مسجد قلعہ کہنہ، دہلی ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی

Share

masjid qila kuhna

aziz

مسجد قلعہ کہنہ، دہلی
Masjid Qila Kuhna, Delhi
(دہلی کے پرانے قلعے کی مسجد )

ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی ورنگل
09866971375

دہلی کے پرانے قلعے میں ایک خوبصورت مسجد موجود ہے جس کو’’ مسجد قلعہ کہنہ ‘‘کہا جاتا ہے اس مسجد کو1541 ء میں شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ تعمیری اعتبار سے کافی دلکش مسجد ہے جس کا طریقہ تعمیر مغل طرز سے جداگانہ ہے، دہلی اور آگرہ کی بیشتر عمارتوں اور مساجد کے مقابلے یہ مسجد تعمیری لحاظ سے علیحدہ و منفرد نظر آتی ہے۔ اس لحاظ سے ہم اس مسجد کو مغلوں کی تعمیراتی سرحد سے آگے کی مسجد اور مغل دور سے قبل کی بہترین تعمیر قرار دے سکتے ہیں، بلکہ ماہرین تعمیر بتاتے ہیں کہ یہ عمارت دور لودھی کی تعمیری تہذیب سے ارتقا پاتی ہوئی اس دائرے میں داخل ہوتی ہے جہاں سے مغلوں کی تعمیری روایتوں کا آغاز ہوتا ہے۔

