افسانہ : آہوں کے درمیاں
جنید جاذب
کوٹ رنکہ بڈہال،راجوری،جموں کشمیر
09906525666
ہروقت شرارتوں،کھِلکھلاہٹوں اورکلکاریوں میں بسی رہنے والی چھوٹی سی بہشت آسا کُٹیا میں اچانک جاں لیوا خاموشیوں کی سنسناہٹ پھیل گئی تھی ۔ واجبی سی، تنگ و تاریک کوٹھڑی، پھیل کرایک بے انت صحرابن گیاتھا جس کی خوف ناک وسعتوں میں وہ دونوں بھٹکتے پھررہے تھے۔آس پاس سے ایک کہرام ساابھرکر،ان کے وجودسے لپٹ رہاتھا۔وقت، ایک خوف ناک ویرانے کی شکل میں ڈھل کر ان کے اطراف پھیل گیا تھا۔اس بے انت ویرانے کاپَل پَل انھیں ڈسنے کو دوڑرہاتھا۔ رقیہ، ممتا کی سنسان جھولی بے ڈھنگ پھیلائے،بے آسی کے بھنور میں ہچکولے کھائے جارہی تھی اوررشیدکواردوگرد پھیلا ہیبت ناک منظرٹکڑوں ٹکڑوں نگلتا اور بھسم کرتا جارہاتھا۔
زہر میں بجھاہوا سارا ماحول سوئیوں کی مانند ان کے جسموں سے آرپار ہورہاتھا۔
مُنّا کو،َ منوں مٹی کے نیچے پہنچے ہوئے تین دن بیت گئے تھے لیکن اس دوران لمحہ بھرکوبھی وہ دونوں کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوسکا۔اس عرصہ میں شائد ہی کسی پَل نیندکی دیوی نے بھی ان کے بوجھل دیدوں کو مَس کیاہو۔اندر باہرہرطرف، متحرک بچپن کبھی ہواؤں میں ناچتا کبھی دیواروں ستونوں سے لپٹتا…….لیکن پھر،پلک جھپکتے ہی دونوں کو بے بس اور تڑپتاچھوڑکر ایک دم کہیں روپوش ہوجاتا۔
گارے مٹی کی دیواروں پر کوئلے سے کھچی ریکھاؤں سے ابھرتی چیخیں چلاہٹیں، سماعتوں کو چیرتی ہوئی ،احساس کی رگوں میں کھُبتی چلی جاتیں ۔ معصوم شرارتیں، نوخیز پکاریں اور طفلانہ ادائیں ادھرادھرسے گونجتیں، آس پاس تیرتیں اورکانپ کردب جاتیں۔ آہٹیں ہوتیں،پاس پہنچتیں، اوردل کوچیرکرمعدوم ہوجاتیں۔تھوڑی دیر تک تویادوں کا تعاقب انھیں پناہیں بخشتا ،دل بہلاتالیکن پھراصل احوالوں میں لوٹتے تو پھر وہی یاسیت اور بے بسی سراپوں کو ڈھانپ لیتی اور دونوں بے حال ہوکر ادھ موئے پڑے رہ جاتے۔، گذرتا سمے، قطرہ قطرہ پگھلتے ہوئے ،دلوں پر تیزاب انڈیلتا گذررہاتھا۔امیدوں خوابوں کے سارے تانے بانے پل بھر میں عنکبوتی تاروں کے مانند بکھرکرمعدوم ہوگئے تھے۔
’’اب کبھی مُنّا اس آنگن میں نہیں کھیلے گا…..اب کبھی مُنّایہاں نہیں ناچے گا..‘‘ذہن کا کینوس پرسوچوں کے بھدے رنگ گڈ مڈ ہونے لگے ’’ اب کبھی مُنّاکی شرارتیں نہیں دیکھوں گی…مُنّااب کبھی دوڑتے ہوئے ،چھلانگتے،پھلانگتے میرے آس پاس نہیں بھاگے گا…..مُنّااب کبھی نہیں لوٹے گا…ہائے میری جان،تو کہاں چلاگیا،تو کن دیسوں کوجا پہنچا…میں کیاکروں میرے بچے …میں کیسے جیوں..میں کیوں جیوں..میرے بچے ایک بار، بس ایک بار تو بول ..میں کیوں نہ مرگئی تیری آئی..ہائے مرے بچے‘‘
