تب کہیں جاکے کوئی تاج محل بنتا ہے ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ

Share

ALLAMA AIJAZ FARRUKH SAHAB

تب کہیں جاکے کوئی تاج محل بنتا ہے

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :

نوٹ : عشق ‘ ایک پاکیزہ جذبہ کا نام ہے جو نہ صرف زندگی کو روشن کرتا ہے بلکہ اسے سجانے ‘سنوارنے اور نکھارنے میں اعانت کرتا ہے۔ یہی عشق ہماری آخرت کوبھی سنوارتاہے۔آپ نے عشق کی بے شمارداستانوں کا مطالعہ کیا ہوگااور آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ عشق ‘ کبھی بھی کسی مذہب ‘ زبان ‘علاقہ اور طبقہ کی جاگیر نہیں رہا۔ آج ایک ایسے عاشق کی کہانی پیش خدمت ہے ‘جس کا نام شاہجہاں ہے جو آگرہ کا نہیں تلنگانہ کے ایک قصبہ کا رہنے والا ہے۔جس نے عشق کیا ‘تاج محل بنایا اور پھر اس میں اپنا گھر بسایا۔چاہتوں کی خوشبوؤں سے معطر علامہ اعجاز فرخ کی ایک مہکتی تحریر ملاحظہ ہو۔

لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، رومیو جولیٹ، سوہنی مہیوال، یہ سب داستانیں فرضی ہوں یا واقعی، لیکن ان کو جتنی زبانوں میں دہرایا گیا اور ان کرداروں کو جس دلچسپی سے قبول کیا گیا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ تمام طبقات میں مرد و زن میں ایک دوسرے کے لئے صرف ایک فطری کشش ہی نہیں، بلکہ ایک غیر مرئی قوت جاذبہ ہے، جو ایک دوسرے کے بغیرادھورے ہیں۔ ارسطو نے شاید اسی کیفیت کو کچھ اس طرح بیان کیاہے کہ یہ وہ دو نصف کرے ہیں، جو ازل میں ایک دوسرے سے جدا کر دئیے گئے تھے اور جو ایک دوسرے کی تلاش میں سفر کرتے کرتے جب وقت کے کسی لمحہ میں ایک دوسرے کے مقابل ہوجاتے ہیں تو اپنے پورے سالمات کے ساتھ ایک دوسرے میں یوں پیوست ہوجاتے ہیں کہ گویا ان کا وجود کبھی الگ ہی نہ رہا ہو۔ اور اگر گردش وقت کے ہاتھوں یہ مل نہ پائے ہوں تو اندر سے ٹوٹا ہوا یہ ادھورا وجود ایک فنکار کی تخلیق میں مصروف ہوجاتا ہے۔ چنانچہ میر تقی میرؔ سے غالبؔ تک اور غالب سے پروین شاکر تک یا پھر بہزاد و مانی سے ایم ایف حسین تک اور کرشن چندر‘ بیدی اور امریتا پریتم تک جتنے اعلی فنکار ہیں ان کی شاہکار تخلیقات کے نہاں خانے میں ٹوٹے ہوئے وجود کے کرچیوں کی چبھن اس شدت سے ملتی ہے کہ احساس کی انگلیوں کی پور پور زخمی ہوجاتی ہے۔

