حیاتِ خلیل ؑ بہ نظرِفقیر
ابوالفداشاہ ڈاکٹرمحمد ذوالفقارمحی الدین صدیقی القادری الملتانی المعروف مکرم پاشاہ
صدر شعبہ عربی ‘ اورینٹل اردو کالج‘حمایت نگر ‘ حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : +919490379870
ای میل :
اللہ رب العزت بڑا ہی حلیم ہے۔ ہرلمحہ اس کی صفت ہی کا ظہور ہے کہ باوجود بندوں کی خطاؤں کے وہ معافی کادروازہ کھلاہی رکھاہے اور ہرپل بندے کواپنی طرف بلاتاہے کہیں قدرت کی نشانیاں دکھلاتاہے توکہیں خلقت انسانی کے مختلف مراحل بتلاتاہے توکہیں موت کی منظرکشی اورمابعد الموت کامسکن اور اسکی نعمتوں کااظہار فرماتاہے باوجود اس کے بندے کی غفلت پراس معاہدہ کی یاددہائی کرائی جاتی ہے جوعالم ارواح میں الست بربکم (کیامیں تمہار رب نہیں ہوں ) سے لی گئی جس کا اثباتی جواب میں اقرار قالو بلیٰ (وہ بولے ہاں کیوں نہیں ) سے کیاگیا ۔اسی اقرار کی یاددہانی اورایفائے عہد کیلئے انبیاء مرسلین علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے جورب سے عبد کے بندھن کومضبوط کرتے رہے اسی سلسلہ کی ایک عبقری شخصیت ابوالانبیاء تاج الاصفیاء سیدناابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی ہے۔
نزھتہ النواظر میں ابراہیم کے معنی اب راحم یعنے مہربان باپ کے ہیں آپ کی ولادت طوفان نوح کے 1180 سال بعد اور ہجرت سیدالاولین والاآخرین خاتم الاانبیاء و المرسلین سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ سے 2893 سال قبل ہوئی اور آپ کی جائے پیدائش راجحا متعلقات بابل یاشہر سوس بتلائی جاتی ہے آپ کی حیات مبارکہ کے ابتدائی ایام ہوں یابچپن دورشباب ہویاپیرانہ سالی ہر دورمیں ذاتِ الٰہی کے ساتھ کامل وارفتگی اورفدائیت کاعمدہ نمونہ سالیکن راہ حق کیلئے ملتا ہے تب ہی تو ارشاد ربانی ہوتا ہے قدکانت لکم اسوۃ حسنتہ فی ابراہیم (ممتحنہ) یعنی تمہارے لئے حیات ابراہیمی میں عمدہ نمونہ ہے
ایک مبتدی جب حیاتِ ابراہیمی کے اوراق الٹتا ہے توآپ ؑ کی حیات مبارکہ کوتین ادوار میں منقسم پاتا ہے۔
(۱)فکر(۲)تجربہ(۳) مشاہدہ ویقین
آپ کی زندگی کے ابتدائی ایام فکر حق کے رہتے ہیں ذاتِ خداوندی کوپانے کیلئے فکر کااستعمال جوآپ نے کیا ہے موجودات سے خالق موجود ات تک رسائی کاطریقہ آپ نے اختیار کیاہے قرآن حکیم نے من وعن ہم سے بیان کیاہے مفسرین کرام کہتے ہیں کہ ننھاابراہیم اپنی ماں (جنکانام اوفیٰ بنت نمربتلایاجاتا ہے) سے پوچھتا ہے میرارب کون ہے توماں کہتی ہے میں ہوں پھرپوچھتے ہیں اے ماں تیرا رب کون ہے توماں کہتی ہے تمہاراباپ پھرآپ پوچھتے ہیں انکا رب کون ہے توماں کہتی ہے بادشاہ نمرود بن کنعان پھر آپ پوچھتے ہیں اسکا رب کون ہے