مسجد جمالی کمالی، دہلی
Masjid Jamali Kamali, Delhi
ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی – ورنگل
09866971375
مہرولی، دہلی کے آثار قدیمہ کامپلکس میں ایک قدیم اور خوبصورت مسجد ہے جس کو جمالی کمالی مسجد کہا جاتا ہے۔بلبنؔ کی گنبد کے جنوب میں تقریباً 300میٹر کے فاصلے پر یہ مسجد واقع ہے، اس مسجد کے قریب ایک مقبرہ بھی ہے جس میں دو قبور موجود ہیں ۔ ان میں ایک قبر مغلوں سے قبل سکندر لودھی کے دور حکومت کے مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ فضل اللہ عرف حضرت شیخ جمالیؒ کی ہے جبکہ دوسری قبر کسی نا معلوم بزرگ کی ہے جن کا مکمل نام تاریخ میں درج نہیں لیکن ان بزرگ کا لقب گویا حضرت جمالی ؒ کے ساتھ ایک طرح پیوست ہے ان صوفی بزرگ کو حضرت کمالی ؒ کہا جاتا ہے ،اسی لئے یہاں کی مسجد اور یہاں موجود مقبرہ آپ دو حضرات کے نام سے موسوم ہے۔
حضرت جمالیؒ اپنے دور کے مشہور شاعر تھے ، لودھی دور حکومت میں انہیں درباری شاعر کی حیثیت حاصل تھی ان کی شاعری کی دو کتب ’’ایک صوفی کا روحانی سفر‘‘ اور ’’چاند اور سورج‘‘ آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔حضرت جمالی ؒ نے دنیا کے مختلف ممالک کاسفر کیا تھا اور جید بزرگوں سے تعلیم حاصل کی تھی،جن میں عبدالرحمن جامیؔ ؒ بھی شامل ہیں۔ آپ نے تصوف کی تعلیم حضرت شیخ صمد الدینؒ سے حاصل کی۔ آپ کے اعزاز میں حکمرانوں نے یہ مسجد یعنی جمالی کمالی مسجد اور گنبد تعمیر کروائی جو نہ صرف تاریخ میں ایک واضح نشان رکھتی ہیں بلکہ تعمیری خوبیوں کے اعتبار سے بھی ندرت رکھتی ہیں۔ گنبد کی تعمیرکو بابر کے دور حکومت میں 1528-29 میں شروع کیا گیا، جو ہمایوں کے دور حکومت میں مکمل ہوئی ، لیکن اس گنبد میں حضرت جمالی ؒ کی تدفین ان کے انتقال کے بعد 1535میں انجام پائی ۔ جمالی کمالی مسجد کو بھی 1528-29کے دوران تعمیر کیا گیا ، یہ مسجد سرخ سنگ رملی سے بنائی گئی ہے جس میں جگہ جگہ سنگ مرمر کی پیوند کاری موجود ہے،بڑے احاطے پر مشتمل خوبصورت فطری ماحول میں موجود یہ مسجد سادگی میں پرکاری کی بہترین مثال ہے۔ گرما کے زمانے میں یہ مسجد زمین پر ستارے کے مانند چمکتی رہتی ہے اور سرما کی صبح کہر سے جھانکتی یہ مسجد دیکھنے والے دل پر عقیدت بن کر لہراتی رہتی ہے۔ مسجد کا اصل صدر دروازہ یعنی گیٹ بجانب جنوب آج بھی موجود ہے ، مسجد کی عمارت کے سامنے کا حصہ یعنی مسجدکا رخ پانچ کمانوں پر مشتمل ہے، درمیانی کمان بڑی ہے جس کے دونوں بازو، دو دو کمانیں موجود ہیں جن پر تین تین بارڈرس بنائے گئے ہیں،جن کی تعمیر میں مختلف رنگوں کے پتھروں کو استعمال کیا گیا ہے، ان دوکمانوں کی درمیانی دیوار پر بھی عموداً دو کمانوں کے نقش ابھارے گئے ہیں جس کی وجہہ مسجد کا سامنے کا حصہ یعنی رخ مزید خوبصورت نظر آتا ہے۔ ہر کمان بڑے سلیقے سے تعمیر کی گئی ہے، ویسے ہر کمان کا سائز ایک جیسا ہے لیکن درمیانی کمان کا ایوان اونچا ہے جو قدرے باہر کی جانب نکلا ہوا ہے ، یہ ایوان چھت تک پہنچتا ہے ،اس طرح درمیانی حصے کو ہم دو کمانوں والی ساخت کہہ سکتے ہیں، پہلی کمان مسجد کی دوسری کمانوں کی طرح ہے لیکن دوسری کمان صرف سجاوٹ کے لئے بنائی گئی ہے، گچ سے بنائی گئی اس کمان کی تعمیری خوبی قابل تعریف ہے، درمیانی کمان کورنگین کاشیوں اور جھالر جیسے نقش و نگار یعنی’’ رسوب کلسی سقفی‘‘ سے سجایا گیا ہے جس کی وجہہ سے اس کے اندرونی حسن میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے اس کمان کا اوپری حصہ سنگ سرخ سے اور نچلا حصہ مٹیالے (Grey) پتھر سے بنایا گیا ہے علاوہ اس کے اس کمان کا چوکور بارڈر بھی اسی پتھر کا ہے۔اس کمان کے دونوں جانب مینار جیسی خوشنما ساختیں بنی ہوئی ہیں جن پر عموداً گہری لکیریں یا کھانچے بنے ہوئے ہیں جو چھت تک پہنچتے پہنچتے چار حصوں میں تقسیم ہوکر ایک خوشگوار تعمیری حسن پیدا کرتے ہیں۔