سالارجنگ میوزیم ‘حیدرآباد ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share
salar jung
نواب یوسف علی خاں
statue
سنگ تراشی کا نادر نمونہ

سالارجنگ میوزیم ‘ حیدرآباد

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

شہر حیدرآباد کے ممتاز سپوت نواب یوسف علی خاں المخاطب ’’ سالارجنگ‘‘ حیدرآبادی تہذیب کے اعلیٰ نمونۂ تھے۔ ملنے جلنے والوں میں اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ بے پناہ انکساری برابر کے اور بڑے بزرگوں کے ساتھ عظمت وقار کا عظیم انسانی سرمایہ تھے۔قدیم امارات کی بے پناہ خوبیاں اور مطالعہ کا اعلیٰ ذوق رکھنے والی شخصیت نہایت عمدہ لب ولہجہ میں انگریزی‘ فارسی‘ اردو بولتے تھے۔ہرزبان میں اپنا ایک مخصوص لہجہ رکھتے تھے۔حیدرآباد کی قدیم روایات کے مطابق مذہب کے معاملہ میں نہ تعصب تھا یہی وجہ تھی کہ دوست احباب وملازمین میں ہر مذہب ہر فرقہ اور ہر عقیدہ کے لوگ شامل تھے۔قومی یکجہتی کی مجسم شخصیت کا شرف حاصل تھا۔
نادر اشیاء جمع کرنے کا شوق:

سیاسی زندگی میں مسلسل تنہائی کے باعث نواب میر یوسف علی خاں کی زندگی سونی اور اداس بن چکی تھی۔اس سونی زندگی کو بہلانے کے لئے نادر حسین وجمیل اشیاء جمع کرنی شروع کردیں۔بچپن ہی سے نوادرات جمع کرنے کا بے حد شوق تھا۔لڑکپن ہی سے وہ اپنے کھلونے اور خوبصورت چیزوں کو بہت ہی حفاظت سے محفوظ رکھتے تھے۔نواب صاحب کا یہ شوق اتنا بڑھا کہ آگے چل کر وہ اس میں ایسے غرق ہوگئے کہ یہی ان کی زندگی کا تنہا مشغلہ بن کررہ گیا۔اللہ رب جلیل نے انہیں نوادرات کے پرکھنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔موتی اور جواہر میں تو آپ کی جیسی پرکھ میں آج تک کوئی ثانی نہ ہوا۔فن خطاطی کا کوئی نمونہ وہ دیکھتے ہی فرماتے تھے کہ یہ فلاں استاد کا قلم ہے۔اس زمانہ کے میر علی‘ ہردی اور عبدالرشید ملیمی کا خط انہیں خوب پسند تھا۔اکثر اس شوق کے پیش نظر کتب فروش دھوکہ دینے کی کوشش کرتے جس کو آپ کی نظریں فوری تاڑلیتیں اور دھوکہ باز جعل سازی میں پھنس جاتا اور پیشمانی کے سوا کچھ نہ ملتا۔ممتاز خطاط حضرت یاقوت المسعصمی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن مجید کے نہایت دلدادہ تھے جس کے لئے لاکھوں کا ہدیہ دینے پر بھی دریغ نہ کرتے۔قلمی تصاویر پرکھنے کا بھی ملکہ خوب تھا۔قالینوں کے ٹانکے اور پھندے دیکھ کر بتالادیتے تھے کہ یہ کہاں کے بنے ہوئے ہیں۔آپ نے اپنی زندگی میں ہر طرح کی نوادرات کو جمع کیا۔اور نوادرات کاکوئی شعبہ ادھورا نہ چھوڑا۔قلمی کتابیں‘ خطاطی کے شاہکار ‘ مشرقی ومغربی مصوری کے نمونے ‘ خوبصورت برتن‘ ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھروں کی بنی ہوئی اشیاء ‘ فرنیچر‘ مجسمے‘ تاریخی یادگاریں‘ ہتھیار‘ صنعتی نادرشاہکار حدیہ کے کھلونوں کو تک جمع کردیا۔نواب صاحب نے نادر نوادرات کا ایسا عظیم ذخیرہ جمع کرلیا تھا کہ دنیا میں تنہا ایک شخص کی کوششوں نے شاید ہی نوادرات کا ایسا عظیم ذخیرہ اکٹھاکیا ہو۔

