ساہتیہ اکاڈمی دہلی کے زیر اہتمام ہمہ لسانی محفل
رپورتاژ: ڈاکٹر رؤف خیر
حیدرآباد ۔ دکن
ساہتیہ اکاڈمی دہلی ملک کے مختلف مقامات اور یونیورسٹیوں میں ہمہ لسانی مشاعرے سمینار کرواتی ہی رہتی ہے تاکہ مختلف زبانوں کے لکھنے والوں کے سوچنے کے انداز سے قلم کار ایک دوسرے سے واقف ہوں مجھے اس سے پہلے بھی کئی بار مدعو کیا گیا اس بار ساہتیہ اکاڈمی دہلی نے اپنے سہ روزہ پروگرام کے لیے ڈبوروگڑھ یونیورسٹی آسام کاانتخاب کیا۔ اس طرح مختلف علاقوں کے قلم کاروں کو ایک دوسرے سے ملنے کے ساتھ ساتھ نئے نئے مقامات دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسا ہی ایک پروگرام ہمہ لسانی کل ہند مشاعرہ 6۔4 ستمبر آسام میں تھا۔
ساہتیہ اکاڈمی کے سکریٹری کے۔ سری نواس راؤ صاحب نے مشاعرے میں اردو کی نمائندگی کے لئے ای میل کے ذریعے مجھے دعوت دی۔ میرے بڑے بیٹے رافف خیری نے 5 ستمبر کی فلائٹ سے میری سیٹ بُک کردی اور پھر واپسی کی فلائٹ سات ستمبر کو طئے ہوئی۔ حیدرآباد سے دہلی پھر دہلی سے براہِ کلکتہ ڈبور گڑھ آسام پانچ ستمبر کی دو پہر میں پہنچا۔ ساہتیہ اکاڈمی کی طرف سے ایر پورٹ پر کار موجود تھی وہں ا سے سیدھے نٹراج ہوٹل پہنچایا گیا جہاں ہمارے لیے کمرہ محفوظ کر دیا گیا تھا۔
پروگرام کے پہلے روز بعض مترجمین کی خدمات کے اعتراف میں انہیں انعامات و اکرامات سے نوازا گیا دوسرے اور تیسرے روز ہمہ لسانی کل ہند مشاعرے ہوئے جن میں مختلف علاقوں سے مختلف زبانوں کے شاعروں نے اپنی اپنی منتخب تخلیقات پیش کرتے ہوئے ایک دو نظموں کے انگریزی تراجم بھی پیش کئے۔ مشاعرے کے آغاز میں ساہتیہ اکاڈمی دہلی کے سکریٹری سری کے سری نواس راؤ صاحب نے ابتدائی کلمات کے ذریعے اپنے سٹاف اور فن کاروں کا مختصر مگر جامع تعارف پیش کیا جب کہ افتتاحی پروگرام کی صدارت ساہتیہ اکاڈمی کے صدر جناب وشواناتھ پرساد تیواری فرما رہے تھے اور مہمان خصوصی ڈبورو گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آلک بروگو حین تھے۔ ساہتیہ اکاڈمی دہلی سے وابستہ آسامی مشہور و ممتاز قلم کار محترمہ کرابی دیکا ہزاری کا نے اکاڈمی کے ایسے پروگراموں کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ قابلِ ذکر تخلیق کاروں کی بہت اہم تخلیقات کا ترجمہ چوبیس زبانوں میں اکاڈمی کے ذریعے کر کے فن کاروں کو پورے ملک سے متعارف کرایا جاتا ہے مہمانِ خصوصی وائس چانسلر سے پہلے صدر ساہتیہ اکاڈمی دہلی نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ فنکار کا کام اپنے آپ کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ یہ پوری کائنات دیوتا کی کویتا ہے۔ یعنی Poetry of God ۔ ہر شخص ہر جاندار ہر شئے اپنے آپ کو پہچنوانا چاہتی ہے اپنی اہمیت کا احساس دلانا چاہتی ہے۔ کولرج کہتا ہے جو جتنا خود کو سلجھا لیتا ہے وہ اتنا ہی بڑا فن کار ہے۔ کوی زبان کے انجماد کو توڑتا ہے۔ اس کی تحریروں سے فن کاری کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ تخلیقی ادب میں سائنسی ادب کے مقابلے میں اپنی شناخت بنوانے کے زیادہ مواقع ہیں انہوں نے اپنی تقریر میں میرؔ و غالب و جگرؔ کے برمحل اشعار بھی سنائے۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
