شاعرخلیج جناب جلیل نظامی کوفخرالمتغزلین کا خطاب

Share

Jaleel recieving Title

شاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو فخرالمتغزلین کا خطاب
گزرگاہِ خیال فورم کی دس رکنی بین الاقوامی جیوری

روداد نگار: ڈاکٹر فیصل حنیف
موبائل : +974 55225482
ای میل :

گزرگاہِ خیال فورم شاعرِخلیج محترم جلیل ؔنظامی کی شاعرانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرتی ہےاوربطور خاص اُن کی غزل گوئی کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے، اور بالاتّفاقِ آرا موصوف کو بتاریخ ١٠ ستمبر ٢٠١٥ بروز جمعرات بمقام لايتوال ہوٹل ، قطر ‘شامِ مرزا غالب’ کے موقع پر "فخرالمتغزلین” کے خطاب سے متّصف کرتی ہے-
عالمی شہرت یافتہ ادبی تنظیم گزرگاہِ خیال فورم نے ١٠ ستمبر ٢٠١٥ بروز جمعرات، لایتوال ہوٹل المطار قدیم، قطر میں "شام غالب” کے عنوان سے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا- گزرگاہِ خیال فورم ٢٠٠٩ سے ادبی منظر نامے پر متحرک ہے- ٢٠١٢ سے گزرگاہ خیال فورم نے غالب مذاکروں کی شروعات کی تھی جس کے تحت ہر ماہ تواتر سے غالب مذاکرہ ترتیب دیا جاتا ہے جس میں قطر کی معروف ادبی شخصیات شرکت فرماتی ہیں- اس خصوصی پروگرام کا اہتمام پچھلے تین برس میں فورم کے غالب کی پچاس غزلوں پر مباحثوں کی تکمیل کے حوالے سے کیا گیا تھا-

اس خصوصی نشست میں شاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو دس اراکین پر مشتمل بین الاقوامی جیوری کے فیصلے کے مطابق ‘فخر المتغزلین’ کے خطاب سے نوازا گیا- جیوری کے چئیرمین صدارتی ایوارڈ یافتہ اقبال اکیڈمی اسکینڈینیویا ڈنمارک کے بانی و چئیرمین اور ماہر اقبالیات جناب جی صابر ہیں- جیوری اراکین میں ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی (ہندوستان)، ڈاکٹر احمد ندیم رفیع (امریکہ)، علامہ اعجاز فرخ (ہندوستان)، ڈاکٹر فیصل حنیف (قطر)، جناب نصر ملک (ڈنمارک)، پروفیسر ناصر علی سید (پاکستان)، ڈاکٹر نور صوبرس خان (برطانیہ)، جناب شمس الغنی (پاکستان)، اور جناب سید عبد الحئی (قطر) شامل ہیں-
گزرگاہ خیال فورم کی مجلس انتظامیہ نے جیوری کے اراکین کا انتخاب چھے ممالک (ڈنمارک، ہندوستان، پاکستان، قطر، برطانیہ اور امریکہ) سے جیوری اراکین کے منفرد علمی اور ادبی مقام کو نظر میں رکھ کر کیا ہے- قطر سے باہر خاص طور پر ان ممتاز شخصیات کا انتخاب کیا گیا جو جناب جلیل نظامی سے ذاتی طور پر واقف نہیں تاکہ کسی قسم کی جانبداری کا شائبہ تک نہ ہو- جناب جلیل نظامی کی زیر طباعت کتاب ‘مور کے بازو کھلے’ کا مسودہ جیوری کے تمام اراکین کو ارسال کیا گیا اور ان سے ان کی آرا مانگی گئی- اس منظم، غیر جانبدار، اور شفاف طریقہ کار کو عمل میں لا کر جناب جلیل نظامی کو جیوری کے متفقہ فیصلے کے مطابق "فخرالمتغزلین” کے خطاب سے نوازا گیا-
جیوری کا تعارف و کلمات (اسمائے گرامی کے حروف تہجی کے اعتبار سے) پیش ہے:

Jury - Guzergah-e-Khayal

