عرب ہند تعلقات:عہد نبوی اورخلفاے راشدین کے دورمیں – – مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
 مفتی امانت علی قاسمیؔ
مفتی امانت علی قاسمیؔ

عرب ہند تعلقات – عہد نبوی اور خلفاۓ راشدین کے دور میں

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دارالعلوم ۔ حیدرآباد ۔ دکن
E-mail:
Mob: 07207326738

عرب ہند تعلقات انتہائی قدیم ہیں ،قدیم ز مانے سے دونوں کے درمیان مختلف قسم کے تجارتی ،معاشی اور مذہبی تعلقات پائے جاتے تھے ،اہل عرب ہندوستان کے سواحل پر آتے تھے اور ہندوستان کے باشندے عرب سے آمد ورفت رکھتے تھے ، ہندوستانیوں کی مختلف جماعتیں وہاں مستقل طور پر آباد بھی تھی جن کو عرب زط اور مید کے نام سے یاد کرتے تھے ،اسلام سے قبل ہی ہندوستان کی بہت سی چیزیں عرب کی منڈیوں میں فروخت ہوتی تھی ،ہندی تلوار ،مشک ،عود ،کافور ،مرچ ،ساگوان ،ادرک ،سندھی کپڑے عربوں میں بہت متعارف تھے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب کے مختلف علاقوں میں ہندوستان کے لوگ آتے جاتے تھے اور وہاں مستقل آباد بھی تھے ،خود مکہ میں ہندوستان کے تاجر اور صناع موجود تھے ،آپ ﷺاور حضرات صحابہ ہند اور اہل ہند سے اچھی طرح واقف تھے ،بعض احادیث وسیر کی کتابوں میں اس کا تذکرہ بھی موجود ہے امام نسائی نے باب غزوۃ الہند میں ایک روایت نقل کی ہے جس سے ہندوستان کی اہمیت اور حضور کا ہندوستان کے ساتھ خصوصی تعلق معلوم ہوتا ہے ،حضور نے فرمایا :میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالی نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا ہے ،ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد کرے گا اوردوسرا وہ گروہ جو عیسی بن مریم کا ساتھ دے گا (سنن نسائی باب غزوۃ الہند)
آپ ﷺ کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد جب کفار ومشرکین سے باقاعدہ جنگ شروع ہوئی اور دور دراز ممالک میں اسلام کا چرچا ہوا تو ہندوستان کے بعض مذہبی طبقوں نے آپ ﷺکی طرف ایک تحقیقاتی وفد بھیجا اور ایک راجہ نے آپﷺ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا ،چوتھی صدی کا مشہور سیاح اور جہازراں بزرگ بن شہر یار رامہرمزی نے عجائب الہند میں لکھا ہے کہ جنوبی ہند اور اس کے جزائر سرندیپ کے جوگیوں اور سنیاسیوں نے ایک تحقیقاتی وفد حضور کی خدمت میں بھیجا لیکن یہ وفد چند رکاوٹوں کی وجہ سے اس وقت پہونچا جب کہ حضورﷺ کا وصال ہو چکا تھا اور حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمرخلیفہ تھے وفد نے حضرت عمر سے معلومات حاصل کیں اور آپ نے ان سے شرح وبسط سے باتیں کیں ،واپسی میں مکران کے قریب اس شخص کا وصال ہو گیا اس کے ساتھ ہندوستانی نوکر تھا وہ تنہا سرندیپ پہنچااس نے لوگوں سے سارا ماجرا بیان کیا اور حضرت عمر کی تواضع وخاکساری کا حال بیان کیا اور بتایا کہ وہ پیوند لگے کپڑے پہنتے ہیں اور مسجد میں بلا تکلف سو جاتے ہیں اس کا اثر اہل سرندیپ پر اچھا پڑاآج بھی وہ لوگ مسلمانوں سے محبت رکھتے ہیں اور اس کی طرف مائل ہیں (عجائب الہندص۱۵۷ طبع لیدن)اس واقعہ سے نہ صرف سرندیپ بلکہ آس پاس کے علاقے میں اسلام کا پھیلنا قرین قیاس معلوم ہوتا