سکریٹری صاحب نے صدر ساہتیہ اکاڈمی کو دعوت خطاب دیتے ہوئے ان سے نظموں کی گزارش بھی کی تھی انہوں نے دو نظمیں سنائیں جس میں ایک نظم کا عنوان تھا، ’’کہاں دیکھا تھا اسے یاد نہیں آتا ہے‘‘۔
مہمانِ خصوصی پروفیسر الک کر بوروگو حین نے ساہتیہ اکاڈمی دہلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ اعزاز ڈبور گڑھ یونیورسٹی کے حصے میں آیا کہ ملک کے مختلف حصوں سے تشریف لانے والے مترجمین، شعراء و ادبا کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ وہ ہر چند کہ سائینس کے آدمی ہیں پھر بھی شعر و ادب سے انہیں گہرا شغف ہے۔
اس کے بعد محفل شعر سجائی گئی۔ جبن نارا (آسامی)، رتنیشور باسوماترے (بوڈو)‘ جی پی شرما (منی پوری، ارون چندر رائے (نیپالی) ایپا مادھون (ملیالم) کے وینکٹیشور ریڈی (تلگو) اور پھر رؤف خیر (اُردو) نے اپنی اپنی تخلیقات سے رنگ جمایا۔ میں نے اپنی دو نظمیں پناہ اور شاپنگ سنائی۔ پناہ کا انگریزی ترجمہ جمیل شیدائی نے اور شاپنگ کا ترجمہ بلراج کومل نے جو کیا تھا وہ بھی سنا دیا اور داد پائی۔ اس کے بعد دو تین غزلوں کے منتخب اشعار سنا کر خوب داد پائی۔ چونکہ اردو ایک ایسی زبان ہے جو ہندی، نیپالی، پنجابی، آسامی وغیرہ وغیرہ سب سمجھ لیتے ہیں اس لیے سامعین میں موجود خواتین و حضرات اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے میری نظموں، غزلوں کی بہت داد دی۔
دو شعر ہیں:
گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے
پرندہ بھی شکاری کی سپاری لے کے نکلا ہے
سنا ہے آپ وہاں بھی قیام کرتے ہیں
جہاں کبھی کوئی نیٹ ورک ہی نہیں لگتا
رات ساڑھے آٹھ بجے وائس چانسلر صاحب کی طرف سے ڈبور گڑھ یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں ڈنر کا اہمتام کیا گیا۔ میں سفر میں چکن مٹن کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا پتہ نہیں حلال ہو کہ نہ ہو۔ مگر اس ڈنر میں مچھلی خوب تھی۔ موز کے پتے میں لپٹی ہوئی مسالے دار مچھلی بڑی لذیذ تھی۔ میں نے مچھلی سے انصاف کیا۔ گلاب جامن اور رس گلے بھی کھلائے گئے۔
کلکتہ سے آسام تک ساڑھے پانچ بجے سورج غروب ہو جاتا ہے چنانچہ عصر کی نماز چار بجے اور مغرب کی نماز ساڑھے پانچ بجے ادا کی جاتی ہے البتہ عشا سوا آٹھ بجے ہوتی ہے۔ جہاں ہم ٹھہرائے گئے تھے اس ہوٹل نٹراج سے جامع مسجد ڈبورو گڑھ بہت قریب ہے۔ 1352ھ میں تعمیر کردہ یہ خوب صورت مسجد بنگالی فن کاروں کی یادگار ہے۔ مسجد کے ستونوں اور دیواروں پر چینی کے ٹکڑوں کو بڑے سلیقے سے سجاکر ہنر دکھایا گیا ہے تقریباً ایک سو برس پرانی اس مسجد سے تبلیغ دین کا کام لیا جارہا ہے۔ قابل لحاظ مسلم آبادی ہے البتہ ہر عمر کی غیر مسلم لڑکیاں بری بے باکی اور بے حجابی سے اپنے جسموں کی نمائش کرتی ہیں۔ ان کے منہ سے کوئی چیز گر جائے تو وہ زمین کے حوالے نہیں ہوتی درمیان ہی میں رک جاتی ہے۔