جناب جی صابر (ڈنمارک): جیوری کے چئیرمین جناب جی صابر ١٩٢٥ میں مراد آباد ہندوستان میں پیدا ہوئے- گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا- جگر مراد آبادی موصوف کے والد کے دوستوں میں سے تھے- جناب صابر صاحب کو جگر اور اس دور کے بڑے شعراء کو نجی محفلوں اور مشاعروں میں سننے اور ان سے ملنے کے ان گنت مواقع ملے- ١٩٤٠ کی دہائی میں جگر کی زبان سے سنا یہ شعر اکثر یاد کرتے ہیں:
زندگی آج بھی زندہ ہے انھی کے دم سے
حسن اک خواب سہی، عشق اک افسانہ سہی
جناب صابر صاحب ماہر اقبالیات اور اقبال اکیڈمی اسکینڈینیویا ڈنمارک کے بانی و چئیرمین ہیں- حال ہی میں اقبال پر تحقیقی کام کے صلے میں انھیں حکومت پاکستان کی جناب سے صدارتی ایوارڈ عطا کیا گیا ہے- پیشہ وارانہ طور پر ایئر لائن میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے- اردو اور انگریزی زبان میں چھے کتابوں کے مصنف ہیں- ان کی کتابوں کے ترجمے ڈینش اور فارسی زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں-
گزرگاہ خیال کے بانی و صدر ڈاکٹرفیصل حنیف کو لکھتے ہیں "میں نے جناب جلیل نظامی کی حیران کن شاعری جو آپ نے بھیجی تھی، پڑھی اور اس سے خوب حظ اٹھایا- جناب جلیل نظامی کے اشعار آپ کی زبانی سن کر بے حد لطف اندوز ہوا- "ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں ترا !” واہ واہ- ملک غزل میں جلیل چھپا رستم معلوم ہوتا ہے- "فخرالمتغزلین” کا خطاب اس کا حق ہے- ”
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی (ہندوستان) : ١٩٥٤کو ریاست اتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے- والد صاحب رحمت الٰہی برق اعظمی دبستان داغ دہلوی سے تعلق رکھتے تھے، اور خود بھی ایک باکمال استاد شاعر تھے- تعلیم شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ میں ہوئی. ١٩٧٧میں برقی اعظمی دہلی آئے . ١٩٨٤میں آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ فارسی سے منسلک ہوگئے- فارسی میں ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی- سردست برقی صاحب آل انڈیا ریڈیو میں شعبہ فارسی کے انچارج کے عہدے کو بھی بخوبی سنبھالا۔ بحیثیت مترجم اور اناؤنسر اپنے فرائض بخوبی انجام دیے۔ فی لحال آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے وظیفہ یاب ہوئے اور دہلی میں مقیم ہیں۔ اردو اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ غزل کہتے ہیں- فی البدیہہ اور موضوعاتی شاعری میں بھی آپ کو ملکہ حاصل ہے-
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی جناب جلیل نظامی کے خطاب کے بارے میں رقمطراز ہیں ” مجھے نامور شاعر جناب جلیل نظامی کو ‘فخرالمتغزلین’ کا خطاب عطا کرنے کے لیے بطور رکن جیوری دلی مسرت ہو رہی ہے- شاعر خلیج جلیل نظامی قطر میں اردو کے سفیر ہیں جن کی اردو زبان و ادب کے حوالے سے خدمات کا عرصہ ٤٠ سے کچھ اوپر ہے- بلاشبہ موصوف اس خطاب کے حقدار ہیں- میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ مجھے جیوری کے رکن کی حیثیت سے منتخب کیا گیا- میں نے جلیل نظامی کی کتاب کا مسودہ شعر بہ شعر پڑھا ہے جو شاعر کی قادر الکلامی اور استادی کا نا قابل تردید ثبوت ہے- جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے جناب جلیل نظامی کے لیے اس خطاب کو تجویز کر کے ایک قابل ستائش کام کیا ہے- ”
