غالب کی شاعری میں موت کی پرچھا ئیاں
ڈاکٹرمسعود جعفری
حیدرآباد ۔ دکن
09949574641
اس حقیقت سے کوئی بھی انکارنہیں کرسکتا کہ مرزا غالب بہ حیثیت انسان اورشاعر رجا ئیت پسند تھے۔انہیں امید ہی نہیں یقین تھا کہ دکھوں کے ماہ و سال کے بعد خوشیوں کا دورآئے گا۔وہ جشن منا ئیں گے اور بادہ وساغر سے شغل کریں گے۔چاندنی راتوں میں بزم آرا ئیاں ہو ں گی۔محفل ناو نوش شباب پر ہو گی۔مہتابی کر نیں ان کے جام و مینا سے ٹکرا کران کے سروروانبساط کو دو آتشہ کردینگی۔قرضوں کے چنگل میں پھنس جانے کے با وجود ،جیل کی ہوا کھانے کے کے بعد بھی ،عزت و آبرو کا پیرہن تار تار ہو جانے کے سا نحہ پر بھی غالب کی زندگی سے رغبت و انسیت میں رمق بھر بھی کمی نہیں آئی۔وہ نغمہ جانفزا چھیڑتا رہا۔بہاروں کا استقبال کر تا رہا۔ہنستا رہا ہنسا تا رہا۔بذلہ سنجی سے رزم و بزم کو زعفران زار کرتا رہا۔اپنے عہد کی نئی ایجا دات و اختراع کو سرا ہتا رہا۔سر سید کی کتاب پر تفریظ لکھنے سے پس و پیش کر تا رہا۔اس کی دانست میں ابولفضل کی آین اکبری میں وہ تب و تاب
اور چھب باقی نہیں رہی جو سو لھویں صدی میں تھی۔انیسویں صدی نئے سائنسی انکشافات اپنے جلو میں لئے چل رہی تھی۔غالب عصری حسیت کا جو یا تھا۔وہ نئے عہد نامہ کا زمزمہ خواں تھا۔وہ عہد عتیق کو قصہ پارینہ تصور کر تا تھا۔اس کا شعور زمینی حقیقتوں کا گرویدہ تھا۔وہ نئی روشنی کا عاشق تھا۔اس نے غدر کی ما تمی فضاوں میں امید و بیم کی روش اختیار کی تھی۔وہ نئی قوتوں کا سا تھ دے رہا تھا۔مرتے ہوئے دور کو الوداع کہہ رہا تھا۔قاسم جان گلی میں رہنے وا لے غالب کی فکر آفاقی ہو گئی تھی۔اس کی قوموں کے عروج و زوال پر گہری نظر تھی۔مغل تاریخ پر دستگاہ رکھتا تھا۔المناک منزلوں سے گزر جانے کے بعد بھی اسے زندگی کی قوس قزاح سے دلچسپی تھی۔اسی لئے اس کے کلام میں میر کی طرح یاسیت نہیں ملتی۔وہ آدھے گلاس میں پانی ہے کا قائل تھا۔وہ جرمن کے فلسفی شوپنہار کی طرح آدھا گلاس خالی ہے کا موئد نہیں تھا۔اس کے اندر طربناکی فطری تھی۔اس کی ہمہ جہت شخصیت غم و اندوہ کے ابر سیاہ سے ماورا تھی۔اس کے مزاج میں صبح نو کی تازگی اورحسین گلوں کی مہک تھی۔ہجر و وصال ،معاملہ بندی ،فلسفیانہ مو شگا فیوں ،صوفیانہ روموز و نکات ،عاشقانہ قلا بازیوں اور نشاط انگیزیوں کے پردے میں ہمیں مرگ ،اجل یا موت کا بیان بھی ملتا ہے۔غالب کے ہاں یہ ا حساس چپکے سے دبے پاوں چلا آتا ہے۔اس کے تذکرے سے قاری پر دہشت طاری نہیں ہوتی۔موت کی حقیقت کا لطیف سا احساس جاگ جا تا ہے۔اس کا یہ شعر ملا حظہ کیجیئے۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
