سرسید کی ظرافت نگاری ۔ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

sir

سرسید کی ظرافت نگاری

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مولانا حالی نے غالب کے جس بیان اورظرافت کے متعلق کہا تھا کہ اگران کوحیوان ناطق کے بجائے حیوان ظریف کہا جائے تو بیجانہ ہوگا اوران کی حاضرجوابی مثالیں اوردلچسپ لطائف جمع کردئیے جائیں تواچھی خاصی مسبوط کتاب تیارہوسکتی ہے ۔کم وبیش یہی حال سرسید کا بھی ہے ۔ آپ کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف خود داری کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اورقوم کے لئے نمونہ پیش کرتے تو دوسری طرف زندہ دلی اورظرافت سے بھی دوسروں کو لطف اندوزکرتے تھے ۔ ان کی فصاحت آمیز ظرافت دراصل ان کے مضامین اورتقاریراورحاضرجوابیوں سے ظاہرہوتی ہے ۔ اپنے خطوط میں مختصرجملوں میں پورے مفہوم کوادا کرنے اوربات سے بات پیدا کرنے میں ان کوخوب ملکہ حاصل تھا ۔

بالخصوص ان کی تحریریں’’ مسئلہ تعداد ازدواج‘‘ پران کا ’’بحث ومباحثہ‘‘ اسلامی دسترخوان‘‘ کی تصویرالفظ’’ انشاء اللہ ‘‘ وغیرہ کے پڑھنے سے قاری خود بخود محوحیرت بن جاتا ہے کہ ظرافت کا عنصران پرکتنا غالب تھا۔ اسی لئے آج تک بھی سرسید کی زندہ دلی مشہور ہے ۔ سرسید کی تصانیف اورلطیف چٹکلوں کوپڑھنے کے بعد نہ صرف ان کی زندہ دلی کا پتہ چلتا ہے بلکہ قدرت زبان کا بھی ثبوت ملتا ہے ۔ علی گڑھ کالج کے قیام کی فکرآپ میں اس قدرسمائی کہ باوجود ضعیفی کے ہر قسم کی ذلت اور تکالیف کو برداشت کرنے کو تیار تھے ۔ چنانچہ اپنی قوم کے مفاد کی خاطر انہوں نے کالج کی عمارت کے چندے کے لئے تھیٹر میں گانا بھی پسند کیا ۔ سر سید کی سوانح حیات سے قطع نظر یہاں ان کی ظرافت کی مثالیں ان کی زبان میں ہی پیش کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ تاکہ ان کے زورِ بیان اور معنی آفرینی کا بخوبی اندازہ ہوسکے ۔ اور ان کے دل و دماغ کے تاریک نکات نیزان کے دلچسپ طرز بیان کی خوبیاں واضح ہوجائیں ۔ سرسید ایک بار ادب کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کررہے تھے ۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ ہندوستانی تعلیم یافتہ طبقہ میں بھی اس کے معنی سراسر غلط سمجھائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بیجا پابندی کی وجہ سے اس ملک کا بچہ نہایت غبی‘ ڈرپوک اور کمزور فطرت کا حامل تھا ‘‘۔ ہمارے یہاں ادب کے یہ معنی ہیں کہ لڑکا اپنے بزرگوں کے ڈر کے مارے کوئی سچی بات منھ سے نہ نکال سکے اور جھک جھک کر بلا وجہ سلام پر سلام کرے ‘ یہ ویسا ہی ادب ہے جیسا کہ ایک بندروالا اپنے بند ر کو سکھاتا ہے کہ ٹانگ اٹھا کر کھڑا رہے ‘ ہاتھ جوڑ کر گردن جھکا کر سامنے آئے اور ایک اشارے کے ساتھ گڈی پر چڑھ بیٹھے‘ مگر یہ ادب نہیں بلکہ سوا ادب ہے ۔ کیونکہ ان سے لڑکے کوریا کا ری وظاہرداری کی تعلیم ملتی ہے ۔ سرسید کی دلچسپ گفتگو سے نہ صرف جدت اور ندرت کا اظہار ہوتا ہے بلکہ بحث طلب امر پر بلحاظ تحقیق وتدقیق کافی روشنی پڑتی ہے ۔ اور اس زمانے کے علماء اور مفتیوں کی گرم بازاری میں ان کی آزاد خیالی کی کامل جھلک نظر آتی ہے ۔ ایک بار سہارن پور کی مسجد کے چندے کے لئے ایک شخص نے دست سوال دراز کیا تو سرسید نے کہا ’’صاحب ! میں تو خدا کے زندہ گھروں کی تعمیر میں ہوں اور آپ اینٹ ‘ چونا ‘ پتھر کے مکانوں کی فکر میں ہیں۔ جائیے میں تو کچھ نہ دوں گا۔‘‘ سرسید اپنی تصنیف ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’ جو صاحب ( یہاں مولوی علی بخش خان صدر الصدور گورکھپور کی طرف اشارہ تھا جنہوں نے بغلبہ آرائی مولوی اور مفتی صاحبان کے سرسید پر کفر کا فتویٰ صادر کردیا تھا اور بغرض منظوری مکہ معظمہ بھی گئے تھے ۔) ہماری تکفیر کا فتویٰ لینے مکہ معظمہ تشریف لے گئے ان کو ہمارے کفر کے بدولت حج اکبر نصیب ہوا ۔ ان کے لائے ہوئے فتوے کو ہم بھی دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ سبحان اللہ ! ہمارا کفر بھی کیا کفر کہ کسی کو ’’ حاجی ‘‘ اور کسی جو’’ ہاجی ‘‘(ہجو کرنے والا) اور کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان بنا دیتا ہے۔‘‘ آپ نے ان خیالات کااظہار ایسے زمانے میں کیا تھا اور مضامین اس وقت لکھے تھے جب کہ ہندوستانکی فضا بہت مکدر ہوگئی تھی ۔ مولویوں نے جس کو چاہا کافر کہہ دیا اور لوگ اس پر ایسے ٹوٹ پڑتے تھے کہ اس کی زندگی دوبھر ہوجاتی تھی ۔ چنانچہ مولانا حالی نے اس زمانہ میں یہ شعر کہا تھا ؂
اسلام اے فقیہو ممنوں بہت تمہارا
امت کو چھاٹ ڈالا کافر بنا بنا کر
یہی وہ زمانہ تھا جب کہ ڈپٹی نذیر احمد کی کتابوں کو ہولی کی طرح جلا کر لوگوں نے اطمینان کی سانس لیا اور سرسید کی نیچریعنی فطرتی مذہب سے دور رکھنے کی دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا مانگی تھی؂
طفیل شافع محشر بچالیجئے نیچری شرسے
مسلمانوں کو تیری ذات کا ہے آسرا باقی
اگرچہ وہ مخالفین کے مجمع میں تقاریر کرتے تھے لیکن آزادی کو کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اور کبھی پست ہمت نہ ہوتے تھے ۔ سرسید ہر غرض مند کا کام کرتے اور ہاتھ بٹاتے تھے لیکن کبھی بھی کسی کی سفارش نہ کرتے۔ سفارش کو سرسید ایک سماجی اور قومی لعنت سمجھتے تھے۔ لیکن کبھی بھی کسی کی سفارش نہ کرتے ۔ سفارش کو سرسید ایک سماجی اور قومی لعنت سمجھتے تھے ۔ ایک شخص جو اس حالت سے ناواقف تھا آپ سے ملا اور کہا کہ گذشتہ رات اس نے خواب دیکھا ہے کہ ایک محسن قوم جو بڑے بزرگ معلوم ہوتے تھے ایک بلند جگہ پر بیٹھے ہیں اور جو حاجت مند آتا تھا اس کی مراد پوری کردیتے تھے ۔ اس کا ایقان ہے کہ وہ ہستی آپ ہی کی ہے ۔ لہٰذا اس کی حاجت پوری کی جائے ۔ سرسید نے کہا ’’ حضرت اس معاملہ میں آپ نے خواب میں دیکھا ہے میں نہیں بلکہ کوئی شیطان ہوگا ۔‘‘
سر سید جب لندن میں تھے تو ہندوستان سے مختلف اخبارات اور روزنامہ جات کو جمع کرکے اور جس طرح انہوں نے انتظام کیا تھا ہر ماہ ڈاک کے ذریعہ تمام پرچے ان کو بھیجے جاتے تھے ۔ ان پر چوں میں وہ ہندوستان کی فضا اور علماء کی تقریریں بدظنی اور فتویٰ جاری کرنے کے واقعات کا غائر مطالعہ کرتے تھے ۔ ان ہی ہنگاموں میں ایک بار آپ کے پاس’’ شعلہ طور‘‘ کا شمارہ پہونچا۔ جس میں مولوی امداد علی صاحب نے ( یہ وہی مولوی صاحب ہیں جن کی ڈپٹی نذیر احمد سے بھی خوب چلی تھی ) انفٹسن کی تاریخ کے ترجمے کے حوالہ سے سرسید پر کفر کا فتویٰ دیا تھا اور لکھا تھا جس شخص نے یہ ترجمہ خود لکھا وہ خود کیسا جہنمی ہے ؟ سرسید نے اس کے جواب میں لکھا کہ ’’ دیکھو دشمنی ان کو ا یسا اندھا کردیتی ہے ۔‘‘
سرسید ہمیشہ ریل کے دوسرے درجہ میں سفر کرنے کے بہت شوقین تھے ۔ ایک بار ان کی چند خوش پوش حضرات سے گفتگو ہونے لگی۔ ان میں ایک سرسید کو نہ جانتے ہوئے ان کی برائی کرنے لگا اور ان کی بے دینی‘ الحاد اور کورانہ تقلید‘ مغرب کے جھوٹے قصے دہرانے لگا ۔ سرسید چپ چاپ بیٹھے سنتے رہے مگر جب وہ صاحب ریل سے اترنے لگے تو حسب قاعدہ ان سے دریافت فرمایا کہ جناب کا اسم گرامی ؟ سرسید نے جواب دیا وہی ’’ ننگ قوم‘‘ جس کی شان میں اتنا کچھ ابھی کہا ہے یعنی ’’ سرسید‘‘ یہ سنتے ہی وہ صاحب نہایت شرمندہ ہوئے ۔
سرسید ایک بار بے علمی کو ایک نعمت عظمی قرار دیتے ہوئے عجیب وغریب پر لطف و پرمزاح الفاظ میں اسکا اظہار فرماتے ہوئے کہتے ہیں ۔’’ بے علمی ایک عجیب صفت موصوف کی ہے دل کو راحت میں ‘ طبیعت کو طمانیت میں رکھنے والی جیسی بے علمی ہے ایسی کوئی چیز نہیں جاہل جو کچھ جانتا ہے اس کو سچ سمجھتا‘ کناروں تک پانی بھرا ہوا ہے ‘ مگر ہلتا نہیں ۔ نہ اس میں کوئی مچھلی ہے جو تیرے‘ اور نہ کوئی مینڈک ہے کہ ادھر سے ادھر اور ادھرسے ادھر غوطے لگائے ۔ نہ دل میں کچھ کھٹکا ہے نہ کسی بات کوسمجھنے کی سمجھ۔
سرسید کو ان کے زمانے میں دہریہ اور نیچری کہاجاتا تھا ۔ ان کی بے د ینی کے قصے عام طور پرزبان زد تھے ۔چنانچہ اس طوفان میں ڈپٹی نذیر احمد جیسی گراں قدر شخصیتیں بھی نہ بچ سکیں ۔ ان کی حرکات و سکنات کی باتیں نہایت شوق سے سنی جاتی تھیں۔ ایک بار مولانا شبلی ‘ مولوی ممتاز علی اور سرسید بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔ دوران گفتگو سرسید کا ایک کاغذ کھوگیا ‘ کافی تلاش ہوئیلیکن کہیں بھی نہ ملا جب سرسید کچھ پریشان سے ہوئے تو مولانا شبلی نے کسی طرح اس کاغذ کو پالیا اور سرسید کو ستانے کی خاطر اور تماشہ دیکھنے کے لئے اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ سرسید نے تاڑلیا کہ مولانا خوش طبعی کے لئے کاغذدبا بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مولانا کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ’’ بزرگوں کا قول صحیح ہے کہ جو چیز گم ہوجاتی ہے اس کو شیطان اپنے ہاتھ تلے دبا کر بیٹھ جاتا ہے ذرا دیکھنا وہ کاغذ تمہارے ہاتھ تلے تو نہیں؟۔‘‘ اسپر مولانا نے ہاتھ اٹھا لیا اور کاغذ نظر آنے پر خوب ہنسی ہوتی رہی ۔
یوں تو سرسید نے اپنی کئی تقاریر میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایاتھا لیکن انگریزی زبان کی اشاعت اور انگریزوں کو اہل کتاب مانتے ہوئے ان کی ہرچیزکی تقلید کرتے حتیٰ کہ گردن مروڑی ہوئی مرغی کو حلال کہنے کی وجہہ سے لوگ آپ کو عیسائی سمجھنے لگے تھے ۔ کبھی کبھی توکوٹ پتلون بھی پہن لیتے تھے ۔ اور انگریزوں سے بے تکلف میل جول رکھتے اور ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوجاتے تھے ۔ اس وجہہ سے لوگ ان کونیچری بھی کہتے تھے ۔ اسی وجہہ سے ان سے قسم قسم کے سوالات کئے جاتے اور سوالات کرنے والوں سے آپ کا ناطقہ بند ہوجاتا تھا ۔ چنانچہ اکبر آلہ آبادی جو آپ کے عزیز دوست تھے ۔ آپ کے خلاف ہجویہ نظمیں لکھیں۔ لیکن سرسید کے انتقال سے پیشتر آپ سے بے پناہ اُنس پیدا ہوگیا تھا ۔اس کے بعد انہوں نے سرسید کی یاد اس طرح کی کہ ؂
عظمت کبھی محسوس نہ اپنی ہوگی اس کو
باطن میں فرشتہ تھا وہ ظاہر میں بشر تھا
اب ایک دلچسپ مکالمہ پیش کرتا ہوں جو خدا کے وجود کے متعلق ایک پادری اور سرسید کے درمیان ہوا تھا ۔ سرسید ریل میں سکنڈ کلاس میں سفر کررہے تھے ۔ ایک پادری صاحب کو کسی طرح یہ خبر ہوگئی کہ سرسید یہی ہیں۔ بس کیا تھا آکر بڑے تپاک سے ملے اور کہنے لگے کہ مجھے ایک مدت سے آپ سے ملنے کی آرزو تھی ۔ اب میں آپ سے خدا کی باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ سرسید نے کہا کہ میں نہیں سمجھا کہ کس کی باتیں ہیں؟ پادری نے کہا کہ خدا کی ۔ سرسید نے کہا کہ میری تو ان سے کہیں ملاقات نہیں ہوئی ۔ اس لئے میں ان کو نہیں جانتا ۔ پادری نے کہا آپ خدا کو نہیں جانتے ؟ سرسید نے کہا کہ مجھ ہی پر کیا موقوف ہے جس شخص سے ملاقات نہ ہو کوئی نہیں جان سکتا ۔ پھر ایک نام لے کر کہا آپ اس کو جانتے ہیں؟ پادری نے کہا میں اس سے ملاتک نہیں ۔ سرسید نے کہا ’’ پھر جس سے میں بھی نہیں ملا اور نہ اس کو کھانے پر مدعو کیا نہ خود اس کے یہاں کھانے گیا ۔ کیسے جان سکتا ہوں؟‘‘ تو پادری نے فوری ایک انگریز جو پاس تھا‘ اس سے کہا کہ یہ تو کافر ہے ۔
سرسید نے نہ صرف علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈال کر اپنی قوم کی سچی خدمت انجام دی بلکہ اردو ادب کو بھی اپنی تصانیف سے مالا مال کردیا جس کے باعث آج بھی آپ کا درجہ بلحاظ مصلح اعظم بہت بلند ہے ۔
محمد رضی الدین معظم

Mohd.Raziuddin Moazzam
Hyderabad – Deccan

Share
Share
Share