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع (امریکہ): امریکہ میں مقیم پیشے کے اعتبار سے طبیب ہیں- آسمان شاعری کے ماہ منیر، ڈاکٹر احمد ندیم رفیع ایک کہنہ مشق شاعر ہیں جن کی سخنوری کی شہرت ان کے اعلی صفت کلام کے میعار کی بدولت ہے- ان کے شعروں میں مٹھاس ایسی ہے کہ مصرع پڑھتے ہی منہ میں مصری کی ڈلیاں گھلنے لگتی ہیں-
ڈاکٹر رفیع لکھتے ہیں ” شکریہ آپ نے جلیل نظامی صاحب کا غیر مطبوعہ دیوان بھجوایا- میں نے پوری کتاب ایک دن میں پڑھ ڈالی- مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ جناب جلیل نظامی اردو زبان کے حالیہ ادب کے ممتاز ترین شعراء میں سے ایک ہیں- میں جناب جلیل نظامی کو ‘فخرالمتغزلین’ کے خطاب کا حقدار جانتا ہوں- یہ خطاب ان کے شاعرانہ قد کے لیے موزوں ترین ہے- جناب نظامی کو ان کی آنے والی کتاب پر بہت مبارکباد-”
علامہ اعجاز فرخ (ہندوستان): پیشے کے اعتبار سے سابق ہوا باز (پائلٹ) نابغۂ روزگار بزرگ شخصیت، صاحب طرز ادیب ، دانشور ، صحافی ، مورخ اور خطیب علامہ اعجاز فرخ اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے معاون صدر ہیں جن کا تعلق ہندوستان سے ہے- علامہ صاحب آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں- سابق صدر شعبہ اردو ‘حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی پروفیسر رحمت یوسف زئی کی زبانی علامہ اعجاز فرخ کا مختصر تعارف سنیے "علامہ اعجاز فرخ کی شخصیت ہمہ جہات کی حامل ہے۔ شعر و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا، ذاکری ان کا محبوب مشغلہ، ہوائی جہاز کو آسمانوں میں اڑانا ان کا سابق ذریعۂ معاش، تنظیمی امور میں بے پناہ مہارت ان کی خصوصیت، ایکسپورٹ ان کا ضمنی شغل،مختلف زبانوں اور بیشمار علوم و فنون پر ان کی دسترس …..کن کن باتوں کا ذکر کیا جائے …. یہ اور ایسے بے شمار گوشے ہیں جن میں اتمام حجت کا وسیلہ تلاش کرنا ہو تو علامہ اعجاز فرخ کی رائے سب سے زیادہ مدلل اور دل کو چھو لینے والی ہو گی۔ کئی سال گزرے …. شاید ١٩٦٢یا ١٩٦٣کی بات ہے جب میں نےاعجاز فرخ کو پہلی بار دیکھا۔ منڈی میر عالم کے قریب کسی حویلی کی دوسری منزل پر ایک مشاعرہ تھا جس میں میں نے بھی شرکت کی تھی۔ اس مشاعرے میں اگر کسی شاعر نے بے حساب داد بٹوری تو وہ اعجاز فرخ تھے۔ لہجہ استاد شعراء کا ہم پلہ، اسلوب نیا اور عصری حسیت سے معمور… اب یہ تو یاد نہیں کہ انھوں نے کون سی غزل سنائی تھی لیکن غزل کی چاشنی اور انداز غزل گوئی نے مجھے ایسا مسحور کیا تھا کہ آج تک ان کا اسیر ہوں۔ ”