پہلے شعر میں موت کے مقررہ وقت کا اعتراف ہے۔نیند نہیں آنے کا سبب کچھ اور ہے۔شاید معشوقہ سے جدائی بے خوابی کی ایک علت ہو سکتی ہے۔دوسرے شعر میں غالب زندگی کے اختتام ہی کو غموں سے چھٹکارہ کا حل ما نتے ہیں۔زندگی کے ہمراہ غم بھی رہے گا اور خوشی بھی۔دو نوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔وہ لازم و ملزوم ہیں۔ذیل کے شعروں میں غالب لفظ موت کے بجائے مرنے کا لفظ باندھ رہے ہیں۔دیکھئے۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہو تا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہو تا
غالب نے مصائب و آلام کو بلاوں سے تشبیہ دی ہے۔انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ اس انداز سے اظہار کیا ہے۔
ہوچکیں غالب بلا ئیں سب تمام
ایک مرگ نا گہانی اور ہے
مرگ نا گہانی کا جواب نہیں۔موت اچانک ہی نازل ہو جا تی ہے۔اس سچائی کو بڑی ہی خوبصورتی سے بیت کے سا نچے میں ڈھالا ہے۔ یہ غالب ہی کا اعجاز ہے۔غالب ایک سچے عاشق رہے ۔وہ اپنی محبوبہ پر جان چھڑکا کرتے تھے۔اس کی ایک اک ادا ،عشوہ طرا زیوں پر تن من دھن لٹا دینے کے لئے بے تاب و منتظر رہتے۔وہ رند شاہد باز رہے۔ان کی ہر سانس میں محبت کی خوشبو بسی رہی۔ہر لمحہ ان کا عاشقانہ و رندانہ رہا۔ایک عاشق صادق کے ارمان کی انتہا دیکھئے۔
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قا تل میں ہے
غالب اس پری پیکر کی سادہ دلی پر جاں نثار کرنے کمر بستہ ہیں۔یہ معراج عشق نہیں تو اور کیا ہے۔وہ دنیا کے سارے عاشقوں کے لئے امام عشق بن جا تے ہیں۔انسانی محبت کی بلندی کہیں اور ملنی محال ہے۔آگے چل کر وہ اقرار کرتے ہیں۔ان کا اقرار نامہ دلآویز ہے۔
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
ان کے لئے موت بے وفا ہو تی ہے۔وہ بس ان کی چاہت کا امتحان لیتی ہے۔اور تعارض نہیں کر تی۔ایک اور مقام پر غالب کچھ یوں گویا ہوئے ہیں۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے ائے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
غالب کو سب سے زیادہ متاثرکرنے والی صفت سادگی ہے۔وہ حسن و جمال کے ماسوا سادگی کا دیوانہ ہے۔وہ اسی ایک خصوصیت پرجان سے گزرجانا چاہتا ہے۔اسے غرور و تمکنت سے عار ہے۔غالب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی کے دکھوں کا علاج دوا میں ہے نہ مسیحائی میں مضمر ہے۔انہیں تو پناہ موت ہی میں ملے گی۔
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہو نے تک
جس طرح چراغ صبح تک جلتا ہے اسی انداز سے زندگی کا سفر بھی موت کی منزل ہی پر ختم ہو تا ہے۔کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔اس باب میں زندگی کے غموں کے ازالہ کے سب دعوئے جھوٹے اور پر فریب ہیں۔وہ سراب کے سوا کچھ نہیں۔غالب کے افکار میں تہہ داری پائی جا تی ہے۔وہ حیات و کا ئنات کی ٹھوس حقیقتوں کی ترجمانی کر تا ہے۔اس کا تبحر علم عمیق ہے۔اس کی انسانی نفسیات پر گرفت مضبوط ہے۔اس کا مشاہدہ گہرا اور تجربہ وسیع تر تھا۔اس کی عمرانی علوم سے و قفیعت مسلمہ تھی۔وہ نکتہ رس بھی تھا اور نکتہ داں بھی ۔وہ زندگی کے رموز کا بہترین شارح بھی تھا۔اسی لئے وہ ایک جگہ تعلی سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
