں ۔پروفیسر آذری دخت صفوی نے اولاً فارسی مقالے کی تلخیص اردو میں پیش کی پھر کہا کہ مقالے میں عمومیت نہیں بلکہ حوالوں کے ذریعہ مستند بنانا چاہئے ۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مقالے میں تمہید کو مختصر اور موضوع کو جامع مقام دے کر پورے اعتماد کے ساتھ پیش کریں اور کلام کو موزوں پڑھیں تاکہ سامعین محظوظ ہوسکیں ۔چائے کہ وقفہ کے فوری بعد دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرسید عینین علی حق نے دوسرے سیشن کی صدارت کے لیے پروفیسر علیم اشرف اور ڈاکٹر اطہر فاروقی کو شہہ نشین پر مدعو کیا ۔’’آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو تحقیق و محققین ‘‘کے عنوان پر دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر نے مقالہ پڑھتے ہوئے خواجہ احمد فاروقی ،نثار احمد فاروقی،شمس الرحمن فاروقی ،گیان چند جین،سیدہ جعفر،نذیر احمد ،مسعود حسین خان ،تنویر احمد علوی ،خلیق انجم ،گوپی چندرنانگ،عبد الستار دلوی اور ان کے تحقیقی کارناموں کا ذکر کیا اور اردو ناول کے آغاز کے تعلق سے قدیم نظریات کو دہرایا ۔پنجاب یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عبد الکریم نے ’’دور حاضر میں تصوف کی اہمیت وافادیت ‘‘ کو اپنا موضوع بناتے ہوئے تصوف کی تعریف ،اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی ۔انھوں نے خواجہ حسن ثانی نظامی ؒ ،معین الدین چشتی ؒ ،نظام الدین اولیاء ؒ ،مہاتما جیوتی باپھولے ،تلسی داس،کبیرداس اور شیخ سعدی کی خدمات کو حوالوں کے ذریعہ مدلل بنایا ۔سعیدہ رحمن (جومگدھ یونیورسٹی کی نمائندگی کررہی تھی) نے ’’تانیثی آواز۔ذکیہ شہدی کے حوالے سے ‘‘کے موضوع پر مقالہ پڑھا جس میں ذکیہ شہدی کے افسانے چرایا ہوا سکھ ،جگنو،نروان ،ایک تھکی ہوئی عورت ،ایثار،ایک مکھڑی کی موت ،تھکے پاؤں،املی ،میں اکیلی،شکستہ، ٹوٹا ہوا خط۔۔۔سے ان اقتباسات کو پیش کیا جس میں تانیثی آواز کے عمدہ نمونے پائے جاتے ہیں ۔انھوں نے بہت ہی عمدہ طریقے سے مقالہ پیش کیا ۔محاکمہ کرتے ہوئے دونوں صدور نے ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیا کہ مطالعہ کی عادت کو برقرار رکھیں اسی سے مقالہ میں جان پڑتی ہے ۔سامعین کو مشورہ دیا کہ جو بھی سوال کرنا ہو موضوع سے متعلق ہوکیونکہ ریسرچ اسکالرز تجربہ کار نہیں ہوتے ان سے ہر سوال کی وضاحت ممکن نہیں ۔پہلے دن کے دوسیشنوں میں جملہ نو مقالے پڑھے گیے اور شام ساڑھے چھے بجے ڈاکٹر رضا حیدر نے سیشن کے اختتام کا اعلان کیا ۔
12ستمبر (سنیچر) صبح 10:15ساعت ڈاکٹر خالد علوی کی صدارت میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ذاکر حسین نے’’ ناول باگ کاتہذیبی وسماجی مطالعہ ‘‘کو موضوع بناکر مقالہ پیش کیا ۔جموں یونیورسٹی کے الطاف احمد نے ’’اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب ومعاشرت کی عکاسی :آزادی کے بعد ‘‘پر مقالہ پڑھا ۔