میلادالنبیؑ کے موقع پر ایک خصوصی تحریر۔ ترتیب : ڈاکٹر اسلم فاروقی

Share

رحمت اللعالمین ﷺ کی حیات بابرکت ماہ و سال کے آئینے میں

پیغمبر اسلام تاجدار مدینہ رحمت عالم شافع محشر نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولاد ت با سعادت موسم بہار میں عرب کے شہر مکہ معظمہ میں 22اپریل 571 ؁ء م ۱۲ ربیع الاول بروز پیر صبح صادق ہوئی۔ آپ ﷺ کا تعلق عرب کے قبیلہ قریش کے خاندان بنو ہاشم سے تھا۔آپ ﷺ کے آبا و اجداد میں سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت ابراھیم علیہ السلام تھے۔آپﷺ کے دادا کا نام عبد المطلب بن ہاشم اور نانا کا نام وہب عبد مناف تھا۔نبی کریم ﷺ کا خاندان سارے عرب میں نیکی ‘شرافت ‘عزت‘مہمان نوازی‘سخاوت اور اثر و رسوخ کے لئے مشہور تھا۔اور سارے عرب میں آپﷺ کے دادھیال اور ننھیال والوں کی عزت تھی۔پیارے نبی ﷺ کے والد کا نام حضرت عبدا للہ اور والدہ کا نام بی بی آمنہ تھا۔آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال آپﷺ کی ولادت سے چند ماہ قبل ہوچکا تھا۔آپﷺ کے ولادت کے سال کو عام الفیل کا سال بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اسی سال یمن کے ظالم بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ کیا تھا۔بعض روایات میں کہا جاتا ہے کہ آپﷺ کی ولادت با سعادت ۹ ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ کیونکہ جس سال عام الفیل کا واقعہ ہوا تھا اس سال ماہ ربیع الاول کی ۹ تاریخ کو پیر دوشنبہ کا دن تھا ۱۲ ربیع الاول کو نہیں۔ لیکن ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی اس دنیا میں آمد اور اس دنیا سے پردہ فرمانے کا دن ایک ہی یعنی ۱۲ ربیع الاول رکھا تاکہ امت کو خوشی اور غم کے جذبے کا برابر احساس رہے۔ بہر حال آج ساری دنیا میں آپﷺ کی ولادت کی تاریخ ۱۲ ربیع الاول ہی مروج ہے اور اسی دن جشن میلا النبیﷺ کا اہتمام کیاجاتا ہے۔

آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں دادا عبدالمطلب گود میں اٹھا کر آپﷺ کو خانہ کعبہ لائے۔ دعا کی ۔آپ ﷺ کا نام مبارک محمد ﷺ رکھا۔ جس کے معنی تعریف کیا جانے والے کے ہیں۔
سراپا مبارک:شمائلِ ترمذی حلیہ مبارکہ بیان کرنے کا سب سے مستند و جامع ذریعہ ہے جس کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد، سرخی مائل، سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم انتہائی خوبصورت بال جو کبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے تو کبھی گردن تک اور کبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کے مانند چمکتا تھا، سینہ ء مبارک چوڑا، چکلا کشادہ، جسم اطہر نہ دبلا نہ موٹا انتہائی سڈول چکنا کہیں داغ دھبہ نہیں، دونوں شانوں کے بیچ پشت پر مہرِ نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر سرخی مائل ابھری کہ دیکھنے میں بے حد بھلی لگتی تھی، پیشانی کشادہ بلند اور چمکدار، ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ، دہن شریف کشادہ، ہونٹ یاقوتی مسکراتے تو دندانِ مبارک موتی کے مانند چمکتے، دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درازیں تھیں بولتے تو نور نکلتا تھا سینہ پر بالوں کی ہلکی لکیر ناف تک تھی باقی پیکر بالوں سے پاک تھا صحابہ کا اتفاق ہے کہ آپ جیسا خوبصورت نہیں دیکھا گیا۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ شاعرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اپنے نعتیہ قصیدے میں نقشہ کھینچتے ہیں:’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااور آپ سے زیادہ خوبصورت مرد کسی عورت نے نہیں جنا‘‘ ۔آپ ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک پیدا ہوئے گویا آپ اپنی حسب مرضی پیداہوئے ہیں۔