علامہ صاحب جناب جلیل نظامی کی شاعری اور خطاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "غزل کے تعلق سے میں یہ کہوں کہ کمان ابرو خوباں کا بانکپن ہے غزل اور اس اعتبار سے غزل کی پوری نزاکتوں اور آب و تاب کے ساتھ نہ صرف یہ کہ غزل کو محسوس کیا جائے بلکہ غزل کہنے سے پہلے شاعر کا خود غزل مزاج ہونا ضروری ہے- اور غزل مزاجی کے یہ معنی نہیں کہ فقط محبوب سے گفتگو کرنے کا فن آتا ہو بلکہ غزل پھولوں کی گھٹڑی ہے، ریشم کا لچھا ہے، تاروں کی لڑی ہے، نسترن ہے، سمن ہے، جوہی ہے- شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب غزل کہنے پہ آمادہ ہو تو وہ اس کی مہک کو محسوس کرے، اس کے بدن کو محسوس کرے- جلیل نظامی کی شاعری ایسی ہے کہ ان کی پوری غزل کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کرنوں سے بنی ہوئی ہے- جہاں کوئی کرن چھو لیتی ہے، اندر سے رنگ اچھال دیتی ہے- ایسی شاعری اگر ہو تو اسی کو غزل کا پاسباں کہیے، اسی کو کمان ابرو خوباں کا بانکپن کہیے- دراصل جلیل نظامی نے علامتوں اور استعاروں سے اپنی غزل کو بوجھل نہیں کیا- ان کی غزل استعاروں اور علامتوں کی حمالی نہیں کرتی بلکہ خود اپنے آپ میں غزل اس لیے ہوتی ہے کہ وہ پرانے اوزار سے نئی غزل تراشتے ہیں- اس اعتبار سے ان کے لہجے کا بانکپن بھی ابھر کر سامنے آتا ہے اور غزل کا بدن خود بخود واضح ہو کر اپنی جلوہ فرمائی کرتا ہے- ایسے غزل کار کو فخرالمتغزلین کہیے-”
ڈاکٹر فیصل حنیف (قطر): پاکستان سے تعلق رکھنے والے، پیشہ وارانہ طور پر مالی اور اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر فیصل حنیف انگریزی اور اردو کے ادیب محقق،اور تنقید نگار ہیں جو پچھلی تین دہایوں سے قطر میں مقیم ہیں- ڈاکٹر حنیف نے کاروبار اور مینجمنٹ سے متعلق ماسٹرز اور معاشیات اور بینکاری میں پی ایچ ڈی بالترتیب جرمنی اور برطانیہ سے حاصل کی ہیں – ڈاکٹر حنیف، گزرگاہ خیال فورم کے بانی و صدر، اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ کے بانی و چئیرمین، قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزم اردو کے قطر کے چئیرمین، اور قطر میں پہلے اردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب گزرگاہ خیال ٹوسٹ ماسٹرز کے بانی صدر ہیں-
ڈاکٹر حنیف جناب جلیل نظامی کے باب میں لکھتے ہیں: "آج کے شاعری کے انحطاط کے دور میں جہاں ہزاروں شاعر اردو زبان کی گردن پر مشق ناز کر رہے ہیں اور زبان اور ادب کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں وہاں جلیل نظامی ایسے نابغۂ روزگار شاعر کی شاعری اہل ذوق و نظر کے لیے کسی نعمت اور کرامت سے کم نہیں- ان کا کلام سخن فہموں اور شاعر شناسوں کو چونکا دیتا ہے – ذوق شعر ان کی فطرت میں شامل ہے – شاعری میں انھیں مجروح سلطانپوری کی شاگردی کا شرف حاصل ہے – ایسا کامیاب شاگرد کہ استاد کو ان کی مہارت شعری پر ناز ہو- دبستان قطر میں اپنی طرز کے واحد شاعر