بھاگلپور یونیورسٹی سے آئی اسماء پروین نے ’’اردو غزل میں شہر کا تصور : ایک تنقیدی جائزہ ‘‘ کو موضوع بناکر محمد قلی قطب شاہ ،مظہرؔ جان جاناں ،ولیؔ ،مومنؔ ،اقبالؔ ،داغؔ ،ناصرؔ کاظمی ،پرویز شاہدیؔ ،شہریارؔ ،مظفر حنفی کے ان اشعار کو حوالہ بنایا جس میں شہر کا ذکر کیا گیا ہے ۔عثمانیہ یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر سلیم ساحلؔ نے ’’میکش حیدرآبادی کی شعری وادبی خدمات ‘‘ کے موضوع پر مقالہ پڑھنے سے قبل کہا کہ یہ ان کا پہلا سمینار ہے لیکن انداز بیان سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ کافی تجربہ کار ہیں۔بہت ہی اعتماد کے ساتھ مقالہ کی قرأت کی اور میکش حیدرآبادی کی شخصیت اور فن پر مختصرمگر جامع روشنی ڈالی علاوہ ازیں میکشؔ اور اقبالؔ کی لاہور کی ملاقات کو بھی اپنے مقالہ میں جگہ دی ۔جواہر لال یونیورسٹی کی نمائندہ یاسمین رشیدی نے ’’ذکیہ مشہدی کے افسانوں کی دیو مالا ‘‘ پر مقالہ پڑھتے ہوئے جہاں رنگ وبو ،مٹھی بھرگھاس ،کی بڑی اماں ،کالے میگھا پانی ،ایک تھکی ہوئی عورت ،تھکے پاؤں افسانوں کے اقتباسات سے دیو مالاؤں کی طرف اشارہ کیا ۔مگدھ یونیورسٹی کی سعیدہ رحمن نے بھی ذکیہ مشہدی کو موضوع بنایا تھا جس سے تکرارسی کیفیت محسوس ہوئی ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محمد توصیف نے ’’ہنگامہ عشق از آنند رام مخلص :ایک تعارف ‘‘پر مقالہ پڑھا ۔مردیہ نژاد شیخ (ایران) نے ’’اردو میں فارسی زبان کے اثرات کی چند جھلکیاں ‘‘پر اردو میں مقالہ پڑھتے ہوئے فارسی زبان کے اثرات کی طرف اشارہ کیا جس کو سن کر سامعین نے داد دی۔انھوں نے بتایا کہ محمود غزنوی سے برصغیر میں فارسی داخل ہوئی اور مغل دور میں پروان چڑھی ۔امیر خسرو سے منسوب ضرب الامثال ،کہہ مکرنیوں اور محاوروں کی مثالیں بطور حوالہ پیش کیں۔ڈاکٹر علی جاوید اور ڈاکٹر خالدعلوی نے محاکمہ کرتے ہوئے سیر حاصل بحث کی۔اس سیشن کی نظامت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر رفعت مہدی رضوی نے بخوبی انجام دی ۔چوتھے سیشن کی صدارت کے لیے ناظم نورین علی حق (ریسرچ اسکالر۔دہلی یونیورسٹی) نے پروفیسر قاضی عبیدا لرحمن ہاشمی ،پروفیسر اختر مہدی اور فرحت شہزاد (امریکہ )کو دعوت دی ۔پھر کشمیر یونیورسٹی کے مسرت گیلانی کو آواز دی جس پر انھوں نے غالب،اقبالؔ ،شبلیؔ ،شرر،نسیم حجازی،سرسید اور ان کے رفقا کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے کلام میں تاریخ اور فکشن کے نقوش کا تجزیہ کیا ۔’’روہیل کھنڈ میں اردو افسانہ کا ارتقا‘‘ پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آئے محمد فرقان نے مقالہ پڑھتے ہوئے بتایا کہ سجاد حیدر یلدرم روہیل کھنڈ کے باوائے آدم افسانہ نگار ہیں ۔آگے افسانہ ،تحقیق وتنقید اور روہیل کھنڈ کا رشتہ اور کارناموں کو منظر عام پر لایا ۔