نام کتاب ۔ خرمن انٹرنیشنل ( سہ ماہی رسالہ)
مدیران ۔ سید تحسین گیلانی،مہرافروز
مبصر ۔ سلیم انصاری جبلپور
پتہ۔ ہدیٰ پبلیکیشنز،ہدیٰ فاؤنڈیشن نزد رونق پورمسجد محلہ رسول پوردھارواڑکرناٹک
– – – –
خرمن انٹرنیشنل کا تیسرا ضخیم شمارہ پیش نظر ہے،جو نہایت دیدہ زیب اور اپنے مشمولات کے مزاج ومعیارکے اعتبارسے عالمی اہمیت کا حامل ہے۔اداریہ ۱ بے حد فکر انگیز ہے اور خیر اور لذت اور علم کے مفاہیم اور مضمرات کے حوالے سے ،ہمارے پیش رو مفکرین کے فلسفوں کی روشنی میں ایک عصری اور کار آمد بحث کا آغاز کرتا ہے جبکہ ادریہ نمبر ۲ میں سید تحسین گیلانی نے مابعد جدیدیت کے فکری اور تخلیقی رحجانات پر گفتگو کی ہے ،انکے مطابق جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مابین خطِ امتیاز کھینچنا مشکل کام ہے ،اور یہ بات سچ بھی ہے کہ اگر مابعد جدیدیت تنوع اورکثر ت پر اسرارکرتی ہے توایسے میں لفظ کی حرمت اوراسکی توقیرسے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ،اداریہ کے مطابق مابعد جدیدیت کے اردوکے علمبرداروں نے بنیادی طور پر جس نکتے کو نظر انداز کیا وہ ہے لفظ کی جوہری طاقت،یہ واقعی ایک بیحد اہم نکتہ ہے جس پر از سرِ نو غور و فکر کی ضرورت ہے مگر ایک سوال تو بہر حال حل طلب ی رہے گا کہ اگر جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے بنیادی محرکات اور منشور میں بعدِ زمانی ہے تو پھر جدید
تخلیق کار ہی مابعد جدید تخلیق کار کیسے ہو سکتے ہیں۔حرفِ سپاس کے طور پر اس شمارے میں شامل مہر افروز کی مختصر تحریر میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اس شمارے میں کئی نسلوں کے قلمکاروں کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا ہے اس میں جہاں ایک طرف سینئر قلمکاروں کو شامل کیا گیا ہے وہیں دوسری طرف باالکل نوخیز یعنی ۲۰۱۰ کے بعد اپنا تخلیقی سفر شروع کرنے والے لکھاریوں کو بھی جگہ دی گئی ہے ، مہر افروز صاحبہ نے اس کی بھی نشاندہی کی ہے کہ اس میں دنیا کے مختلف ملکوں کے قلمکاروں کی کاوشات کو شامل کیا گیا ہے۔ اور یہ بات سچ بھی ہے کیونکہ فیس بک اور سوشل سائٹ کے طفیل اب دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہو گئی ہے ،اسکے علاوہ رابطے کی سہولیات بھی میسر ہیں ،اسلئے عالمی سطح پر قلمکاروں سے رابطہ اب ممکن ہے۔
قابل مبارکبادہیں سید تحسین گیلانی اور مہر افروز کہ انہوں نے خرمن کے اس شمارے میں قلمکاروں کی ایک کہکشاں سجادی ہے مضامین ،افسانے،افسانچے،غزلیں نظمیں،انٹرویو،دوہے ۔رباعیات،تروینی،انشائیے،تبصرے تجزیات اور بھی بہت کچھ ۔ایک ہی شمارے میں ادب کے تمام قارئین کی دلچسپی کا سامان موجود ہے،
نجم الثاقب سے لئے گئے اپنے انٹرویو میں سید تحسین گیلانی نے ادب، تخلیق اور اسکے انسلاکات کے حوالے سے کئی اہم سوالات قائم کئے ہیں ، ایک سوال ادب اور شاعری کا منصب کیا ہے ؟ کے جواب میں نجم الثاقب نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ ’’سچے جذبوں اور ارادوں کا کبریائی نور شاعری اور ادب کو مہمیز کرتا دکھائی دے تو ادب و شاعری معاشرتی زندگی میں امن و عافیت کے نقیب ثابت ہو سکتے ہیں ‘‘ اپنے مختصر مضمون اردو کا اگلا قاری کون؟ میں اشفاق عمر نے مادری زبان اردو کے مقابلے انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے رحجانات پر افسوس ظاہر کیا ہے ،انکے مطابق دنیا میں لوگ اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دینے میں فخر محسوس کرتے میں مگر ہمارے یہاں معاملہ باالکل الٹ ہے ، والدین بچوں کو آدھا تیتر ،آدھا بٹیر بناکر خوش ہیں ،
خرمن کے اس ضخیم شمارے میں اقبال پر ایک علاحدہ باب ہی قائم کردیا ہے جس کے تحت ڈاکٹر رؤف خیر ،ڈاکٹر منظر حسین اور خان حسنین ثاقب کے مضامین شامل ہیں جن میں اقبال کی شخصیت اور انکی فکری جہات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ڈاکٹر منظر حسین نے اپنے مضمون میں ٹیگور اور اقبال کی فکر اور فلسفے کا تقابلی مطالعہ کیا ہے جبکہ خان حسنین ثاقب نے اقبال کی ہندوستان سے محبت اور انکے متعلق بعض غلط فہمیوں کے حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