محبت یوں تو ہر رشتے میں مشترک ہے، لیکن جیسی خوبصورت اور تابندہ یادگاریں محبت کی اس کیفیت نے تعمیر کی ہیں، ان کی مثال شاید ہی مل سکے ۔ ممتاز محل کا جب انتقال ہوا تو شاہ جہاں خاندیس میں تھا۔ وہیں ممتاز محل کا انتقال بھی ہوا۔ شاہ جہاں نے ممتاز محل کے لئے ایک عارضی مدفن بنایا اور اس پر ایک عارضی مقبرہ بھی تعمیر کردیا، لیکن تپیدہ شبِ فراق محبت کی تجسیم چاہتی تھی۔ محبت ہی محبت کی روشناس اور نبض شناس بھی ہوتی ہے اور اپنی انگلیوں سے خوابوں کے بدن اور اس کے قوس و خم کی بھی پیمائش کر لیتی ہے۔ چنانچہ ایک عشق گزیدہ شیرازی نے شہنشاہ شاہ جہاں کی دولت اور انمول جواہرات کی جھوٹی آب و تاب سے ہٹ کر شہزادہ خرم اور ارجمند بانو کی محبت کے رنگ کو اپنے تشنہ تعبیر خواب سے ہم رنگ محسوس کیا اور اس نے کاغذ پر بجائے کسی نقشے کے اپنے شکستہ دل اور بکھرے خوابوں کے رنگ یکجا کردئیے تو شاہ جہاں کی بجھی ہوئی آنکھوں میں جہاں خوابوں کے رنگ اتر آئے تو یادوں کے چراغ بھی جھلملا اٹھے۔ جیسے جیسے تاج محل تعمیر ہوتا گیا شاہ جہاں کی آنکھوں میں چراغوں کی جوت جگمگانے لگی۔ جب تاج محل کی تعمیر مکمل ہو چکی اور چاند کی چودہویں شب سے پہلے ممتاز محل کے جسد کو خاندیس سے منتقل کر کے تاج محل کے سپرد کردیا گیا تو شب میں شاہ جہاں نے قلعہ آگرہ کے مثمن برج سے یہ منظر دیکھا کہ تاج محل چاندنی میں نہا کر نکھر ا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ چاند نے پہلی مرتبہ روشنی تاج محل سے مستعار لی ہے یا تاج محل کو چاندنی نے حصار میں لے رکھا ہے۔ لیکن آج بھی چودہویں کی شب تاج محل کا نظارہ کرنے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کی محبتوں کی ضیاء پاشیاں ہیں، جو ان کے وجود کے کسی روزن سے نکل کر تاج محل کے درو دیوار پر منعکس ہو رہی ہیں۔ ہر ملکی وغیر ملکی سیاح جب تک تاج محل نہیں دیکھ لیتا، خود کو ناآسودہ سا محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ امریکہ کے سابق صدر جان ایف کینڈی اور جیکولن کینڈی نے بھی جب تاج محل دیکھا تھا تو دونوں نے ایک دوسرے کے چہرے پر نظر کی تھی۔ جان کینڈی کی نظریں جیکولن پر تھیں اور جیکولن کی پلکیں جھکی ہوئی تھیں، جب کہ نہر والی حویلی میں پیدا ہونے والے فوجی جنرل پرویز مشرف بھی اپنی بیگم کے ساتھ تہہ خانے میں ممتاز محل اور شاہ جہاں کی قبروں کو دیکھ کر باہر نکلے تو دونوں کے لباس محبت کی اوس میں بھیگے ہوئے تھے۔ تاج محل اگر صرف ایک عمارت ہوتی تو شاید کھنڈر ہوجاتی ہے۔ محبت کرنے والے خاک بسر ہوجاتے ہیں، مگر عمارتیں باقی رہتی ہیں۔ زمین پر صرف یہ ایک تاج محل نہیں، تاج محل تو کئی ہیں، لیکن اسے دیکھنے کے لئے نیم شبی میں دیکھنے والی آنکھیں اور اس کی دھڑکن سننے کے لئے محبت کرنے والے دل چاہےئے کہ وہ ہر ایسے تاج محل کو نہ صرف دیکھ سکے، بلکہ تنہائی میں اس سے سرگوشیاں بھی کرسکے۔