ہیں جن کی شاعری میں کلاسیکی شاعری نے ایک نیا اور خوبصورت روپ دھار لیا ہے – اردو، فارسی اور عربی میں بے پناہ درک رکھنے والے اس دور کے چند شعراء میں جلیل نظامی کا نام بھی آتا ہے- ان کی شاعری قدیم انداز اور روایتی اسلوب لیے ہوئے ہے لیکن ان کا انداز بیاں اور طرز تحریر ایسا ہے کہ پڑھنے والے کو اچھی پرانی اور نئی شاعری کے سارے محاسن اس میں نظر آ جاتے ہیں- انداز بیاں اور انداز فکر ایسا کہ جو اساتذہ کی شاعری کا طرہ امتیاز تھا- الفاظ نگوں کی مانند یوں جڑتے ہیں کہ ایک ایک لفظ میں ایک ایک مضمون چھپا دکھائی دیتا ہے- جلیل نظامی کے ہاں اچھوتے مضامین، نرالی تشبیہات و تمثیلات اور نئے استعارے کثیر تعداد میں ہیں- استعارہ اور کنایہ سے جلیل نے وہ کام لیا ہے جو صرف اساتذہ کا خاصہ ہے- جلیل کے کلام کی ایک نمایاں خصوصیات تصویر کشی ہے- مصور قلم لے کر بیٹھے تو ایسی تصویر نہیں کھینچ سکتا جو انھوں نے الفاظ سے بنا ڈالی ہے- ایجاز و کمال بلاغت ایسی کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے- جلیل کے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جہاں ایک مصرعے میں معنی کی دنیا آباد ہے- – جلیل کے کلام میں معنی آفرینی اور نکتہ آفرینی بکثرت نظر آتی ہے- تراکیب کی جدت اور حسن، مضامین کی وسعت اور قدرت کلام، عمدہ تخیل، الفاظ کا چابکدستی سے استعمال جہاں حسن کلام جلیل میں اضافہ کرتا ہے وہاں ان کے حسن کلام میں گہرائی اور گیرائی دونوں کا ضامن ہے- ‘فخرالمتغزلین’ کے خطاب کے لیے جناب جلیل نظامی سے زیادہ مستحق کوئی ہو ہی نہیں سکتا-”
نصر ملک (ڈنمارک): نامور ادیب، شاعر، افسانہ نگار، محقق، مترجم، اور صحافی جناب نصر ملک ٤٣ برس سے ڈنمارک میں مقیم ہیں- کئی بین الاقوامی اخبارات سے بطور صحافی اور مدیر منسلک رہے- پچھلی کئی دہایوں سے ڈینش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اردو سروس کوپن ہیگن، ڈنمارک کے ایڈیٹر اور مدیر ہیں- عالمی شہرت یافتہ اردو جریدے ‘ہمعصر’ کے بانی اور مدیر اعلی ہیں-
جناب نصر ملک لکھتے ہیں "جلیل نظامی صاحب کے مجموعہ غزل کا مطالعہ کرنے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ موصوف کی شاعری اُن کے خیالات کی سنجیدگی، ذہنی ٹھہراؤ اور اُن کی عملی و ادبی شخصیت کے متوازن پن کا ٹھوس نمونہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جناب جلیل نظامی صاحب، اپنی سوچ و فکر کو شعر میں ڈھالتے ہوئے جس طرح الفاظ و زبان کا استعمال کرتے ہیں وہ صرف شعر کے حسن کو پُر اثر اور اثر انگیز بنا دیتا ہے بلکہ اس کے حسن کو بھی نکھار بخشتا ہے اور یہی کمال فن ہے ۔میری رائے میں جناب جلیل نظامی صاحب کی شاعری جو اُن کے مجموعہ غزل ‘مور کے بازو کھلے’ میں شامل ہے، اُسے سامنے رکھتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں ذرہ بھر بھی باک نہیں کہ جناب جلیل نظامی صاحب، جذبے کی شدت اور شائستگی کے شاعر ہیں اور جذبے کا سچا و کھرا اظہار اُن کا کمال فن ہے ۔ انہوں نے جس خیال کو موضوعِ شعر بنایا ہے اُسے رفعت عطا کی ہے اور بڑی فنکارانہ ہوشیاری سے اُس کی قدامت کو جدت میں بدل دیا ہے ۔ اُن کی شاعری کے زیر و بم میں روح عصر کی گونج اور کھرا پن صاف سنائی دیتا ہے ۔ اور یوں یہ شاعری منفرد، جمیل اور ماضی کی خبر دیتے ہوئے، حال کی نشاندھی کرتی ایک مستقبل گیر شاعری ہے یعنی سدا بہار۔ اپنے اِس لکھے کی بنیاد پر میں جناب جلیل نظامی صاحب کو اُس اعزاز کا مستحق سمجھتا اور قرار دیتا ہوں جس کا اعلان گرزگاہ خیال فورم کی جانب سے کیا گیا ہے ۔ میری طرف سے جناب جلیل نظامی صاحب کو یہ اعزاز مبارک ہو ۔”
پروفیسر ناصر علی سید(پاکستان) :
نامور ادیب اور شاعر، پروفیسر، ڈرامہ نگار، صحافی اور ہفتہ وار ادب سرائے کے مدیر پروفیسر ناصر علی سیدکا تعلق پاکستان سے ہے-
پروفیسر سید، جناب جلیل نظامی کے باب میں لکھتے ہیں: ” جب میں نے جلیل نظامی کے شعری منظر نامہ کو ان کی کئی ایک خوبصورت ،مکالمہ کرتی اور تغزل سے مملو غزلوں کے حوالے سے دیکھا تو مجھے یک گونہ مسرت ہوئی کہ ابھی عروسِ غزل کا چاند گہنایا نہیں ہے ۔تغزل کا جادو ابھی جواں ہے ،اب بھی غزل سے اپنی تنہائی کو مہکایا جا سکتا ہے ،بھلے سے فراز کہتا رہے کہ ’’ اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں ‘‘دیکھئے یہ جو بڑا تخلیق کار ہوتا ہے یہ اپنے زمانے میں رہتے ہوئے بھی کچھ ایسا ہنر دکھا جاتا ہے کہ بعد کے زمانے بھی اس کی گرفت میں آجاتے ہیں کوئی بھی ادب کب کلاسیک کا درجہ حاصل کرتا ہے اس کے لیے کوئی لگا بندھا اصول یا فارمولا نہیں ہے ۔ایسے میں مجھے بار بار غالب کا خیال آتا ہے کہ وہ ماڈرن ہے ،کلاسیکل ہے یا ان کے مابین رابطہ کا ایک ذریعہ ہے ۔ تب میں جلیل نظامی کو پڑھتا ہوں،مجھے اس کا شعر بھی روایت کے کینوس پر جدید لہجے اور جدید تر حسیات کی عمدہ تصویر لگتا ہے ، اسے فخرالمتغزلین کہیئے یا تاجدارِ تغزل کہیئے سب اچھے خطابات و القبات اس بے بدل شاعر پر جچتے ہیں۔”
ڈاکٹر نور صوبرس خان(برطانیہ): تاریخ دان، محقق، ادیب اور کیوریٹر ڈاکٹر نور صوبرس خان مشہور زمانہ کیمبرج یونیورسٹی کی تحصیل یافتہ ہیں جہاں سے انہوں نے اورینٹل سٹڈیز میں بی اے ( عربی اور فارسی ) اور تاریخ خلافت عثمانیہ میں پی ایچ ڈی حاصل کی ہے- ڈاکٹر خان لندن میں سینٹ میریز یونیورسٹی کالج اور کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ خلافت عثمانیہ ، صفوی اور مغلیہ خاندانوں کی سماجی اور ثقافتی تاریخ، الہیات، مملوکی اور سلجوقی تاریخ، اور جدید مشرق وسطی کی تاریخ کے موضوعات پر بطور لیکچرار منسلک رہی ہیں- فی الوقت ڈاکٹر خان برٹش لائبریری لندن میں ساؤتھ ایشیا کے لیے لیڈ کیوریٹر کے عہدے پر فائز ہیں-