رقیہ، پھر روتے روتے ہلکا ن ہونے لگی تووہیں ایک طرف کو ہو کرڈھیرہوگئی ۔ دیربعد ا س نے اپنا جوان بدن سمیٹااور تقریباً گھسیٹتے ہوئے دوسری طرف ڈال دیااور پھر پہلے کی طرح پڑرہی ، دیرتک بے حس و بے حرکت۔رشید، گھر کی جانب آنے والی پکڈنڈی پر نظریں جما ئے، جانے کب سے دروازے پر بے سُدھ پڑا ہواتھا۔تھوڑی دیر بعد اس نے بے ارادہ رقیہ کی طرف دیکھاتو وہ اسے مٹی کی بھری اس بوری کے مانندلگی جو کسی نے بھرنے کے بعد بے مصرف سمجھ کریوں ہی چھوڑدی ہو ۔
’’سب کچھ تو ختم ہوگیا…اب ہمارا جینا کیا ،مرناکیا…‘‘رشیدنے افق کی طرف نگاہ دوڑائی۔ مایوسیوں سے اٹااردگردکاساراماحول کھانے کودوڑرہاتھا۔رقیہ نے کچھ بولناچاہالیکن سسکی بھر کر لب بھینچ لئے۔
’’… معمولی سا بخار، اور گھڑیوں،پلوں میں کیا سے کیاکرگیا…‘‘اس کی آنکھیں ترہوگئیں اور گلا گھٹنے لگا۔ پچھتاوے اور بے بسی کی آہوں کے درمیان اس کی سوچ ہچکولے کھانے لگی… اس سے پہلے کہ وہ ٹھیکیدار سے یا کسی پڑوسی سے کچھ پیسے لے کر منّا کو لے کر شہر چلا جاتا، کسی قابل ڈاکٹر سے علاج کرواتا، منا خود ہی سب سے بڑے معالج کے پاس جا پہنچا… وہ اپنے لاڈلے کی جانبری کے لئے کچھ بھی کرگذرتا،لیکن اتنی فرصت ہی نہ ملی ۔ خود کو کوسنے کے سے انداز میں سوچتا ہواوہ پھر بڑبڑایا ’’اب پچھتاناکیا کام کا…‘‘اور بے بس سی نگاہیں دور افق میں گاڑدیں…..دور تک پھیلا صحرا خالی خالی سا،دھواں دھواں سا…سناٹا،چپی، جیسے سانپ سونگھ گیاہو،جیسے موت بے لگام ہوگئی ہو،جیسے سب رونقیں، رنگتیں،خوشبوئیں،نظارے…. وقت کی زہرناکی چٹ کر گئی ہو۔
’’اب کبھی مُنّاکوکھیلتا نہیں دیکھوں گا..اب کبھی منا گود میں چھلانگیں نہیں لگائے گا…اب کبھی منا پیچھے سے آکر سرپر نہیں چڑھے گا… منااب کبھی اس گھر میں نہیں لوٹے گا …‘‘اس کی آنکھوں میں تیرتی شرارتیں اشکوں میں ڈھل گئیں اور گلا رندھ گیا۔
’’جی‘‘وہ دلاسا دینے آئے ایک پڑوسی کی باتوں پر دھیان دئے بغیرعادتاًبولا۔
اپنی بیوی کا بھی دھیان تمھیں رکھنا ہے‘‘ دن میں کوئی پڑوسن عورت ایسا ہی کچھ اس کی بیوی سے کہہ رہی تھی ’’رشیدکادھیان بھی اب تمھیں ہی رکھناہوگا…‘‘ ۔