پرانے قلعہ کی یہ مسجد تقریباً 15میٹر چوڑی اور ساڑھے اکیاون میٹر لمبی ہے اس میں تقریباً 800 تا 1000افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ اس مسجد میں جملہ پانچ دروازے ہیں ہر دروازہ اپنے طور پر مسجد کے خوبصورت اور عالی شان ہال میں کھلتا ہے ، ہر دروازے پر خوبصورت اور اونچی کمان بنی ہوئی ہے، درمیانی دروازے پر سنگ سرخ سے بنی بڑے ایوان جیسی ساخت موجود ہے جس میں بھی گھوڑے کی نعل جیسی ساخت رکھنے والی ایک کمان بنی ہوئی ہے اس طرح دیکھنے پر یہ کمان اصل دیوار میں بنے راستے کے اوپر ایک سائبان جیسی نظر آتی ہے کیونکہ یہ دیوار سے بیرونی جانب نکلی ہوئی ہے اور اس سائبان نما ساخت کی دیواریں مشرقی دیوار کی مکمل اونچائی کے آدھے حصے تک پہنچتی ہیں جو لال اور سفید ستونوں پر ٹکی ہوئی ہیں اور یہی سائبان جیسی مشرقی دیوار سے کسی قدر باہر کی جانب نکلی ہوئی ساخت عمارت کے حسن کو دوبالا کرتی ہے ، درمیانی کمان کے اوپر سفید سنگ مرمر کی پانچ پلیٹیں لگی ہیں جن میں قیمتی پتھر جڑے ہیں، ان پلیٹوں کے اوپر جھروکا ہے جس کے اطراف سفید مرمر میں لال رنگ کے پتھروں کی منبت کاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ، سنگ مرمر کی پلیٹیں عموداً بھی موجود ہیں،دوسری کمانوں کی طرح ان پر بھی لاجورد کی مرصع کاری موجود ہے، درمیانی کمان کے اطراف سفید اور کالے سنگ مرمر میں مٹیالے رنگ کے اور دوسرے قیمتی پتھروں جیسے لاجورد، شنگرف وغیرہ کو جڑ کر خوبصورتی پیدا کی گئی ہے، ایوان کے کناروں پر سفید اور لال رنگ کے گول ستون بنے ہوئے ہیں جو اوپر تک پہنچ کر چھوٹے میناروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ دروازے کے دونوں بازوؤں میں سفید سنگ مرمر پر عربی رسم الخط میں کچھ تحریر موجود ہے جس کو کالے اور لال رنگ کے بارڈر سے سجایا گیا ہے ، سفید سنگ مرمر کے اوپر لال پتھر میں بھی عربی آیات کی منبت کاری کا بہترین کام موجود ہیں،مسجد کی دیواروں کے اوپر پتھر میں ابھارے گئے پھول اور دوسرے پتوں کے نقوش کاریگروں کی محنت اور مہارت کا ثبوت ہیں، یہ تمام خوبصورت اور نازک کام اس دروازے کے حسن کو بڑھاتے ہیں ۔درمیانی دروازے کے اوپر ایک جھروکہ نماروشن دان بنا ہوا ہے جو دیواری دروازے اور اس سائبانی کمان کے تقریباً درمیان میں واقع ہے اس روشن دان کو نچلے حصے میں چار براکٹس سہارا دئے ہوئے ہیں، راجستھانی انداز کے ایسے ہی جھروکے مسجد کے پیچھے تین عدد موجود ہیں اور جانبی دیواروں میں بھی یہی جھروکے ایک ،ایک تعداد میں موجود ہیں ،یہ جھروکے مسجد کے تعمیری حسن میں ایک وقار پیدا کرتے ہیں، ان جھروکوں میں لال ، سفید اور نیلے خزفی بارڈرلگے ہوئے ہیں ،مسجد کے پچھلی جانب یعنی مغربی دیوار کے پچھلے حصے میں اصل محراب کسی قدر پچھلی جانب نکلا ہوا ہے یا دوسرے الفاظ میں گنبد کا پچھلا حصہ پچھلی دیوار سے کسی قدر بیرونی جانب نکلا ہوا ہے اس کے دونوں کناروں پر تقریباً گول اور بتدریج مخروطی ہوتی مینار نما ساخت بنی ہوئی ہے جس کے اوپری حصے میں چھوٹی مینار ہے جو حفٖاظتی دیوار سے کسی قدر اونچی ہے ،اس ساخت پر چھوٹی چھتری نما ساخت موجودہے۔ مسجد کے شمال مغربی اور جنوب مغربی کونوں پر تین درجوں میں مینار جیسی ساخت بنی ہوئی ہے اس میں ہر منزل پر تین تین طاقچے بنے ہوئے ہیں ، اور ہر منزل کے چھجے کو تقریباً گیارہ گیارہ براکٹس سہارا دی ہوئی ہیں ،یہ مینار چھت سے اونچی نہیں جاتی بلکہ اس کا راسی حصہ خود چھت میں تبدیل ہوجاتا ہے جس پر حفاظتی دیوار کے کنگورے بنے ہوئے ہیں۔ درمیانی دروازے کا ایوان نما حصہ مسجد کی مکمل اونچائی تک پہنچتا ہے بلکہ مسجد کی اصل چھت سے بھی قدرے بلند ہوجاتا ہے اسی حصے کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مینار نما ساختیں بنی ہوئی ہیں۔ان دو مینار جیسی ساختوں کے نیچے کے درمیان میں کنگورے بنے ہوئے ہیں جو حفٖاظتی دیوار کے طور پر کام انجام دیتے ہیں ایسی ہی کنگورے والی حفاظتی دیوار ساری مسجد کے اوپری حصے میں موجود ہیں ، اسی درمیانی ایوان نما ساخت کے اوپر ایک بڑے سائز کی، رومی طرز کی خوبصورت گنبد بنی ہوئی ہے جس پر دو دائروی کلس بنا ہوا ہے۔ اس مسجد میں صرف ایک ہی گنبد ہے جو اس میں انوکھا حسن پیدا کرتی ہے، سامنے کے حصے میں درمیانی دروازے کے دونوں بازو مزید دو دروازے ہیں یہ دروازے بھی درمیانی دروازے کی طرح گھوڑے کی نعل جیسی ساخت رکھتے ہیں ان دروازوں پر بھی اسی طرح کی سائبانی ساخت بنی ہوئی ہے لیکن درمیانی دروازے کی مانند زیادہ فاصلے تک باہر نہیں نکلتی بلکہ اصل دیوار کی بیرونی سطح سے کسی قدر باہر نکلتی ہے ،جبکہ ان دروازوں کے دونوں بازو کسی قدر چھوٹے دروازے بنے ہوئے ہیں جن پر ایسی کوئی ساخت موجود نہیں ہے لیکن ان کے کمان کی ساخت بھی گھوڑے کی نعل ہے ان چھوٹے دروازوں پر بھی دیوار میں اینٹوں سے ابھاری گئی کمان موجود ہے جس کی اونچائی دوسری کمان سے کسی قدر زیادہ ہے ، مشرقی دیوار کے دونوں جانب بنی ہوئی اس کمان اور اس کے اوپر بنائی گئی کمان کے تقریباً درمیان میں جدا گانہ انداز کی روشن دان بنی ہوئی ہے ۔ مشرقی دیوار یعنی مسجد کے سامنے کے حصے کی دیوار کے دونوں کناروں پر بھی چھوٹے مینار بنے ہے اس طرح مسجد کے سامنے حصے سے چار چھوٹے چھوٹے مینار دکھائی دیتے ہیں ۔ مسجد کے شمال اور جنوبی جانب کی دیواروں میں بھی ایک ایک دروازہ لگا ہوا ہے ،جو اس جانب کی بیرونی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہے ۔
قلعہ کہنہ کی مسجد کااندرونی حسن بالخصوص درمیانی اصل محراب قابل دید ہے ،محراب پر بھی گھوڑے کی نعل جیسی ساخت رکھنے والی تقریباً تین کمانیں بنی ہوئی ہیں جس پر الٹے کنگورے بنے ہوئے ہیں ،اطراف میں سنگ مرمر کے سفید منقوش ستون ہیں دیواروں پر لاجورد اور شنگرف کی مرصع کاری ہے،محراب کی کمان کے اوپر کالے رنگ کے پتھر کو لگا کر اس کے حسن کو اور بڑھایا گیا ہے،ان کالے مرمر کے پتھروں میں سفید مرمر کے مربع پلیٹوں کو لگایا گیاہے، محراب کی نیم دائروی چھت پر پانچ سرخ رنگ کے شنگرف کے حاشیے ہیں جو محراب کے حسن میں عجیب جاذبیت پیدا کرتے ہیں محراب کے اطراف سفید اور سرخی مائل سنگ مرمر کا مستطیل نمافریم بنا ہوا ہے جس پر عربی آیات کندہ ہیں۔ مسجد کے اندر دوہری کمانیں بنی ہوئی ہیں، مسجد کے اندر روشنی کا بہترین انتظام ہے ، روشنی گنبد میں بنے روشن دانوں سے بھی چھن چھن کر اندر آتی ہے ، مغربی دیوار یعنی قبلے کی دیوار پر پانچ محراب بنے ہوئے ہیں جس میں درمیانی محراب ہی امام کے لئے استعمال کیا جاتا تھا ، یہ مسجد بادشاہ وقت کے درباریوں کے لئے بنائی گئی تھی جس میں شاہی خاندان کے لئے حفاظتی اقدامات کی خاطر جھروکے بنائے گئے تھے جہاں وہ نماز ادا کرتے تھے ، قلعے میں رہائش پذیرخواتین کے لئے بھی مسجد کے اوپری حصے میں نماز ادا کرنے کی سہولت تھی، اوپری جانب تک جانے کے لئے موجود سیڑھیاں قدرے تنگ ہیں۔وضو کے لئے کبھی یہاں ایک بڑا حوض اور خوشنمائی کے لئے یہاں ایک فوارہ بنا ہوا تھا جس کا اب صرف نشان موجود ہے ،پانی کی ہموار سربراہی کے لئے ایک گہری باؤلی بھی کھدوائی گئی تھی ، فی الحال حکومت کے قبضے میں ہونے کے باعث یہاں پنجوقتہ نماز بھی ادا نہیں کی جاتی۔ مسجد کے اندر سنگ مرمر کے ایک کتبے پر لکھی عبارت کا مفہوم قابل غور ہے کہ ’’ جب تک زمین پر افراد ہیں اس وقت تک ان افراد میں کوئی نہ کوئی اس عظیم عمارت میں مستقل وقفے سے آتے جاتے رہیں گے اور یہاں پہنچ کر خوشگوار مسرت محسوس کریں گے‘‘ ۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ قدیم دارالخلافہ شہر دِلّی ، دریائے جمنا کے کنارے واقع نہیں تھا بلکہ کچھ دور تھا ، اس شہر کو ویران کرکے شیر شاہ سوریؔ نے جمنا کے کنارے شہر آباد کیا اور حکم دیا کہ ایک قلعہ اور ایک مسجد اس انداز سے بنائے جائیں جو مضبوطی میں پہاڑ اور بلندی میں ثریا سے اونچے ہوں ‘‘ شیر شاہ نے پوری کوشش کی اور بہت حد تک کامیاب بھی رہا ، کیونکہ قلعہ اور مسجد بلندی میں ثریا کے مماثل نہ سہی مضبوطی میں پہاڑ جیسے ضرور ہیں، شیر شاہ نے ، جامع مسجد (یعنی مسجد قلعہ کہنہ) کی تعمیر میں دل کھول کر پیسہ خرچ کیا خصوصاً اس کی نقاشی میں سونا، لاجورد اور شنگرف( یعنی گندھک اور پارے کا آمیزہ جو سرخ رنگ کا ہوتا ہے) وغیرہ لگایا گیا ۔ان آرائشی اشیاء کی مرصع سازی کثیر لاگت مانگتی ہے لیکن شیر شاہ سوریؔ کا خواہش اور ارمانوں سے بنایا قلعہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔پرانے قلعہ میں اس نے جامع مسجد کے علاوہ شیر منڈل بھی تعمیر کیا۔پرانا قلعہ فتح کرنے کے بعد یہ شیر منڈل ہمایوںؔ کا کتب خانہ ہوا کرتا تھا ، نماز کے لئے اترتے ہوئے اسی دومنزلہ عمارت کی سیڑھیوں سے گرکر ہمایوں ؔ زخمی ہوا تھا اور اسی حادثہ نے اس کی جان بھی لے لی تھی،پرانے قلعہ کی سب سے زیادہ قابل دید عمارت جامع مسجد ہے جس کو آج’’ مسجد کہنہ‘‘ کہا جاتا ہے ، آج بھی اس مسجد کے منقش درو دیوار دیکھنے کے قابل ہیں ، اب یہاں سونا وغیرہ تو نہیں ہے لیکن لاجواب مرصع کاری کی ہنر مندیاں آج بھی نظر آجاتی ہیں۔

Share
Share
Share