ششماہی جریدہ :’ادب و ثقافت‘
ایڈیٹر: پروفیسر محمد ظفرالدین
زیراہتمام : مرکز برائے اُردو زبان‘ ادب و ثقافت ۔ مانو
ناشر: مولانا آزاد نیشنل اُردویونیورسٹی
قیمت : درج نہیں ۔ ۔ ۔ صفحات : ۱۹۶
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹ : مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے مرکز برائے اُردو زبان‘ ادب و ثقافت کے زیراہتمام ایک ادبی و ثقافتی جریدہ شائع ہوا ہے جویونیورسٹی کا پہلا ادبی جریدہ ہے۔ اس جریدہ کو جاری کرنے میں یقیناً پروفیسرمحمد ظفرالدین اور ان کے رفقأ کی محنتوں اورکاوشوں کا بڑا دخل ہے جو قابل مبارک باد ہیں۔ امید ہے کہ ہمیں آئیندہ بھی ادب و ثقافت کے بہترین شمارے پڑھنے کو ملیں گے۔ مانو کے پبلکیشنز پر قیمت درج نہیں ہوتی ۔ تبھی تو اردو کے غیرجامعاتی قاری تک یہ تصانیف پہنچ نہیں پاتیں ۔ اس جانب یونیورسٹی کے ذمہ داروں کو غور کرنا چاہیے ۔ ششماہی جرنل ادب و ثقافت کے مدیر پروفیسر ظفرالدین کا لکھا اداریہ پش خدمت ہے جو اس جریدہ پربہترین تبصرہ بھی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے مرکز برائے اُردو زبان‘ ادب و ثقافت کی جانب سے یونیورسٹی کا پہلا ادبی جریدہ ’ادب و ثقافت‘ پیش خدمت ہے۔
ادب انسانی تہذیب کا نتیجہ ہے اورادب و ثقافت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ادب ایک جانب تہذیب و ثقافت سے ماخوذ ہوتا ہے تودوسری طرف وہ تہذیب وثقافت کے تحفظ ‘ ترسیل‘ ترویج اور ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ ادب اپنے معاصر عہد کی تہذیب و ثقافت کا معتبر وسیلہ ہے۔ امیر خسرو‘ قلی قطب شاہ‘ غالب اور اقبال کی تخلیقات اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔
جامعات علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لیے معتبر اور مستقل اداروں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان اداروں سے شائع ہونے والے کئی جرائد نے علم و ادب کے شعبوں میں رجحان ساز کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں اُردو یونیورسٹی بھی سرگرم عمل ہے۔ اس کے مقاصد میں اُردو زبان اور اُردو ذریعۂ تعلیم کی ترویج وترقی شامل ہے۔ یونیورسٹی کا اُردومرکز مذکورہ مقاصد کی وسیع تر تکمیل کے لیے خصوصی طور پر اُردو زبان و ادب کی جمالیاتی و تہذیبی شعور و آگہی کی نشوونما اور تحفظ کے لیے مصروف عمل ہے ۔ زیرنظر تحقیقی جریدے ’ادب و ثقافت‘ کی اشاعت مرکز کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا اہم حصہ ہے۔اچھے اور معیاری جرائد علم و ادب کے اعلیٰ معیار کے قیام و استحکام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج کل قومی اور بین الاقوامی سطح پر اُردو کے کئی اہم جرائد شائع ہو رہے ہیں جن کی اپنی اہمیت و افادیت مسلم ہے۔ اس جریدے ’ادب و ثقافت‘ کی ضرورت اس کی اپنی ادبی و ثقافتی ترجیحات کی بنا پر ہے جواُردو مرکزکے مخصوص تقاضو ں کے پیش نظر متعین ہوتی ہیں ۔
ادب و ثقافت کے اولین شمارے کے لیے ممتاز معاصر قلم کاروں کا تعاون ہمارے لیے نئے حوصلوں کا باعث بنا ہے۔ شمارے میں شامل بیشتر مقالات اُردو زبان کی تہذیبی اہمیت اور اُردو ادب کے ثقافتی مطالعات پر مبنی ہیں۔ ’ادب کا ثقافتی مطالعہ‘ اُردو دنیا کے لیے مانوس تنقیدی اصطلاح ہے جس سے اُردو ادب کا قاری بخوبی واقف ہے۔ امید ہے یہ مقالے ادب کی بہتر تفہیم میں معاون ہوں گے۔