محترمہ شبستاں پروین نے ’’قدرت اللہ شہاب ادبی آئینہ میں ‘‘ پر مقالہ پڑھتے ہوئے ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی پھر ماں جی اور یا خدا انسانوں کا جائزہ لیا جس میں بتایا گیا کہ شہاب کشمیر کی نمائندگی کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔دونوں افسانوں سے اقتباسات کے ذریعہ اپنی تحقیق کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ۔یا خدا ایک ہی نشست میں لکھا گیا افسانہ ہے جس میں تقسیم ہند کو موضوع بناکر اس کی منظر کشی کی گئی ہے ۔بنارس ہندو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر شمیم احمد نے ’’حفیظ بنارسی کی غزل گوئی ‘‘ پر مقالہ پڑھا جس میں حفیظ کی پیدائش،بچپن،تعلیم اور غزل گوئی کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا کہ ان کے کلام میں تہذیب وتمدن،سماجی مسائل ،روایتی اسلوب اور جدت پسندی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نمائندہ محمد اسلم نے ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اردو خدمات‘‘ پر مقالہ سپرد قلم کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام،بانیوں ،اساتذہ ،نصاب ،بچوں کا نمائندہ رسالہ اور کتابوں کے تراجم جیسے خدمات کا تذکرہ کیا ۔رزینہ خاں جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر ہیں نے ’’اردو ماہیہ اور حیدر قریشی ‘‘ کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ماہیہ کی تعریف ،ابتدا ،ماخذ ،تکنیک کے علاوہ حیدرقریشی کے شعری مجموعوں کا ذکر کیا ۔پروفیسر قاضی عبید الرحمن قریشی ،پروفیسر اختر مہدی اور فرحت شہزاد نے محاکہ کے دوران ریسرچ اسکالرزکو مبارکباد دیتے ہوئے ان کی خامیوں کی طرف اشارہ کیا اور آئندہ انہیں درست کرنے کی تلقین کی ۔سمینار کے پانچویں سیشن کی صدارت پروفیسر عراق رضا زیدی ،پروفیسر معین الدین جینا بڑے ،ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور قاسم خورشید نے کی جبکہ نظامت احمد علی جوہر کے حصے میں آئی ۔پٹنہ یونیورسٹی سے آئے کامران غنی نے ’’اردو کی ادبی ویب سائٹس‘‘ پر مقالہ کی قرأت کے دوران روزنامہ جنگ ،اردو منزل ڈاٹ کام ،علامہ اقبال سائبرلائبریری ،اردو سخن ڈاٹ کام ،ادب نما ،اردو ریسرچ جنرل ،ریختہ ،ادبی دنیا ،بازگشت کے نام گنواتے ہوئے ’’سمت ‘‘ کو انٹرنیٹ کا پہلا مکمل ویب سائٹ قرار دیا ۔’’ہندوستانی ثقافت میں رومانوی عناصر‘‘کوجواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر جابر زماں نے اپنا موضوع بنایا جس میں چاروں وید،مہابھارت کی دیو مالاؤں ،مغلوں کی ثقافت تعمیرات ،داستانِ امیر حمزہ ،الف لیلیٰ سے رومانوی عناصر کے نقوش منظر عام پر لائے ۔کلکتہ یونیورسٹی کے شاہنواز عالم نے ’’اردو میں ترقی پسند ڈرامے کی روایت ‘‘ پر مقالہ سناتے ہوئے کرشن چندر،منٹو ،سجاد ظہیر ،سردار جعفری ،عصمت چغتائی ،خواجہ احمد عباس کے ڈراموں کے نام گنوائے ۔رضوانہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے ’’منٹو اور تقسیم ہند کا المیہ ‘‘ پر مقالہ پڑھا جس میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ،کھول دو،ٹھنڈا گوشت ،سیاہ حاشیے سے اقتباسات کے ذریعہ تقسیم ہند کے منظر کو اجاگر کرنے کی سعی کی ۔’’