توماں ایک تھپڑ رسید کرتی ہے اورکہتی ہے خاموش ہوجا، اس طرح ایک غارمیں آپ کی زندگی کے لمحات گذرتے ہیں اوریافت حق کیلئے بے چینی بڑھتی ہی جاتی ہے ایک رات آپ کی ماں غار کے باہرآپ کونکالتی ہے توآسمان کی رفعتوں پرایک چمک نظر آتی ہے یافت حق کیلئے بیقرار تھے فوراً فکرابراہیمی تارے کی چمک سے متاثر ہوجاتی ہے اوریہ اعلان کرتی ہے ہذا ربی یہ میرا رب ہے جب چاند اپنے حسن وجمال کیساتھ آسمان کی بلندی پرچمک اٹھتا ہے اوراسکی چمک دمک کے سامنے تاراماند پڑجاتا ہے توفکر ابراہیمی اپنے نظر یہ اول کوبرقرار نہیں رکھ سکتی اسے تو یافت حق کی تڑپ تھی فوراًاعلان کردیتی ہے ہذاربی یہ میرا رب ہے جب صبح کی آمد ہوتی ہے اور سورج کی دمک اپنے آب وتاب کیساتھ مشرق سے نمودار ہوتی ہے تو فکر ابراہیمی پھراپنا نظریہ بدلتی ہے اوربدلیل وحجت اعلان کرتی ہے ’’ہذا ربی ہذا اکبر ‘‘یہ میرا رب ہے اوریہ بہت بڑا ہے جب وقت ڈھلنے گیااور سورج اپنے شباب کے ساتھ ضعف کی طرف آتا ہے اورغروب ہوجاتا ہے ، جب سورج کازوال اورغروب دیکھتے ہیں توفکر ابراہیمی بے بانگ دہل کہتی ہے ’’یقوم انی برئ مما تشرکون‘‘ اے میری قوم تم جس شرک میں گھرے ہوئے ہومیں اس سے بری ہوں ۔اورنتیجہ فکران الفاظ میں اظہار فرماتے ہیں ’’انی وجھت وجھی للذی فطرالسموٰت والارض حنیفاوماانا من المشرکین o (انعام ) میں توسرتاپا اس ذات کی طرف متوجہ ہوں جوآسمانوں اورزمین کاپیدا کرنے والا ہے اورمیں شرک کرنیوالوں میں سے نہیں ہوں۔ جب تتجربات کی بھٹی میں پک کرفکر ذات حق کی یافت کرتی ہے تومشاہدہ کی لذتیں لوٹنا چاہتی ہے اوریقین کومستحکم کرنے کے لئے بارگاہ ایزدی میں مؤدبانہ ملتمس ہوتے ہیں ’’رب ارنی کیف تحی الموتیٰo(سورۃ البقرہ) اے میرے رب مجھے اپنے آپ کو دکھادے کہ تومردے کوکیسا زندہ کرتا ہے ،جواب آتا ہے’’ اولم تومن ‘‘کیاتمہیں یقین نہیں توآپ نے عرض کیا ’’بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی ‘‘کیوں نہیں یقین ہے لیکن میرے قلب کے اطمینان کیلئے غرضکہ مشاہدہ ذات صفات میں پنہاں ہے جس کسی کو توفیق ایزدی میسرہووہ مشاہدہ ذات کی لذتیں لوٹ سکتا ہے حیات ابراہیمی سالک کی بصیرت کو تیز کرتی ہے کہ نظرکیسے قائم کی جائے، حضرت سیدناموسیٰ علیہ السلام نے بھی بارگاہ ایزدی میں مشاہد ہ کی التجاء کئے تھے اوریوں معروضہ پیش کئے تھے ’’ربی ارنی اُنظر الیک‘‘(اعراف) اے میرے رب مجھے اپنے آپ کو دکھادے تاکہ میں تیری طرف دیکھوں ،توجواب نفی میں پایا۔ ارشاد ہوا’’لن ترانی ‘‘ ہرگز نہیں دیکھ سکتے ،یعنی اے موسیٰ صفات کوچھوڑ کر مجھے دیکھانہیں جاسکتا۔ ایک بزرگ اس مسئلہ کوسلجھاتے ہوئے فیصلہ سناتے ہیں۔
ذات اورابے صفاتش کس ندید
