سسکتے لمحوں کا امانت دارشاعر:مصحف اقبال توصیفی ۔ ۔ ڈاکٹرمسعود جعفری

Share
Dr masood jafri
ڈاکٹرمسعود جعفری
Mushaf Iqbal Tausifi
مصحف اقبال توصیفی

سسکتے لمحوں کا امانت دار شاعر – مصحف اقبال تو صیفی

ڈاکٹر مسعود جعفری
حیدرآباد ۔ دکن
09949574641

ہم سمجھ رہے تھے کہ تلنگانہ تخلیق کاروں سے خالی ہو تا جا رہا ہے۔جو کچھ ہے وہ رطب و یابس ہے۔استعارے ،تشبیہیں اور علا متیں غائب ہو گئی ہیں۔ تخلیقی سو تے خشک ہو گئے ہیں۔اب شاعری صرف قا فیہ پیما ئی بن گئی ہے۔فکر و آگہی کہیں کھو گئی ہے۔اس کی جگہ سطحیت آگئی ہے۔ تخلیقات بانجھ ہو گئی ہیں۔سپاٹ پن شاعری کا مقدر بن چکا ہے۔یہ ساری با تیں ایک واہمہ ثابت ہو نے لگیں جب ہمارے سامنے جدید لب و لہجہ کے دلگداز شاعر مصحف اقبال تو صیفی نمو دار ہو ئے ۔ہمیں اپنے خیالات اور شکوک و شبہات پر نظر ثانی کر نی پڑی۔

