حیاتِ جاوید، حالیؔ کا جاودانہ شہکار
ڈاکٹرسید تقی عابدی، کناڈا
حالیؔ کے نثری کارناموں میں مقدمہ شعروشاعری، یادگارغالب، حیات سعدی اورحیات جاوید کومرکزی حیثیت حاصل ہے۔ حیات جاوید سرسید کی سوانح عمری ہے جو تقریباً نوسوصفحات پرمشتمل ہے۔ حالی ؔ نے سرسید کی سوانح عمری لکھنے کا کام سرسید کی زندگی میں شروع کیا لیکن اس کی تکمیل اوراشاعت سرسید کے انتقال کے دو تین برس بعد ہوئی۔ حیات جاوید کا سارے ملک میں جاودانہ استقبال کیا گیا۔ چند مشاہیرادب نے اس کے نقائص اور متنازعہ مسائل کی نشان دہی کی جن میں شبلی، صدریارجنگ شیروانی، وحید الدین سلیم کے علاوہ کئی پردہ نشین مرد بھی شامل تھے، جنھیں حالیؔ کا ہر کام خالی اورحالیؔ ڈفالی نظر آتے تھے۔ شبلی نعمانی نے اسے کتاب المناقب مدلّل مدّاحی کذب اورجھوٹ کی داستان کہا، صدریارجنگ شیروانی نے شبلی کے اعتراضات پرصاد کا نشان لگایا۔ وحید الدین سلیم جن کو حالیؔ نے عظیم بنایا لکھا کہ جوادعا حالی نے دیباچے میں کیا پوری کتاب میں اس کا شمّہ
برابر بھی حق ادا نہیں کیا۔ یہ تمام افراد سکّے کے دونوں رخ یعنی سرسید کی مدح کے ساتھ ان کے بعض کاموں کی قدح بھی دیکھنا چاہتے تھے جوحیات جاوید میں کہیں جلی اورکہیں خفی حالیؔ نے سطوراور بین السطور بیان کی ہے۔ جہاں تک سرسید کے مذہبی خیالات اور اجتہادی روش کا تعلق ہے حالیؔ نے اُس سے اتفاق اوراختلاف کیاہے۔ اگرچہ مدح کا پلڑا قدح کے مقابل بہت وزنی ہے لیکن حالی نے تنقید اورتنقیص کے کانٹوں سے سرسید کی پھلواری شخصیت کو تارتار نہیں کیا جو بعض اوقات مغربی سوانح نگار کرتے ہیں۔ حالیؔ نے یہ بھی تاکید کی کہ ابھی مشرقی ماحول میں کریٹکل بیوگرافی کا وقت نہیں پہنچا چنان چہ آگے آنے والے اس رخ سے بھی نقاب کشی کریں گے۔ حالیؔ کے قول کے مطابق اگرحیات جاوید سرسید کی زندگی میں شائع ہوجاتی تو وہ عظمت جس کی وہ مستحق تھی اس کو حاصل ہونی دشوارتھی اورجب کبھی سرسید کے سامنے ان کے لائف لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا جاتا تھا تو وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ’’میری لائف میں سوا اس کے لڑکپن میں خوب کبڈیاں کھیلیں، کنکوّے اڑائے، کبوتر پالے، ناچ مجرے دیکھے اوربڑے ہوکرنیچری کافراوربے دین کہلائے اوررکّھا ہی کیا ہے۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ سرسید اپنی سوانح لکھوانے کے بڑے آرزو مند تھے۔ انھوں نے کئی باربلاواسطہ شبلی نعمانی کو اس کام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ کبھی دوست واحباب سے پیغام کبھی کسی دوست کے خواب کی تفصیل کہ شبلی سرسید کی سوانح لکھ رہے ہیں شبلی تک پہنچاتے تھے لیکن شبلی راضی نہ ہوئے۔ 1889ء میں کرنل گریہم نے انگریزی میں سرسید کی بائیوگرافی شائع کی جو بقول ایک انگلش اخباری ریویو ایک مکمل بائیو گرافی ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی تھی۔ سر سید کے دوست حاجی اسماعیل خاں نے منشی سراج الدین احمد مالک چودھویں صدی کو سرسید کی سوانح لکھنے پرراضی کیا جنھوں نے مٹیریل جمع کرکے حاجی اسماعیل خاں کو دیا جو مسودے کی شکل میں پڑا رہا چنان چہ آخر کارحالیؔ نے بذات خود چندماہ علی گڑھ میں رہ کرسوانح کامواد جمع کیا اورمنشی سراج الدین کا جمع شدہ مسودہ بھی حاصل کرکے حیات جاوید تکمیل کی۔ سرسید کی بیوگرافی لکھنا آسان کام نہ تھا۔ سرسید ایک ہمہ جہت بلکہ مختلف الحسن حیثیتوں کے مالک تھے۔ ان کے دوست اور دشمنوں کی کمی نہ تھی۔وہ کہیں صدیق اور کہیں زندیق سمجھے جاتے تھے۔ ان کی زندگی کے حالات غدر کے بعد توآسانی سے دستیاب تھے مگر اس سے پہلے کے حالات کا جمع کرنا مشکل تھا۔ سرسید کی زندگی میں انقلابات کی کمی نہ تھی۔ غدر کے بعد بہت سی معلومات انگریزی فائلوں میں تھیں جن کا ترجمہ بھی ضروری تھا۔ حالیؔ نے یہ تمام اموردقیق دیدہ ریزی اورمحنت سے کی ۔ سرسید کے غدر سے قبل کے حالات حالیؔ نے سیرت فریدیہ سے لئے جو سرسید کے نانا کے احوال زندگی سے متعلق تھی اورجسے خود سرسید نے لکھا تھا۔ کچھ واقعات اورحالات رشتہ داروں اورتذکروں سے جمع کئے۔ حالیؔ نے سرسید کو ایک سو سوالات کا سوال نامہ بھیجا تھا کہ اس پر مختصرجوابات لکھ دیں مگر وہ کبھی لکھا نہ گیا۔ حالیؔ نے کچھ حالات اورواقعات علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، تہذیب الاخلاق اورتصانیف احمدیہ سے حاصل کئے اس طرح قطرہ قطرہ ساغرحیات میں بھرکراُسے حیات جاوید کردیا۔ حیات جاوید کو حالیؔ نے دوحصّوں میں تقسیم کرکے پہلے حصّے میں سر سید کی زندگی کے واقعات اوران کے امورجو ابتدائے زندگی سے ان کی رحلت تک انجام دئے تاریخی ترتیب سے بیان کئے اوردوسرے حصّے میں ان کی حیات اوران کے کارناموں پر تبصرہ کیا ۔
حالیؔ نے حیات جاوید کے نوسو صفحات پرسرسید کی حیات شخصیت اورفتوحات کا ذکرکرتے ہوئے ان کی زندگی کوبرصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ بتایا ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں سرسید کے جہاں ہم پراوربہت سے احسانات ہیں انھیں میں سے ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک ایسا بے بہا زندگی کا نمونہ چھوڑ گئے ہیں جس سے بہتر ہم اپنی موجودہ حالت کے موافق کوئی نمونہ قوم کی تاریخ میں نہیں پاسکتے۔ حالیؔ نے بتایا ہے کہ سر سید کی زندگی ہمیں کیا نصیحت اور سبق دیتی ہے۔ اور بعض مسائل پر غور کرنے کی دعوت دی ۔ہم یہاں ان نکات کو پیش کرتے ہیں جو ایسے جملے ہیں جن کو کھولیں تو دفاتر بھی ان کی تشریح کے لیے نا کافی رہیں۔
الف:۔ زمانے کی مخالفت کو خدا کی مخالفت سمجھ کر اس کے ساتھ موافقت پیدا کرو تاکہ دنیا میں آرام سے رہو۔
حالیؔ نے کہا ہے ۔ چلو اُدھر کو ہَوا ہو جدھر کی ۔
مولانا روم کہتے ہیں۔ زمانہ باتو نہ سازد تو بازمانہ بساز۔ یعنی اگر زمانہ مخالف ہو تو تو بھی زمانے کے ساتھ ہو جا۔
علامہ اقبالؔ اس فکر کے مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ بے خبروں کی نصیحت ہے کہ اگرزمانہ تمہارے خلاف ہو تو تم بھی بدل کرزمانے کے ساتھ ہو جاؤ، اگرزمانہ ساتھ نہیں دیتا تو تم زمانے سے لڑکرزمانہ کو بدل دو۔
حدیثِ بی خبراں است کہ بازمانہ بساز
زمانہ باتو نہ سازد تو بازمانہ ستیز
ب:۔ جب تم میں عمدہ حاکم بنّے کی لیاقت باقی نہ رہے توعمدہ رعیّت بنّے کی کوشش کرو تاکہ دونوں عمدگیوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔ اس سے ذیل کے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
(i) محکوم قوم قومی عزت حاصل کرسکتی ہے۔
(ii) شائستہ حکومت میں اس کا رسوخ و اعتبار بڑھ سکتا ہے۔
(iii) قوم اپنی آزادی کو قائم رکھ سکتی ہے۔
(iv) قوم میں خود داری اورسلف رسپکٹ کی تحریک ہوتی ہے اور غلامانہ خوشامد سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
ج:۔ قوم کے تنزل سے قوم کے مذہب کو جو صدمہ پہنچتا ہے اس کا تدارک کیا ہوسکتا ہے۔
د:۔ مذہب کے مہتم ہونے سے قوم جن آفتوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اس کا علاج کیاہے۔
ھ:۔ قوم اور وطن کی محبت کو جزو ایمان جانو اور قوم کی خدمت کو سرداری کا تمغہ سمجھو۔
و:۔ اگر دنیا میں بڑا بننا چاہو تو حرص طمع خود غرضی جھوٹ آرام طلبی اور عیش وشہرت سے دست بردار ہو جاؤ۔
ز:۔ تھوڑی تعلیم بہت سا تجربہ اور بالکل سچائی یہ تینوں مل کر ایسے عظیم الشان کام کرسکتے ہیں کہ بڑے بڑے مدبّروں سے نہ ہوسکے۔
ح:۔ قوم کی مخالفت کو صبرو استقلال سے برداشت کریں مگر ان کی حقیقی خیر خواہی کے لیے ان کی عقل عادت اور مرضی کے
خلاف کام کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔
ط:۔ تعصب سے نفرت اور دوسری قوموں سے حسن معاشرت ضروری ہے۔
ک:۔ جیسا دل میں سمجھو ویسا ہی زبان سے کہو اور کردکھاؤ۔
ل:۔ وقت کی قدرکرو، اک لمحہ بے کار نہ رہو او رکام کرتے کرتے مرجاؤ۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ سر سید کا منشور تھا اور حالیؔ نے حیات جاوید میں ان کی حیات شخصیت کارناموں اور فتوحات کے ذیل یہ بتادیا کہ سر سید نے خود ان اہم نکات پر عمل کیا اور دوسروں کو عمل کرنے کی دعوت بھی دی۔ اسی لئے تو حالیؔ نے سر سید کے مرثیے میں کہا۔
چیست انسانی؟ تپیدن ازتپ ھمایگان
از سموم نجد در باغ عدن پزمان شدن
زیستن در فکر قوم و مردن اندرنبد قوم
گر توانی می توانی سید احمد خان شدن
یعنی انسان وہ ہے جو ہمسائے کے رنج و درد سے بیتاب رہتا ہے وہ جنت کی ہوا میں بھی محروموں کی زندگی سے افسردہ رہتا ہے۔ قوم کی فکر میں زندگی گزارنا اور قوم ہی کے زندان میں گھٹ کر مرجانااگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ سر سید احمد خان بن سکتا ہے۔
Dr.Syed Taqi Abedi
1110 Secretariate Road, New Market, ON L3X 1M4
Fax: 416-495-2477 E-mail:
One thought on “حیاتِ جاوید ، حالیؔ کا جاودانہ شہکار۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید تقی عابدی، کناڈا”