ڈاکٹر خان جناب جلیل نظامی کے لیے ‘فخرالمتغزلین’ کے خطاب کو منظور کرتے ہوئے لکھتی ہیں ” جناب جلیل نظامی کی شاعری فارسی اور اردو کے شاعرانہ منظر نامے کی لفظی تصویر اور منظر کشی کی روایت اور زبان کے بیچ ایک مضبوط ربط کا ثبوت ہے- ان کی شاعری میں فلسفہ ہے جو فصاحت لیے ہوئے حق و باطل کے موضوعات کو شاعرانہ طرز پر پیش کرتا ہے اور ایک کہنہ مشق شاعر کی داخلی و خارجی، اور ذہنی و جذباتی کیفیات سے بھرپور طریقے سے روشناس کرواتا ہے- میں نے جناب جلیل نظامی کی کتاب کا مسودہ بغور پڑھا اور خوب لطف اٹھایا- یہ واقعی ایک بڑی کامیابی ہے”-
شمس الغنی (پاکستان) :
پاکستان سے تعلق رکھنے والے جناب شمس الغنی ایک مستند و معتبر شاعر کی حیثیت سے اردو دنیا میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کے دو مجموعۂ کلام ’’سانپوں کا نگر‘‘ اور ’’کوفۂ سخن‘‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ آپ کی پیدائش ۱۹۴۳ میں ہندوستان کے شہر بدایوں میں ہوئی ۔آپ نے اعلیٰ تعلیم کی متعدد اسناد حاصل کیں اور بینکر کی حیثیت سے مختلف اداروں سے وابستہ رہے۔ اردو شاعری کے علاوہ آپ نے اردو کے پانچ بڑے شعراکے تقریباً سات سو اشعار کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ نیز معاشیات اور مالیات پر آپ کے تین سو سے زیادہ مضامین معروف انگریزی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔
جناب شمس الغنی لکھتے ہیں: "میرے ذہن میں جناب جلیل نظامی کی شاعری کا عکس ایسا بن رہا تھا جس کا تعلق روایت سے جڑتا دکھائی دیتا ہے- عجب مشکل آن پڑی تھی کہ روایت اور جدیدیت کے بیچ جلیل نظامی کا مقام کیا ہے اور کہاں ہے- یہ تفرقہ یکبارگی مٹ گیا جب میری نظر سے جلیل کا یہ شعر گزرا-
ہم جلیل ایسے میں شاہکار غزل کیا کہتے
عقل غالب کی طرفدار ہے، دل میر کے ساتھ
بس پھر کیا تھا، میرے تخیل کے طاق کھل گئے اور میں نے جلیل کے کلام کو نئی فکر و نظر سے دیکھنا شروع کیا- اب میں واضح طور پر جلیل کی شاعری میں میر کا حزن و ملال اور الفاظ کے استعمال میں غیر معمولی سلاست اور استادانہ چابکدستی دیکھ سکتا تھا- غالب کے فلسفیانہ خیالات، جمالیات، جائز تعلی، محبوب سے راز و نیاز کا بیان، اور رقیبوں سے حجت جلیل کی شاعری میں ملتی ہے- ہاں مگر جلیل کو دنیاوی مراعات کم حاصل رہی- جلیل نے اصولوں کا سودا نہیں کیا- اپنی شاعری پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا، اور اپنے دشمنوں کے باب میں کبھی درمیانہ اور منافقانہ رویہ نہ اپنایا-
میں پرزور انداز میں جلیل کی شاعری میں میر اور غالب کا اتباع دیکھتا ہوں- لیکن کسی طور اس کا یہ مطلب نہیں کہ جلیل نے آنکھیں بند کر کے اساتذہ کی تقلید کی- اس کے برعکس، جلیل نے اپنے انتہائی منفرد انداز اور رنگ کو قایم رکھا- جلیل کے مضامین اور اس کا تخیل اس کا اپنا ہے، اور وہ وہ ان مضامین کو تخیل بنا کر شعر میں ڈھالنے کے فن میں ماہر ہے- مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جلیل نظامی کی غزل روایت اور جدیدیت کے درمیان ایک مضبوط اور قابل اعتماد کڑی ہے- یہ کڑی نہ صرف دو مختلف ادوار کو آپس میں جوڑتی ہے بلکہ ایک مثبت، صحتمندانہ اور بامعنی مفاہمت اور مطابقت کے در وا کرتی ہے- جلیل نظامی اپنے شعر کے حوالے سے ‘فخرالمتغزلین’ کے خطاب کے مکمل حقدار ہیں- ”