’’اونہہ ہاہ..‘‘وہ بے ارادہ،روکھے پن سے ہنس دیالیکن احساس ہوتے ہی سامنے دیکھتے ہوئے پڑوسی کی جانب متوجہ ہوگیا۔’’…دیکھو تو اس کی حالت… دو دن میں سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہے….دیکھوتو دودن میں چہرہ دس سیر سے چھٹانگ بھرکا ہوکررہ گیاہے‘‘رشید کے کانوں میں باتیں گڈمڈ ہونے لگیں۔
تھوڑی دیربعد پڑوسی جانے کے لئے اٹھاتو وہ بھی ساتھ باہرتک آگیا۔اٹھتے ہوئے اس کا سر چکرانے لگاتو ،خلافِ عادت ،اس نے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنا سراپا سیدھا کیا۔تھکن سے اس کا انگ انگ مضمحل ہوچلاتھا۔ پڑوسی چ کے چلے جانے کے بعددیرتک وہیں کھڑے کھڑے تھک کر گرنے لگاتووہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اندرآ گیا۔اچانک اسے رقیہ کا خیال آیا۔اس نے پلٹ کر رقیہ کی جانب ایک نظر دیکھا….. وہ جوں کی توں کھوئی کھوئی، ادھ کھلی آنکھوں سے جانے کن بے دیکھی خلاؤں کو گھوررہی تھی۔
اسے یوں لگا جیسے اس کے گردوپیش بس خلاء ہی خلاء ہو او ررقیہ اس وسیع خلاء میں اوندھی پڑی، اپنے وجودکو سیدھا کرنے کی بے جہت،بے ڈھنگ جدوجہدکررہی ہو۔اس نے قدرے قوت سے اپنا سر جھٹکااور دیدے جبراً وا کرتے ہوئے گردن دوتین بار ادھرادھرگھمائی تاکہ پوری طرح ہوش حواس میں آجائے۔ لیکن تو بھی اسے لگا جیسے اس کو اپنے حواس پر کوئی خاص اختیار نہ ہو اور بدحواسی کے عالم میں، بے اختیارانہ، ادھرادھر ڈول رہا ہو…… جیسے سخت بخارمیں مبتلا انسان،کبھی کبھی نیم بے ہوشی کی حالت میں کچھ عجیب و غریب قسم کے خوابوں کے نرغے میں ہوتاہے۔
رشید نے محسوس کیا جیسے گلے کی گھٹن، سینے میں پھیلتی ہوئی، نیچے کی طرف اتررہی ہو۔ اسے ناف کے گرداندر کی جانب کھنچاؤ سامحسوس ہوا……..پھریہ کھنچاؤایک بڑی سی کھائی میں تبدیل ہوتا ہوا لگنے لگا …..اور سینے سے اترتی گھٹن دھیرے دھیرے جیسے اس بڑی کھائی میں گھوم رہی ہو۔اچانک ایسا لگتا جیسے ایک غبارسا، اسی کھائی میں موجود تیزابی غبارسا،اس کے اندرونی خالی حصے کو کھائے جاتا ہو…..اور گڑگڑاہٹ کی ہلکی ہلکی آوازیں معمولی سے ارتعاش کے ساتھ اٹھتی ہوئی اپنے آپ مدھم ہوجاتی ہوں۔ ہرلمحہ گہراتی کھائی میں کوئی شئے گویااپنے آپ دھکے کھاتی باربار ادھر ادھرگررہی ہو۔ دوسرے ہی لمحے معدے کی cavity سکڑ کر چپکتی ہوئی معلوم ہونے لگی۔اسے لگا جیسے ارد گرد کا ویران صحرا اس کے اپنے اندر درآیاہو اور جو کھائی کی شکل میں ڈھل کر لمحہ لمحہ اندر پھیلتا جارہاہو،اسے نگلتاجارہاہو،ڈستاجارہاہو….