میوزیم بنانے کا خیال:
نواب میر یوسف علی خاں سالارجنگ کو اپنے ہی جمع کردہ نادر ونایاب نودرات کو ایک مخصوص عمارت میں ترتیب دینے کی جستجو تڑپاتی رہی۔عمارت کے بارے میں ان کے دماغ میں مختلف خیالات امڈتے۔کبھی انہیں خیال آتا کہ اس عمارت کی شکل روسی زارشاہوں کے محل کریملن جیسی ہو‘ تو کبھی اس کے لئے کسی اور عظیم الشان عمارت کی نقل تجویز کرتے تو کبھی اپنے مجوزہ عجائب گھر کی عمارت کے نقشے ہی بنواتے پر اس زمانہ میں ایک لاکھ کے قریب روپیہ خرچ کرچکے تھے۔کبھی یہ عجائب گھر پونے میں تو کبھی اوٹی میں کھولنا چاہتے اور کبھی حیدرآبادہی میں بنوانے کا خیال کرتے لیکن اس طرح کی عمارت بنوانے کی پوری قدرت رکھتے ہوئے بھی وہ ایسی عمارت نہ بنواسکے اور نہ اپنے نوادرات کو سجا سکے۔اس کی بڑی وجہ یارکاوٹ اس وقت کیریاستوں کے حکمراں کی مطلق العنانی تھی۔ اگر سالار جنگ میوزیم اپنے جمع کردہ نوادرات کو عجائب گھر کی شکل دے دیتے تو ہوسکتا تھا کہ حضور نظام کی نظر سے بھی یہ تمام چیزیں گزرتیں اور انہیں جو چیز بھی پسند ہوتی ان کے نذر کردینی پڑتی ۔درحقیقت نواب صاحب کو اپنے نادر ونایاب نوادرات اتنے زیادہ عزیز تھے کہ وہ ان کو اپنے سے جدا نہ کرنا چاہتے تھے۔ساتھ ہی وہ حضور نظام کی خفگی بھی مول لینا پسند نہ کرتے۔ان نوادرات کو محفوظ کرتے وقت آپ نے ایسا عمل کیا کہ گھٹیا ناقص نقلی اشیاء تو اوپر رکھا اور ان کے پیچھے اصلی وبیش بہا نادرشاہکار کو محفوظ فرمادیا۔اور انہیں اللہ رب العزت کے حفاظت فرمانے کا کامل یقین تھا۔ اور اکثر فرمایا کرتے تھے اللھمہ احفظنا فائک خیرالحافظین۔نواب صاحب کے انتقال کے بعد نوادرات کے ذخائر کھولے گئے تو دیکھنے والوں کو حیرت ہوئی کہ وارفیلڈ کے مشہور عالم کارخانے کے بنے ہوئے نفیس جھاڑفانوس ادنیٰ قسم کے جھاڑفانوں کے انبار میں چھپے ہوئے تھے۔لاجواب چینی گلدان اور مرتبان چینی کے معمولی برتنوں کے پیچھے رکھے ہوئے تھے۔اعلیٰ قسم کا فرنیچر سونگر کے محل کے دالان میں جمع کردیا گیا تھا۔یہیں پریسور کے بنے ہوئے کم قیمت سنگھار میز کے سٹس کے درمیان ڈرشڈن کے کارخانے کاا بنا ہوا ملکہ فرانس میری انسٹیونٹ کا سنگھار میز رکھا ہوا پایا گیا۔کافور کی بودینے والی بیش قیمت الماری ایک معمولی سی بڑی الماری کے پیچھے گردآلود پائی گئی۔
نواب یوسف علی خاں سالارجنگ قلب پر شدید حملے کے باعث اچانک انتقال فرماگئے۔آپ کا کوئی قریبی وارث نہ تھا۔لہذا حکومتِ ہند نے فوری ایک خصوصی آرڈی ننس کے ذریعہ نواب صاحب کی ساری جائیداد کو ایک نوتشکیل شدہ وقف کمیٹی کے سپرد کردیا۔نواب صاحب مرحوم کے ان نوادرات کا انمول ذخیرہ بھی اس جائیداد کے ایک حصہ کی حیثیت سے وقف کمیٹی کے نگرانی میںآگیا۔اس کمیٹی کی سفارش پر حکومت ہند نے نواب صاحب کے نودرات کو میوزیم کی شکل میں ترتیب دینے کی اسکیم کو منظوری دے دی۔جس میں یم کے ویلوڈی کی کوششوں کا بڑا دخل تھا۔ملک کے ممتاز ماہرین میوزیم کی ترتیب کے لئے مقرر کئے گئے۔دوسال کی لگاتار محنت وجستجو کے بعد عجائب گھر نوادرات سے معمور سج کرتیار ہوگیا۔اس طرح نواب سالارجنگ مرحوم کا عمر بھر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا اور بالآخر ڈسمبر ۱۹۵۱ء میں وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہروکے ہاتھوں سالارجنگ میوزیم کا پتھر گٹی حیدرآباد میں واقع دیوان دیوڑھی میں افتتاح عمل میں آیا۔اَلْحَمدُ لِلّٰہ-