بدلتا ثقافتی منظر نامہ اور نیا اردو افسانہ ‘‘پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے عبد الرحیم نے مقالہ سناتے ہوئے سلام بن رزاق،ذین الحق،معین الدین جینا بڑے اور حسین الحق کے افسانوں کا تذکرہ کیا ۔پٹنہ یونیورسٹی سے آئی افشاں بانو نے ’’احمد فراز کی شاعری میں رومانی عناصر‘‘ پر مقالہ کی قرأت کرتے ہوئے احمد فراز کے کلام میں رومانی عناصر کی طرف اشارہ کیا ۔قاسم خورشید ،ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ،پروفیسر جینا بڑے اور پروفیسر عراق رضا زیدی نے محاکمہ کے دوران تحقیق اور تحقیق کارپر طویل گفتگو کرتے ہوئے ان نگران کاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جو اپنے ریسرچ اسکالرز کی صحیح نگرانی نہیں کرتے بلکہ ذاتی کام کرواتے ہیں ۔پروفیسر جینا بڑے نے ریسرچ اسکالرز کی پر زور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ اردو وفارسی میں پائے جانے والے جھول کو صرف اور صرف آپ لوگ ہی دور کرسکتے ہیں۔آخر میں کہا کہ قدیم ،بوسیدہ اور روایتی طرز کو خیر باد کہہ کر جدید طریقے اپنائیں۔چھٹے اجلاس کی صدارت کے لیے ناظم جاوید حسین نے پروفیسر عین الحسن ،پروفیسر مظہر مہدی اور ڈاکٹر ابوبکر عباد کو شہ نشین پر مدعو کیا ۔پنچابی یونیورسٹی ،پٹیالہ کے جیتندر پال نے ’’اردو کی جدید شعری اصناف کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ میں ماہیہ ،ترائیلا،ہائیکو ،سانیٹ ،گیت اور شعراکمر جلال آبادی ،نظیر فتح پوری ،عاشق ہرگانوی ،دیپک کمل ،ہمت رائے شرما کا ذکر کیا ۔انہوں نے اصناف کے متعلق بنیادی امور کی طرف اشارہ کیا ۔ایرانی ریسرچ اسکالر منیرہ نژاد شیخ نے’’تہران یونیورسٹی میں اردو زبان وادب کی خدمات ‘‘ پر اردو میں مقالہ پڑھتے ہوئے اجمالی جائزہ لیا ۔ساغر یونیورسٹی کے محمد یحییٰ نے ’’پروفیسر بیگ احساس فکر وفن ‘‘ کو اپنا موضوع بنایا جس میں بیگ احساس کی مختصر ترین شخصیت اور فن پر بات کی ۔اس کے فوری بعد دہلی یونیورسٹی کے محمد طارق نے ’’کیول دھیر کے افسانوں کی خصوصیات ‘‘پر مقالہ پڑھتے ہوئے ان کے افسانے اپنا دامن اپنی آگ ،واسنتی ،بکھری ہوئی زندگی ،بدچلن ۔۔۔افسانوں کے کرداروں پر روشنی ڈالی ۔الہ آباد یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر عابدہ خاتون نے ’’ایک عظیم محب وطن ابوا لقاسم لاہوتی ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھا جس میں لاہوتی کی شخصیت اور فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کے مضامین کی خصوصیت یہ بتائی کہ وہ ملک اور تہذیب کو مرکزیت قرار دیتے ہیں ۔عابدہ خاتوں کے فارسی کلام کی قرأت سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہندوستانی نہیں بلکہ ایرانی ہیں ۔جواہر لال نہرویو نیورسٹی سے منسلک احمد علی جوہر نے ’’اقبا ل متین کی ادبی خدمات پر ایک نظر ‘‘ پر مقالہ پڑھتے ہوئے ان کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری کو قرار دیا پھر ان کے افسانوی فن پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔اقبال متین کے افسانوں میں حیدرآباد تہذیب جھلکتی ہے ۔اسی یونیورسٹی کے ضیاء اللہ انور نے ’’دوہے کی تجدید اور حمیل الدین عالی ،پرمقالہ پڑھا جس میں دوہے اورحمیل الدین عالی کی خدمات کا ذکر تھا ۔محاکمہ کے دوران ڈاکٹر ابوبکر عباد ،پروفیسر مظہر مہدی اور پروفیسر عین الحسن نے ریسرچ اسکالرز کی خوبیوں اور خامیوں کا بڑااچھا تجزیہ کیا ۔
سمینار کا تیسرا اور آخری دن 13ستمبر (اتوار) صبح دس بجے پروفیسر عتیق اللہ اور ماجد دیوبندی ساتویں اجلاس کے صدور کی حیثیت سے شہ نشین پر جلوہ افروز تھے جن کے بازو ناظم اجلاس ریسرچ اسکالر شاہین بیٹھی ہوئی تھیں ۔جے این یو کے قمر صدیقی نے ’’مابعد جدید اردو افسانہ قاری کی شمولیت اور ثقافت کا مسئلہ ‘‘ممبئی یونیورسٹی کے ابو اسامہ ہارون رشید نے ’’مہاراشٹرا میں ادبی اطفال ‘‘ رانچی یونیورسٹی کے صابر انصاری نے ’’مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت اور خدمات :رانچی کے حوالے سے ‘‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صالحہ صدیقی نے ’’اقبالؔ کتاب دل کا شاعر ‘‘ دہلی یونیورسٹی کے نورین علی حق نے ’’ظلمِ مسلسل کا ترجمان صدائے عندلیب -برشاخ شب ‘‘ اور مگدھ یونیورسٹی کے لطیف بھٹ نے جموں کشمیر کے جدید غزل گو شعرا کو اپنے مقالے کا عنوان بنایا ۔بھٹ نے حکیم منظور ،حامد کشمیری ،قیصر قلندر ،پرت پال سنگھ بیتاب اور ان کی شاعری کا ذکر کیا ۔صدور اجلاس نے محاکمہ کرتے ہوئے سیر حاصل بحث کی۔آٹھویں سیشن کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی اور پروفیسر ابن کنول نے کی جبکہ سفینہ نے نظامت کے فرائض انجام دئے ۔’’رایل سیما میں اردو تعلیم وتدریس کی موجودہ صورت حال‘‘پر راقم جو شعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کی نمائندگی کررہا تھا نے مقالہ پڑھا جس میں رایل سیما کے چاروں اضلاع کرنول ،کڑپہ ،اننت پور اور چتور کی تعلیمی وتدریسی صورت حال بیان کی ۔رایل سیما میں جملہ گیارہ سو اردو اسکولوں اور کالجوں میں اردو بطور زبان اول؍ زبان دوم پڑھائی جاتی ہے ،جبکہ واحد جامعہ سری وینکٹیش ورا یونیورسٹی ،تروپتی ہے جس میں شعبہ اردو متحرک وفعال ہے ۔راقم نے تمہیدی طور پر رایل سیما کی ادبی ،جغرافیائی ،تاریخی اور لسانی خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ۔مدراس یونیورسٹی کے امان اللہ نے ’’تمل ناڈو کے عربی مدارس کے اردو خدمات ‘‘ کو موضوع بنایا جس میں معروف مدارس لطیفیہ ،باقیات الصالحات ،جامعہ دارالسلام ،مدرسہ محمدی کے تعلیمی وتدریسی خدمات ، کتب خانے اور مخطوطات کا بھی احاطہ کیا ۔