ذات اوباما کند گفت وشنید
(ترجمہ) ذات الٰہی کوہرگز صفات کے بغیر دیکھانہیں جاسکتا، وہ ذات توبصفت کلام وصفت بصارت ہمارے ساتھ مصروف ہے۔
حضرت ابراہیم ؐ اطمینان قلب کیلئے معروضہ رکھتے ہیں توحکم ہوتا ہے ’’فخذأربعۃ من الطیرفصرھن الیک ثم اجعل علی کل جبل منھن جزء ا‘‘ چارپرندے لیکر چند روز انکواپنے پاس رکھنا پھرسب کاقیمہ کرکے تھوڑا تھوڑا پہاڑ کے مختلف ٹیلوں پررکھ دے،چنانچہ آپ نے مور ،کبوتر، مرغ اور کوالیا پھرحکم رب ہوتا ہے’’ ثم ادعھن ےأتینک سعیا‘‘پھرانکو بلائیے وہ دوڑ کر آپ کے پاس آئیں گے ۔
آیات مذکورہ میں جواقعہ بتلایاگیاہے وہ بظاہر ایک قصہ پارینہ نظرآتاہے مگراہل بصریت ہرچیز میں اپنے لئے نصیحت ڈھونڈتے ہیں قرآن مجید کاحکم قیامت تک کے لئے جاری ہے احیاء موتیٰ کے ظاہری اورباطنی پہلوؤں پرنظرڈالی جائے توبے شمار نصیحتیں ہمارے لئے نکل آتی ہیں میں صرف تفسیر انوار کی عبارت پراکتفا ء کرتاہوں ۔آپ لکھتے ہیں۔ ’’جوشخص اپنے نفس کوحیات ابدی سے زندہ کرناچاہے بہترہے کہ قوائے صفات بدنیہ کوتیغ ریاضت سے بسمل کرے اور ایساکوٹے کہ تندی انکی جاتی رہے اورفرمانبرداری پرقرار واقعی مستعد رہیں پھرانکو عقل وشرح کی طرف بلائے تاکہ بطریق مطاوعت جلدی کریں‘‘۔
تفسیر حسینی میں حکیم سنائی روح اللہ روحہ کے اشعار آیات مذکورہ کی تفسیر کے بعددرج کئے گئے نقل کئے جاتے ہیں۔
چارمرغ ست چارطبع
جملہ رابہر دین بزن گردن
پس بایمان وعقل وعشق ودلیل
زندہ کن ہرچہارراچوخلیل
فکر جب صحیح نتیجہ پرپہنچتی ہے اورباربار کے مشاہدہ سے نظر مضبوط ہوتی ہے تویقین کے درجہ پررسائی ہوتی ہے اوراب زندگی کے سارے لمحات آسان ہوجاتے ہیں اور یقین کی منزلیں بڑھتی ہی جاتی ہیں اسی ایقان کی جھلک جابجا نظرآتی ہے ایک ماہ تک لکڑیاں جمع کی جاتی ہیں اورسات دن تک آگ کو تیز کیاجاتا ہے جس کے شعلے آسما ن سے باتیں کررہی تھیں اورجن کے لئے یہ سب تیار یاں ہورہی ہیں ان پر اسکا کچھ اثرنہیں ہورہا ہے سوائے انسانوں کے ہرمخلوق پریشان وفکر مند ہے ملک السحاب یعنے وہ فرشتہ جس کے حوالے ابراورپانی ہے حاضر ہوتا ہے اور دست بستہ عرض کرتا ہے اگرمجھے حکم ہوتو ایک قطعہ ابرسے اس آگ کو پانی کردوں توآپ ارشادفرماتے ہیں ’’لاحاجۃ لی الیک ‘‘ مجھے تیری احتیاج نہیں ہے پھر ہواؤں کافرشتہ حاضر خدمت ہوتا ہے اورعرض کرتا ہے اگرمجھے حکم ہوتواس آگ کو ہواکردوں کہ تمام آگ منتشر ہوجائے توآپ ارشا د فرماتے ہیں’’ لاحاجۃ لی الیک حسبی اللہ ونعم الوکیل ‘‘مجھے تیری حاجت نہیں ہے میرااللہ میرے لئے کافی ہے اوروہی بہتر کارساز ہے اسی طرح ہرقسم کے فرشتے آتے ہیں اور آپ کا ایک ہی جواب ہوتا ہے لاحاجۃ لی الیک ،لاحاجۃ لی الیک ،ابن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آگ میں آپ ڈالے جارہے تھے تویہ کلمات وردزبان تھے ۔