سالارجنگ میوزیم کا قیام:
سالارجنگ میوزیم نواب یوسف علی خاں سالارجنگ مرحوم ومغفور کے شہر کے اس محل میں قائم کیا گیا تھا۔جو ’’دیوان دیوڑھی‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔نواب صاحب تاحیات اسی محل میں رہے اور اسی میں واصل بحق ہوئے۔قدیم وضع کا یہ دوسوبرس پرانا محل مشرقی نوادرات کی تزئین ونمائش کے لئے نہایت ہی موزوں ثابت ہوا۔پھر بعد میں مستقل بلند وبالا شاندار عمارت جو آج کل پرانی حویلی سے قریب نیا پل اور پرانی حویلی کے درمیان واقع ہے منتقل ہوگیا۔جہاں ہزارہا شائقین سالارجنگ میوزیم جیسے نوادرات کے عطےۂ اکرم سے لطف اندوز ہوکر محو حیرت ہی نہیں فرطِ مسر ت سے مسرور رہتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ سالارجنگ میوزیم اتنا وسیع وعریض ہے کہ دیکھنے والے ایک یادودن میں بھی مکمل طور پر نہیں دیکھ سکتے۔صرف ایک ایک ہال میں جب وہ داخل ہوتے ہیں تو دل چاہتاہے کہ سارادن اسی ہال میں گزاریں تو اس طرح پرکھنے والی نظروں کے لئے سالارجنگ میوزیم کا نظارہ ونمائش کے لئے مہینوں درکار ہیں۔

میوزیم کی سیر۔نادر قلمی کتابیں:
سب سے پہلے میں آپ کو سالارجنگ میوزیم کی سیر کرانے کے لئے اس شعبہ میں لے جاتا ہوں جہاں نادر قلمی کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔نواب صاحب کو آرائش وزیبائش کی اشیاء ہی جمع کرنے کا شوق نہیں تھا بلکہ علم وادب سے بھی بے پناہ لگاؤ تھا۔آپ کااپنا ذاتی کتب خانہ بھی تھاجس میں اردو‘ فارسی ‘ عربی ‘ عیرانی‘ انگریزی‘ فرانسیسی ‘ اطالوی‘ جرمنی اور کئی زبانوں کی مطبوعات اور غیر مطبوعہ تصانیف محفوظ تھیں۔ان میں اردو ‘ فارسی‘ عربی کی کچھ قلمی کتابیں حددرجہ نایاب ونادر روزگار سمجھی جاتی ہیں۔سالارجنگ کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق نادر قلمی کتابوں کو چھوڑ کر ان کے کتب خانے کی تمام مطبوعہ کتابیں جامعہ عثمانیہ کے کتب خانے اور کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد دکن کو عطا کردی گئیں۔نادرونایاب قلمی کتابں کو پورے اہتمام کے ساتھ میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ا ن میں سب سے پہلے قرآن مجید کے متعدد نسخے ہیں۔ایک قرآن مجید دنیائے اسلام کے ممتاز خطاط حضرت یاقوت الالمعتصمی کی لکھی ہوئی ہے کہا جاتا ہے کہ اس خطاط کا پورا نام حضرت جلال الدین ابوالدّر یاقوت المعتصمی بن عبداللہ رومی تیرھویں صدی عیسوی کے آخری عباسی خلیفہ بغداد المعتصم باللہ کے درباری خطاط تھے۔نادر کتابوں میں ایک اور کتاب ایران کے ممتاز صوفی شاعر حضرت مولانا عبدالرحمن جامیؒ کی تصنیف ’’لوائح جامیؒ ‘‘ کا ایک نسخہ ہے۔یہ نسخہ شاہ خطاطان میر عماد حسینی قزدینی کے ہاتھوں کا لکھاہوا ہے۔یہ خطاط حددرجہ نفیس ودیدہ زیب خط نستعلیق کے ماہر تھے۔آپ ایران کے جلیل القدر صفوی بادشاہ شاہ عباس اعظم کے ہم عصر تھے۔خود ان کے زمانہ میںآپ کے کمال کی قدرومنزلت کایہ عالم تھا کہ ہاتھ کالکھا ہوا ایک شعر ایک ایک اشرفی میں فروخت ہوتا تھا اور شاہ جہاں بادشاہ میر عماد کے خط کے بے پناہ شیدائی تھے۔اور ہر اس شخص کو جو میر عماد کے ہاتھ لکھی ہوئی کوئی چیز پیش کی جاتی تو انہیں یک ہزاری کا منصب سے بھی ممتاز کرتا تھا۔ان کے علاوہ میوزیم میں قطب شاہی بادشاہوں کے دکھنی کلام کے نایاب دیوان بھی موجود ہیں۔بیجاپور کے سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی کی لکھی ہوئی کتاب ’’نورس نامہ‘‘ کاایک بیش قیمت نسخہ بھی شامل ہے دوسرے ممتاز دکھنی شعراء کی نایاب کتابیں ان کے سوا ہیں۔