کلکتہ کا محمد شاہ جہاں ویسے کوئی شاہ جہاں نہیں تھا، بس یوں ہی ماں باپ نے نام رکھ دیا تھا۔ ابتدائی چند جماعتوں کی تعلیم کے بعد جب مدرسہ کی تعلیم راس نہ آئی تو باپ نے کہہ سن کر زیور اجلانے کی دوکان پر نوکر رکھوا دیا۔ دو روپے روز مل جاتے، پھر اس نے ایک سنار کے ہاں نوکری کرلی۔ شاہ جہاں تھا دھن کا پکا، راست باز اور ایماندار۔ پھر اسے بخشو چاچا جو کبھی اللہ بخش تھے اور زیور بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، کبھی ڈانٹا تک نہیں تھا۔ بس وہ دن بھر میں ایک آدھ زیور بناتے، لیکن کام اتنا نفیس ہوتا کہ جواہرات جڑنے کے بعد جوہری کی دوکان میں جب عورتیں پہن کر دیکھتیں تو اپنے آپ ہی شرما جاتیں، جیسے کوئی انھیں دیکھ رہا ہو۔ شاہ جہاں یہ سوچ کر رہ جاتا کہ زیور پہننے سے پہلے تو سب عورتیں ٹھیک رہتی ہیں، زیور پہن کر پہلے پہل شرماتی کیوں ہیں۔ آہستہ آہستہ بخشو چاچا نے اس کی لگن دیکھ کر اسے سب ہنر سکھا دئیے، لیکن پھر بھی وہ کھویا کھویا سا رہتا، جیسے اس کی اداس آنکھیں کچھ تلاش کر رہی ہوں۔ کبھی کبھی بخشو اس سے پوچھتا ’’بیٹا یہ تو گم صم خلاء میں کیا تکتا رہتا ہے‘‘ تو وہ اپنی محویت سے چونک کر کہتا کہ’’ کچھ نہیں چاچا، چہرہ ڈھونڈ رہا تھا۔ چاچا کبھی کبھی ہنس کر پوچھتا ’’کون سا چہرہ رے، ہمیں بھی تو بتا‘‘۔ تب وہ کہتا پتہ نہیں چاچا، مگر میں سوچتا ہوں زیور پہن کر ہر چہرہ شرماتاہے پھر سج جاتا ہے، کوئی چہرہ ایسا بھی ہوگا کہ پہننے کے بعد زیور شرمائے اور چہرہ یوں بے نیاز ہوجائے کہ اس نے زیور کو اپنے حسن کی خیرات دی ہو۔ بخشو دیر تک اسے دیکھتا رہا اور دن بھر اس نے کسی اوزار کو ہاتھ تک نہیں لگایا، جو زیور جوہری تک پہنچانا تھا اسے شاہ جہاں نے مکمل کیا۔ نگینے جڑے، پھر اجلا کر بخشو کے آگے رکھ دیا تو بخشو نے دیکھا کہ جالی کی نفاست نے زیور میں اجالا بھر دیا تھا۔ ایک دن بخشو نے شاہ جہاں سے کہا’’ بیٹا میں نے اپنا سارا ہنر تجھے سکھلادیا، لیکن یہ شہر صرف پیٹ بھرنے کی روٹی دے سکتا ہے۔ کبھی میں بھی تیری ہی طرح خواب دیکھتا تھا، لیکن اب اس موٹے شیشے کے چشمے کے پیچھے سے آگ میں سونا پگھلانے والی کٹھولی دیکھتا ہوں۔ مٹیا برج مجھ سے تو چھوڑا نہ گیا۔ پرکھوں کی ہڈیاں یہیں گڑی ہیں۔ اس سے پہلے کہ تیرے خواب دھندلا جائیں تو کسی اور شہر چلا جا‘‘ یہ کہہ کر بخشو چاچا نے اپنے پاس سے چمڑے کی تھیلی انڈیل کر اس میں سے کچھ رقم نکالی اور شاہ جہاں کو دے کر کہا’’ اب جا خدا کے حوالے کیا۔‘‘ پھر ڈبڈبائی آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز میں کہا’’ کبھی تجھے وہ چہرہ مل جائے تو مجھے چٹھی ضرور لکھ دینا تو نے دیکھا سو سمجھ لے میں نے دیکھا۔‘‘
شاہ جہاں کے سامنے کوئی منزل تو تھی نہیں، حیدرآباد کا نام بہت سنا تھا، سوچا نوابوں کا شہر ہے، پھر کبھی کبھی کلکتہ میں کوئی حیدرآبادی مل جاتا تو سننے میں بولی بھی اچھی لگتی، جیسے کوری مٹی پر بارش کی پہلی بوند کی خوشبو۔ اس نے حیدرآباد کا ٹکٹ کٹوا کر قسمت آزمائی کی ٹھانی۔ ایک دو دن شہر دیکھتا رہا، پھر چارمینار دیکھ کر گلزار حوض کے قریب ایک زیور بنانے والے کی دوکان کے پاس رکا تو اس نے پوچھا کیوں بھئی کیا کام ہے؟ شاہ جہاں نے اپنا حال بتلایا تو پہلے تو وہ اسے غور سے دیکھتا رہا۔ جوہری کے آگے تو کسٹم آفیسر بھی ہیچ۔ جوہری کی آنکھ تو ایک نظر میں کھوٹا کھرا سب آنک دیتی ہے۔ وہ جو سیٹ بنا رہا تھا، شام تک بانسواڑہ کے جوہری کو دینا تھا۔ وہ شام کا وعدہ لے کر گیا تھا۔ ہار وہ ٹانک رہا تھا، دوسرا سنار جھمکے جڑ رہا تھا، اس نے سونا دے کر بھٹی کے قریب بٹھلادیا۔ شاہ جہاں نے گولائی نکال کر ایک نظر ہار پر ڈالی اور تار کھینچ کر جال ٹانکتے ہوئے پوچھا کہ نگینہ کونسا ہے تو استاد نے انگوٹھی ہاتھ میں لے کر گھما پھرا کر دیکھ لی اور چپکے سے دراز سے نگینہ نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیا۔ شاہ جہاں نے گالا بنا کر نگینہ رکھا، پٹی پھیر کر اجالا پھیر دیا اور پھر انگوٹھی کو سرخ کاغذ پر رکھ کر استاد کے سامنے رکھ دیا تو استاد نے 25 روپے نکال کر ہاتھ میں رکھدئیے۔ بانسواڑہ کے جوہری نے شاہ جہاں کو پوچھا تو کہا کہ کلکتہ سے نیا آیا ہے۔ اس نے پوچھا ٹانکا لگالیتا ہے تو استاد نے کہا کہ’’ ہاں اتنا تو کرلیتا ہے۔‘‘ بانسواڑہ کے جوہری نے کہا’’ مجھے دے دو، دوکان پر ٹانکے کے کام کا چھوکرا نہیں ہے، آجائے تو واپس کردوں گا۔‘‘ یوں شاہ جہاں کی قسمت اسے بانسواڑہ لے آئی۔ بانسواڑہ پہنچ کر شاہ جہاں نے اسے بتلایا کہ اس سیٹ میں انگوٹھی اس کی بنائی ہوئی ہے تو جوہری نے دل ہی دل میں کہا کہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ انگوٹھی استاد کے ہاتھ کی ہے۔ پھر اس نے اپنی دوکان کے پچھلے حصہ میں شاہ جہاں کے لئے جگہ بنادی۔ شاہ جہاں زیور بنانے سے پہلے کچھ دیر خلاء میں تکتا، پھر اس کے ہاتھ مصروف ہوجاتے۔ اس نے نت نئے ڈیزائن بنائے۔ اب تو فرمائشی بھی بننے لگے۔ لیکن شاہ جہاں بھی کھرا سونا تھا۔ ایک دن میں ایک سے زیادہ زیور نہ بناتا۔ ہفتے بھر کی جو بھی کمائی ہوجاتی اپنے کھانے پینے کا سامان لے کر چلا جاتا۔ شام کو مسجد سے لوٹتا تو محلے والوں سے علیک سلیک ہوجاتی۔ سب اس کی شرافت اور خاموشی سے متاثر تھے۔ دو برس یونہی گزر گئے۔ ایک شام وہ ہفتہ بھر کا سامان سمیٹے لدا پھندا راستے سے گزر رہا تطا کہ اچانک اسے سامنے ہی ایک لڑکی نظر آئی۔ اس کی نظر چہرے پر پڑی، پلک جھپکنے میں وہ گزر بھی گئی، لیکن اسے ایسا لگا جیسے ہر چیز تحلیل ہوگئی ہے اور صرف وہی ایک چہرہ ہے۔ سامان کی تھیلیاں تو کب کی ہاتھ سے چھوٹ چکی تھیں۔ خلاء میں تکتے تکتے اس نے سامان سمیٹا، لیکن جب چلنے لگا تو دیکھا کہ سامان تو راستے میں بکھرا پڑا ہے۔ اس نے تو بے خیالی میں مٹی سمیٹ لی۔ روز وہ کام ختم کر کے اسی راستے سے گزرتا کہ شاید وہ نظر آجائے۔ ایک شام وہ پھر نظر آگئی۔ شاہ جہاں نے سوچا کہ اس کا گھر تو دیکھ لوں، یہ اسی دنیا کی مخلوق ہے یا کہیں آسمانوں سے اتر آئی ہے۔
جب وہ گھر میں داخل ہوئی تو صرف مڑ کر ایک مرتبہ دیکھا، پھر اندر چلی گئی۔ کچھ دن بعد شاہ جہاں نے عشاء کے بعد مسجد کے امام صاحب سے بہت آہستہ سے کہا کہ’’ میں نے فلاں محلہ میں ایک لڑکی کو دیکھا ہے۔ میں اسے اپنی دلہن بنانا چاہتا ہوں۔ میں کوئی وعدہ نہیں کرتا، صرف اتنا وعدہ کرتا ہوں کہ زند گی بھر اسے خوش رکھوں گا۔ اس کے لئے ایک چھوٹا سا گھر بنوالوں گا کہ گھر ہر لڑکی کی تمنا ہوتی ہے۔‘‘ محلہ کے شرفاء نے لڑکی کے ماں باپ سے رشتہ مانگا، سب نے شاہ جہاں کی شرافت کی گواہی دی۔ شاہ جہاں نے کہا کہ مجھے صرف اتنا وقت دے دیجئے کہ میں گھر بنالوں۔ دیکھتے دیکھتے ایک چھوٹی سی زمین کے ٹکڑے پر مکان بن گیا۔ شاہ جہاں نے اسے اندر سے زیادہ باہر اور باہر سے زیادہ اندر خوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی بیچ وہ اس کے لئے زیور بناتا رہا اور جب وہ شاہکار زیور بنا چکا تو اسے لگا زیور پھیکا پھیکا سا ہے، اس کا چہرہ تو خود زیور ہے، اس کے آگے زیور کیا۔ شادی کے بعد وہ گھر آگئی تو شاہ جہاں نے اپنی محبتوں کے سارے پھول نچھاور کر دےئے تو اس نے بھی اپنے وجود کی ساری مہک سے اسے معطر کردیا۔ وہ روز شام کو اس کے لئے پھول لاتا۔ وہ کہتی’’ تم روز میرے لئے پھول کیوں لاتے ہو۔ وہ کہتا ہر چیز تم سے سستی ہے، صرف یہ نرم و نازک پھول تمہارے لئے شاخ پر کھلتے ہیں۔ اس کی ہر نس میں مجھے تمہارے وجود کی خوشبو اور ہر پنکھڑی میں تمہارا کیف و کم محسوس ہوتا ہے۔‘‘ وہ کہتی’’ مجھے پھولوں سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ کہتا ’’پھول تو پھول ہیں، کوئی خوشبو کے سوداگر تو نہیں۔‘‘ کچھ رک کر وہ اپنے کپکپاتے ہونٹوں سے مدھم آواز میں کہتی ’’گل چیں تو شاخ سے پھول چن لیتا ہے، لیکن اسے کیا خبر پھول کے بغیر ڈالی کتنی تنہا رہ جاتی ہے۔‘‘ تین مہینے ہوا کے جھونکے کی طرح گزر گئے۔
ایک دن وہ کام سے واپس آیا تو چہرہ ستا ہوا تھا۔ اس نے گھبرا کر پوچھا’’ خیر تو ہے۔‘‘ اس نے کہاں’’ ہاں ٹھیک ہوں، شاید تھوڑا تھک گیا ہوں۔ ‘‘پھر پھیکی مسکراہٹ سے کہا ’’آؤ میں تمہارے بالوں میں پھول لگادوں۔‘‘ پھر نہ جانے کیا ہوا اس کا بدن اینٹھنے لگا، درد نے انگڑائی لی۔ سب محلے والے جمع ہوگئے، دواخانہ لے جاتے لے جاتے کچھ پرسکون ہوگیا۔ دواخانہ پہنچ کر ڈاکٹر نبض دیکھی اور سرجھکا کر خاموش ہوگیا۔ خاموشی کا مطلب تو سب سمجھتے ہیں، مگر دل کی دھڑکن تو دل ہی جانتا ہے۔ وہ اس کے سینے سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ اس بے قراری سے روئی کہ کسی سے روکا بھی نہ گیا۔ بالوں میں لگے موتیا کے پھول سینے پر بکھر گئے تھے۔ ڈاکٹر نے نبض دیکھی، پھر سر جھکا کر خاموش ہوگیا۔
شام ڈھلے دونوں جنازے ساتھ ساتھ اٹھے۔ بانسواڑہ کے کسی گھر میں کوئی فرد نہ تھا۔ دو دراز کے دیہات سے تک لوگ جمع ہوگئے تھے۔ کیا ہندو کیا مسلمان، ہر آنکھ اشکبار تھی۔ جب دونوں کو پہلو بہ پہلو دفن کردیا گیا تو سب نے قبروں پر پھول چڑھائے۔ مسلمان دعاء کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے، ہندو ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ سب کے آنسوؤں سے قبروں کی مٹی بھیگ رہی تھی اور راتوں رات ان مزاروں پر آنسوؤں کا تاج محل کھڑا تھا، جس سے چاند روشنی کی خیرات مانگ رہا تھا۔ اس تاج محل کی تعمیر کرنے والے کے ہاتھ نہیں تراشے گئے۔ شہنشاہی، دولت اور عشق کے بنائے ہوئے تاج محل کے معمار کے ہاتھ اقتدار نے کٹوا دئیے تھے۔ اقتدار ہمیشہ ہاتھ کاٹنے کے درپے رہتا ہے، لیکن شیرازی نے خود اپنے ہاتھ پیش کر دئیے تھے کہ خواب ہاتھ نہیں دیکھتے، خواب تو انسان دیکھتا ہے اوراقتدارپسندشایدانسان نہیں ہوتے ۔یہ تحریر قصہ نہیں ،فسانہ نہٰٰیں، داستاں نہیں۔
(اس واقعہ کی خبر اخبار سیاست۔ حیدرآباد۔ د کن میں چھپی تھی۔یہ تحریر اسی خبر کے حوالے سے لکھی گئی۔)

Share

۱۰ thoughts on “تب کہیں جاکے کوئی تاج محل بنتا ہے ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share