آٹھویں برسی کے حوالے سے
منظر فارانی کی یاد میں
ریاض احمد قادری
۱۵ نومبر ۲۰۰۷ کی شام اہلِ فیصل آباد کے لئے ایک غم ناک اور اندوہ ناک خبر لائی۔ یہ خبر عظیم اردو پنجابی شاعر نقاد ماہر تعلیم اور استاد جناب منظر فارانیؔ کے سانحہ ارتحال کی تھی ۔ اس خبر کے ساتھ ہی شہر بھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ ادبی اور علمی حلقوں میں سوگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔یہ خبر ادبی دنیا کیلئے ایک قیامت سے کم نہ تھی۔جس کسی نے بھی یہ خبر سنی اس نے منظر فارانی کی رہائش گاہ کا راستہ لیا جو چھوٹی ڈی گراؤنڈ کے پاس ۳۱۲ اے میں واقع ہے اور اس عظیم شاعر کے سفرِ آخرت میں شرکت کرنے کے لئے پہنچ گیا جس نے تمام عمر انتہائی سادگی ، درویشی، عجز، انکسار اور کسمپرسی میں گزار دی۔ وہ اپنے عمر بھر کے فکری سرمائے کو بھی محفوظ نہ کر سکے اور غربت و افلاس اور مسائل روزگار کی بناء پر اپنا مجموعہ کلام منظرِ عام پر نہ لا سکے۔ ان کا کلام انتہائی پختہ ہوتا تھا۔ وہ استاد شعراء میں شمار ہوتے تھے
جمعتہ المبارک ۱۶ نومبر کو ان جنازہ بعد نمازِ جمعہ اٹھایا گیا شہر بھر کے ادیبوں کی ایک کثیر تعداد نے اس عظیم شاعر اور نہایت نفیس انسان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ مجھے یہ اندوہ ناک خبر ان کے دیرینہ ساتھی اور بزرگ شاعر جناب محبوب نظامی ، جنہیں تصویرِ سدیدی کہا جاتا ہے، نے سنائی تھی اور پھر میں نے حسبِ عادت تمام ادیب اور شاعر دوستوں کو بذریعہ موبائل فون اور ایس ایم ایس بتائی تھی۔ جن جن دوستوں کو خبر ملی سب پہنچ گئے۔ انتہائی رنج و الم، دکھ کرب اور صدمے کے عالم میں منظر فارانی کے چاہنے والوں نے ان کا جنازہ کندھوں پر اٹھایا اور سوگوار گلی کوچوں سونی سونی راہوں پر سے ہوتے ہوئے گراؤنڈ میں لائے جہاں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ اہلِ محلہ کو کم ہی معلوم ہو گا کہ ان سے کون سی ہستی بچھڑ گئی۔ کس شخصیت نے آج ان سے منہ موڑ لیا ہے۔ آج ان سے کس پائے کا شاعر روٹھ گیا ہے۔ یہ کس بلند مرتبہ ذاتِ شریف کا سفرِ آخرت ہے۔ وہ تو اپنے محلہ دار میاں عبدالرحمان کی نمازِ جنازہ پڑھنے آئے تھے۔ لیکن انہیں کیا معلوم کہ وہ آج کس منظرؔ کو منوں مٹی کے نیچے اتارنے آئے ہیں وہ منظر جو بہت سے شاعروں کا محبوب، بہت سے ادیبوں کا آےئڈیل اور بے شمار نقادانِ فن کا پسندیدہ تھا۔ جو انتہائی مرنجان مرنج، شفیق، ملنسار ، خوش اخلاق، عجزو انکسار کا پیکر، خلوص ومحبت کا پتلا، اور سادگی کا جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا مجسمہ تھا۔ جو اسلاف کی روایات کا پاسدار، ماضی کی عظمتوں کا آئینہ دار اور شرافت کا عظیم کردار تھا۔ جو زندگی بھر ادبی گروہ بندیوں سے پاک صاف اور محفوظ رہا۔ اور سب کے لئے یکساں قابلِ احترام اور لائقِ عزت رہا۔ جو کبھی کسی قسم کے جوڑ توڑ میں نہیں پڑا۔ بلکہ اس نے اپنی توجہ صرف اور صرف تخلیق فن پر ہی مِرکوز رکھی اور اپنے خون جگر سے لیلائے غزل کے گیسو سنوارے۔ اور اپنی دل کا سوز و گداز دے کر عروسِ سخن کا رخ سنوارا۔منظر فارانی بڑی چونکا دینے والی غزل کہتے تھے۔ اردو پنجابی میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ پنجابی تنقید میں بہت سے مضامین لکھے تھے۔ پنجابی رسالوں میں انہوں نے
انبیاء کرام پر مضامین لکھے تھے۔ نعت شریف کی طرف آئے تو بڑے پاک صاف معطر ، مطہر طیب مطیب طاہر اطہر اور منزہ و مصفیٰ لہجے میں نعت لکھی ان کی نعت میں عقیدت محبت ، احترام، والہانہ پن، شگفتگی، شیفتگی، تازگی، بالیدگی اور طہارت، لطافت، نفاست، نظافت اور سب سے بڑھ کر عشقِ رسول ﷺ کی دولت پائی جاتی ہے۔ وہ سلام ، منقبت کی طرف آئے تو عقیدت و موء دت اور فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دئے۔ منظر فارانی الفاظ کے استعمال کا قرینہ جانتے تھے وہ الفاظ کی نشست و بر خاست کے ماہر تھے۔ وہ ذخیرہء الفاظ کا ایک بحرِ بے کنار تھے۔ انکی فنی تربیت اور ادبی پرورش ثقہ اساتذہء فن کی صحبت و قربت میں ہوئی تھی یہی وجہ ہے وہ آدابِ مجلس سے آگاہ تھے۔ وہ ادبی محافل کے قرینوں سے شناسا تھے۔ شعری نشستوں کی نزاکتوں کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ کتب کے وسیع مطالعہ نے انہیں کندن بنا دیا تھا۔ وہ زرِ خالص تھے۔ منظر فارانی مشاعرہ پڑھنے کا فن بھی خوب جانتے تھے۔ انہیں اپنی آْواز پر مکمل کنٹرول تھا انہیں معلوم تھا کونسا لفظ کس پچ پر پڑھنا ہے کس مصرعے کو کس انٹو نیشن کے ساتھ پڑھنا ہے کس مصرعے کو کتنی بار دہرانا ہے کہاں داد لینی ہے کہاں کلام کو ختم کرنا ہے۔ وہ ایک چلتا پھرتا ادارہ تھے وہ ایک ڈکشنری تھے ایک دارلعلوم تھے ۔ جناب منظر فارانی بے لوث اور پر خلوص انسان تھے وہ ایک کمٹڈ شاعر تھے۔ وہ اول و آخر ایک شاعر تھے۔ عمر بھر کسی صلے کی تمنا نہیں کی۔ نہ ستایش کی آرزو۔ وہ شاعری دکھاوے کیلئے نہیں کرتے تھے۔ نہ کسی دنیاوی جاہ و منصب کے لئے۔ نہ کسی سینیارٹی کے زعم میں مبتلا تھے نہ کسی احساس برتری کا شکار۔ نہ کبھی مہمانِ خصوصی یا صدارت کے غم میں مبتلا ہوئے۔ انییں کبھی تقدیم و تاخیر کا بھی شکوہ نہیں ہوتا تھا۔ ایسے فرشتہ صفت انسان زندہ جاوید ولی اللہ لہاں سے ملیں گے اہلِ محلہ کو کیا معلوم کہ ان کے درمیان جو انتہائی سادہ پوش اور سادہ ہستی رہتی رہی ہے اس کا کیا علمی مقام اور کیا ادبی مرتبہ ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ آج وہ جس شخصیت کا مٹی کی چادر پہنا رہے ہیں اس کے فکروفن کے چراغ تا قیامت خیال و فکر کی روشنی پھیلاتے رہیں گے۔اس کی جلائی ہوئی مشعلیں تا ابد متلاشیانِ علم کی راہوں میں نور فشاں رہیں گی۔ اس کی روشن کی ہوئی شعرو ادب کی قندیلیں راہِ زیست میں سے ظلمتیں کافور کر کے عرفان و معرفت کا اجالا راہیانِ حق کے راستوں میں بکھیرتی رہیں گی۔ منظر فارانی خود غروب ہو گیا مگر اپنے پیچھے فکر کے ستاروں کی ایک ایسی کہکشاں چھوڑ گیا جو صبحِ نو کی پیام بر بھی ہے اور نویدِ سحر بھی۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم ہستی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔۔۔۔۔۔۔