سید عبد الحئی (قطر) :
خلیج اور بالخصوص قطر کے ادبی منظر نامے پر ہندوستان سے تعلق رکھنے والے جناب سید عبد الحئی ایک اہم نام ہیں- ٥٧ برس سے قطر میں مقیم جناب سید عبد الحئی ایک تاجر اور ادب نواز اور سماجی شخصیت ہیں جن کی اردو زبان کے حوالے سے خدمات کو بیان کرنے کے لیے حفیظ جالندھری کے ‘نصف صدی’ کے قصے کو مزید طول دینا پڑے گا، کیونکہ قطر میں اردو زبان و ادب کی ترقی اور ترویج میں جناب سید عبد الحئی کا جو حصہ ہے وہ ساٹھ برس کا قصہ ہے دو چار برس ، دس بیس برس ، تیس چالیس برس ، یہانتک کہ نصف صدی کا قصہ بھی نہیں- موصوف قطر میں آئیڈیل انڈین سکول کے بانی رکن، بزم اردو قطر کے سینئر سر پرست، آئی سی سی ٹوسٹ ماسٹرز کے صدر، کرناٹکا مسلم کلچرل ایسو سی ایشن کے سابق صدر انڈو قطر اردو مرکز کے اور گزرگاہ خیال اردو ٹوسٹ ماسٹرز کے نائب صدر ہونے کے علاوہ کئی کاروباری، سماجی اور ادبی تنظیموں کے رکن اور سرپرست ہیں-
جناب سید عبد الحئی جناب جلیل نظامی کے باب میں رقمطراز ہیں کہ "جلیل نظامی کو خطاب دینے کے لیے اس جیوری میں شمولیت میرے لیے اعزاز کی بات ہے- میں جلیل نظامی کو ‘فخرالمتغزلین’ کا خطاب دینے کی بھرپور تائید کرتا ہوں- جلیل بلاشہ اس کا مستحق ہے-”
گزرگاہِ خیال فورم کی ‘شام غالب’ کی اس خصوصی نشست میں انڈیا اردو سوسایٹی کے بانی، شاعر خلیج جناب جلیل نظامی اوربزم اردو قطر کے سرپرست اعلی، قطر کی معروف سماجی شخصیت اور تاجر جناب عظیم عبّاس نے بطور مہمان اعزازی، لایتوال ہوٹل کے جنرل مینجر جناب مرزا عمران بیگ اور انڈیا اردو سوسایٹی کے صدر جناب عتیق انظر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی- یہ شام بزم اردو قطر کے سینئر سرپرست جناب سید عبد الحی کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس کی نظامت بزم اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے کی-
شاعر خلیج فخرالمتغزلین جناب جلیل نظامی کی ایک غزل سن لیجیے-
شام بے کیف سہی ،شام ہے ڈھل جائے گی
دن بھی نکلے گا ،طبیعت بھی سنبھل جائے گی
اس قدر تیز ہے دل میں مرے امید کی لو
نا امیدی مرے پاس آئی تو جل جائے گی
نرم شانوں پہ نہ بکھراو گھنیری زلفیں
ان گھٹاؤں سے شب تار دہل جائے گی
مست آنکھوں کے دریچوں سے نہ جھانکا کیجے
جام ٹکرائیں گے ،میخواروں میں چل جائے گی
بن سنور کر مجھے سمجھانے نہ آو ، ورنہ
پھر تمنائے دل زار مچل جائے گی
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی
اتنا سج دھج کے عیادت کو نہ آیا کیجے
ورنہ کچھ سوچ کے یہ جان نکل جائے گی
کیوں پریشاں ہو شب ہجر کی آمد پہ جلیل
گردش وقت ہے ،آج آئی ہے کل جائے گی

faisal
روداد نگار: ڈاکٹر فیصل حنیف
بانی و صدر، گزرگاہِ خیال فورم
دوحہ ، قطر

Share

۲ thoughts on “شاعرخلیج جناب جلیل نظامی کوفخرالمتغزلین کا خطاب”

Comments are closed.

Share
Share