کتاب : قطب شاہی دور میں اردوغزل
مصنف : پروفیسرمحمدعلی اثر
ؔ
مبصر: پروفیسرمحمد نسیم الدین فریس
شعبہ اردو‘ مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی۔ حیدرآباد
بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد دکنی تہذیب وثقافت ‘ دکنی زبان اور شعر وادب کی سرپرستی وترقی میں بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت اور اس کی معاصر گولکنڈے کی قطب شاہی سلطنت کا برابر حصہ رہا ہے ۔ دونوں علاقوں کے شعرااور نثر نگاروں نے دکنی ادب کو اپنے فکر وفن سے مالا مال کیا ۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ دونوں مراکز کے فنکار وں کے یہاں بنیادی شعری رجحانات اور موضوعات سخن میں گہری مماثلت کے باوجود ان شعرا کی زبان اور اسالیب میں واضح فرق نظرآتا ہے ۔ بیجاپور کے شعرا کی زبان پر مرہٹی اور سنسکرت تت سم اور تد بھو الفاظ کا اثر گہرا ہے جو کہ گولکنڈے کی زبان فارسی کے اثرات لیے ہوئے ہیں ۔ فارسی کے اثرات کا لازمی اور فطری نتیجہ یہ نکلا کہ گولکنڈے کی دکنی زبان بیجاپور کی دکنی کے مقابلے میں زیادہ نفیس اور سلیس ہوگئی ۔ اس میں نزاکت اور لطافت کا عنصربڑھ گیا جو غزل کے ڈکشن کے لیے ضروری ہے ۔ اس تناظر میں جب ہم غزل کے حوالے سے گولکنڈے اوربیجاپور کا تقابل کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دبستان بیجاپورمیں ہرچند کہ متعدد غزل گوشعرا گزرے ہیں لیکن اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ کا تعلق دبستان گولکنڈے سے ہے ۔علاوہ ازیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حسن شوقی ‘ سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہی اور نصرتی دکنی غزل کے اساتذہ سخن ہیں لیکن ان میں کوئی غزل کے میدان میں سلطان محمد قلی قطب شاہ یا غواصی کے مرتبے کو نہیں پہنچتا۔ اس کا ایک اہم سبب شائد یہی ہے کہ غزل کے لیے زبان میں شیرینی ‘ شگفتگی اور لوچ کی ضرورت ہوتی ہے وہ دبستان گولکنڈہ کی دکنی میں فارسی کے زیر اثر بدرجہ اتم موجود تھی جس نے قطب شاہی غزل کو سنوارا اور نکھارا اور اسے عادل شاہی غزل کے مقابلے میں زیادہ پرکشش بنادیا ۔
دکنی ادب کے مطالے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شعری اصناف میں من حیث المجموع دکنی میں مثنوی کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ لیکن غزل کے حوالے سے دبستان گولکنڈے کا امتیازی وصف ہے کہ یہاں کے شعرا کو مثنوی کے ساتھ ساتھ غزل کی بھی اہمیت کا احساس تھا جس کا اظہار ابن نشاطی نے اس طرح کیا ہے
غزل کا مرتبہ گرچہ اول ہے
ولے ہر بیت میرا ایک غزل ہے
غزل کی فضیلت اور اہمیت کا ایسا کوئی اشارہ ہمیں دبستان بیجاپور کے شعرا کے یہاں نہیں ملتا ۔ اسے ہم دونوں دبستانوں کے ادبی ماحول ‘ ادبی روایات اور شعرا کے مزاج وافتاد کے تفاوت سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔ خلاصہ بیان یہ ہے کہ قطب شاہی غزل اپنی ہم عصرعادل شاہی غزل سے کئی جہتوں سے منفرد اور مختلف ہے جس کے بہ تفحص مطالعے سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں
پیش نظر کتاب ’’ قطب شاہی دور میں اردو غزل ‘‘ میں دبستان گولکنڈہ کی غزل کو تحقیق و تنقید کا موضوع بنا یا گیا ہے ۔ کتاب کے مصنف پروفیسر محمد علی اثرہیں جن کی شخصیت اور علمی وادبی خدمات کا تعارف کرانا ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھلانا۔ پروفیسر محمد علی اثر نے دکنیات کے میدان میں اتنا اور ایسا کام کیا ہے کہ اب دکنیات ان کی شناخت اور وہ دکنیات کی پہچان بن گئے ہیں ۔ دکنی شعر وادب کی تحقیق وتلاش اور تفہیم تحسین سے متعلق تا حال ان کی (37) کتا بیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ پیش نظر کتاب دکنیات کے سلسلے میں ان کی 38ویں تصنیف ہے ۔ اس سے قبل انہوں نے ’’عادل شاہی دور میں اردو غزل ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جو کرناٹک اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام 2012میں شائع ہوئی تھی ۔ اس میں انہوں نے دبستان بیجاپور میں دکنی غزل کے آغاز وارتقا کا نہایت تفصیلی اور تحقیقی جائزہ لیا ہے ۔ پیش نظر کتاب ’’قطب شاہی دور میں اردو غزل ‘‘ معنوی اعتبار سے اول الذکر کتاب کا تسلسل ہے جس میں انہوں نے دبستان گولکنڈہ میں اردو غزل کی روایت کا نہایت شرح وبسط کے ساتھ احاطہ کیا ہے ۔ یہ کتاب (5)ابواب کو محتوی ہے پہلے باب کا عنوان ’’اردو غزل قطب شاہی عہد سے پہلے ‘‘ ہے اس باب میں فاضل مصنف نے غزل کے مفہوم کی لغوی اور اصلاحی تشریح کی ہے ، اس صنف کے ماخذ پر روشنی ڈالی ہے ، اس کی تکنیک اور فنی لوازم کی وضاحت کی ہے ۔پھر دکنی زبان میں اس صنف کے آغاز کا تعین کیا ہے ۔ دکنی میں صنف غزل کے اولین ارتسامات بہمنی دور سے ملنے لگتے ہیں جو عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں کی پیشرو تھی ۔ فاضل مصنف نے بہمنی عہد سے تعلق رکھنے والے غزل گو شعرا مشتاق ‘ لطفی ‘ فیروز‘ قریشی ‘ حافظ ‘ جعفر ‘ گستاخ اور فدائی کے سوانحی حالات اور ان کی غزلیات کا اجمالی تعارف کرایا ہے ۔
دوسرے باب کا عنوان قطب شاہی دور کا تاریخی ‘ سماجی اور تہذیبی منظر نامہ ہے ۔ یہ اس کتاب کا پس منظری باب ہے ۔اس میں گولکنڈے میں قطب شاہی سلطنت کی تاسیس واستحکام پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بانی سلطنت سلطان قلی سے لے کر قطب شاہی خاندان کے آخری فرمانروا سلطان ابوالحسن تا نا شاہ تک تمام قطب شاہی سلاطین کے عہد حکومت کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے ۔ قطب شاہی سلاطین کی داد ادہش ‘ علمی قدر دانی ‘ ارباب کمال کی فیاضانہ سرپرستی اور ان کے عہد میں علوم وفنون کے شیوع وفروغ ونیز ان کی تہذیبی و ثقافتی خدمات کو نہایت جامع انداز میں اجاگر کیا گیا ہے ۔ یہ باب گولکنڈے میں دکنی غزل کی داغ بیل ‘ اس کی روایت کے ارتقا اور اس کے عروج کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید وممد سماجی اور تہذیبی سیاق فراہم کرتا ہے ۔
