سبق آموز: اللہ نے قسمت میں جو لکھ دیا اس پر راضی ہو جائیے

Share

happy-life

سبق آموز : اللہ نے قسمت میں جو لکھ دیا اس پر راضی ہو جائیے

دکتورمحمدبن عبدالرحمٰن العریفی
ترجمہ : حافظ قمرحسن
مرسلہ : دلجیت قاضی – حیدرآباد ۔ دکن
——-

میں ایک مشہور شہر کے سفر پر تھا ۔وہاں مجھے چند لیکچر دینا تھے۔اُس شہر کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہاں نفسیاتی امراض کا ہسپتال تھا جسے عرفِ عام میں لوگ ’’ پاگل خانہ ‘‘ کہتے ہیں ۔میں صبح سویرے دو لیکچر دے کر نکلا تو ظہر کی اذان میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔میرے ہمراہ ملک کا معروف مبلغ اور داعی عبدالعزیز بھی تھا ۔ہم گاڑی میں بیٹھے تھے۔میں نے اس سے کہا: ’’ عبدالعزیز ! ہمارے پاس وقت ہے ۔میں یہاں ایک جگہ جانا چاہتا ہوں ۔‘‘
’’ کہاں ؟‘‘ اس نے پوچھا ۔

’’ شیخ عبداللہ تو ابھی سفرمیں ہیں اور دکتوراحمد سے میں نے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا تھا ۔‘‘
’’ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں ؟ یہاں ایک قدیم کتب خانہ ہے ۔‘‘
میں نے کہا ’’ نہیں ‘ میں ذہنی امراض کے ہسپتال جانا چاہتا ہوں ۔‘‘
وہ بولا ’’ پاگل خانے ؟‘‘
میں نے کہا : ’’ ہاں ‘ پاگل خانے ۔‘‘
وہ ہنسا اور مزاحیہ انداز میں کہنے لگا :’’ کیوں ؟ دماغ کا چیک اپ کروانا ہے ؟‘‘
میں نے کہا :’’ نہیں ‘ ہم عبرت حاصل کریں گے ۔اللہ کی نعمتوں کا شکر اد ا کریں گے ۔‘‘
عبدالعزیز خاموش ہو گیا ۔اس کے چہرے پر غم کا سایہ لہرایا ۔ وہ معمول سے زیادہ جذباتی مزاج کا مالک تھا ۔اس نے گاڑی ذہنی امراض کے ہسپتال والی سڑک پر ڈال دی ۔ہم وہاں پہنچے تو سامنے ایک افسردہ عمارت کھڑی تھی جسے درختوں نے گھیر رکھا تھا ۔ ہم ڈاکٹر صاحب سے ملے ۔انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہسپتال کا دورہ کرانے لے گئے ۔وہ ہمیں ایک برآمدہ میں لے گئے جس کے دونوں اطراف میں کمرے تھے ۔وہاں ہمیں عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں۔میں نے دائیں طرف کے ایک کمرے میں جھانک کر دیکھا تو نو بیڈ خالی تھے اور ایک پر ایک آدمی اوندھے منہ پڑا تھا ۔ اس کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ پاگل ہے ۔ ہر پانچ چھہ گھنٹے بعد اسے مرگی کا دورہ پڑتا ہے ۔ میں نے لاحول ولا قوۃ پڑھا اور پوچھا :’’ یہ شخص کب سے اِس حال میں ہے ؟‘‘
انھوں نے کہا :’’ دس سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے ۔‘‘
چند قدم آگے ایک کمرے کا دروازہ بند تھا۔دروازے میں سوراخ تھا جس سے ایک آدمی باہر جھانک رہا تھا۔وہ عجیب و غریب سمجھ میں نہ آنے والے اشارے کر رہا تھا۔میں نے کمرے کے اندر دیکھنے کی کوشش کی ۔ کمرے کا فرش اور دیوار کہرے نسواری رنگ کی تھیں ۔ڈاکٹر صاحب نے پوچھنے پر بتایا کہ یہ بھی پاگل ہے ۔