’’لاالٰہ الاانت سبحانک لک الحمد ولک الملک لاشریک لک‘‘
منجنیق میں اٹھایا جارہاتھا ایسے نازک موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اورپوچھتے ہیں ’’ہل لک حاجۃ ‘‘اے ابراہیم کچھ مدد کی ضرورت ہے توآپ ارشاد فرماتے ’’اماالیک فلا ‘‘یعنے محتاج مددہوں مگرتم سے نہیں پھرجبرائیل علیہ السلام کہتے ہیں اپنے خدا سے سوال کروتو آپ فرماتے ہیں ’’علمہ بحالی یکفی من سوألی ‘‘ میرے سوال کی ضرورت نہیں وہ میرے حال سے واقف ہے۔ نہ خوف کے آثار ہیں نہ پریشانی کیلئے کوئی جگہ کیونکہ وہ اس منزل میں تھے جہاں آگ جلانہیں سکتی تھی اس لئے حکم آگ کو ’’کونی برداوسلاما علی ابراھیم‘‘ ہوتا ہے ۔
یو ں تو حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی ذات سے عشق کامل وارفتگی اورفدائیت تامہ کے عملی نمونوں سے پر ہے امتحانات پرامتحانات آزمائشوں پرآزمائشیں بارہا لئے گئے جس کی تصدیق قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتی ہے ’’واذاابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمت ‘‘اور جب ابراہیم کوان کے رب نے کئی باتوں میںآزمایا ،اور آپ بھی ہرآزمائش اورامتحان میں ثابت قدمی ثبوت دیاجس کا سرٹیفکیٹ قرآن کریم ’’فاتمہن ‘‘یعنے ان آزمائشوں اورامتحانات میں صدفیصد کامیابی حاصل کی سے دیا ہے ،اور رب کائنات اپنی خوشنودی کااظہارفرمارہا ہے اور انعام واکرام ’’انی جاعلک للناس اماما‘‘بے شک میں تمہیں لوگوں کاپیشوا ومقتدا بنا رہاہوں سے نوازرہا ہے ،آپ کے تعارف کیلئے قرآن مجید نے تین صفات کاانتخاب کیاہے ’’ان ابراھیم لحلیم اواہ منیب‘‘ بے شک ابراھیم تحمل والا بہت آہین کرنیوالا رجوع لانیوالا ہے ،ایسے صفات کا حامل اپنے انعامات کی بارش سے کیونکر اپنی اولاد کومحروم رکھ سکتا ہے فوراً بارگاہ ایزدی میں ملتمس ہوتے ہیں ’’ومن ذریتی ‘‘الٰہی تیری رحمتوں کی بارش تیرے انعامات واکرام کے سیل رواں اورتیری عطاؤں ونواز شوں میں میری اولاد کوبھی شامل کرلے تومجھے امام الناس بنارہا ہے میری اولاد کوبھی درجہ امامت سے سرفرازی ہو، ابراھیمؑ کی قربانیاں جہاں عروج پرتھیں وہیں خالق ارض وسماء کی رحمت بھی جوش پر تھی خوشخبری دیجاتی ہے’’لاینال عھدی الظالمین ‘‘(البقرہ) اے ابراھیم جوتمہاری راہ پر رہے گا اس کے لئے میراوعدہ ہے اورجواس ڈگر سے انحراف کرے گاوہ محروم رہے گا۔