مہر افروز نے حسن جاوید اور اکرم نقاش پر مختصر خصوسی گوشے بھی ترتیب دیئے ہیں جوخرمن کے اس شمارے میں شامل ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں تخلیق کار بے حد ذہین ہیں اور جدید ادبی منظر نامے پر اپنی موجودگی درج کرا چکے ہیں ۔اسکے علاوہ احمد ہمیش کا ایک شاہکار افسانہ ’’ پاگل کتے کی کھوج ‘‘ بھی بطور خراجِ عقیدت اس شمارے میں شامل کیا گیا ہے۔
اس شمارے میں غزلوں اور نظموں کی ایک خوبصورت کہکشاں سجادی گئی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں شامل قلم کار نہ صرف ہند و پاک بلکہ اردو کی نئی بستیون سے تعلق رکھتے ہیں اور قابلِ ا طمینان بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر تخلیق کار فیس بک جیسی مقبول سوشل سائٹ کے ذریعہ بین الاقوامی سطح پر پہلے سے ہی اپنی پہچان رکھتے ہیں لہٰذا امید ہے قارئینِ خرمن بھی ان تخلیق کاروں کے نام سے واقف ہوں گے۔غزلوں اور نظموں کے اس طویل انتخاب میں پیش رو نسل کے تخلیق کاروں کے علاوہ نئی نسل اور باالکل نئے شعراء کو نمائندگی دی گئی ہے جو ادب کی ترویج،تسلسل اور تواتر کی ضمانت ہیں۔
تنقیدی مضامین کا حصہ بھی خاصا وقیع اور جامع ہے ان مضامین میں تنوع ہے کئی مضامین نئے موضوعات پر ہیں اور موجودہ ادبی تناظر میں خاصی اہمیت کے حامل ہیں ۔ان میں جہاں ایک طرف ظفر اقبال کا مضمون لفظ و معنی کا تنازعہ اور ناصر عباس نیر کا مضمون عالمگیریت اور اردو کا مستقبل جیسے پر مغز مضامین شامل ہیں جنہیں پڑھنے کے لئے قارئین کا ایک ایسا مخصوص طبقہ درکار ہے جنکی تفہیم کی سطح عام قاری سے بلند ہوتی ہے، وہیں دوسری طرف ڈاکٹر جواز جعفری کا یوروپ اور امریکہ کی اردو غزل اوراحمد حماد کا اکیسویں صدی میں شاعری کا جواز جیسے مضامین بھی اس شمارے کی زینت ہیں جو موجودہ عہد میں شاعری میں نئے امکانات اور غزل کی وسیع جغرافیائی حدود کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں ۔
اس شمارے میں مشتاق احمد نوری ،اشفاق عمر اور زعیم رشید وغیرہ کے افسانچے بھی شامل ہیں اسکے علاوہ ۲۷ افسانوں کی شمولیت بھی خرمن کے مدیران مہر افروز اور سید تحسین گیلانی کے وژن اور فکشن سے انکے عشق کا مظہر ہیں ۔ان افسانہ نگارون میں بے حد اہم اور قابلِ ذکر نام مظہرالزماں خان،دیپک بدکی،شموئل احمد،مشرف عالم ذوقی،ابرار مجیب،صغیر رحمانی،مہر افروزجیسے سینئر فکشن نگار ہیں اسکے علاوہ شبیر احمد،پرویز شہر یار،سیمیں کرن صدف اقبال،راجہ یوسف،منزہ احتشام گوندل،مثمانہ اختر جمالاور ہما فلک جیسے نئی نسل کے افسانہ نگار بھی خرمن کا حصہ ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان افسانوں میں سے کئی فیس بک کے فورم کے حوالے سے ہم تک نہ صرف پہلے ہی رسائی حاصل کر چکے ہیں بلکہ دادو تحسین بھی وصول کر چکے ہیں
کتابوں پر تجزیے اور تبصرے کا حصہ بھی عمدہ ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ تقریباً ۱۴ کتابوں پر تبصرے شامل ہیں اور بیشتر کتب پرتبصرے رسمی نہیں بلکہ تفصیلی اور تجزیاتی ہیں،متفرقات کے تحت اس شمارے میں دوہے،قطعے،رباعیات، تروینی، نظمیں اور انشائیے وغیرہ بھی شاامل کئے گئے ہیں ۔ ۴۶۴ صفحات کے اس رسالے میں اتنا ڈھیر سارا مواد اس لئے بھی ممکن ہو سکا ہے کہ اس میں فانٹ کا سائز تھوڑا چھوٹا رکھا گیا ہے ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو پڑھنے میں دشواری ہو ،مگر ادب کے شائقین ضرور حظ اٹھائیں گے، اپنے مواد اور معیار کی روشنی میں خرمن بین الاقوامی سطح پر اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب ہوگا ،ایسی میری امید اور خواہش ہے۔
saleem ansari
HIG-3 anand nagar
adhartal jabalpur (M.P) 482004
mob- 7070135643
mail -