افتخارعارف : کسی کی چپ کا بھی مطلب الگ الگ نکلا ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ

Share
Ifteqar Arif
افتخار عارف

افتخارعارف
کسی کی چپ کا بھی مطلب الگ الگ نکلا

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612 –
ای میل :

نوٹ : بقول شخصے: افتخارعارف‘ اپنی نسل کے شعراء میں سنجیدہ ترین شاعر ہیں۔ وہ اپنے مواد اور فن دونوں میں ایک ایسی پختگی کا اظہار کرتے ہیں جو دوسروں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ وہ عام شعراءکی طرح تجربہ کے کسی جزوی اظہارپرقناعت نہیں کرتے بلکہ اپنا پورا تجربہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ اسے سمیٹتے ہیں۔اپنے مواد پر ان کی گرفت حیرت انگیز حد تک مضبوط ہے اور یہ سب باتیں مل کر ظاہر کرتی ہیں کہ افتخار عارف کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سوچنا ، محسوس کرنا اور بولنا جانتا ہے جب کہ اس کے ہمعصروں میں بیشتر کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ سوچ نہیں سکتے یا وہ محسوس نہیں کرسکتے اورسوچ اوراحساس سے کام لے سکتے ہیں تو بولنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی ان خصوصیات کی بناء پر جب میں ان کے کلام کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ احساس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ افتخار عارف کی آواز جدید اردو شاعری کی ایک بہت زندہ اور توانا آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو ہمارے دل و دماغ دونوں کو بیک وقت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ہمیں ایک ایسی آسودگی بخشتی ہے جو عارف کے سوا شاید ہی کسی ایک آدھ شاعر میں مل سکے۔اس حوالے سے علامہ اعجازفرخ کا مضمون پیشِ خدمت ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زندگی صرف چہرہ نہیں کہ چہروں پر نقابیں بھی ملتی ہیں۔ زندگی کواسکے نہاں خانوں میں اترکر دیکھئے تو اس کے پیچ وخم اسکی بھول بھلیاں ایک ہی انسان کو صدیوں کا فرزند بنا کر اپنے جلومیں ساری حشر سامانیوں کے ساتھ تاریخ کافرزند بنادیتی ہے تاریخ اور وہ بھی زندگی کی تاریخ کہیں روشن اور کہیں نیم روشن جھلملاتی دکھائی دیتی ہے یہ سفر ماضی کا ایک سفر ہے۔ یوں بھی سفر صرف شہر بدلنے کا نام نہیں، دہر بدل جانا بھی ایک سفر ہے کہ انسان صرف غار ہی میں سوتا رہے اور آنکھ کھلتے تو بستیاں، مکان ،کوچے دروبام، چہرے، سکے سب بدل گئے جو رہ گئی تو صرف ذات کی تنہائی جس تنہائی جس کی مونس و غمخوار خود تنہائی ہو۔ یہ سفر نہ نقل مکانی ہے کہ جہاں پاؤں زمین ناپتے ہیں۔ یہ وہ سفر ہے کہ جہاں زمین اپنی بساط تہہ کر لیتی ہیں اور ذہن آن واحد میں جست لگا کر مکاں سے لامکاں کی حد امکان تک پہنچ تو جاتا ہے لیکن اس کا ذوق سفر اس کو ’’کہیں اور‘‘ کی تمنا میں منتظر بھی رکھتا ہے کہ تنہائی کا تنہا سفر بس یہیں تک ممکن ہے۔ کبھی کبھی یہ کیفیت بھی گذرتی ہے کہ ذہن کے اجنبی جزیرے آہستہ آہستہ نامانوس تخلیق سے مانوس قالب اختیار کر لیں تب جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں اس سے کچھ بے نام رشتے بھی وجود میں آتے ہیں۔ ان رشتوں اور افکار میں فنکار کی سوانحی حالات اور شخصیت کی تشکیل اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اصل بات قوت اظہار کی ہے جس کے تحت دیگر تمام عوامل فن میں اپنی جگہ پاتے ہیں۔
بے مکانی کا غم کوئی نیا نہیں ہے یہ تو میراث آدمیت ہے کہ جنت مکانی سے زمین کا سفر بے مکانی اسے مسلسل گھر کی تلاش میں محو سفر رکھے ہوئے ہے اگر الف لیلہ ہزار راتوں کی داستان ہے تو یہ دکھ ہزار دکھوں کا دکھ ہے اور اس کا کہیں نہ کہیں درد سے رشتہ ہے۔ درد کا لازمہ جبر و استبداد ہے اور جبر و استبداد کے خلاف آزادی کی جدوجہد ہی فنکار کے فن کا جوہر بنتی ہے۔ افتخار عارف کی شاعری میں یہ جوہر بہت نمایا ں ہے لیکن آواز اور لہجہ کرخت نہیں اور نہ ناگواری کا احساس پیدا کرتا ہے بلکہ زندگی کی ایک نئی حرارت سے روشناس کرواتا ہے۔ جب تک کہ سامع آواز سے مانوس نہ ہو نیا لب و لہجہ شاعر کو غیر محفوظ رکھتا ہے۔
افتخارعارف نے جب شعر کہنا شروع کیا تھا تواس عہد میں یگانہ، جوش، فراق، فیض کی بڑی مستحکم آوازیں تھیں لیکن افتخارعارف کی شاعری کی آواز فیض کے قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے جو اپنے رومانی مزاج اوراحتجاجی حوالے کے باوجود نہ فیض کی تقلید میں ہے نہ ان کے دست حرف شناس کے ہاتھ پر بیعت کادرجہ رکھتی ہے بلکہ استنباط کے ذریعہ ادبی اجتہاد کی ایک نئی راہ متعین کرتی ہے۔ افتخار عارف نے کلاسیکی شاعری سے سلیقہ لے کر اسے تازہ لہجہ سے یوں پیوست کیا ہے کہ پیوند نہ لگے اور یہ ان کی تخلیقی صناعی کی ایک اعلیٰ ہنر مندی ہے۔ کہیں کہیں طویل بحروں میں صوتیات کی داخلی موسیقیت اس کے حسن میں اگر اضافہ کرتی ہے تو محبت کی جس آنچ میں وہ تپ رہے ہیں اس کی تپش اور حرات ان کے لب و لہجہ سے سامع تک بلا کم و کاست پہنچ جاتی ہے۔
اظہار خیال پر پابندی ایک اور جبر ہے کہ جہاں فن استعارے اور علامتوں کے ذریعہ اپنے خیال کی ترسیل کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن اس میں ابہام یا Obscurity اعتدال اور توازن چاہتا ہے۔ علامتوں کے استعمال میں اگر ابہام اپنی حد سے تجاوز کر جائے تو ابلاغ اور ترسیل کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور شعر گنجلک ہو کر اپنی شگفتگی کھو بیٹھتا ہے۔ جبر و استبداد کے خلاف اور اظہار درد کے لئے واقعہ کربلا اور اس کے تعلیقات کا برمحل استعمال اردو ادب میں نیا نہیں ہے بلکہ میر تقی میرؔ نے بھی اس کا استعمال کیا ہے مثلاً

زیر شمشیر ستم میر تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
یا پھر سیماب اکبر آبادی نے کہ:
خلوص دل سے سجدہ ہو تو اس سجدہ کا کیا کہنا
وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھدی
یا تصور زیدی کہ:
یہاں سے اپنا یہ دریا اٹھا کے لے جاؤ
کہ یہ زمین میری تشنگی خرید چکی

میں اپنے ساتھ لئے جارہاہوں دریا کو
کہ میری پیاس کا آخر کوئی گواہ تو ہو

میں سمیٹے ہوئے بیٹھا ہوں بکھر جائے گی
تشنگی مجھ سے جدا ہوگی تو مرجائے گی

ہے پیاس کے ہاتھوں میں مری فتح کا پرچم
دریا وہ اُدہر ہارنے والوں میں کھڑا ہے

یہ علامتیں مولانا محمد علی جوہر اور حسرت موہانی کے پاس بھی ملتی ہیں بلکہ یہ علامتیں ہر شاعر کے پاس بار بار ابھرتی رہیں۔ عہد حاضر میں بہت سارے شعرأ نے کربلائی استعاروں کو اپنے اشعار میں برمحل استعمال کر کے شاعری کو نیا آہنگ دیا ہے۔ افتخار عارف اور پروین شاکر نے بھی ان علامتوں کو بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے لیکن افتخار عارف کے پاس ایک نئی معنوی جہت سامنے آتی ہے ان کے پاس، پیاس، دشت، مقتل، رن پڑنا، گھرانا، کتاب، ڈھالیں، مسافر، چاک گریباں، شام غریباں، قاتل، خنجر، لشکر،مشکیزہ، کاسہ طلب، قافلہ بے نوا جیسی علامتیں اور تراکیب انسانی زندگی کے عصری المیہ جبرو کرب کے اظہار میں نہ صرف نمایاں ہیں بلکہ ادب کے وقار کو معزز بلندی تک پہنچانے کا باعث ہوئے ہیں۔
افتخار عارف کے پاس کم و بیش ہر غزل میں یہ عنصر نمایاں نظر آتا ہے بلکہ اکثر وہ عصر حاضر کے عذابوں کو صدیوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں مثلاً:
وہی پیاس ہے، وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

تنہائی، گھر، زمین، دعا افتخار عارف کے موضوعات ہیں ان اشعار کے علامتی مفاہیم سے کوئی قاری سرسری نہیں گذرسکتا۔ چند شعر

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر دے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہوسکے تو دعاؤں کو بے اثر کردے
یا پھر

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مرجانے کو جی چاہتا ہے

فیض احمد فیض نے ان کے پہلے مجموعے کلام ’’مہردونیم‘‘ پر جو غالباً 1982ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ کہا تھا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ کسی مصنف کا مقام یا اس کی تصنیف کی قدر و قیمت مستقبل سے قطع نظر اسی وقت متعین ہوجانی چاہےئے جب وہ ظہور میں آئے۔ چنانچہ افتخار عارف بڑے ہو کر کیا کریں گے یا نہیں کریں گے یہ موسیقی کی اصطلاح میں ان کے ریاض پرہے۔ اگر کچھ نہیں کریں گے تو یہ ان کی نالائقی ہوگی۔ لیکن وہ اور کچھ بھی نہ کریں تو بھی یہ کتاب جدید ادب میں ایک معتبر نام دلوانے کے لئے بہت کافی ہے۔
افتخار عارف کے چند شعر جو مجھے پسند ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمالیں۔
حریم لفظ میں کس درجہ بے ادب نکلا
جسے نجیب سمجھتے تھے کم نسب نکلا

ابھی اٹھا بھی نہیں تھا کسی کا دست کرم
کہ سارا شہر لئے کاسہ طلب نکلا

کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہانِ رزق میں توقیر اہل حاجت کیا

دمشق مصلحت و کوفہ نفاق کے بیچ
فغانِ قافلہ بے نوا کی قیمت کیا

دل کے معبود جبینوں کے خداؤں سے الگ
ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

بس ایک شام اسے آواز دی تھی ہجر کی شام
پھر اس کے بعد اسے عمر بھر پکارا نہیں

شگفتہ لفظ لکھے جارہے ہیں
مگر لہجوں میں ویرانی بہت ہے

علامہ اعجاز فرخ
علامہ اعجاز فرخ

Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4 ,SILVER OAK, EDI BAZAR
NEAR SRAVANI HOSPITAL ’HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612۔ ۔ afarruq[@]gmail.com
۔ ۔ ۔ ۔
کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر

Share

۵ thoughts on “افتخارعارف : کسی کی چپ کا بھی مطلب الگ الگ نکلا ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share