مسجد میں اونچے ایوان یا بڑی کمانوں کی تعمیر ہندوستان میں اس سے قبل کی تعمیرات میں دکھائی نہیں دیتی اسی لئے اس مسجد کی تعمیری خوبی میں نہ صرف جدت آجاتی ہے بلکہ اس کمان کی تعمیر سے نئی تعمیری تہذیبی روایت کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ اسی کمان کے اوپری حصے میں گنبد موجود ہے، مسجد میں صرف ایک گنبد ہے جو چھت کے مکمل درمیانی حصے کو ڈھکتاہے ، گچ (Stucco) سے کیا گیا گنبد کا اندرونی کام دیکھنے لائق ہے،گنبد کی راس پر کنول کی الٹی کلیاں بنی ہوئی ہیں۔ قبلے کی دیوار پر بنی محرابوں پر بھی نازک کام موجود ہے ان حصوں کو بھی بہتر انداز میں بنایا گیا ہے ، محراب پر قرآنی آیات کی منبت کاری ہے جس میں ایک جگہ آیت الکرسی بھی لکھی ہوئی ہے ، نماز کا اصل ہال بڑا خوبصورت اور ایک خاص تاثر دینے والا ہے۔ مسجد کا منبر منقوش ہے اور کئی قوسی محرابوں پر مشتمل ہے ، منبر کے دونوں جانب طاقچے موجود ہیں اور ہر دو کمانوں کے درمیانی مستطیل حصے پر آیات قرآنی کندہ ہیں ، علاوہ اس کے منبر کو دوسرے خوبصورت ڈیزائن سے بھی مرصع بنایا گیاہے ۔نماز کے اصل ہال کے دونوں جانب سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں جو اوپر پہنچ کر تنگ گیلری میں کھلتی ہیں، دوسری منزل پر پچھلی جانب کھڑکی ہے جس کی تعمیری خوبی مغلیہ تعمیر سے کچھ جدا گانہ ہے، یہ راجستھانی انداز کا جھروکہ ہے جس کا نشان اس مسجد سے قبل دہلی کی کسی عمارت میں دکھائی نہیں دیتا اس طرح اسلامی تعمیرات میں راجستھانی طریقہ تعمیر کا امتزاج اس مسجد کا ایک طرح سے طرہ امتیاز ہے، اسی جھروکے کو کسی قدر بدل کر پرانے قلعے کی مسجد کہنہ میں بنایا گیا ہے جو مسجد کی تعمیری خوبصورتی کی ایک بڑی وجہہ ہے۔اسی قسم کی کھڑکی درمیانی کمان کے راسی حصے اور چھت کے بیچ میں بھی موجود ہے، اس کھڑی کی وجہہ سے سامنے کے حصے میں مزید خوبی پیدا ہوجاتی ہے، مسجد کے پچھلے حصے میں دونوں کونوں پر ہشت پہلو چھوٹے مینار بنے ہوئے ہیں ۔ اصل محراب کے کمانوں کے راسی حصوں کے دونوں جانب مثلث نما جگہوں پر Spandrels لگے ہیں جن کی تعداد تین ہے ان پر موجود نقش نازک اور قابل دید ہیں بعض مقامات پر ان میں ’’اللہ‘‘ لکھا ہوا ہے، مسجد کی حفاظتی یعنی پیراپیٹ دیوار کے نیچے کنول کی کلیوں کے نقوش بنے ہیں ۔صحن میں وضو کرنے کے لئے ایک حوض بنا ہوا ہے لیکن حکومت نے حفاظت کے نام پر یہاں نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
مسجد کے شمالی جانب ان دو بزرگوں کا مقبرہ بنا ہوا ہے ،بیرونی دیواروں پر کئی طاقچے بنے ہوئے ہیں ،چھجے کے اوپرٹائیلس کے کام کے آثار آج بھی دکھائی دیتے ہیں ،مقبرے کی چھت مسطح ہے اس کے اندر کا کام قابل دید ہے ، اس کی بڑی خوبی تشاکل کا اہتمام ہے ، مقبرے کے اندرون رنگین پھول ،پتوں، مدور نمونے اور دوسرے اشکال کو بنایا گیا ہے ،اس میں غالب رنگ نیلا ہے لیکن پیلا اورسرخ رنگ بھی اندرونی حسن کو بڑھانے میں مکمل مدد گار ہے، مقبرے کے اندرونی حسن میں اضافے کی خاطر یہاں رنگین ٹائیلس کا بھی خوبی سے استعمال کیا گیا ہے زرو برق رنگوں طلائی آب و تاب کی پچی کاری معمار کی صناعی اور سلیقے کو ظاہر کرتی ہے جو ان تعمیرات کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ عمارت میں جگہ جگہ ’’تارہ نما‘‘ زاویائی ہندسی نمونے بنائے گئے ہیں جو دل کولبھاتے ہیں ،یہی خوبصورتی کا نشان مغل دور کی تعمیرات میں بھی جا بجا چمکتا نظر آتا ہے ،’’ستارہ داؤدیہ‘‘ اسلامی تعمیری تہذیب کی علامت نہیں ہے تاروں جیسے نقوش ہمیں ان تعمیرات میں دکھائی دیتے ہیں،ان تعمیرات میں کنول کے پھول جیسی ساختیں بھی بنی ہوئی ہیں جو ہندوستانی تعمیری خصوصیت ہے۔
مقبرے کے اندر صوفی بزرگ حضرت جمالیؒ کے کچھ اشعار بھی لکھے ہوئے ہیں ۔
Masjid Jamali Kamali , New Delhi
By Dr Azeez Ahmed Ursi