لکھنؤ یونیورسٹی کے فیروز بخت افروز نے ’’شاہانہ اودھ کے عہد کے فارسی کتبوں کی ادبی وتاریخی اہمیت ‘‘وی کنورسنگھ یونیورسٹی ،آرا بہار کے حبامامون رحمانی نے ’’خطبات شبلی کی دانشورانہ جہت ‘‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی نیہا اقبال نے ’’ جان ایلیا کے کلام میں ہجرت کا کرب‘‘ موہن لال سُکھاڑیا یونیورسٹی ،اُدئے پور کی شمع خاں نے ’’ناول ’مکان‘ کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی رفعت مہدی نے ’’راجہ رتن سنگھ زخمی کی شاعری ‘‘ پر مقالے پڑھے ،پروفیسر ابن کنول نے محاکمہ کرتے ہوئے راقم کے مقالے اور طرز انداز کو کافی سراہا اور مشورہ دیا کہ اپنی کوشش کو جاری رکھیں ۔امان اللہ کے متعلق کہا کہ یہ ایک معلوماتی مقالہ تھا ۔انھوں نے ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے موضوع پر زور دیں،اپنے موضوع پر خود تنقید کریں اور ریسرچ کو شوقیہ طور پر کریں تاکہ ہمارے ادب میں معیاری کام منظر عام پر آسکے ۔پروفیسر شریف حسین قاسمی نے ہر ایک مقالہ کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔سمینار کا نواں سیشن پروفیسر عبد القادر جعفری ،پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر انور پاشاہ کی صدارت اور کمیل ترابی کی نظامت میں انجام پایا ۔گلبرگہ یونیورسٹی کے سید عارف نے ’’آن لائن اردو رسائل کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ ‘‘پر مقالہ پڑھتے ہوئے آن لائن رسائل کا اجمالی خاکہ پیش کیا ،الہ آباد یونیورسٹی کی سعدیہ جعفری نے ’’نیما پوشیج کی فارسی شاعری :تعارف وتجریہ ‘‘کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ان کی نظموں کا تجزیہ کیا ۔دہلی یونیورسٹی کی تسنیم بانو نے ’’ہندوستان میں تحریک نسواں ‘‘پر مقالہ پڑھتے ہوئے عورتوں پر کیے جانے والے ظلم وستم کی طرف اشارہ کیا ۔اسی یونیورسٹی کے عینین علی حق نے ’’لہو لہو ہندوستان اور افسانہ ‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالے میں منٹو،کرشن چندر،خواجہ احمد عباس ،اشفاق،ترقی پسند وجدیدیت پسند مصنفین ،علامتی اور تجریدی افسانہ نگاروں کے ان افسانوں کا ذکر کیا جس کا موضوع تقسیم ہند تھا ۔’’اردو شعر وادب میں طنز ومزاح کی روایت ‘‘ سفینہ بیگم کا موضوع تھا جس میں جعفر زٹلی ،سوداؔ ،میرؔ ،قائمؔ ،غالبؔ ،داغؔ ،اقبالؔ ،اکبرؔ ،پطرس بخاری کے کلام میں طنز ومزاح کے عنصر کو اجاگر کیا گیا ،پروفیسر انور پاشاہ ،پروفیسر خالد محمود نے محاکمہ کرتے ہوئے لغت کے استعمال پر زور دیا تاکہ قواعد کی اغلاط نہ ہوں۔پروفیسر عبد القادر جعفری نے ریسرچ اسکالرز کو متن کے مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا اور دوران تحقیق Cut-Pasteطریقے سے پرہیز کرنے کو کہا ۔سمینار کا دسواں اور آخری سیشن پروفیسر عثمان الحق قریشی ،ڈاکٹر شعیب رضا خاں اور ڈاکٹر اخلاق احمد آہن کی صدارت اور محمد رضوان خاں کی نظامت میں منعقد کیا گیا جس کی شروعات دہلی یونیورسٹی کے محمد صادق نے ’’حکیم محمد آتشی: عادل شاہی دور کا شاعر اور حکیم‘‘سے کیا جس کے ابتدا میں دیگرآتشی شعرا کا ذکر کیا ،پھر امین آتشی کی مثنویوں ،رباعیات،غزلیات کے ذکر میں دکنی الفاظ کی کثرت کی طرف اشارہ کیا ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ سے آئے محمد مغیث احمد کا موضوع ’’مثنوی معنوی کے دو تراجم کا تنقیدی جائزہ ‘‘تھا جس میں انھوں نے ترجمے کی اہمیت وافادیت کو تمہید کے طور پر باندھا پھر حکیم الامت اشرف علی تھانوی اور قاضی سجاد حسین کے تراجم کی خصوصیات پر اظہار خیال کرتے ہوئے دونوں کے تراجم کا تجزیہ کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔پٹنہ یونیورسٹی کے نمائندہ محمد عالم نے ’’حضرت مولانا بشیر :حیات اور کارنامہ ‘‘پر مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ اب تک ان کا کوئی مجموعہ یا تصنیف منظر عام پر نہیں آئی بلکہ مخطوطات کی شکل میں محفوظ ہے ۔محمد عالم دوران مقالہ خطوط اور مکتوبات میں فرق نہیں کرپارہے تھے اسی لیے ایک مرتبہ40خطوط اور دوسری مرتبہ 100مکتوبات کا ذکر کیا ۔الہ آباد یونیورسٹی کے نوشاد عالم نے ’’امراؤ جان ادا اپنے عاشقوں کے آئینہ میں ‘‘پر مقالہ پڑھتے ہوئے امراؤ جان ادا سے وابستہ عاشقوں کے اسما اور ان کی کردار نگاری پر روشنی ڈالی ۔آخر ی مقالہ نگار دہلی یونیورسٹی کے محمد نظام الدین نے ’’منٹو کے مضامین میں طنز ومزاح کے عناصر ‘‘ میں بتایا کہ منٹو کے نظریات افسانوں سے بڑھ کر مضامین میں پوشیدہ ہیں جن پر گہری نظر کی ضرورت ہے ۔انھوں نے منٹو کے70سے زائد مضامین اور تین مجموعوں کا ذکر کرتے ہوئے جدت،ندرت ،ادبیت ،تخلیقیت ،معلوماتی اور نظریاتی پہلوؤں کو منظر عام پر لایا ۔محاکمہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شعیب رضا ،ڈاکٹر اخلاق احمد آہن ،اور پروفیسر شمس الحق عثمانی نے مقالوں پر سیر حاصل بحث کی ۔ سمینار کے اختتامی جلسہ کے ناظم ڈاکٹر رضا حیدر نے پروفیسر ارتضیٰ کریم اور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کو صدارت کے لیے آواز دی ۔پروفیسر ارتضیٰ کریم نے سمینار کے ماحول کو ایک دم بدل دیا ۔اب تک تقریباً ہر صدرسیشن نے ریسرچ اسکالرز کی خامیوں کا ذکر کیا تھا جس سے ان کے چہروں پر اُداسی چھائی ہوئی تھی ۔پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اولاً ریسرچ اسکالرز کو مبارکبادی دیتے ہوئے ان کی محنتوں اور کاوشوں کو سراہا اور اُن نگران کاروں پر بررس بڑے جو اپنے ریسرچ اسکالرز کی صحیح رہنمائی ونگرانی نہیں کرتے ۔اس ضمن میں انھوں نے اپنے دور طالب علمی کے کئی واقعات بھی سنائے ۔آگے کہا کہ آئندہ سے ریسرچ اسکالرز سمینار ملک کے مختلف علاقوں میں منعقد کیا جائے گا جس کے لیے انھوں نے یونیورسٹیوں اور اداروں سے تعاون کی اپیل کی ۔آخر میں ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیا کہ وہ ہر روز پابندی سے دس منٹ اردو ادب کا مطالعہ کرکے ایک مہینے میں اس کے نتائج کا اثر دیکھیں ۔پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے ریسرچ اسکالرز کو اپنے تلفظ اور املا پر پچھتانے سے روکتے ہوئے اس پر کڑی محنت کا مشورہ دیا ۔آگے کہا کہ ہمیں اردو زبان پر فخر کرنا چاہئے کیونکہ یہ ہماری مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی زبان ہے ۔