کتاب کا تیسرا باب قطب شاہی دور کے اولین غزل گو شعرا ہے ۔ اس باب کے تحت دبستان گولکنڈہ کے اولین غزل گوشعراکوموضوع بحث بنا یا گیا ہے جن میں فیروز‘ ملا خیالی ‘ سید محمود اور شیخ احمد گجراتی شامل ہیں ۔ فیروز اصلاً بیدرکا رہنے والا تھا ۔ وہ بیدر کے مشہور صوفی بزرگ شیخ ابراہیم مخدوم جی کا مرید تھا ۔ قطب شاہی سلطنت کے چوتھے حکمران ابراہیم قطب شاہ نے شیخ ابراہیم مخدوم جی سے گولکنڈہ آنے کی درخواست کی تھی ۔ مخدوم جی نے اپنے بجائے فیروز کو گولکنڈہ روانہ کیا ۔ اسی طرح سید محمود کا تعلق پنجاب سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس نے دکنی کے علاوہ پنجابی زبان میں اور پنجابی زبان کی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے ۔ شیخ احمد گجراتی کا تعلق گجرات سے تھا جو مغلوں کے ہاتھوں گجرات کی تباہی کے بعد ابراہیم قطب شاہ کی دعوت پر گولکنڈہ آیا ۔ ایک ملا خیالی کو چھوڑ کر باقی تینوں شاعروں کا تعلق گولکنڈہ سے نہیں تھا ۔ اس تفصیل سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ دبستان گولکنڈہ میں صنف غزل نقش گری میں کن کن بیرونی عناصر کی ’’دستکاری‘‘ شامل رہی ہے اور کن کن عوامل نے دکنی شاعری کے چمنستان میں غزل کا گل کھلانے میں فعال کردار ادا کیا ہے ۔
کتاب کا چوتھا باب ’’ قطب شاہی غزل کا عہد عروج ‘‘ ہے اس میں فاضل مصنف نے قطب شاہی دور کے پانچ اہم غزل گو شعرا کا تعارف اور ان کی غزل گوئی کی امتیازی خصوصیات پر تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ اس عہد کو ایک طرح سے قطب شاہی غزل کا عہد عروج کہا جاسکتا ہے اس میں جن پانچ شعرا کو موضوع بحث بنایا گیا ہے ان میں ملا وجہی ‘ سلطان محمد قلی قطب شاہ ‘ ملا غواصی ‘ سلطان عبداللہ قطب شاہ اور صوفی شاعر شاہ سلطان ثانی شامل ہیں ۔
پروفیسرمحمد علی اثرنے ہرشاعرکے دستیاب حالات زندگی کو تا بحدارمکان بہ ا تمام وکمال پیش کیا ہے اوراس سلسلے میں جدید ترین تحقیقی مواد سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔ انہوں نے اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ اگر کسی شاعر کی بعض نئی غزلیں دریافت ہوئی ہوں تو ان نو دریافت غزلوں کے محقق کے نام کی نشاندہی کریں جیسے ملا وجہی کی نو دریافت غزلوں کے بارے میں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ سخاوت مرزا نے اور اکبر الدین صدیقی نے اس کی چھے غزلیں دریافت کی ہیں ۔ اس طرح اس کی کل سولہ غزلیں ہیں ۔ خود اثر صاحب نے دیوانِ غواصی کے واحد قلمی نسخے (مخزونہ OML & RC . Hyd )سے غواصی کی اڑتیس غیر مطبوعہ غزلیں تلاش کرکے شائع کی ہیں جو کلیات غواصی (مرتبہ محمد بن عمر ) میں شامل نہیں ہیں اسی طرح سلطان عبداللہ قطب شاہ کی غزلوں کی تعداد کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بعض محققین (پروفیسر سیدہ جعفر اور بدیع حسینی ) کے تسامحات کی نشاندہی کی ہے اور بتایا ہے کہ دیوان عبداللہ قطب شاہ (مرتبہ سید محمد ) میں ستانوے غزلیں تھیں ۔ بعد میں مشہور ماہر دکنیات سخاوت مرزا نے اس کی ایک اور غزل دریافت کی اس کے علاوہ ایک اور غزل کتب خانہ ادارہ ادبیات اردو کی ایک قلمی بیاض میں درج ہے ۔ اس طرح سلطان عبداللہ قطب شاہ کی غزلوں کی کل تعداد ننانوے ہو جاتی ہے ۔
ملک الشعرا غواصی پروفیسرمحمد علی اثر کا محبوب دکنی شاعر ہے ۔ اس پر انہوں نے ایم اے کا تحقیقی مقالہ لکھا تھا جو بعد کو غواصی فن اور شخصیت کے زیر عنوان شائع ہوا ۔ بعد میں بھی انہوں نے غواصی پر تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے بارے میں نئے حقائق کا انکشاف کیا ۔ مثلاً انہوں نے بتا یا کہ اس کا اصل نام عبداللطیف ہے ۔ڈاکٹر زور اور دیگر محقیقین نے غواصی کے مرشد کا نام شاہ ابوالحسن چشتی حیدر ثانی(حیدر آبادی ) بتایا تھا لیکن اثر صاحب نے ثابت کیا کہ غواصی کے مرشد میراں شاہ حیدر ولی اللہ قادری (بیدری ) تھے ۔انہوں نے غواصی کا بیعت المصافحہ بھی دریافت کیا اور اس کی روشنی میں ثابت کیا کہ غواصی اصلاً بیدر کا باشندہ تھا بعد میں وہ گولکنڈہ چلا آیا ۔ غواصی عبداللہ قطب شاہ کے دربار سے وابستہ تھا ۔ اثر صاحب نے غواصی اور عبداللہ قطب شاہ کے دیوان کا تقابل کرکے یہ دکھایا کہ غواصی کی اکتیس غزلیں بعض لفظوں کے تغیر اور تخلص کے اختلاف کے ساتھ عبداللہ قطب شاہ کے دیوان میں پائی جاتی ہیں ۔
اثر صاحب نے یہ معلومات بھی فراہم کی ہیں کہ اب تک کس کس محقق نے غواصی پر ڈاکٹریٹ کا سندی مقالہ قلمبند کیا ہے ۔
فاضل مصنف نے قطب شاہی عہد کے ہر شاعر کی غزل گوئی کا تنقیدی تجزیہ کیا ہے اور اس کی غزل کے اہم موضوعات اور اس کی زبان وبیان کے محاسن پر روشنی ڈالی ہے ۔ انہوں نے ہر شاعر کی انفرادیت کو بھی نشان زد کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جیسے وجہی کی غزل کی امتیازی خصوصیات اجاگر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
’’ وجہی کی غزل کا سب سے نمایاں وصف پاکیزگئ کلام اوراعتدال پسندی ہے جو ہوا و ہوس بلکہ ہر طرح کی سستی جذباتیت سے پاک ہے ۔اس میں ایک سلیقہ رکھ رکھاؤاور ضبط و احتیاط کی کیفیت محسوس ہوتی ہے ‘‘ ( ص 37)
اسی طرح سلطان محمد قلی قطب شاہ کی غزل کے امتیازات واضح کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں :
محمد قلی کے کلام میں سوز وگداز ہے اور نہ فکر کی گہرائی ‘ درد وغم کی فراوانی ہے اور نہ نشتریت ۔ اس نے اپنی زندگی کی بہاریں عیش ونشاط اور راگ رنگ میں گذار ی۔ اس کے کلام میں رنگینی ورعنائی ہے تازگی اور شگفتگی ہے ۔سیرابی وسرمستی ہے غرض آسودگی کے تمام روپ اس کی غزلوں میں جلوہ گر ہیں۔‘‘ (ص85)