دادا عبدالمطلب نے پیدائیش کے ساتویں دن آپ ﷺ کا عقیقہ کیا۔ اور سارے قبیلے کی دعوت کی۔آپ ﷺ کی ولادت کے بعد تین چار دن تک آپ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ نے آپ ﷺ کودودھ پلایا۔ اس کے بعدابو لہب کی کنیز ثوبیہ نے اور پھر دائی حلیمہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت حاصل کی ۔ اس زمانے میں عرب میں رواج تھا کہ بچوں کو صحت کی خاطر دیہاتی علاقوں میں دودھ پلانے والیوں کو سال دوسال کے لئے دے دیا جاتا تھا۔آپﷺ کی پیدائیش کے آٹھویں دن دائی حلیمہ مکہ آئیں۔ ان کی اونٹنی کمزور تھی و ہ اس دن بچوں کو لینے کے لئے آخر میں پہونچیں۔ تب تک دولت مند گھرانوں کے بچوں کو دوسری خواتین نے حاصل کر لیا تھا۔ دائی حلیمہ کو عبداللہ اور آمنہ کے لال حاصل ہوئے۔ لیکن آپﷺ کی برکت کا یہ عالم تھا کہ جب آپﷺ کو اونٹنی پر بٹھا کر لے جارہی تھیں تب اونٹنی تیز رفتاری سے دوڑنے لگی اور دوسرے لوگ دیکھتے رہ گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ حلیمہ کی کمزور اونٹنی اچانک تیز رفتار کیسے ہوگئی۔یہ آپﷺ کی برکت اور معجزات کا ظہور تھا۔ دائی حلیمہ کے گاؤں میں بھی آپ ﷺ کی برکات کا نزول تھا۔ اور حلیمہ کی کمزور اور ناتواں بکریاں ذیادہ دودھ دینے لگی تھیں۔دائی حلیمہ آپ ﷺ کو بی بی آمنہ سے ملانے کے لئے ہر چھ ماہ میں ایک مرتبہ آپﷺ کو مکہ معظمہ لاتیں اور پھر واپس لے جاتیں۔دو سال تک آپﷺ دائی حلیمہ کے ساتھ رہے۔ تاہم بی بی آمنہ نے محسوس کیا کہ بنو سعد میں آپﷺ کی صحت اچھی رہ رہی ہے تو انہوں نے آپﷺ کو مزید کچھ عرصے کے لئے دائی حلیمہ کے ساتھ روانہ کردیا۔دو سال بعد آپﷺ کی مکہ معظمہ واپسی ہوئی۔ جہاں دوسال تک آپﷺ اپنی والدہ کے ساتھ رہے۔پھر والدہ محترمہ اور کنیز ام ایمن کے ساتھ مدینے کا سفر کیا۔ وہاں ایک ماہ قیام رہا۔ واپسی کے سفر میں بی بی آمنہ شدید بیمار ہوگئیں۔ اور راستے میں ’’ابوا‘‘ کے مقام پر انتقال کرگئیں۔ ان کی تدفین اسی مقام پر ہوئی۔ اس طرح چھ سال کی عمر میں آپﷺ کے سر سے والدین کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ اور آپﷺ کی پرورش دادا عبدالمطلب اور بعد میں چچا ابو طالب نے کی۔جب آپﷺ کی عمر آٹھ سال ہوئی تو دادا بھی گذر گئے ۔جنہوں نے بیٹے سے ذیادہ اپنی اس ہر دل عزیز پوتے کی پرورش کی تھی۔ ابو طالب غریب تھے۔ لیکن جب انہوں نے آپ ﷺ کو اپنی پرورش میں لے لیا تو آپﷺ کی بر کت سے ان کے گھر میں برکت آگئی۔ جب آپﷺ کی عمر بارہ سال ہوئی تو چچا ابو طالب آپ ﷺ کو تجارتی قافلے کے ساتھ شام لے گئے۔ اس زمانے میں عربوں کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا۔ جس کے لئے و ہ اکثر شام وغیرہ ممالک جایا کرتے تھے۔جب ابو طالب کا قافلہ بصری پہونچا تو ایک عیسائی راہب جس کا نام بحیرا تھا اس نے آپﷺ کو دیکھ کر پیشن گوئی کی کہ یہ دنیا کے سردار ہیں۔ اللہ کے ہونے والے رسول ہیں۔اللہ انہیں ساری دنیا کے لئے رحمت بنا ئے گا۔