ایک بڑے پر موضوع پر لکھی جانے والی چھوٹی سی کہانی افسانچہ)
مصنف: ابن عاصی
تم نے لندن میں مادام تساؤ کا میوزیم دیکھا ہے؟
ہاں۔۔۔۔دو تین مرتبہ۔۔۔کیوں۔۔؟
وہاں کیا ہے؟
کیا ہے۔۔۔؟مجسمے ہیں وہاں،نامور ادیبوں،شاعروں،مصوروں،کھلاڑیوں،اداکاروں،سیاستدانوں،سائنسدانوں اور دیگر اہم شخصیات کے،حیرت ہے کہ تم ایک گائیڈ ہو کر بھی یہ بات نہیں جانتی کہ مادام تساؤ کے میوزیم میں کیا ہے؟
نیلی آنکھوں والی خوبصورت انگریز گائیڈ نے ایک دلکش قہقہہ لگایا اور کہا
وہاں خدا کا مجسمہ ہے۔۔؟
خدا کا مجسمہ۔۔۔؟میں نے غصے اور حیرت کے ملے جلے انداز میں کہا۔۔۔۔!تم عجیب احمق ہو،مجسمے ان کے ہوتے ہیں جو نظر آتے ہیں ،مجسمہ ساز ان کو سامنے بٹھا کر یا ان کی تصویر کی مدد سے مجسمہ بناتا ہے،لیکن خدا نہ نظرآتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی تصویر ہے،اس لئے اس کا مجسمہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔؟
وہ پھر ہنسی اور کہنے لگی
وہا ں اہم شخصیات کے مجسمے ہیں تو خدا سے زیادہ اہم بھلا کون ہو گا۔۔؟کیا اس کا مجسمہ وہاں نہ ہونا زیادتی نہیں۔۔؟
میں نے پہلی بار اس کی شرارتی آنکھوں میں جھانکتے ہو ئے کہا
تم کہنا کیا چاہتی ہو آخر۔۔۔؟
بس یہ کہ مادام تساؤکے مجسمہ ساز انتہائی نااہل،نالائق اورایک محدود تخیل کے حامل ہیں وہ بڑے اور عظیم فنکار ہوتے تو سب سے پہلے میوزیم میں خدا کا مجسمہ بنا کر رکھتے۔۔!
ؒ لیکن انہیں کیا معلوم کہ خدا کیسا ہے۔۔؟میں نے ذرا چڑ کر کہا ۔۔۔!بلکہ یہ تو کسی کو بھی نہیں معلوم
اس نے زور سے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا
اسی لئے تو میں کہہ رہی ہوں کہ مادام تساؤ کے مجسمہ ساز انتہائی نااہل،نالائق اور نہایت محدود تخیل کے حامل ہیں جب کسی نے خدا کو دیکھا ہی نہیں تو پھر ان کو کیا مسئلہ ہے۔۔؟وہ خدا کا جیسا مرضی مجسمہ بنا کر وہا ں رکھ دیں،کون اعتراض کرے گا کہ خدا ایسا نہیں ایسا ہے۔۔۔؟
تب پہلی بار میرے ہونٹو ں پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
One thought on “افسانچہ ۔ از ۔ ابن عاصی”
Msoffice me bhi nastaleeq me type kiya jasakta hai