مشرقی ومغربی مصوری کے نادرشاہکار:
سالارجنگ میوزیم میں مشرقی اور مغربی مصوری کے نادرشاہکار بھی دیکھنے کو ملیں گے۔اس ذخیرے میں مشہور زمانہ مصور ’’بہزاد‘‘ کی بنائی ہوئی دوتصا ویر بھی ہیں جو چینی روشنائی سے مرصع ہیں ۔ ان میں سے ایک تصویر میں ایک آدمی شیر ببر کو گرفتار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ایرانی قلم میں کسی نامعلوم مصور کا بنایاہوا عمر خیام کی رباعی کامرقع بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ہندوستانی مصوری کے جتنے بھی کتب ہیں ان سب کے شاہکار یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔مغل مصوری کی نادر تصاویر میں دو تصاویر شاہ جہاں کے خاص البم کی ہیں۔حسین وجمیل تصویر’’آتش بازی ‘‘ پر شہنشاہ جہانگیر کے دستخط ثبت ہیں۔ہاتھی دانت سے تیارکردہ شہنشاہ اورنگ زیب کی تصویر بھی دیکھنے والے کو انگشت بہ دنداں کردیتی ہے۔ان کے علاوہ سترھویں صدی عیسوی کی تصاویر بھی خوب ہیں جن میں بابر بادشاہ سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک تمام مغل شاہزادوں وشہزادیوں کو دکھلایا گیاہے۔مغرب کے مشہور مصوروں کی نادر تصاویر بھی بکثرت ملتی ہیں۔ان تصاویر میں لینڈسر کی بنائی ہوئی تصویر’’ہوشیار چوکیدار‘‘ وائس کی بنائی ہوئی قدآور تصویر ’’آرفی ‘‘ حددرجہ خوبصورت ہیں۔

شاہکارمجسّمے:
سالارجنگ میوزیم میں مجسمے کے شاہکار بھی بکثرت ہیں۔کانسے ‘ پیتل ‘ لکڑی ‘ پلاسٹک ‘ اطالوی‘ سنگ مرمر اور دوسری نادرونایاب قیمتی پتھروں سے بنائے ہوئے بے شمار مجسمے موجود ہیں۔ان میں دومجسمے ایسے بھی ہیں جو اپنی ندرت اور حسن وجمال کے لئے سارے عالم میں ممتاز ہیں۔ان میں سے ایک مجسمہ جو ’’نقاب پوش راثیل‘‘ کہلاتا ہے جو اطالوی مجسمہ ساز لیزدنی کا بنایا ہوا ہے۔اس نے دونادر مجسمے بنائے تھے ان میں ایک مجسمہ روس کے میوزیم کی زینت ہے اور دوسرا مجسمہ نواب صاحب نے اپنے سفر یورپ میں خریدا تھا۔یہ مجسمہ فنی اعتبار سے نادرشاہکار ولافانی مشرف اعجاز ہے۔دوسرا مجسمہ لکڑی کا بنایا ہوا ہے۔یہ دہرا مجسمہ ہے۔ایک طرف سے دیکھئے تو آپ کو مرد دکھا ئی دیتا ہے اور دوسری طرف سے دیکھنے پر ایک نوجوان عورت نظر آتی ہے۔دراصل یہ مجسمہ ڈاکٹر فاؤسٹ کی کہانی جرمنی کی ایک مشہور کہانی پر مبنی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ مکمل مجسمہ لکڑی کے ایک ہی ٹکڑے پر ہے اور دونوں طرف سے کہیں بھی کوئی جوڑ نظر نہیں آتا۔