ڈاکٹر تقی عابدی صاحب کا مضمون بہت اچھا ہے، آج جب کہ لوگ ‘حیاتِ جاوید’ نہیں پڑھتے، کم از کم اس کا تعارف ہی پڑھ لیں، غنیمت ہے،
مختصر مضمون میں کتاب کا اچھا تعارف ہے، اس میں حالی کے حوالے سے جو اقوال زرین پیش کئے گئے ہیں اور سرسید کی حیات سے ملنے والے درس اور حالی کے مختصر اور جامع جملوں کا انتخاب بہت اہم ہے،
لیکن جہاں تک مضمون کی بات ہے، اس میں حیاتِ جاوید پر اعتراضات کا ذکر بہت منفی اسلوب میں کیا گیا ہے، جب کہ بعض اعتراضات اپنی جگہ تھے، ہاں، لاکھ کوشش کے باوجود خود حالی نے بھی سرسید کی شخصیت کے ان کمزور پہلوؤں کا ذکر کرنے سے خود کو نہ روک سکے،
سرسید کے حوالے سے جو اہم اقوال اور مختصر اور جامع جملوں کا انتخاب پیش کیا ہے، اس کے لیے ڈاکٹر تقی عابدی صاحب قابلِ مبارکباد ہیں، اور ہم سب کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ سرسید کی زندگی کے سبق اور چند نصیحت آموز جملوں کا انتخاب بجائے خود ایک اہم کام ہے،
لیکن مضمون میں معاصرین کے اعتراضات کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی منفی لہجہ میں ہو گیا ہے، لیکن حقائق اپنی جگہ قائم ہیں، ڈاکٹر صاحب نے پھر بھی یہ وضاحت کر دی کہ کسی کو سرسید سے بیر نہیں تھا، سرسید کے محاسن کے مدلل بیان اور سوانح کو کتاب المناقب بنانے پر اعتراض تھا، واقعی مضمون میں اس پہلو کو جامعیت کے ساتھ ڈاکٹر تقی عابدی نے خوب لکھ ڈالا ہے، لکھتے ہیں:
"… حیاتِ جاوید کا سارے ملک میں جاودانہ استقبال کیا گیا۔ چند مشاہیرادب نے اس کے نقائص اور متنازعہ مسائل کی نشان دہی کی جن میں شبلی، صدریارجنگ شیروانی، وحید الدین سلیم کے علاوہ کئی پردہ نشین مرد بھی شامل تھے، جنھیں حالیؔ کا ہر کام خالی اورحالیؔ ڈفالی نظر آتے تھے۔ شبلی نعمانی نے اسے کتاب المناقب مدلّل مدّاحی کذب اورجھوٹ کی داستان کہا، صدریارجنگ شیروانی نے شبلی کے اعتراضات پرصاد کا نشان لگایا۔ وحید الدین سلیم جن کو حالیؔ نے عظیم بنایا لکھا کہ جوادعا حالی نے دیباچے میں کیا پوری کتاب میں اس کا شمّہ برابر بھی حق ادا نہیں کیا۔ یہ تمام افراد سکّے کے دونوں رخ یعنی سرسید کی مدح کے ساتھ ان کے بعض کاموں کی قدح بھی دیکھنا چاہتے تھے، جوحیات جاوید میں کہیں جلی اورکہیں خفی حالیؔ نے سطوراور بین السطور بیان کی ہے۔ جہاں تک سرسید کے مذہبی خیالات اور اجتہادی روش کا تعلق ہے حالیؔ نے اُس سے اتفاق اوراختلاف کیاہے۔ اگرچہ مدح کا پلڑا قدح کے مقابل بہت وزنی ہے لیکن حالی نے تنقید اورتنقیص کے کانٹوں سے سرسید کی پھلواری شخصیت کو تارتار نہیں کیا جو بعض اوقات مغربی سوانح نگار کرتے ہیں… ”
جہانِ اردو پر یہ بہت ہی اہم اور قابلِ مطالعہ مضمون ہے، بطورِ خاص طلبہ کے لیے بہت اہم ہے کہ آج کل اصل متن پڑھنے کا رواج و مزاج نہیں پایا جاتا، ایسے میں ڈاکٹر صاحب کا مضمون ایک نعمت ہے،
جہانِ اردو کا شکریہ
وصی بختیاری
+91 9441905026