نیرج : معاشرہ شکن رومانی گیت نگار ۔ ۔ احمد سہیل

Share
Neeraj
گیت نگارنیرج
ahmed soh
احمد سہیل

نیرج : معاشرہ شکن رومانی گیت نگار

احمد سہیل

نیرج کا پورا نام ” گوپال داس سکسینہ” نیرج ھے۔ وہ اتر پردیش کے چھوٹے سے گاؤں ” اکدل” ( اٹاوا) میں 4 ، جنوری 1924 میں پیدا ھوئے ۔بنیادی طورپرہندی کے شاعر ہیں ایک زمانے میں ہندی کوی سمیلن میں ان کی دھوم ہوا کرتی تھی۔ ان کی شاعری عام فہم ہے اوراسےعام آدمی بھی آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ 2007 میں انھیں پدما بھوش کا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ علی گڑھ میں ہندی ادب کے پرفیسررہے۔ 2012 میں نیرج منگالاٹن (MANGALAYATAN) یونیورسٹی، علی گڑھ، یوپی کے چانسلر بھی رہے۔ نیرج نے ایک ٹیلی ویژن کے ایک مصاحبے میں کہا تھا کہ ” وہ بدقسمت شاعرہیں کہ انھوں نے فلموں میں گیت لکھنا بند کردیا”۔اوربھراپنی شاعری کی اشاعت پرزیادہ توجہ دی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ایس ڈی برمن اور شنکر جے کشن جیسے موسیقاروں کے انتقال کرجانے کے بعد ان کی فلمی گیتوں کے لکھنے میں دلچسپی کم ہوگئی۔ کیونکہ ان دونوں موسیقاروں کی موسیقی کی بدولت ہی نیرج کے گیت ہندوستان اور پاکستان کے کونے کونے میں گونج اٹھے۔ اوروہ مایوسی کے ساتھ فلمی دینا سے کنارہ کش ھوگئے۔

نیرج ہندی کے شاعرہری ونش راے بچن کے دوست تھے اوران کی شاعری سے وہ متاثر بھی رہے۔ نیرج کو1941 میں ہری ونش راے بچن نے بحیثت ایک ” کوی” (شاعر) کے ادبی دینا میں متعارف کروایا۔ وہ 1960 میں فلمی دینا میں بحیثت گیت نگار داخل ہوئے۔ انھیں ہمیشہ اپنی شاعری کو چھپوانے کا زیادہ شوق رہا۔ ان کی شاعری انگریزی میں بھی ترجمہ ھوچکی ھے۔ نیرج کے گیتوں میں رومانی فضا کا تناسب زیادہ ھے۔ اگر ان کی شاعری کو توجہ اورگہرائی سے پڑھا اورسنا جائے تو یہ معلوم ھوتا ھےکہ ان کی شاعری معاشرہ شکن، مذھبی علحیدگی کے خلاف ایک رومانی بغاوت ہے۔ نیرج کی شاعری اورفلمی گیتوں نے ہندی زبان کو نئی سادگی اور آہنگ عطا کیا۔ ان کا خیال ہے کہ ” ہر آدمی شاعر ہے جب وہ عشق کرتا ہے "۔ وہ خالص ہندی میں گیت لکھا کرتے تھے۔ نیرج اپنی ہندی شاعری اور گیتوں میں اردو کی آمیزش کے سخت مخالف تھے ۔ حالانکہ وہ اپنی شاعری اور گیتوں میں اردو کے الفاظ خوب استعمال کرتے تھے۔۔۔ جیسے ” کاروان، غبار، زندگی، اشک، عمر، شباب، گل، کمال خمار، زلف، مزار ، مقام، گلزار، اقرار، الفت، جہاں ، آشیاں اوردل وغیرہ جیسے الفاظ کو اپنی شاعری اورگیتوں میں شامل کئے۔ وہ ساحرلدھیانوی کی اردو شاعری کو پسند کرتے تھے اوراس سے متاثر بھی تھے۔ ان کے چند مشہور فلمی گانے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں:
* لکھے جو خط تجھے یو تیری یاد میں ( کنیا دان)
* اے بھائی زرا دیکھ کے چلو ( میرا نام جوکر)
* دھیرے سے جانا کھٹین میں (چھپا رستم)
* جیوں کی بگیا کھیلے گی( تیرے میرے سپنے)
* میں نے قسم لی ( تیرے میرے سپنے)
* میگھا چھائے آدھی رات ( شرمیلی)
* او، میری شرمیلی، شرمیلی آؤ نا ( شرمیلی)
* پھولوں کے رنگ سے، دل کے قلم سے ( پریم پجاری)
* رنگیلا رے، میرے من میں ( پریم پجاری)
* کاروان گزر گیا غبار دیکھتے رہے ( نئی عمر کی نئی فصل)
* آج مدھوش ہوا جائے ری میرا من ( شرمیلی)
* کھلتے ہیں گل یہاں گل سے بچھٹرنے کو ( شرمیلی)
* ایک مسافر ہوں میں ایک مسافر ہے تو ( گناہ)
*گیت گاتا ھوں میں ( لال پتھر)
تو سے نیناں لاگے رے، لاگے رے (پتنگا)
ان کے ہندی شعری مجموعوں میں ۔۔”پران گیت، ڈرا دیا ہے، سنگرش، بادل برس گیا، اسوادی، نیرج کی پنی، نیرج گیتی کاہن، دو گیت، ندی کنارے، مکتی، گیت گیت، نیرج کی رتنا اولی، انتروانی، بادلوں سے سلام لیتا ہوں، گیت جو گایا نہیں ۔۔۔ بہت معروف ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نیرج کا لکھا ایک گیت ملاحظہ ہو جس میں انہوں نے اردوالفاظ کا بہ کثرت استعمال کیا ہے۔ (ج۔ا)

Share

One thought on “نیرج : معاشرہ شکن رومانی گیت نگار ۔ ۔ احمد سہیل”

Comments are closed.

Share
Share