فرنیچر کے شاہکار:
نواب صاحب کا انتخاب فرنیچر بلاشبہ عمدگی سے اور تعداد کے لحاظ سے دنیا میں سب سے اعلیٰ نمونہ ہے۔دنیا کے ہر ملک کا فرنیچر یہاں موجود ہے۔سترھویں اٹھارویں صدی کے یوروپین فرنیچر سے لے کر چین جاپان ‘ فرانس غرض تمام ممالک کے ایک سے اعلی ایک صوفے ‘ میز ‘ کرسیاں ‘ الماریاں ‘ ڈائنگ ٹیبلس ‘ سنگھار میز وغیرہ ہر طرح کا فرنیچر شامل ہے۔کہیں جاپان کی بنی ہوئی کافور کی بودینے والی الماریاں ہیں تو کہیں چین کی کندہ کاری کئے ششدرے رکھے ہوئے ہیں ۔برما کی لکڑی کا کام ترکی ‘ مصر اور ہندوستان کا فرنیچر دمشق کا بناہوا ہے سیب کے درخت سے بنائے گئے فرنیچر دیکھنے کے قابل ہیں۔نرمل اور بیگن پلی کے بنے ہوئے فرنیچر لکڑی پر باریک کام کا نہایت عمدہ نمونہ ہیں۔لکڑی کے کام کا ایک نادر نمونہ لکڑی میں بنی ہوئی مدور ائی کے ایک مندر کی نقل ہے۔ولندیزی عہد کی کوچین کی بنی ہوئی کرسیاں جس پر ابھرا ہوا کام ہے۔اخروٹ کی بنی ہوئی نفیس کشمیری تپائیاں اور الماریوں پر نقاشی کی گئی ہے۔یوروپین فرنیچر میں ملکہ این اور ملکہ وکٹوریہ کے عہد کا فرنیچر بھی دیکھنے کے قابل ہے۔فرانس کے بادشاہ چودھویں پندرھویں لوئی کا فرنیچر خاص طور پر لائق دید ہے۔فرنیچر میں ایک نادر شاہکار ٹیپوسلطان شہید کی ہاتھی دانت کی بنی ہوئی چارکرسیاں بھی ہیں ۔نوادرات کے سلسلہ میں نواب صاحب کی یہ آخری خریدی تھی۔بدنصیبی سے نواب صاحب ان نادر روزگار کرسیوں کی دید سے محروم رہے جو آج میوزیم میں لاکھوں کی دید بنی ہوئی ہیں۔نواب صاحب کے اس دارفانی سے رحلت فرماجانے کے بعد یہ کرسیاں حیدرآباد پہنچیں۔

بچوں کے کھلونوں کے شاہکار:
سالارجنگ میوزیم میں برتنوں‘ قالینوں ‘ صنعتی سامان اور فرنیچر کے علاوہ بچوں کی دلچسپی کی بھی وافر مقدار میں اشیاء موجود ہے۔کئی کھلونے ایسے ہیں جو تاریخی اہمیت رکھنے کے ساتھ ساتھ صنعت کاری وکاریگری کے اعلیٰ نمونے ہیں۔کہیں سپاہیوں کی ایک پوری پلٹن کھڑی ہوئی ہے تو کہیں چھوٹے چھوٹے پتلون کے ذریعہ پوری فوج کو میدانِ جنگ میں صف آرا کردیا گیاہے۔کہیں پر چھوٹی چھوٹی ریل گاڑیاں اور ان کے اسٹیشن بھی۔۔۔کہیں پر مکمل ایک گاؤں اپنی بھر پور زندگی کی عکاسی کے ساتھ سامنے آتا ہے۔غرض دہلی‘ لکھنو ‘ نرمل دوسرے مقامات کے مشہور ومعروف دل موہ لینے والے کھلونوں کے انبار ہیں جس کو دیکھ کر ہر شخص کچھ دیر کے لئے اپنی بچپن کی زندگی میں ایسا کھو جاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے ہی بچپن کے یہ کھلونے یہاں کس طرح موجود ہیں جمع ہوگئے ہیں ۔
موسیقی گھڑی:۔

Share
Share
Share