غزل میں غواصی کے امتیازی رنگ کی شناخت انہوں نے اس طرح کی ہے :’’جو چیز غواصی کو قدیم اردو کے شعرا میں منفرد مقام بخشی ہے اور اردو کے صف اول کے شعرا ء میں لا کھڑا کرتی ہے ۔وہ تاثر کی فراوانی ‘ سوز وگداز‘ نغمگی وموسقی اور شعریت ہے ۔‘‘ (ص 119 )
فا ضل مصنف نے قطب شاہی دورکے بعض شاعروں کی غزلیات کے اشعارکا بعد کے دور کے شاعروں مثلاً ولی ‘ میر‘ غالب ‘ جگروغیرہ کے ہم مضمون وہم مفہوم اشعار سے تقابل بھی کیا ہے ۔اس کے لیے جیسی دقیق النظری ‘ وسعت مطالعہ ‘ قوت حافظہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے ۔ اثر صاحب نے قطب شاہی دور کے شعرا اور بعد کے دور کے اساتذہ کے اشعار کا جس طر ح تقابل کیا ہے وہ ان کی امعانِ نظر اور ذہین مستحضر کا ثبوت ہے چند مثالیں دیکھئے ۔
سلطان محمد قلی :
بن سیر تمن ساری کلیاں سوک رہی ہیں
ٹک آ کے کرو گشت چمن جی اٹھے سارا
فانی : بدلا ہوا تھا رنگ گلوں کا ترے بغیر
کچھ خاک سی اڑی ہوئی سارے چمن میں تھی
فیض : گلوں میں رنگ بھرے با د نو بہار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کارو بار چلے
غواصی : سخن پروراں یک تے یک ہیں زیاد
ولے ہور ہے مجھ زباں کا سواد
غالب : ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب ؔ کا ہے انداز بیاں اور
سلطان عبداللہ ملک عشق کا بھا ر ڈھوئیں سکیا ہے
قطب شاہ : میں انسان عاشق ہو یو بھا ر اٹھا یا
میر ؔ : سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
شاہ سلطان ثانی بھی دکنی کے ایک اہم صاحب دیوان شاعر تھے ۔ ان کے وطن کے بارے میں دکنی محقیقین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر زور اور مولوی نصیرالدین ہاشمی انھیں گولکنڈے کا شاعر قرار دیتے ہے لیکن اس کے علی الرغم مولوی سخاوت مرزا اور افسرصدیقی انہیں دبستان بیجاپور کا سخنور مانتے ہیں ۔ پرو فیسر محمد علی اثر نے ڈاکٹر زور اور نصیر الدین ہاشمی کے موقف کو قبول کیا ہے ۔ وہ شاہ سلطان ثانی کو گولکنڈے کا شاعر مانتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ شاہ سلطان ثانی کی زبان و بیان اور متخیلہ کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ان کا تعلق دبستان بیجاپور سے نہیں بلکہ قدیم شعر وادب کے دوسرے اہم مرکز گولکنڈے سے تھا جہاں ان کے متعددمعتقد اور مرید موجود تھے چنانچہ گولکنڈے کے شاعر افضل نے اپنی مثنوی ’’ محی الدین نامہ ‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے ۔ اثر صاحب نے یہ معلومات بھی فراہم کی ہیں کہ ڈاکٹر رضیہ صدیقی نے ’’دیوان سلطان کی تنقیدی تدوین ‘‘کرکے عثمانیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی لیکن ان کا یہ تحقیقی کام ہنوز غیر مطبوعہ ہے