پروفیسرشارب ردولوی نے اُردو تحقیق و تنقید کے اہم محور اقبالیات پر مقالہ لکھا ہے۔ فاضل مقالہ نگار نے اقبال کے تعین قدر میں درپیش دشواریوں کا ذکر کرتے ہوئے مطالعۂ اقبال کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالی ہے۔پروفیسر عبد الستار دلوی نے معروف دانشور سرتیج بہادر سپرو کے اُردوسے مثالی تعلق اور اُردو کے لیے ان کی خدمات کا جائزہ لیا ہے ۔ سپروصاحب قومی وحدت کے لیے اُردو کو ضروری سمجھتے تھے۔ وہ اُردو زبان کو قومی زبان تسلیم کرتے تھے اور تا عمر اپنے اس موقف پر اصرار کرتے رہے۔پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے مقالے میں شعر و ادب کے تہذیبی مطالعے کے نظری اور عملی پہلوؤں سے تفصیلی بحث کی ہے اور ہندوستانی تہذیبی روایت کے حوالے سے اُردو شاعری کا تہذیبی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ یہ مطالعہ اُردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ سے لے کر جدید شاعر عمیق حنفی کی شعری کائنات پر محیط ہے ۔پروفیسر م۔ ن۔ سعید کا مضمون عادل شاہی عہد کے ایک معروف اُردو شاعر ہاشمی بیجاپوری کی شاعری کافنی اور تہذیبی مطالعہ پیش کرتا ہے ۔ یہ مضمون ہاشمی بیجاپوری کی شاعری کے امتیازات کو واضح کرتے ہوئے از سر نو ان کے مرتبے کے تعین کے لئے غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔پروفیسر فیروز احمد نے جگن ناتھ آزاد کے تہذیبی تصورات کو ان کی نظموں کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ اُردو کے عاشقِ صادق‘ آزاد کی یہ نظمیں اُردواور مشترکہ تہذیب کے رشتے کو نہایت خوبصورت اور موثر انداز میں واضح کرتی ہیں۔پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اپنے مضمون میں اُردوزبان کی اہمیت ‘افادیت اور ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے اسے ثقافتی اور قومی یکجہتی کی علامت قرار دیا ہے ۔ڈاکٹر عقیل ہاشمی نے اُردو کی اہم نثری صنف انشائیہ کے فن پر اظہار خیال کیا ہے اور انشائیہ کی تخلیق میں تشبیہ کے عمل کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی ہے ۔پروفیسر مجید بیدار نے جنوبی ہند کے تکثیر ی معاشرے کے قیام و استحکام میں صوفیائے کرام کے کردار کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔پروفیسر علی احمد فاطمی نے اُردو کی معروف فکشن نگار عصمت چغتائی کے ناول’دل کی دنیا‘ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ عصمت کے اس ناول پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اُنہوں نے عصمت چغتائی کی پیدائش کی صدی کے موقع پر اس کی بھر پور تلافی کی ہے ۔پروفیسر وہاج الدین علوی نے فیض کی شاعری کے مطالعے سے اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ اُن کی شاعری کی اساس ترقی پسند انسانیت کی اقدار ہے جو ہماری تہذیب کی بہترین روایات سے ہم آہنگ ہے۔پروفیسر ابن کنول نے اُردو کی ایک اہم شعری صنف رباعی کے فن اور روایت کا مختصر مگر جامع انداز میں جائزہ لیا ہے ۔پروفیسر شہپر رسول نے حفیظ میرٹھی کی غزل گوئی پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کی غزلوں کے فنی امتیازات کی نشاندہی ان کے اشعار کے حوالوں سے کی ہے ۔پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے اُردو کی منظوم داستانوں خصوصاً ’کدم راؤ پدم راؤ‘ کا تہذیبی مطالعہ پیش کیا ہے اور اس میں ہندوستانی ثقافت کی نشاندہی کی ہے ۔پروفیسر نسیم الدین فریس نے اپنے مقالے میں دکن کی اُردو مثنویوں میں مشترکہ ثقافت ‘ قومی یکجہتی ‘ حب وطن اور مذہبی رواداری جیسے موضوعات پر وقیع سرمائے کی نشاندہی کی ہے۔ڈاکٹر حبیب نثار کا مضمون ‘ حضرت امیر خسرو کی ان اختراعات سے بحث کرتا ہے جو انھوں نے ہندوستانی موسیقی کے باب میں کیے ہیں۔ خیال ‘ستاراور طبلہ کو امیر خسرو کی اختراعات تسلیم کرتے ہوئے اُنہوں نے متعدد شواہد پیش کیے ہیں ۔
ہم اپنے اُردو دوست شیخ الجامعہ پروفیسر خواجہ محمد شاہد صاحب کے بے حد شکر گزار ہیں کہ جن کی حوصلہ افزائی اور فراہم کردہ وسائل کے سبب ’ادب و ثقافت‘ معرضِ وجود میں آسکا۔ ہم تمام مقالہ نگاروں کے بھی شکر گزار ہیں جن کے قلمی تعاون کے بغیر جریدے کی اشاعت ممکن نہ تھی۔
اُمید ہے کہ ’ادب وثقافت‘ کا یہ اولین شمارہ آپ کو پسند آئے گا۔ ہمیں آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا۔
پروفیسرمحمد ظفرالدین
ایڈیٹر’ ادب و ثقافت
(ڈائرکٹر‘ مرکز برائے اردو زبان ‘ ادب و ثقافت – مانو)