مولانا طیب عثمانی بھی داغ مفارقت دے گئے
سید احمد قادری – گیا (بہار۔ انڈیا)
—–
جید عالم دین ، معروف ادیب اور صحافی مولانا طیب عثمانی بھی آج بتاریخ 29 ؍ ستمبر 20015ء کی صبح داغ مفارقت دے گئے ۔ ان کا انتقال گیا کے نیو کریم گنج محلہ میں ان کی رہائش گاہ پر صبح چھہ بجے ہوا ۔ نماز جنازہ آج ہی بعد نماز عصر، نیو کریم گنج کی مسجد میں ادا کی گئی اور اس کے بعد ان کے جسد خاکی کو ان کے آبائی گاؤں سملہ( اورنگ آباد، بہار) لے جایا گیا ، جہاں کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔ مشہور و مقبول افسانہ نگار اور صحافی ڈاکٹر سید احمد قادری نے ان کے انتقال پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا طیب عثمانی کی شخصیت اپنی ذات میں ایک انجمن جیسی تھی ۔وہ نہ صرف ایک عالم دین کی حیثیت سے معروف تھے ، بلکہ اپنے ادبی اور دینی و لسانی مضامین سے انھوں نے نوجوانوں کے ذہن سازی میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے جناب طیب عثمانی کے بارے میں بتایا کہ ان کی ولادت اورنگ آباد ضلع کے سملہ گاؤں میں 30 ؍ ستمبر 1930 ء کو ہوئی تھی ۔ ان کے والد کا نام شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی تھا ، جو اپنے وقت کے کافی مشہور و معروف عالم دین کی حیثیت سے اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے ۔ ان کی اردو ،فارسی اورعربی زبان کی تعلیم ان کے آبائی گاؤں سملہ اتالیق‘ خاص ایک عالم دین سے ۱۹۴۳ء تک جاری رہی ۔اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء ،لکھنؤ میں ۱۹۴۲ء میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۲ء میں سند فضیلت امتیازکے ساتھ حاصل کی ۔ اس شاندار کامیابی کے بعدوہ جدید تعلیم کی حصولیابی میں دو سال تک مشغول رہے ۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد ۱۹۵۴ء سے وہ ادب اورصحافت کے میدان میں داخل ہوئے ۔ چند ماہ کلکتہ کی صحافتی سرگرمیوں میں پورے انہماک سے حصہ لیااور آزاد صحافی کی حیثیت سے روزنامہ ’’ عصرجدید ‘‘ ’’الحق ‘‘ اور دیگر کئی روزناموں میں اداریئے اور صحافتی کالم لکھتے رہے ۔ ان صحافتی تجربات سے انہیں بڑا فائدہ یہ ہواکہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۵۴ء کو پھلواری شریف کے مشہور ہفتہ وار اخبار ’’ نقیب‘‘ میں مدیر کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوگئی ۔جہاں ۳۱؍ جولائی ۱۹۵۵ء تک وہ اپنی صحافتی خدمات دیتے رہے۔ اس دوران ۱۹۵۴ء میں لکھنؤ سے ادبی ماہنامہ’’ نئی نسلیں ‘‘کااجراء ہوا،تواس میں وہ بحیثیت معاون مدیرمنسلک ہوگئے اور۱۹۵۸ء تک یعنی تقریباً پانچ برسوں تک اس رسالہ میں ادبی ادارئے لکھتے رہے ۔۱۹۶۳ء میں گیا سے ایک سہ ماہی رسالہ ’’ صدف‘‘ پروفیسرعبدالمغنی جیسی معروف شخصیت کے اشتراک سے نکالا ۔جس کی،ملک کے ادبی حلقوں میں کافی پزیرائی ہوئی ۔ طیب عثمانی مرحوم نے ۱۹۵۷ء میں گیا کے ہادی ہاشمی ہائی اسکول میں اردو ،فارسی کے معلم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی ،جہاں سے وہ ۱۹۸۸ء میں سبکدوش ہوئے ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے مذید بتایا کہ طیب عثمانی صاحب ادب اورصحافت کے میدان میں میں کافی متحرک اورفعال رہے۔ ملک وبیرون ملک کے رسائل ومجلات میں ان کے ادبی وصحافتی مضامین مسلسل شائع ہوتے رہے ۔خاص طورپر رسالہ ’’افکار ملی‘‘ (دہلی) اور سہ روزہ ’’دعوت ‘‘ (دہلی) میں سیاسی ،سماجی اورملی مسائل پران کے کافی مضامین اورتبصرے شائع ہوئے ۔ان مضامین کاایک انتخاب ’’صحرامیں اذان‘‘ کے نام سے شائع ہوکر مقبول عام ہوچکا ہے۔اسی طرح ’’نئی نسلیں ‘‘ (لکھنؤ) اور ’’پیش رفت‘‘ (دہلی) میں لکھے گئے ان کے ادبی اداریوں کامجموعہ ’’ادبی اشارے ‘‘ کے نام سے منظر عام پرآچکا ہے ۔
طیب عثمانی نے اپنی بے پناہ دینی،ملّی،لسانی، ادبی اورصحافتی صلاحیتوں سے صالح معاشرہ اورصحت مند ادب کی تشکیل میں اہم کردار اداکیاہے ۔ان کی تحریر میں شائستگی ،شگفتی اورسلاست کے عنصر نمایاں ہوتے تھے، اس لئے ان کے ہرادارئے ، تبصرے
،تجزئیے اورمضامین میں قارئین گہری دلچسپی لیتے تھے ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کے مطابق جناب طیب عثمانی کے انتقال سے جو خلأ پیدا ہوا ہے ، اس کا پُر ہونا بہت مشکل ہے ۔ اس لئے کہ ایسی شخصیتیں روز روز نہیں پیدا ہوتی ہیں ۔ ءءء
email :
Mob: 09934839110