مصحف اقبال تو صیفی نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں۔ انہیں ترقی پسند تحریک سے جوش و توا نائی ملی اور جدیدیت کے پھل کو بھی چکھنے کا مو قع ملا۔انہیں ما بعد جدیدیت سے بھی سابقہ پڑا۔انہیں جہاں فیض ،جذبی ،کیفی ،سا حر نے متاثر کیا وہیں فراز ،ناصر کا ظمی اور شکیب جلالی نے بھی ان کے ذہن و دل پر گہرے نقوش مرتب کئے۔توصیفی کے سوچ سمندر کی گہرائی نا پی نہیں جا سکتی ۔ان کے لہجہ میں بلا کا سوز و گداز پایا جا تا ہے۔ان کے شعروں کی جذباتی فضا ہجر و وصال کی قوس قز ح سے معمور ہے۔انہیں واردات قلب و نظر سے گریز نہیں وہ انہیں لفظوں کی عماری میں بٹھا دیتے ہیں۔ ا ن کی شاعری ایک ایسا نہاں خانہ بن جا تی ہے جس میں چا ہتوں کے عکس دیکھے جا سکتے ہیں۔ان کی زبان سلاست و سادگی کا نمونہ ہے۔شعر کا ہر لفظ گوہر آبدار ہے۔ خیالات پامال اور گھسے پٹے نہیں نئے جہا ن معنی کی نشان دہی کرتے ہیں۔قاری ان کی جدت طرازی اور بلند خیالی سے متا ثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ان کے شعر براہ راست دل میں اترتے چلے جا تے ہیں۔ان کی غزلوں اور نظموں نے اردو کے شعری سر ما یہ میں گرانقدر ا ضافہ کیا ہے۔یہ سب ان کی جودت طبع کا نتیجہ ہے۔ان کی فکر رسا
کی کئی جہتیں ہیں۔ شاعری کے افق پر ایک روشن ستارے کے ظہور کا پتہ چلتا ہے۔ایسا نادر تارہ برسوں بعد دکھائی دیتا ہے۔اس کی دھیمی دھیمی روشنی سے راہیں منور ہو جا تی ہیں۔ادبی کار وان اسی کی ضیا میں اپنا سفر طئے کر تے ہیں۔مصحف اقبال نے اپنی شاعرانہ پہچان کے لئے ریاضت و مجاہدہ کیا۔پتھریلی زمینوں سے گزرتے رہے۔ٹھو کریں بھی کھا ئیں لیکن منزلوں کا خواب بکھرنے نہیں دیا۔اس راہ طلب و شوق میں ایسے تجربے ہوئے جو ان کی شاعری میں ابھر آئے۔ان کے احساسات میں جہاں گہرا تجربہ پا یا جا تا ہے وہیں عمیق مشاہدہ بھی ملتا ہے۔ان دو نوں کے حسین امتزاج سے تو صیفی نے اپنی شعری کا ئنات آباد رکھی ہے۔ان کے شعروں سے ہمارا ذہن ہی نہیں ہمارا وجدان نہال اور روح سرشار ہو جا تی ہے۔ان کے اشعار کا کینوس کئی رنگوں کی ترجمانی کر تا ہے۔بعض مقامات پر ان کی شاعری زندگی سے بھی زیادہ بلند ہو جا تی ہے۔ان کا شعری مجموعہ ستارہ یا آسمان بلا شبہ اردو ادب کے دامن کو وسیع کرتا ہے اور اسے ہم ادب عا لیہ قرار دے سکتے ہیں۔ہر شعر اپنے جلو میں نیا پن لئے ہو ئے ہے۔نئے اسالیب سے شعر چمکنے اور مہکنے لگتے ہیں۔نئی ہیت ،نئے ڈکشن سے شعری فضا معمور ہو جا تی ہے۔مصحف اقبال بر صغیر ہند کے ایک بڑے قد آور شاعر بن جا تے ہیں۔ان کا انداز اور لب و لہجہ دلآویز ہو جا تا ہے۔وہ نئی شاعری کے امین ہی نہیں خالق بن جا تے ہیں۔وہ اپنے معاصرین کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔وہ غالب کے ہمنوا ہو جا تے ہیں۔
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صدا میرے بعد
ان کی شاعری ایک ایسا آئینہ خانہ بن جا تی ہے جہاں غم جا ناں و غم دوراں کی پر چھا ئیاں صاف نظر آتی ہیں۔ستارہ یا آسمان شاعری کا صحیفہ کہلا یا جاسکتا ہے۔اس میں حیات و کا ئنات کے مختلف شیڈس یعنی رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔تو صیفی زیست کے نغمہ زن بھی ہیں اور نوحہ گر بھی۔عظیم شاعر کی شناخت یہی ہے کہ وہ اپنے عصر کا رزمیہ اپنی شاعری میں سمو دیتا ہے۔اب پیاس بڑھتی جا رہی ہے۔ آ یئے توصیفی کی خوبصورت شاعری سے اپنی ادبی تشنگی بجھانے کا اہتمام کریں۔
پھر اپنا نشاں کہیں نہ پا یا
اٹھ کر ترے ساتھ تو گئے ہم
کھو یا ہے اسے تو خود کو پا یا
پا یا ہے اسے تو کھو گئے ہم
سنا تم روتے روتے سو گئے تھے
تمہارے گھر کا دروازہ کھلا تھا
میں پتھر تھا مگر پتھر کی تہہ میں
تپش ایسی عجب لاوا بھرا تھا
کٹی عمر اک در پہ رہتے ہوئے
بڑی شرم آتی ہے کہتے ہوئے
دنیا ہم کو بھول گئی
ہم بھی گھر سے کم نکلے
تو صیفی کی تمام نظمیں پر اثر ہیں۔مجھے ان کی نظم دھوپ کیوں نہیں آتی اچھی لگی۔اپنی چا ہت کی تا ئید میں اس کے دو بند پیش کر تا ہوں۔
جانے میرے کمرے میں
دھوپ کیوں نہیں آتی
دن تو دن ہے راتوں کو
جب بھی اس کے کمرے میں
میں بے جھانک کر دیکھا
جتنے روزن در ہیں
کیسے ان سے چھن چھن کر
چاندنی اترتی ہے
اس کے فرش پر دیکھے
میں نے لاکھ سیارے
کہکشاں سی آب جو
روشنی کے فوارے
اس کا چاند سا ما تھا
اس کی مانگ میں تارے
نظم شاعر کی حرماں نصیبی پر ختم ہو جا تی ہے۔اس کا کلائمکس شاندار ہے۔ان کی اور نظمیں جیسے جیون بھر ہم ،آمریت اور ہار جیت وغیرہ نئے علا ئم اور مفا ہیم لئے ہوئے ہیں۔ان کا رنگ و آہنگ سب سے جدا سب سے منفرد ہے۔ان پر ان کی فکر کی چھاپ گہری ہے۔ایک ایک شعر توصیفی کی جدت طرازی و نکتہ آفرینی کی گواہی دے رہا ہے۔ہم اہل ادب مصحف اقبال تو صیفی کے ممنون ہیں کہ انہوں ہمیں اپنی بیش بہا تخلیقات سے نوازا۔تاہم بعض اشعار میں زبان و بیان محل نظر ہے۔ہم ان کی جانب اخلاص و انکساری سے اشارہ کر رہے ہیں۔
عجیب نور سا چھنتا دکھائی دیتا ہے
عجیب نور یا عجیب روشنی نہیں ہوتی۔عجیب کے بجائے حسین کہا جا سکتا ہے۔ جیسے حسین نور سا چھنتا دکھائی دیتا ہے۔
ایک مصرعہ ہے۔ حصار خواب سے نکلوں تو آئینہ دیکھوں
خواب کا کوئی حصار یا سرحد نہیں ہوتی۔لفظ حصار کے عوض خمار باندھا جا سکتا ہے۔ یعنی
خمار خواب سے نکلوں تو آئینہ دیکھوں
یہ شعر ملا حظہ کیجئے۔
یہ میرے ٹوٹتے بازو یہ ڈوبتی کشتی
یہ ریگ زار تو دریا دکھائی دیتا ہے
یہاں ریگ زار کا لفظ بے جوڑ اور بے محل ہے۔شعر کے متن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ریگ زار کو ہٹا دیا جا ئے تو شعر معنی آفرینی سے بہرہ ور ہو جا ئے گا۔جیسے بڑی اٹھان میں دریا دکھائی دیتا ہے
بڑے وبال میں دریا دکھائی دیتا ہے
اک اضطراب میں دریا دکھائی دیتا ہے
ان کا یہ شعر دیکھئے۔ بچھڑ کر بھی اس کے اثر میں رہا فلک سے جو ٹوٹا شجر میں رہا
شجر میں رہا بے معنی اظہار ہے۔سفر میں رہا کہنا چا ہیئے۔مصرعہ یوں ہونا چا ہیئے۔
فلک سے جو ٹوٹا سفر میں رہا
یہ چیزیں ان کے کلام میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr Masood jafri
H,No 8-1-43\1\A\5 ‘ Satya Colony
Shaikhpet ‘ Hyderabad-500008
09949574641 Mobile:

Share
Share
Share