حیات ابراھیمی میں جہاں ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے وہیں انکے اوران کے نورنظرلخت جگر سیدنااسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام اوران کی ماں سیدتناہاجرہ علیہا السلام کی اداؤں اورطریقوں کورب کائنات نے قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا اوراپنے اس جاں نثار بندے کواپنی خلت سے سرفراز فرمایا’’واتخذاللہ ابراہیم خلیلاہ ‘‘ اور اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایااور ہمارے آقا حضور ختمی مرتبت سیدالاولین والاخرین محمد رسول اللہ ﷺ کوحبیب اللہ کے لقب سے سرفراز فرمایا
ہے جیسا کہ ترمذی شریف میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی روایت سے ثابت ہے آقائے دوجہاں ارشاد فرماتے ہیں ’’الاوأنا حبیب اللہ ولافخر‘‘ آگاہ ہوجاؤ میں اللہ کاحبیب ہوں باوجود اس کے مجھے فخر نہیں ،سیدی جدی مولائی ومرشدی حضرت ابوالمراد شاہ غلام محبوب صدیقی القادری الملتانی قدس سرہ اپنی ایک تحریر میں نقل فرماتے ہیں ’’خلیل اللہ کے معنے اوصاف سے ذات کوپانے کے ہیں اور حبیب اللہ کے معنے ذات مع اوصاف خود میں پانے کے ہیں ۔‘‘
اس طرح معمار خانہ کعبہ تعمیر کعبہ کے وقت اپنے اس عمل کی قبولیت اوراس گھرکی آبادی اوررونق کیلئے صالح اولاد اورتیری دعا’’ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلواعلیھم اٰےٰتک ویعلمہم الکتب والحکمۃ ویزکیھم ‘‘اے میرے پروردگار ال ابراہیم میں ایسے رسول کومبعوث فرماجوآیات اللہ کی تلاوت کرتاہومعلم کتاب ہومفسر حکمت ہواور مزکی قلب ہواس طرح دعائیں اور بشارتیں دیتے یہ اللہ کا خلیل بروایات مختلف 175 یا 195یا200 سال کی عمرتکمیل کرکے وصل کی دائمی لذتوں میں پنہاں ہوگیا۔
ابوالفداشاہ محمد ذوالفقارمحی الدین صدیقی القادری الملتانی المعروف مکرم پاشاہ
نبیرہ حضرت ابوالمراد قدس سرہ
صدشعبہ عربی اورینٹل اردو کالج اینڈ ریسرچ سنٹر
کامل الفقہ (جامعہ نظامیہ) ایم اے ایم فل (جامعہ عثمانیہ )
’’مقام محمود ‘‘مکان نمبر 357-4 -22 کوٹلہ عالیجاہ ،حیدرآباد 23 ،تلنگانہ
Dr.Md Zulfeqar Mohiuddin Siddiqui
۲ thoughts on “حیاتِ خلیل ؑ بہ نظرفقیر ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحمد ذوالفقارمحی الدین صدیقی”
مولانا کا مضمون بہت مختصر مگراچھا ہے۔زبان و بیان خوب ہے۔عنوان بھی پسند آیا۔چوں کہ مولانا ‘ ڈاکتر بھی ہیں اس لیے ان سے گزارش ہے کہ مذہبی موضوعات پر سائنٹفک انداز میں مضمون لکھیں تاکہ نوجوان نسل کو سمجھ میں آسکے اور اندھی تقلید سے محفوظ رہ سکے۔مولانا کا نام بہت طویل ہے ۔اتنے بڑے بڑے نام یا القاب رکھنا ضروری ہے کیا؟
خالدہ فرحت ۔ کویت
عیدالاضحی کے موقعہ پر حیات سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور تعمیر خآنہ کعبہ جسکا کہ حج کیا جاتا ہے، بہت معلومات آفرین مضمون ما شاء اللہ مبارک