نقاہت کو جھٹکتے ہوئے اس نے ہمت جٹاکر گھرکونظروں کے احاطے میں سمیٹا……. کہیں اندر…بہت اندر…گہرایوں سے ابھر نے والی ایک لمبی آہ نے…پھرکچوکے بھرکر.. اس کے جسم وجان کو خلاؤں میں چھوڑدیا۔
’’تین دن………‘‘ذہن کے کسی گوشے میں ایک خیال کوندھا۔پچھلے تین دنوں سے وہ کام پر نہیں گیاتھا…’’ہفتہ،ایت وار،پیر،منگل…‘‘وہ ادھ خیالی میں، انگلیوں پردن گنتے گنتے ،خودکلامی کے انداز میں، ایک دم بڑبڑایا’’تین ن ن .. نئیں نئیں..چااااردن..‘‘اور وہ اٹھتے اٹھتے پھرکچھ سوچ کربیٹھ گیا۔
چند ثانئے گم صم بیٹھے رہنے کے بعد وہ پھر کھڑاہوگیا ، ایک نظررقیہ کی جانب دوڑائی اور چپ چاپ ساباہر نکل آیا۔رقیہ نے دھیرے سے پپوٹے اٹھاکر ،قریب قریب پوری کھلی نظروں سے، اُسے جاتے دیکھا لیکن کچھ کہے بنا ساکت اپنی جگہ پڑی رہی۔
رشید جھونپڑی سے نکل کر،سیدھا قر یبی قصبہ کی طرف جانے والی سڑک پر چل دیا ۔تھوڑی دیر میں وہ نئی بن رہی را بطہ سڑک پہ جاپہنچا جہاں،ابھی کچھ روز قبل تک وہ مستری کاکام کرتارہاتھا۔کام کی جگہ پر پہنچتے ہی ،عادتاًاس نے اپنے کاندھے پرہاتھ مارا ،تو اسے اچانک خیال آیاکہ ہمیشہ اس کے شانے پہ پڑارہنے والاانگوچھا ،جوکام کے دوران سو طرح کے کام آتاتھا،کہیں رہ گیا ہے۔
’’چہ …اوہو..‘‘ ہلکاسا افسوس اس کے اداس چہرے کوچھوئے بناگزرگیا۔
اس نے کھانے کاڈبہ جھاڑی کی آڑمیں رکھا،نہ مونڈھے سے کوئی چادر اتارکر تہہ کرکے کہیں رکھی بلکہ بنا کوئی بات کئے، چھینی اور ہتوڑا لے کر،سیدھا کام سے لگ گیا۔بے حدکمزوری محسوس کرنے کے باوجودوہ یوں کام پرٹوٹاجیسے کوئی پہلوان کُشتی کے میدان میں اترا ہو،اور دن بھریوں ہی دنیا ومافیہا سے بے نیازپتھروں سے نبرد آزما رہا ۔
’’بے چارہ پگلا گیا ہے…اکلوتا بچہ جو چلاگیا ہے بے چارے کا… ‘‘ایک مزدور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے اپنے ساتھی سے کہا۔
’’ا ولاد کی موت انسان کواندر سے ماردیتی ہے..دل مرجاتاہے..‘‘
’’دماغ کہاں ٹھکانے رہتاہے….‘‘دوسرے نے تائیدکی۔
تھوڑے فاصلے پہ بیٹھا رشید،سن کر بھی نظر تک اٹھائے بغیر، چپ چاپ ایک پتھر پہ ہتوڑے کا دستہ ٹھوکتا رہا۔
شام کو منشی سے اپنی مزدوری وصول کر، راشن کی دکان سے ہوتا ہوا ،وہ سیدھاگھر پہنچا۔نقاہت سے لڑتے ہوئے رقیہ، تین دن سے بجھے چولہے میں لکڑیاں سیدھی کرنے لگی۔تھوڑی دیرمیں جب کھانے کی مہک دھوئیں کی مہک میں مل کر رشید کے نتھنوں سے ٹکرانے لگی تواس نے میکانکی انداز میں اٹھ کر ہاتھ دھوئے،چہرے پر پانی کا چھینٹامارا اورالمونیم کی تھالی میں رکھی چپاتیوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔
تھوڑی دیربعد سالن کا ڈونگا رقیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے اس کی نظر سامنے دیوارسے ٹکرائی تو اسے لگا جیسے منا ہنستا،کھلکھلاتا اس کے سامنے کھڑاہو۔رشید کے چہرے پر طمانیت کی خفیف سی لہرابھرکر چلی گئی۔