فاضل مصنف نے شاہ سلطان ثانی کے دیوان کے بارہ خطی نسخوں کی نشاندہی کی ہے جن میں آٹھ حیدر آباد میں ہیں باقی ملک اور بیرون ملک کے دیگر کتب خانوں کی زینت ہیں ۔ان میں بعض نا مکمل بھی ہیں مجھے یقین ہے کہ دیوان سلطان کے اتنے قلمی نسخوں کا علم خود ڈاکٹر رضیہ صدیقی کو بھی نہیں رہا ہوگا ۔ شاہ سلطان کا سارا کلام تصوف وعرفان کے مسائل اور حقیقت معرفت کے اسرار وغوامص سے مملو ہے ۔ اثر صاحب کا خیال ہے کہ ضخامت کے اعتبار سے شاہ سلطان کا دیوان سلطان محمد قلی قطب شاہ کے دیوان کے بعد دکنی کا سب سے ضخیم دیوان ہے انہوں نے شاہ سلطان کی غزلیات کا نہ صرف فکری وفنی محاکمہ کیا ہے بلکہ یہ بھی دکھایا ہے کہ انہوں نے وجہی ‘ غواصی ‘ مشتاق ‘ احمد ‘ حسن شوقی اور علی عادل شاہ شاہی کی زمینوں میں غزلیں کہی ہیں ۔
پیش نظر کتاب کے آخری باب کی سرخی ’’قطب شاہی دور کے دیگر متغزلین ‘‘ ہے اس کے تحت فاضل مصنف نے سالک ‘ خدانما ‘ ملا خیالی ‘ ابن نشاطی ‘ طبعی ‘ تانا شاہ‘ عطائی ‘ احمد گجراتی کی غزلوں کو معرض بحث لایا ہے ۔ ان میں جن شاعروں کی غزلیں نودریافت یا نایاب کی حیثیت رکھتی ہیں انہوں نے ان کا مکمل متن دے دیا ہے تاکہ طلباء ریسرچ اسکالروں اور اساتذہ کو ان کے متن تک رسائی میں دقت نہ ہو ۔ اس ضمن انہوں نے سالک کی چھے ‘ تانا شاہ کی دو ‘ عطائ کی ایک اور میراں جی خدانما کی دو غزلوں کا مکمل متن پیش کیا ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ غزلیں کس محقق نے دریافت کی ہیں ۔ مثلاً انہوں نے یہ بتایا کہ سالک کی تین غزلیں ‘ سخاوت مرزا نے اور تین غزلیں اکبر الدین صدیقی نے دریافت کیں ۔ عطائی کی غزل ڈاکٹر جمال شریف نے مبارز الدین رفعت کی مملوکہ قلمی بیاض سے لے کر اپنے ڈاکٹر یٹ کے مقالے ، دکنی میں اردو شاعری ولی سے پہلے میں شامل کی ۔
پروفیسرمحمد علی اثرنے اس کتاب میں قطب شاہی دور میں اردوغزل کی روایت اس کی ابتدا اوراس کے نشوونما وارتقا کا بھرپورجائزہ لیا ہے ۔ انہوں نے تازہ ترین تحقیق کی روشنی میں سابقہ تحقتق کے تسامحات کی نہایت سلیقے سے نشاندہی اور تصیح کی ہے ۔ انہوں نے معتبر ماخذوں تک رسائی حاصل کرکے قطب شاہی عہد کے شعراکی غزلیات کے تجزیے اور ان کی تعین قدر میں زبردست تنقیدی ژرف بینی ، نکتہ رسی اور فکر ونظر کی پختگی وبالیدگی کا ثبوت دیا ہے اثر صاحب کی دکنیات شناسی کے متعلق مزید کچھ کہنا محض تکرار لا حاصل ہے اس لیے ’’ اک مرے خامہ تمت با لخیر ‘‘ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں لیکن ا س سے قبل اس کتاب کی اشاعت پر استاد محترم پروفیسر محمد علی اثر صاحب کو دل کی اتھاہ گہرائی سے ہدیہ تبریک وتہنیت پیش کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ اس کتاب کو علمی وادبی حلقوں میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوگی ۔اس کتاب کو ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے جس کی قیمت 225روپئے ہے یہ کتاب ہاؤس نمبر 20-4-226/ 9 محبوب چوک ، حیدرآباد500002تلنگانہ اسٹیٹ ۔ سل نمبر 9848740484سے حاصل کی جاسکتی ہے –
Prof.Md Naseem Uddin Farees
Dept of Urdu , MANUU
Gachi Bowli , Hyderabad- India