ابو طالب کے دریافت کرنے پر عیسائی راہب نے کہاکہ ہماری مذہبی کتابو ں میں آخری زمانے میں آنے والے نبی کی جو پیشن گوئی کی گئی ہے اور جو نشانیاں دکھائی گئی ہیں۔ وہ اس بچے میں موجود ہیں۔ جس میں سے ایک نشانی آ پ ﷺ کی پشت پر موجود مہر نبوت بھی ہے۔ راہب نے ابو طالب کو مشورہ دیا کہ محمد ﷺ کوواپس مکہ بھیج دیں اور ملک شام نہ لے جائیں وہاں یہودیوں سے آپﷺ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ انہیں بھی آخری زمانے میں آنے والے نبی کی نشانیاں معلوم ہیں اور شائد وہ نہیں چاہیں گے کہ بنی اسرائیل کے علا وہ کسی اور قبیلے سے دنیا کا نیا نبی آئے۔جب آپﷺ کی عمر 15برس ہوئی تو قریش اور قیس قبیلے کے درمیان فجار کی جنگ ہوئی۔ جس کے بعد پانچ قبیلوں کے درمیان حلف الفضول کا معاہدہ ہوا۔اس معاہد میں شرکت پر آپ ﷺ کو بہت خوشی محسوس ہوئی تھی۔خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران قبیلے کے سرداروں میں اس بات پر لڑائی ہوگئی تھی کہ خانہ کعبہ کی دیوار میں حجر اسود کون لگائے۔ لیکن آپ ﷺ نے اپنی فراست اور تدبر سے قبیلے والوں سے کہا کہ ایک چادر لاؤ۔ اس چادر میں حجر اسود رکھا گیا۔چاروں قبیلوں کے سرداروں سے کہا کہ وہ چادر کا کونا پکڑیں ۔ جب پتھر کو خانہ کعبہ کے قریب لایا گیا تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اٹھا کر پتھر کو دیوار میں رکھ دیا۔ اور معاملے کو خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔ بچپن ہی سے آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق‘سچائی‘پرہیز گاری‘نیکی صبر ‘شکر ‘حیا ‘خیر خواہی وغیر ہ کی خوبیاں ظاہر ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ اور سارے عرب میں آپ ﷺ صادق اور امین کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ ابتدائی زمانے میں دیگر انبیا کی طرح آپﷺ نے بھی بکریاں چرائی تھیں۔ لیکن چچا کے ساتھ سفر کرنے کے بعد آپﷺ نے تجارت کی۔ اور مکہ کی دولت مند خاتون بی بی خدیجہ کا مال لے کر ایک مرتبہ پھر شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ او ر امانت داری اور سچائی کے ساتھ تجارت کی اس سفر میں آپﷺ نے خوب منافع حاصل کیا۔اس سفر میں خدیجہ کا غلام میسرہ بھی تھا اس نے آپﷺ کی امانت داری سچائی اور دیگر خصوصیات کی تعریف کی۔ یہ باتیں سن کر بی بی خدیجہ آپﷺ سے کافی متاثر ہوئیں۔ وہ مکہ کی ایک رئیس مال دار خاتون تھیں۔ جب آپ ﷺ کی عمر 25سال ہوئی تو انہوں نے آپﷺ سے اپنے نکاح کا پیغام بھیجا۔ قریش کے قبیلے والے اور بی بی خدیجہ کے قبیلہ والوں کو یہ پیغام پسند آیا۔ اور دونوں کا نکا ح ہو گیا۔ اس وقت بی بی خدیجہؓ کی عمر 40سا ل تھی۔ آپﷺ کی اولاد میں پہلے حضرت قاسم پیدا ہوئے ۔ پھر بیٹی زینب رقیہ کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔ پھر عبداللہ پیدا ہوئے۔ یہ تمام اولادیں بی بی خدیجہ کے ساتھ نکاح سے پیدا ہوئیں۔ایک بیٹے ابراھیم بھی پیدا ہوئے جن کی ماں کا نام ماریہ قریطہؓ تھا۔ آپﷺ کے سبھی بیٹے کم عمری میں انتقال کر گئے ۔ جب کہ بیٹیوں نے نبوت کا زمانہ دیکھا۔ بیٹیوں میں تین بیٹیاںآپﷺ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں ۔البتہ بی بی فاطمہ کا انتقال آپﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے چھ ماہ بعد ہوا۔بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی راست تربیت کی تھی ۔ اس لئے آپ ﷺ دیگر بچوں کی طرح کھیل کود میں شرکت نہیں کرتے تھے اور قبیلے والوں کی طرح میلوں وغیرہ میں نہیں جاتے تھے ۔ اس وقت بت پر ستی عام تھی اورکعبۃاللہ میں 360بت رکھے ہوئے تھے۔اس وقت عربوں میں جہالت بہت چھائی ہوئی تھی۔ لوگ عزت کی خاطر اپنی بچیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے چھوٹی چھوٹی بات پر برسوں لڑائی ہوتی تھی۔آپﷺ اپنا ذیادہ تر وقت غور و فکر میں لگاتے تھے۔ کہ اس زمین ‘سورج ‘چاند تاروں اور دیگر مخلوقات کا خالق کون ہے۔ یہ بت تو خدا نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ خود کسی کے ہاتھ بنے ہوئے ہیں۔ اس دنیا کا خالق کو ئی بڑی قدرت والا ہی ہوگا۔آپ ﷺ اکثر مکے سے کچھ فاصلے پر واقع پہاڑی جبل نور کے غار حرا میں تشریف لے جاتے اپنے ساتھ کھانے کے لئے ستو لے جاتے اور وہا ں بیٹھ کر غور و فکر کرتے کہ اس دنیا کا بنانے والا کون ہے۔ اس زمانے میں آپﷺ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے تھے۔ یہ نبوت ملنے کے آثار تھے۔ جب محمد ﷺ کی عمر 40سال تھی اور آپﷺ مراقبے میں اکثر غار حرا میں بیٹھا کرتے اور وہاں سے دکھائی دینے والے خانہ کعبہ کو دیکھتے رہتے تو ایک دن رمضان کے مہینے میں پیر کے دن اللہ کے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام غار حرا تشریف لائے۔ اور اللہ کی جانب سے لایا ہوا حق کا پیغام سنایا اور کہا کہ پڑھو۔آپﷺ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔اور حقیقت بھی یہ ہے کہ آپﷺ کی زبانی دنیا والوں کو کلام الٰہی سنانے کی خاطر اللہ نے یہ گوارا نہیں کہا کہ عربوں کے ہاں آپﷺ دنیاوی علوم سیکھیں۔ اس زمانے میں عرب شاعری اپنی فصاحت و بلاغت کے لئے مشہور تھی ۔ اور عرب کے مشہور شاعر کا قصیدہ منتخب کرکے ایک سال کے لئے خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہی آپ ﷺ کا راست معلم تھا اگر کسی دنیاوی معلم کے ہاں آپﷺ نے تعلیم حاصل کی تو معلم کا درجہ آپﷺ سے نعوذ باللہ بڑھ جاتا۔ جب کہ آپ ﷺ کا درجہ اللہ کے بعد دنیا میں سب سے اعلیٰ ہے۔ بہر حال آپﷺ نے جب جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا تو انہوں نے ایک دو اور تین مرتبہ آپﷺ کو دبوچا اور کہا کہ پڑھو تیسری مرتبہ انہوں نے کہا کہ پڑھو اس رب کے نام سے جنہوں نے انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیارب بڑا کریم ہے۔اس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔انسان کو وہ بات بتائی جو انسان نہیں جانتا۔یہ قران کی پہلی وحی تھی جو آپﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ یہ وہی قران ہے جس کی آیتوں کے بارے میں کہا گیا کہ اس کو اگر کسی پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ اس کے بوجھ سے ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ قران کی آیتوں کے ملنے کے بعد آپﷺکانپ رہے تھے۔ گھر آکر بی بی خدیجہؓ سے کہا کہ مجھے اُڑھادو ۔جب آپﷺ کو سکون حاصل ہوا تو انہو ں نے غار حرا میں پیش آئے واقعہ کو بی بی خدیجہ کو سنایا تو انہوں نے آپﷺ کو تسلی دی کہ آپﷺ تو نیک ہیں اللہ آپﷺ کو رسوا نہیں کرے گا۔اس کے بعد بی بی خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جنہوں نے اس واقعے کوسن کر کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جوحضرت موسی علیہ السلام پر وحی لایا تھا ۔ اگر میں زندہ رہا تو آپ کی اس وقت مدد کروں گا جب آپﷺ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔
حضور اکرم ﷺ پر غار حرا میں پہلی وحی کے نزول کے کوئی چھ ماہ بعد دوسری مرتبہ وحی کا نزول ہوا۔ اس درمیان آپ ﷺ شوق کے ساتھ فرشتے کاانتظار کرتے تھے کہ وہ پھر سے آئے اور اللہ کا پیغام سنائے۔چھ ماہ بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام دوبارہ وحی لے کر نازل ہوئے ۔ اس دفعہ سورہ مدثر کی آیات ناز ل ہوئیں۔جس میں آپﷺ کو ہدایات دی گئیں کہ آپ لوگوں میں دین اسلام کی تبلیغ کریں۔ انہیں ایک اللہ کے ہونے اور اسی کی عباد ت کرنے اور آپﷺ کو اللہ کا نبی و رسول اور پیغمبر ہونے کی بات بتائیں اور لوگوں کو ان کی غلطیوں سے آگا ہ کریں۔اس وحی کے آنے کے دوسرے دن آپ ﷺ کو ہ صفا پر چڑھے اور عرب کے دستور کے مطابق اہم اعلان کی طرح لوگوں کو بلایا اور کہا کہ’’ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کو مانو گے ۔تو لوگوں نے کہا کہ ہا ں ہم آپ کی بات مانیں گے کیونکہ ہم نے آپ کو سچا پایا ہے‘‘۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ میں ایک اللہ کابھیجا ہوا رسول ہوں ۔ہمیں ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے جو ساری دنیا کا مالک و خالق ہے۔ اور اگر ہم اللہ کی بات نہیں مانیں گے تو دردناک عذاب میں ڈالے جائیں گے۔اور میں تمہیں اس دردناک عذاب سے بچانے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اس مجمع میں آپﷺ کا چچا ابو لہب بھی تھا ایک خدا کی بات سن کر اسے غصہ آیا۔ کیوں کے عرب کے لوگ 360بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اب آپﷺ نے لوگوں کے درمیان دین اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ اللہ نے جنہیں ہدایت دی وہ آپﷺ کی بات ماننے لگے۔عورتوں میں سب سے پہلے آپﷺ کی بیوی حضرت خدیجہؓ ‘مردوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ‘بچوں میں حضرت علیؓ اور غلاموں میں زید بن حارثہؓ نے اسلام قبول کیا۔ اور آپﷺ کی کوشش سے ابتداء میں 40لوگ مسلمان ہوئے۔ لیکن ان لوگوں کو عربوں کی سختیا ں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔ عرب ہر طرح سے مسلمانوں کی مخالفت کرتے تھے اور انہیں سخت اذیتیں اور تکالیف دیتے تھے۔ابو جہل اور ابو لہب نے ظلم کی انتہا کی۔ کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کو گرم ریت پر لٹا کر مارا جاتا تھا۔ پیروں میں بیڑیاں ڈال کر گھسیٹا جاتاتھا۔ابو لہب اور ابو جہل حضور اکرمﷺ کے چچا تھے لیکن اللہ نے ان کی قسمت میں ہدایت نہیں لکھی تھی اس لئے وہ مسلمانوں پر مظالم میں پیش پیش رہتے تھے۔ابو لہب کی بیوی ام جمیل بھی مظالم اور سازشوں میں پیش پیش رہتی تھی۔ اللہ نے ابو لہب کا برا انجام کیا جس کا ذکر سورہ لہب میں آیا ہے۔حج کے زمانے میں کفار نے یہ تدبیر کی کہ آنے والے لوگوں کوآپﷺ کی دعوت سے روکنے کے لئے کہنے لگے کہ آپﷺ جادوگر یا کاہن ہیں۔ لیکن کفار کے اس غلط پروپیگنڈے کاالٹا اثر ہوا اور لوگ اس اشتیاق میں کہ آخر حضور ﷺ کیا کہتے ہیں آپﷺ سے ملنے لگے اور اسلام قبول کرنے لگے۔جب مکے میں اسلام کی دعوت کے پانچ سال ہوگئے اور قریش کی سختیاں اور مظالم بڑھنے لگے تو آپﷺ نے مسلمانوں سے کہا کہ حبشہ کا بادشاہ شاہ نجاشی انصاف پسند بادشاہ ہے ۔ تم لوگ وہا ں ہجرت کر جاؤ۔مسلمانوں کا پہلا قافلہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا۔ قریش کو اطلاع ملی تو انہوں نے مسلمانوں کا پیچھا کیا لیکن صحابہؓ سمندر سے آگے بڑھ چکے تھے۔ایک مرتبہ کعبہ کے قریب آپﷺ نے کفار کے روبرو سورہ نجم کی آیات تلاوت کیں۔ اور آیت سجدہ ’’فاسجدو للہ واعبدو‘‘ پر سجدہ کیا تو سبھی لوگ سجدہ ریز ہوگئے۔نبوت کے چھٹے سال میں حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ ایمان لائے۔ جس سے اسلام کو بہت تقویت ملی۔ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا بھی عجیب واقعہ ہے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی بہن نے اسلام قبول کرلیا تو وہ اسے قتل کرنے کے ارادے سے گئے۔ وہاں ان کی بہن اور اس کے شوہر نے قران کی آیات سنائیں جس کا حضرت عمر پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے فوراًاسلام قبول کر لیا اور حضور اکرم ﷺ کے روبرو اس کا اظہار کردیا۔ اللہ کے رسول ﷺ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے بہت خوش ہوئے۔حضرت عمرؓ کے مسلمان ہونے پر قریش اور کفار کے حوصلے پست ہونے لگے۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو قریش کی سب سے خوبصورت لڑکی سے نکاح کرانے یا ڈھیر ساری دولت یا سرداری دینے کا پیشکش کیا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں ۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے کفار پر واضح کردیا کہ اگر کفار میرے ایک ہاتھ میں سورج اور ایک ہاتھ میں چاند بھی لاکر رکھ دیں تو میں دین سے نہیں پھروں گا۔ عرب نے ایک غیر انسانی حرکت کی اور آپﷺ کے خاندان والوں بنو ہاشم اور بنو مطلب سے سماجی بائیکاٹ کردیا جسے شعب ابی طالب کہتے ہیں۔ اس سے آپﷺ کے اہل خاندان ایک گھاٹی میں محصور ہوگئے۔ اور تین سال تک اس بائیکاٹ کے اثر سے تکلیف میں مبتلا رہے۔بی بی خدیجہؓ اور ابو طالب کے انتقال ہوگیا۔یہ آپﷺ کی عمر کا پچاسواں سال تھا اسے عام الحزن غم کا سال کہا جاتاہے۔عرب کے سمجھ دار لوگوں نے کفار اور مسلمانوں کے مابین چلے آرہے سماجی بائیکاٹ کو ختم کرایا۔ آپﷺ کے اہل خاندان پریشانی کی حالت میں مکہ واپس آئے۔آپﷺ نے طائف کا سفر کیا۔ وہاں پر لوگوں نے شریر بچوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا۔ لوگوں کے پتھر سے آپﷺ زخمی ہوئے ۔ آسمان سے آنے والے فرشتے نے اجازت طلب کی کہ طائف کی بستی کو پلٹ دیں۔ لیکن رحمت اللعالمین ﷺ نے کہا کہ مجھے امیدہے کہ یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں ضرور اسلام قبول کریں گی۔آپﷺ نے اطراف کے قبیلوں کو بھی دین کی دعوت پیش کرتے رہے۔ یثرب کے قبائیل نے آپﷺ کا دین قبول کیااور واپس جا کر دین کو عام کرنا شروع کیا۔اسی سال آپﷺ کی زندگی کا اہم واقعہ معراج رونما ہوا۔اللہ نے آپﷺ کو آسمان دنیا کی سیر کرائی۔جنت دوزخ کامشاہدہ کرایا۔بات چیت کا شرف بخشا اور واپسی میں مسلمانوں کے لئے نماز کاتحفہ دیا کہ اگرامت کے لوگ پانچ وقت نماز پڑھیں گے توانہیں پچاس نمازوں کا ثواب ملے گا اور یہ بھی کہا گیا کہ نماز مومن کی معراج ہے۔معراج کے واقعہ پر عرب لوگ مزید حیران ہوگئے اور آپﷺ سے سفر کی نشانیاں دریافت کرنے لگے۔ آپﷺ نے سبھی نشانیاں سنادیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس واقعہ کی تصدیق کی تو آپ کو صدیق کا لقب ملا۔واقعہ معراج کے بعد یثرب کے مسلمانوں نے آپﷺ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ مکہ چھوڑ کر یثرب آجائیں۔ اللہ کے حکم پر آپﷺ نے مسلمانو ں کو یثرب کی ہجرت کاحکم فرمایا اور آخر میں آپﷺ حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ رات کے وقت روانہ ہوئے اور حضرت علیؓ سے کہا کہ وہ لوگوں کی امانتیں لوٹا کر آئیں۔ حضرت علیؓ آپﷺ کے بستر مبارک پر سو گئے۔ کفار آپﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ کفار نے آپﷺ کا پیچھا کیا۔ غار ثور میں اللہ نے آپﷺ کی حفاظت کی اور کفار غار کے دامن تک جاکر ناکام لوٹ آئے۔یثرب میں مسلمان آپﷺ کا بے چینی سے انتطار کر رہے تھے۔ آپﷺ براہ قبا یثرب پہونچے ۔ اس علاقے کا نام بعد میں مدینہ ہوگیا۔مدینہ میں لوگوں نے آپﷺ کا شاندار طریقے سے استقبال کیا اس طرح دین کی خاطر گھر چھوڑنے والے مہاجر کہلائے اور دین کی خاطر گھر چھوڑنے والوں کی مدد و نصرت کرنے والے اہل مدینہ انصار کہلائے۔سب لوگ آپﷺ کی مہمانی کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن آپﷺ نے کہا کہ میری اونٹنی اللہ کے حکم سے جہاں رکے گی میں وہیں ٹہروں گا۔ چنانچہ آپﷺ کی مہمانی کا شرف حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے حصے میں آیا۔آپﷺ نے مسلمانوں کے لئے مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کی۔ ساتھ میں ازواج مطہرات کے مکانات کی تعمیر ہوئی۔مسجد نبوی کے چبوترہ صفہ پر ہمیشہ صحابہؓ کا ایک گروہ دین سیکھا کرتا تھا۔اور کچھ لوگ تجارت کرتے تھے۔ آپﷺ نے مہاجروں اور انصاروں کے درمیان آپسی محبت اور بھائی چارے کو عام کیا۔ میثاق مدینہ معاہدہ کیا گیا ۔ جس کی رو سے مسلمان مل کر رہیں گے۔ اس طرح مدینہ ایک اسلامی ریاست بن گیا۔ آپﷺ نے دین کی دعوت کو عام کرنا شروع کیا۔ بادشاہوں کو خط لکھ کر اسلا م کی دعوت پیش کی۔ہجرت کے واقعہ سے اسلامی سنہ تاریخ ہجری کا آغاز ہوا۔ دو ہجری میں مسلمانوں کو تبدیلی قبلہ کا حکم ملا کہ وہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کریں۔ اسی سال ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم ملا۔ اور عید کے موقع پر صدقہ فطر کا حکم بھی دیا گیا۔اسی سال بی بی فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی اور غزوہ بدر بھی اسی سال ہوا۔حضور اکرم ﷺنے بذات خود جس لڑائی میں شرکت کی ہو اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس لڑائی میں آپﷺ نے کسی صحابیؓ کو کمانڈر بنا کر بھیجا ہو تو اسے سریہ کہا جاتاہے۔ اسلامی تاریخ میں 21تا 27غزوات ہوئے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ۔لیکن اسلامی جنگوں میں انسانی خون کے احترام کا یہ عالم ہے کہ ان جنگو ں میں کفار کے 900سے ذائد اور مسلمانوں کے چند سو لوگ مرے۔ لیکن اسلامی پیغام دعوت اور افہام و تفہیم اور آپﷺ اور ان کے صحابہ کے اعلی اخلاق سے دنیا کے دیگر حصوں میں تیزی سے پھیلنے لگا۔غزوہ بدر میں 313نہتے صحابہؓ نے ایک ہزار کفار کا مقابلہ کیا۔ 17رمضان کو ہونے والے اسے غزوہ میں اللہ کی مدد آئی م۔مسلمانو ں کو فتح ہوئی۔ابو جہل اور دیگر ستر کافر مارے گئے۔چودہ مسلمانوں کو شہادت ملی۔سنہ تین ہجری میں غزوہ احد پیش آیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کا حکم نہ ملنے پر جیتی ہوئی جنگ مسلمان ہار گئے۔ ستر صحابہ شہید ہوئے۔آپﷺکے دو دانت شہید ہوئے۔ اس سال حضرت حسنؓ کی پیدائیش ہوئی۔پانچ ہجری میں غزوہ خندق ہوا۔ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔ جس کے تحت آپﷺ نے حج نہیں کیا۔