غالب کے ہاں سب سے زیادہ اہمیت وفا داری و وابستگی کی ہے۔اسے وہ مقدم ما نتے ہیں۔اسے ایمانی جذبہ سے تعبیر کر تے ہیں۔ان کا یہ شہرہ آفاق شعر ملا حظہ کیجئے اور لطف اٹھا یئے۔
وفا داری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
غالب نے وحدت انسا نیت کا تصور پیش کیا ہے۔دیر و حرم کے بھید بھاو کو مٹانے کی سمت ایک مثبت قدم ہے۔اس پر آشوب دور میں ایسے اعلی و ارفع شہ پاروں کی ضرورت ہے۔غالب کے اشعار نفرتوں کے اندھیارے میں چراغ ہدایت کا کام انجام دیتے ہیں۔غالب کے خیالات ہمیشہ درخشاں رہیں گے۔
غالب کے موت یا مر جانے کے بیان میں فراریت کا پہلو نہیں ہے۔اس میں زندگی ک�ا فلسفہ جھلکتا ہے۔ہمارے جذباتی نشیب و فراز کاعکس ملتا ہے۔منفی انداز نہیں ملتا۔روشن زاویہ اجاگر ہو تا ہے۔شعور و آگہی کی گر ہیں کھلتی ہیں۔خرد کو جلا ملتی ہے۔زندگی قریب ہو جا تی ہے۔غالب نے موت کے چیلنج کو قبول کرتے ہو یئے ا یسے رنگارنگ مضامین شاعری میں روشناس کئے جن پر اس کے بعد کی نسلیں غورو فکر کرتی رہیں گی۔دیر تک سر دھنتی رہیں گی۔غالب کے پاس اجل یا موت کا تذکرہ مثبت قدر کی شکل میں ابھر تا ہے۔اسے دیکھ کر من کی آنکھیں کھل جا تی ہیں۔انسانی سوچ کامل ہو جا تی ہے۔زندگی بے ہنگم چیستاں نہیں لگتی۔خیالوں کی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔ہمیں گو ہر مقصود حاصل ہوتا ہے۔عرفان ذات کے دریچے کھل جا تے ہیں۔بہت سے معمے حل ہو جاتے ہیں۔غالب کی شاعری کا کینوس ہمہ گیر ہے۔اس نے بڑی جرات کے ساتھ موت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور شاعری کے دامن کو مالا مال کر دیا ہے۔اس نے روئے سخن کو موت کی جانب کرتے ہوئے راز درون میخانہ واشگاف کیا ہے۔اس کا سب سے بڑا کمال ہے کہ اس نے موت کے مو ضوع کو شجر ممنوعہ قرار نہیں دیا۔اسے بے باکی سے شعری قالب میں ڈھالا اور جاویداں کر دیا۔لوگ بے تکلفی سے اس کے شعر پڑھتے ہیں اور ان سے حذ اٹھا تے ہیں۔گردش وقت نے ان شعروں پر گرد نہیں ڈالی۔وہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں۔وہ لمحہ گریزاں نہیں۔ابدیت کے آبدار موتی ہیں۔ان کی معنویت باقی رہے گی۔غالب کے یہ اشعار کتابوں کے علاوہ ہزروں لاکھوں سخنوروں کے دلوں میں محفوظ ہیں۔غالب کا یہ شعر اس کی شاعرانہ عظمت و رفعت کا آئینہ دار ہے۔
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں نہ ہو رشک فارسی
گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
کلامِ غالب
Dr.Masood Jafri
Hyderabad – India