دوسرے دن کا پہلا اجلاس بہت دلچسپ تھا جس کی صدارت پروفیسر ناگین سائیکیہ نے کی۔ مختلف زبانوں کے چار اہم لکھنے والوں سے اپنے لکھنے کے محرکات پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا گیا۔ صدرِ اجلاس بجائے خود ناظمِ اجلاس بھی تھے۔
سب سے پہلے ملیالم کے مشہور و ممتاز ناول نگار پی۔ سچی دانندم کو زحمتِ کلام دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً ترپن (53) سال بعد ڈبورو گڑھ آئے ہیں۔ وہ آسام میں 1962ء انجینئر رہے۔ 1965ء میں وہ آرمی کمیشن میں کیپٹن تھے۔ چین سے جنگ کے وقت ہندوستانی فوج پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا۔ بنگلہ دیش بنا۔ مشرقی پاکستان کے ذہن میں مذہب نہیں تھا۔ (قومی جذبہ تھا) طوفان، سیلاب اور جنگ سے وہ پریشان تھے۔ ہندوستان در آئے مہاجرین Refugees اور انقلابی Revolutioneers کے حالات ان کی ناولوں کے محرکات ہیں۔ تاریخ ہے کہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی۔
ان کے بعد بنگالی نقاد سِل ادتیہ سین نے کہا کہ وہ شروع ہی سے ویپوتی بھوشن کی تحریروں سے متاثر رہے جن کے ناولوں پر ستیہ جیت رے جیسے فلم ڈائرکٹر نے فلمیں بنائی ہیں۔ جیسے پاتھر پنچالی وغیرہ۔ ادتیہ سین نے کہا کہ میں ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے نہ کوئی جنگ عظیم دیکھی نہ تقسیم Partition کی اذیت جھیلی نہ فسادات۔ انہوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ وہ صرف بنگالی قلم کاروں کی تخلیقات ہی پرھتے ہیں جو ان کی تحریروں کو با وقار بناتی ہیں۔ وہ بنگلہ زبان سے ہٹ کر کسی اور زبان میں نہیں لکھتے (ہر چند کہ یہ مضمون انہوں نے انگریزی میں لکھ کر سنایا)۔
منی پوری کے ڈاکٹر اِرون گھن دیون سنگھ نے کہا کہ وہ جب بھی موقع ملتا ہے لکھنے پڑھنے ہیں وقت گزارتے رہے ہیں اور کہا کہ شاعری میرے دل کی آواز ہے اور اس صدا آلودگی Noise Pollution دور میں اپنی آواز بنانا بہت مشکل ہے۔ نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہی ہمارے ہونے کا ثبوت ہے۔
مراٹھی کے رنجن گواس نے اپنا مضمون ہندی میں سنایا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو زبردستی اسکولوں میں شریک کروادیا جاتا تھا۔ میں بھی ایسا ہی بچہ تھا۔ میٹرک تک کویتائیں پڑھ پڑھ کر ہم بھی کوی ہوگئے۔ کالج میں آئے تو استادوں نے ہمیں اندولنوں میں ڈھکیلا۔ ہم نے بھی دیوادسی اندولن چلایا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ مراٹھی ادب صرف پونے اور بمبئی ہیں میں لکھا جاتا ہے حالانکہ دیہاتوں میں بھی کئی لکھنے والے تھے۔ مہاتما پُھلے نے انقلابی فکر دی۔ امبیڈکر نے بہوجن سماج میں ہنگامہ مچا دیا۔ ہم نے ہجڑوں اور نامردوں کے مسائل بھی حکومت سے حل کروائیے۔ ہجڑوں کو حکومت میں نمائندگی ملی۔ ان کا ایک ہجڑا ایم پی بن گیا۔ تعلیم کو نوکری سے جوڑ دیا گیا۔ یہ سارے مسائل ہماری تحریروں کے محرکات ہیں۔