اس صلح سے حضر ت خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہؓ ایمان لائے۔سنہ آٹھ ہجری میں کفار نے صلح کی خلاف ورزی کی۔ ماہ رمضان میں آپﷺ نے دس ہزار صحابہؓ کے ساتھ مکہ کا سفر شروع کیا۔ کفار مکہ پر مسلمان قافلے کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ بغیر مقابلے کے مکہ فتح ہوگیا۔ابو سفیان نے راستے میں آکر ہی اسلام قبول کیا۔خانہ کعبہ پہونچ کر آپﷺ نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ آپﷺ نے اپنے بد ترین دشمنوں کو معاف کیا۔اسی سام ماہ شوال میں غزوہ حنین پیش آیا۔ جس میں مسلمانوں کو فتح ہوئی۔نو ہجری کو حج فرض ہوا۔سن دس ہجری میں آپﷺ نے حج کا اعلان کیا۔ آپﷺ کے ہمراہ ایک لاکھ سے ذیادہ صحابہؓ حج کے احرام کے ساتھ روانہ ہوئے۔حج کے موقع پر میدان عرفات کے دامن میں آپﷺ نے خطبہ حجۃالوداع دیا۔ لاکھوں صحابہؓ نے یہ خطبہ سنا۔ یہ خطبہ ساری انسانیت کے لئے زندگی کا منشور ہے۔ اس خطبے میں امیر غریب ‘گورے کالے کا فرق مٹا کر تقوی کی بنیا د پر انسانوں کی بہتری قرار دی گئی۔اسی خطبہ کے دوران آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اب دین مکمل ہوگیا ہے۔ اور شائد یہ میرا آخری حج ہے۔ اور بہت جلدمیں اس دنیا سے پردہ فرمانے والا ہوں۔آپﷺ کی عمر عزیز کا 63واں سال ہے۔ ماہ صفر میں آپﷺ کے مرض الوفات کا سلسلہ شروع ہوا۔۱۲ ربیع الاول پیر کا دن آپ ﷺ سیدہ عائشہؓ کے حجرے میں ہیں ۔ بیماری کی شد ت ہے۔ بار بار پانی چہرہ پر ڈالتے۔ فرماتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ موت کے لئے سختیاں ہیں۔پھر تین مرتبہ آپﷺ نے فرمایا ۔اے اللہ اے رفیق اعلیٰ۔ اس کے بعد آپﷺ نے دنیا سے پردہ فرما لیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔صحابہؓ غم میں ڈوب گئے۔ لیکن حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ اور دیگر نے مسلمانوں کی ہمت بندھائی۔ اگلے روز غسل شریف ہوا۔ اور جس حجرے میں آپﷺ نے پردہ فرمایا اسی میں قبر شریف میں آرام فرمایا۔ یہی وہ جگہ ہے۔ جہاں آپﷺ کا روضہ مبارک مدینہ میں سبز گنبد کے نیچے مسجد نبوی میں واقع ہے۔ جس کی زیارت ہر مسلمان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ انبیا اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔ اور رسول اکرم ﷺ اپے امتیوں کے درود و سلام کا جواب دیتے ہیں۔ آپﷺ نے نبوت کے بعد 23سال میں جو اسلامی دعوت پیش کی تھی ۔ اس صحابہؓ نے دنیا کے چپے چپے میں عام کیا۔لاکھوں صحابہؓ میں سے چند ہزار صحابہؓ کی قبریں مکہ و مدینہ میں ہیں۔ باقی لاکھوں صحابہ ؓ دنیا میں چاروں طرف میں پھیل گئے اور کبھی گھر نہیں آئے۔ ان کی قربانی کا اثر ہے کہ آج ساری دنیا کا سب سے مقبول و پسندیدہ مذہب اسلام ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی حیات مبارکہ کا ایک ایک پہلو مسلمانوں کے لئے راہ نجات ہے۔ آپﷺ کے طریقہ زندگی میں ہی مسلمانوں اور ساری دنیا کے انسانوں کی کامیابی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی سنتوں کو عام کریں۔ اور ان پر عمل پیرا ہوکر اطاعت رسول ﷺ اور عشق رسو ل ﷺ کا حقیقی ثبوت فراہم کریں۔ اور اپنے بچوں میں سیرت نبوی ﷺ کو عام کریں۔
(ترتیب: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ‘صدر شعبہ اردو‘ گری راج گورنمنٹ کالج‘ نظام آباد۔تلنگانہ)

Share
Share
Share