میں نے کہا :’’ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ یہ پاگل ہے۔عقل مند ہوتا تو ہم اسے یہاں نہ دیکھتے لیکن اس کا ماجرا کیا ہے ؟‘‘
ِِ اس پر ڈاکٹر صاحب کہنے لگے :’’ اِس آدمی کو دیوار نظر اآتی ہے تو مشتعل ہو جاتا ہے ۔ہاتھوں سے ‘ پاؤں سے اور کبھی سر سے دیوار کو مارتا رہتا ہے ۔کبھی انگلیاں تڑوائے بیٹھا ہوتا ہے ‘ کبھی ٹانگیں اور کبھی سر زخمی ہوتا ہے ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے افسردگی سے کہا :’’ ہم اس کا علاج نہیں کرسکے ۔اِس کمرے میں بند کر رکھا ہے۔دیواروں اور فرش پر فوم لگا دی گئی ہے تا کہ وہ جیسے چاہے بھڑاس نکالتا رہے ۔‘‘
یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب آگے چل دیے ۔
میں اور عبدالعزیز وہاں کھڑے دعا پڑھنے لگے جو اللہ کے رسول ﷺ نے اِس موقع کے لئے سکھائی ہے :
: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیِ عَافَانَا مِمَّا ابْتَلَاک بِہٖ وَفَضَّلَنَا عَلٰی کَثِییرِِ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلًا ::
’’اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اِس بیماریوںے عافیت میں رکھا جس میں تمھیں مبتلا کیا اوریوں اس نے ہمیں اپنی بیشترمخلوق پرایک فضیلت عطا کی ۔‘‘
پھر ہم بھی اگلے کمروں کی جانب بڑھ گئے ۔ایک کمرے میں کوئی بیڈ نہیں تھا ۔یہاں تین آدمی تھے ۔ان میں سے ہر ایک اپنے حال میں مست تھا ۔کوئی ناچ رہا تھا ‘ کوئی گا رہا تھا اور کوئی اذان دینے میں مصروف تھا ۔تین آدمیوں کو کرسیوں پر بٹھا کر ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے تھے ۔ وہ اپنے آپ کو رسیوں کی گرفت سے آزاد کرنے کے لئے بے تحاشہ زور لگا رہے تھے ۔ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ یہ تینوں افراد سامنے کی ہر شئے پر حملہ کر دیتے ہیں ۔ کھڑکیاں توڑ دیتے ہیں ‘ دروازے اکھاڑ دیتے ہیں ‘ برقی آلات خراب کر دیتے ہیں ‘ اس لئے ہم صبح سے شام تک انھیں اسی طرح باندھے رکھتے ہیں ۔میں نے پوچھا :’’ یہ لوگ کب سے اسی حال میں ہیں ؟‘‘
ڈاکٹر صاحب بولے :’’ یہ آدمی دس سال سے ہے ‘ یہ سات سال سے اور یہ نیا ہے ‘ اسے پانچ سال ہوئے ہیں ۔‘‘
میں ان کی حالت پر افسوس کرتا اللہ کی نعمت پر اُس کا شکر ادا کرتا کمرے سے باہر آگیا ۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا :’’ اب ہمیں باہر کا راستہ دکھائیے ۔‘‘
وہ کہنے لگے :’’ ایک کمرہ رہ گیا ہے۔ آئیے ۔‘‘
وہ مجھے ایک بڑے کمرے کی جانب لے گئے ۔دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہوئے ۔ مجھے توقع تھی کہ پہلے جیسے کسی ناچتے گاتے یا اودھم مچاتے مریض سے سابقہ پڑے گا ۔ لیکن یہاں تو منظر ہی اور تھا ۔ایک آدمی جس کی عمر پچاس سے اوپر اور سر کے بالوں میں سفیدی نمایاں تھی ‘ زمین پر سمٹ کر بیٹھا تھا اور ہماری طرف تیڑھی میڑھی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔یہ سب کچھ معمولی تھا لیکن اہم بات یہ تھی کہ وہ الف ننگا تھا ۔ اس کے جسم پر کپڑے کی ایک دھجی بھی نہیں تھی ۔میں نے حیرت سے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا ۔وہ کہنے لگے ء’’ اس شخص کو ہم نے جب بھی کپڑے پہنائے ‘ اس نے کپڑے دانتوں سے پھاڑ کر نگلنے کی کوشش کی ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ہم نے اسے ایک دن میں دس بار کپڑے پہنائے اور اُس نے ہر بار کپڑوں کا یہی حشر کیا ۔ یہ آدمی اپنے جسم پر ایک چھیتڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔ہم نے تنگ آکر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے ۔اب سردی ہو یا گرمی ‘ یہ بے لباس ہی رہتا ہے ۔‘‘
میں کمرے سے نکل آیا ۔اب میری ہمت جواب دے رہی تھی ۔میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا :’’ اب ہمیں اجازت دیجیے ۔‘‘
وہ بولے : ’’ ابھی چند شعبے باقی ہیں ۔‘‘
میں نے کہا :’’ جتنا دیکھ لیا کافی ہے
ہم خموشی سی ہسپتال کے بیرونی دربازے کی طرف چل پڑے ۔راستے میں ڈاکٹر صاحب کو جیسے کچھ یاد آیا تو وہ بولے :
یا شیخ! یہاں ہمارے پاس ایک بڑا تاجر بھی ہے جو کھربوں کا مالک ہے ۔دو سال ہوئے ہیں ‘ اس کی عقل میں ذرا خلل آگیا تو اُس کے لڑکے اُسے یہاں چھوڑ گئے ۔
’’ ایک اور ہے جو انجینئیر تھا ۔‘‘
’’ ایک اور جو ۔۔۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب ایک ایک کرکے ان افراد کا تذکرہ کرنے لگے جو عز و شرف کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعدذلت کے گہرے گڑھوں میں جا گرے ‘ کچھ دوسرے جو دولت مندی کے بعد فقر کی زندگی گزار رہے ہیں ۔‘‘
میں سوچنے لگا :’’ پاک ہے وہ ذات جس نے بندوں میں رزق تقسیم کیا تو جس کو چاہا دیا اور جسے چاہا محروم رکھا ۔‘‘
اللہ آدمی کو مال و دولت ‘ حسب و نسب اور منصبِ رفیع سے نوازتا ہے لیکن عقل چھین کر اسے پاگل خانے پہنچا دیتا ہے۔دوسرے کو مال و دولت اور حسب و نسب کے ساتھ عقل مندی عطا کرتا ہے لیکن صحت سے محروم کردیتا ہے اور مال و دولت کی فراوانی کے باوجود وہ بیس ‘ تیس سال اور کبھی تمام عمر بستر پر گزار دیتا ہے ۔کسی کو صحت ‘ قوت اور عقل دیتا ہے تو مال سے محروم کر دیتا ہے ‘ اس لئے ہر اس آدمی کے لئے جسے اللہ نے کسی نہ کسی آزمائش میں ڈالا ہے ‘ ضروری ہے کہ وہ مصائب شمار کرنے سے پہلے اللہ کی نعمتوں کو حساب میں لائے ۔
اگراللہ نے مال سے محروم رکھا ہے تو صحت دی ہوگی ۔
صحت نہیں دی تو عقل سے نوازا ہوگا ۔
عقل بھی کم دی ہے تو مسلمان تو بنایا ہی ہے ۔اسلام کی نعمت بھی کوئی چھوٹی نعمت نہیں ۔اس شخص کی زندگی مبارک ہے جو اسلام پر جیئے اور اسلام ہی پر مرے ‘ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔الحمداللہ ۔
(مشمولہ : کتاب ۔زندگی سے لطف اٹھایے)

Share

One thought on “سبق آموز: اللہ نے قسمت میں جو لکھ دیا اس پر راضی ہو جائیے”

Comments are closed.

Share
Share