پنڈلک نائک کی صدارت میں کہانی سشن ہوا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کہانی سگریٹ جیسی ہو جس میں اچھا تمباکو ہو اور سگریٹ جھٹکے سے ختم ہو تو پتہ چلتا ہے کہ اچھا سگریٹ ختم ہوگئی اسی طرح کہانی بھی جھٹکے سے ختم ہونی چاہئیے۔ دادی ماں پہلے کہانی سناتی تھی کہ بچوں کو نیند آجائے آج کہانی نیند اڑا دیتی ہے پنڈلک نائک نے ڈبورو گڑھ کے مشہور کہانی کار سید عبدالقدوس ملک کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ بھوپن ہزاری کا کو بھی یاد کیا گیا۔
اڑیا کے واحد کہانی کار ڈاکٹر ڈیباسس پنی گریہی۔ اڑیسہ کٹک میں اسپکٹر جنرل آف پولیس (IG) ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ناز ہے کہ میں اڑیا کا نمائندہ افسانہ نگار ہوں۔ انہوں نے ایک پتے کی بات کہی کہ آپ اپنی مادری زبان میں بھلے ہی اچھے تخلیق کار ہوں آپ کی شناخت اس وقت بنتی ہے جب آپ کی تخلیقات کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوتا ہے اور وہاں پذیرائی ہوتی ہے تب گھر والوں کو احساس ہوتا ہے اسی جذبے کے تحت ڈاکٹر ڈے باسسپنی گریہی نے اپنی اڑیا کہانیوں کا انگریزی ترجمہ Things Left Unsaid شائع کروایا۔ میں نے جب شعر سنائے تھے تو ایک شعر یہ بھی پڑھا تھا۔
کُھلے گا اُن پہ جو بین السطور پڑھتے ہیں
وہ حرف حرف جو اخبار میں نہیں آتا
میں نے اپنے شعر کی انگریزی میں صراحت کی تھی کہ اصل مواد تو Between The Lines ہوتا ہے۔ میرے شعر کی آئی جی ڈیباسس نے بڑی تعریف کی اور خاص طور پر اپنی انگریزی کتاب اپنے دستخط سے مجھے عنایت کی۔ اس سیشن میں انہوں نے اپنی ایک کہانی ’’درگاموسی‘‘ بھی سنائی جو بہت متاثر کن ثابت ہوئی۔
راجستھانی کے مشہور و ممتاز شاعر چندر پرکاش دیول کی صدارت میں دوسرا مشاعرہ ہوا جس میں موہن سنگھ نے ڈوگری میں نظم مرغا جگاتا ہے۔ سنجیو والانے گجراتی غزلیں، سوپربھا جھانے میتھلی میں نظمیں، شریمتی جئے شری چٹو پادھیائے نے سنسکرت میں، ست پال نے پنجابی میں اور ہریش کرم چندانی نے سندھی میں نظمیں سنائیں۔
صدر مشاعرہ چندر پرکاش دیول نے اپنی راجستھانی نظموں کا ہندی ترجمہ سنا کر محفل کو گرما دیا۔ انہوں نے قلعے کے اندر بے کار پڑی توپ کے احساسات کو ’’توپ نامہ‘‘ کے نام سے کئی نظموں میں بیان کیا آنکھ مچولی کھیلتے بچے توپ کے منہ میں چھپتے ہیں تو کئی لوگوں کو بھون ڈالنے والی توپ کے تھنوں میں دودھ اتر آتا ہے اور وہ ان بچوں کو زندگی سے بھر پور لمحے دے کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی ہے۔ ایسی خوبصورت نظموں کے ساتھ یہ محفل اختتام کو پہنچی۔ میں ممنون کرم ہوں ساہتیہ اکاڈمی دہلی کا کہ مجھے مختلف زبانوں کے مخلص فن کاروں کی شاہ کار تخلیقات سے استفادے کا موقع دیا اور وہاں اپنی تخلیقات سے متاثر کرنے کا موقع بھی دیا۔
Dr.RAOOF KHAIR
MOTI MAHAL, GOLCONDA,
HYDERABAD 500008, A.P.
CELL: 09440945645,
EMAIL: