کتاب :روشنی کے اندھیرے (افسانوی مجموعہ)
مصنف:سلیم اقبال
موظف لیکچرار۔ محبوب نگر
مبصر: ڈاکٹرعزیزسہیل ، لیکچرار
ایم وی ایس ڈگری کالج ۔ محبوب نگر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بیسویں صدی کے اوئل میں پروان چڑھی نثری اصناف میں افسانہ نگاری کو کافی مقبولیت و اہمیت حاصل ہے۔افسانہ کو مختصر کہانی بھی کہا جاتا ہے۔دراصل افسانہ کا تعلق اردو ادب کے افسانوی ادب سے ہے افسانوی ادب میں ،افسانہ،داستان اور ناول جیسی اصناف مقبول عام ہیں۔افسانہ نگاری کا فن ترقی پسندتحریک کی ایجاد ہے ترقی پسندوں نے افسانہ نگاری کو خوب فروغ دیا۔اردو کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں سجاد حیدر،منشی پریم چند،سجاد ظہیر،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،سعادت حسین منٹو اور عصمت چغتائی و دیگرکے نام لیے جاتے ہیں۔ افسانہ کا فن اور اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے سلام بن رزاق رقمطراز ہیں۔
’’میرے نزدیک ایک عمدہ افسانے کی تعریف یہی ہے کہ جسے پڑھنے کے بعد قاری وہ نہ رہے جو پڑھنے سے قبل تھا۔ایک اچھا شعر ،عمدہ افسانہ،ایک بلند پایہ ناول ہمیں مسرت وانبساط کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کی تہذیب کرتا ہے اور ہماری پراگندہ سوچ کے دھارے کو زندگی کے بیکراں سمندر سے جوڑ دیتا ہے۔نیز جس کے مطالعہ کے بعد زندگی ہمیں زیادہ بامعنی اور بامقصد لگنے لگتی ہے اگر افسانہ اس کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا تو پھر وہ افسانہ نہیں محض الفاظ کا ڈھیر ہے۔‘‘(فکر و تحقیق،نیا افسانہ نمبر،اکٹوبر 2013)
افسانے کے فن سے متعلق سلام بن رزاق کے اس خیال کے بعد محبوب نگر تلنگانہ کے ایک افسانہ نگار سلیم اقبال کے افسانوں کے مجموعہ پر نظر ڈالتے ہیں جس میں کم و بیش اس طرح کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ سلیم اقبال کا شمار عصرحاضر کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے فن کی بدولت اپنا مقام بنایا ہے۔سلیم اقبال ایک لمبے عرصہ سے افسانے لکھ رہے ہیں لیکن ’’روشنی کے اندھیرے‘‘ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو2015میں منظرعام پر آیا ہے۔جس کے ناشرالانصار پبلی کیشنز حیدر آبادہیں۔ان کا پہلا افسانہ’’سر کی بینا تال کی آواز‘‘1968ء ماہنامہ شاعر ممبئی سے شائع ہوا تھا۔سلیم اقبال کے افسانوں میں افسانہ نگاری کے فنی لوازم جیسے پلا ٹ،کردار، مکالمہ،تکنیک ،منظر نگاری ،زبان و بیان، اسلوب کا استعمال بہت ہی خوب پایا جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے افسانے، افسانہ نگاری کے فنی خطوط پر رقم کئے ہیں تب ہی توڈاکٹر طارق سعید نے شاعر کے افسانہ نمبر میں ’’سلام بن رزاق سے ابن کنول تک جدید افسانہ نگاروں کی فہرست میں سلیم اقبال کا نام بھی لیا ہے۔دراصل ان کے یہ افسانے محض وقت گزاری کیلئے نہیں لکھے گئے بلکہ ان افسانوں کو وجود بخشنے کیلئے مصنف کے پیش نظر معاشرے کی اصلاح رہی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں 12افسانے اور 12افسانچے شامل ہیں جن کے عنوان اسطرح ہیں۔خوشبو ایک چندن کی،ہیرا موتی،روشنی کے اندھیرے،سر کی بینا تال کی آواز،گرد جمی کتاب،طوفان کے بعد،روپا،دومنٹ کی ایک کہانی،تم،ایک دوسرا راستہ،شکست، کرچی کرچی آئینہ۔
اس افسانوی مجموعہ کا پیش لفظ ڈاکٹرشیخ سیادت علی انسپکٹنگ اٹھاریٹی مولانا آزاد ایجوکشنل فاونڈیشن (جنوبی ہند) نے رقم کیا ہےاوراظہارخیال کرتے ہوئے لکھا ہے’’جہاں تک زیر نظر سلیم اقبال کے افسانوں کا مجموعہ ’’روشنی کے اندھیرے‘‘ کا تعلق ہے ان کے افسانوں کے کردار ہمیں مانوس اور جانے پہچانے لگتے ہیں۔اجنبیت کا قطعی احساس نہیں ہوتا سلیم اقبال معاشرے میں آئے دن رونما ہونے والے ناانصافیوں ،ناہمواریوں اور حق تلفی پراپنے قلم سے نشترزنی کرتے ہیں۔ انہیں لفظوں کو موتیوں میں پرونے کا فن آتا ہے ان کے اکژ کہانیاں ذہنی سچائی اورحقیقت پسندی کی تصویر لگتی ہیں۔(ص۶)
’’ایک قاری کے تاثرات ‘‘کے عنوان سے عبدا لمقیت سابق جوائنٹ رجسٹرارکوآپریٹیو کی تقریظ شامل ہے۔ جس میں انہوں نے سلیم اقبال کے افسانہ نگاری کی ابتدا اور ارتقائی مراحل کو پیش کیاہے۔’’کچھ اپنے بارے میں‘‘کے عنوان سے مصنف نے اپنے پہلے افسانہ کا تذکرہ کرتے ہئے لکھا ہے’’1968ء کی بات ہے میں نے اپنا پہلا افسانہ ’سر کی بینا تال کی آواز‘‘کے عنوان سے لکھا اور اسے ماہنامہ شاعر (ممبئی) کے لئے بھیج دیا میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اعجاز صدیقی مرحوم (ایڈیٹرشاعر) نے میرے نام جوابی خط لکھا اور میرے افسانے کو بہت سراہا اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا نیز قریبی اشاعت میں اس کو شائع کرنے کا وعدہ فرمایا‘‘۔(ص22)
زیر تبصرہ کتاب کا پہلا افسانہ ’’خوشبو ایک چندن کی‘‘ ہے جس میں پروفیسر ڈانگے کا اہم کردار ہے جس کا نظریہ ہے کہ پیارکا جذبہ ایک دھوکہ ایک فریب ہےاور وہ کسی عورت کا سایہ بھی پسند نہیں کرتا ہےعورت کے ہر روپ سے اس کو نفرت ہے۔ایک اقتباس دیکھیں جس سے افسانہ نگار کے فن پر روشنی پڑتی ہیں۔
’’بیس برس پہلے کے وہ دن سلوچنا کو یاد آئے ۔وہ دن بھی یاد آیا جب ڈانگے کسی بھپرے ہوئے شیر کی طرح’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘کے عنوان کا مخالف حریف بنا تقریرکررہا تھا۔اس کی ہیبت ناک روانی اور گرجدارآوازسارے ہال میں ایک عجیب سی پراسرارخاموشی پھیلا گئی تھی۔‘‘(ص32)
اس افسانے میں سلیم اقبال نے ایک عورت کی خصوصیات صبر،امید اور آخر میں کامیابی کو بڑے ہی خوبصورت ،افسانوی انداز و بہتر اسلوب میں پیش کیا ہے جو قاری کو نصحیت کا سامان مہیا کرتا ہے۔زیر تبصرہ کتاب میں پہلے افسانے کی طرح دیگر افسانے بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں جن کے مطالعہ سے قاری کو تفریح کا سامان بھی مہیا ہوتا ہے سات ہی وہ زندگی کی حقیقت ،اتار چڑھاؤ ،سماجی ناہمواریو ں کے خلاف نشتر زنی سے بھی خوب واقف ہوتا ہے۔
اس کتاب میں شامل ایک افسانچے کو یہاں نقل کیا جارہا ہے جس سے سلیم اقبال کی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ ہو۔
کاش
’’فجر کی نماز کا وقت ہوا چاہتا تھا۔۔میں تیز تیز قدموں سے مسجد کی جانب رواں دواں تھا۔مسجد کے قرب دیکھا کہ نمازیوں کا ایک ہجوم سا ہے۔اجلتی پرنور صبح میں گول گول سفید ٹوپیاں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔۔۔۔اللہ کے بندے۔۔ْ!اندھیرے سے اجالے کی طرف۔۔۔مجھے مولانا کی تقریر یاد آئی۔جو وہ رات دیر گئے اس مسجد میں بولتے رہے تھے۔شائد یہ انہیں کی نصیحت امیز باتوں کا اثر تھا۔ ورنہ اتنی ٹوپیاں۔۔! لیکن جب میں مسجد کے اندر داخل ہواتھا تو دیکھا۔وہاں ایک جنازہ رکھا ہے اور مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کے یہ لوگ فجر کی نماز کے لیے نہیں‘جنازے کی نماز پڑھنے جمع تھے۔۔وضو خانے کی طرف بڑھنے لگا تو میرے اندر سے درد میں ڈوبی ایک آواز آئی۔۔۔۔کاش ۔۔۔کاش۔۔۔۔!!!(ص107)
سلیم اقبال نے محنت شاقہ سے اپنے پہلے افسانوی مجموعہ کو فنی لوازم کے ساتھ آراستہ کیا ہے ان کا یہ احسا س بھی سامنے آیا کہ ان کے اکثر لکھے افسانے ’’ڈھونڈنے پر بھی نہیں مل پائے‘‘ جو ملے ہیں وہ اد ب میں ان کے مقام و مرتبہ کو متعین کرنے کیلئے کافی ہیں ۔یہاں یہ بات کہناچاہتاہوں کہ اتنی بھی لا پرواہی اچھی نہیں کہ ادیب اپنے فن پاروں کی حفاظت تک نہ کرسکے؟بہر حال جو افسانے بھی اسی مجموعہ میں شامل وہ میعاری اور افسانے کے فن پر کھرے اترتے ہیں۔ایک کمی جو اس مجموعہ میں محسوس کی گئی وہ ہے جملوں کی غلطیاں، جس کو اکثر لوگ پروف ریڈنگ کی غلطیاں کہتے ہیں۔اس پر مصنف کو توجہہ دی جانی چاہئیے ۔
سلیم اقبال کو میں اس افسانوی مجموعہ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اوران سے خواہش ہے کہ وہ اپنے لکھنے کے عمل کو جاری رکھیں تاکہ اردو دنیا میں مزید افسانوں کے مجموعوں کو پیش کرتے رہیں ۔اور قاری ان کے افسانوں سے لطف اندوزہوں اور اصلاح کے کام آئیں۔اس افسانوی مجموعہ کی قیمت 100روپئے رکھی گئی ہے جو مصنف کے مکان 3-2-29محلہ مدینہ مسجد محبوب نگر509001 ،یا فون نمبر09949471645 پر ربط پیدا کرتے ہوئے ۔یا۔ الانصار پبلی کیشنز حیدرآباد سے بھی حاصل جاسکتا ہے۔
Dr.Azeez Suhail
mobile: 09299655396