تاثرات کے لیے دئے گئے موقعہ میں مندوبین نے ڈاکٹر رضا حیدر کی کاوشوں کی ستائش کی۔راقم نے یہ تجویز رکھی کہ ریسرچ اسکالرز کا قیام ایک مقام پر کیا گیا ہوتا تو ملک بھر کے ریسرچ اسکالرز میں رابطہ اور مسائل کا علم ہوتا جس پر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے آئندہ سال سے عمل کا تیقن دیا ۔ڈاکٹر رضا حیدر کے ہدیہ تشکر کے ساتھ ہی اختتامی جلسہ اپنے اختتام کو پہونچا جس میں اسناد اور کتابوں کا تحفہ ریسرچ اسکالرز کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔سمینارکے پہلے دن9 دوسرے دن 26 اور تیسرے دن 23جملہ 58مقالے پڑھے گیے اور ہر سیشن کے اختتام پر سوالات کا سیشن بھی رکھا گیا۔ریسرچ اسکالرز کی تین تصانیف کی رسمِ اجرائی بھی عمل میں آئی۔
سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار خوبیوں کا منبع تھا جس میں وقت کی پابندی ،صدور اجلاس کا انتخاب ،نظامت کے فرائض اور ائیر کنڈیشن سمینار ہال غیر معمولی تھے ۔ان تمام انتظامات کا سہرا سمینار کے روحِ رواں ڈاکٹر رضا حیدرکے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا تے ہوئے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا ۔اس سمینار کے علاوہ 14ستمبر(پیر) کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سنٹر آف انڈین لنگویجز کے زیر اہتمام پروفیسر انور پاشاہ نے ایک ’’ایک روزہ آل انڈیا ریسرچ اسکالرز سمینار ‘‘بھی منعقد کیا تھا جس میں راقم نے ’’اردو تعلیمی وتدریسی مسائل :رائل سیما کے حوالے سے ‘‘مقالہ پڑھ کر داد وتحسین حاصل کی۔دونوں سمیناروں میں ریسرچ اسکالرز کو اپنے پی ایچ ڈی کے موضوع سے متعلق مقالہ پڑھنا لازم قرار دیا گیا تھا ۔راقم کے لیے یہ سمینار یادگار رہے گا کیونکہ یہ پہلا دہلی کا سفر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت خواجہ حسن نظامی ؒ مرحوم کے دولت خانہ پر پانچ روزہ مہمان بننے اور قیام کرنے کا شرف حاصل ہو ا۔دوران قیام سجادہ نشین حضرت نظام الدین اولیاؒ و بھتیجے حضرت خواجہ حسن ثانی نظامیؒ سید محمود نظامی نے ہر طرح کا خیال رکھا ۔سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز سمینار کے کامیاب انعقاد پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،غالب انسٹی ٹیوٹ ،شریک ریسرچ اسکالرز بالخصوص ڈاکٹر رضا حیدر کو دلی مبارکباد ۔
Muneeb Afaque
Maulana Azad National Urdu University
One thought on “بین الاقوامی ریسرچ اسکالرزسمینار۔ نئی دہلی ۔ ۔ ۔ منیب آفاق”
جہاں-ا-اردو کے حوالے سے دلی کے سمینار کی رپورٹ جواسکالر منیب افاق نے تحریر کی ہے ‘پڑھ کر خوشی ہوی تمام ہندوستان میں ایک ہی حالت ہے نام بڑے ہیں کام کچھ بھی نہیں ۔ ایڈیٹنگ کا یا تحقیق کا کم نہں ہورہا ہے سلیم سہیل میکش پر کام کر رہے ہیں معلوم ہوا کہ سید جلیل ادیں نے ١٩٨٥ میں ایم فل کیا تھا مانوسے منیب افاق کا کام اچھا ہے۔ عطااللہ خان ۔ chicago