ہے دوسرا واقعہ ابو عبد اللہ حاکم نے مستدرک میں اور طبرانی نے معجم میں سند جید کے ساتھ نقل کیا ہے حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہندوستان کے ایک راجہ نے رسول ﷺ کی خدمت میں مٹی کے گھڑے میں زنجبیل (سونٹھ) کا ہدیہ بھیجا جسے آپ ﷺ نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے صحابہ میں تقسیم کرایا اور مجھے بھی دیا اور خود بھی کھایا (مستدرک ۴/۳۵)لیکن یقینی طور یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ کس بادشاہ نے یہ ہدیہ بھیجا تھا ۔
عہد نبوی میں کسی ہندوستانی نے اسلا م قبول کیا یا نہیں؟
عہد نبوی میں کسی ہندوستانی نے اسلام قبول کیا ہے یا نہیں تاکہ بلال حبشی ،سلمان فارسی ،صہیب رومی کی طرح فلاں ہندی کہا جاسکے ؟اس سلسلے میں دو روایت ملتی ہے ،ابن حجر اصابہ میں بیر زطن ہندی کا تذکرہ مدرکین میں کیا ہے کہ بیر زطن ہندی شاہان ایران کے زمانے یمن میں ایک بزرگ تھے بھنگ کے ذریعہ علاج کر تے تھے اسی سے یمن میں ان کی شہرت ہوئی انہوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور اسلام قبول کیا (اصابہ ۱/۱۷۸)۔
ایک دوسرا نام حضرت باذان ملک الہند کاہے ،ذہبی نے تجرید اسماء الصحابہ میں لکھا ہے کہ کسرہ بادشاہ کے قتل ہونے ہونے بعد باذان ملک الہند نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے مسلمان ہونے کی خبر رسول اللہ ﷺکے پاس بھیج دی (تجرید اسماء الصحابہ ۱/۴۵) ابن حجر نے لکھا ہے ملک الہند کے بجائے ملک الیمن ہونا چاہئے قاضی اطہر مبارک پوری نے لکھا ہے کہ ملک الہند ،ملک الیمن اور باذان الفارسی تینوں ایک ہیں باذان ایران میں رہتے تھے اور یمن کے حاکم تھے اس لئے فارسی اور ملک الیمن ہونا ظاہر ہے اور ملک الہند ہونا اس اعتبار سے ہے کہ وہ نسلا ہندوستانی تھے اور ان کا خاندان ہندوستان میں حکمراں تھا ،اگر باذان کا ہندی ہونا متعین ہوجائے تو وہ بھی بیر زطن ہندی کی طرح مدرک ہوں گے یعنی کہ انہوں نے حضور کازمانہ پایا اور آپ کی حیات طیبہ میں دولت اسلام سے حصہ پایا۔
عہد نبوی میں صحابہ کی ہند وستان آمد
عہد نبوی میں صحابہ کی ہندوستان آمد ثابت ہے یا نہیں ؟اس سلسلے میں ایک روایت قاضی اطہر مبارک پوری نے جمع الجوامع کے حوالے سے نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے سندھ کے باشندوں کے پاس پانچ صحابہ کو اپنا نامہ مبارک لے کر بھیجا جب یہ لوگ سندھ کے مقام نیرن کوکٹ میں آئے تو وہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا پھر ان میں سے دو واپس چلے گئے اور باقی تین سندھ میں رہ گئے سندھ کے لوگوں نے ان کی وجہ سے اسلام قبول کیا اور انہوں نے اسلامی احکام سکھائے بعد میں یہ لوگ سندھ میں انتقال کر گئے اور ان کی قبریں ابھی تک موجود ہیں(عرب ہند عہد رسالت میں ص۱۹۱)اس روایت کونقل کرکے قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں کہ کسی دوسری کتاب میں یہ روایت نہیں ملی اور نہ کسی دوسرے ذریعہ سے اس کی تائید ہوتی ہے اور سیوطی کی جمع الجوامع میںیہ روایت نہیں ہے اس لئے اس روایت کو قبول کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔
ابن حجر نے الاصابہ میں قنوج کے راجہ سرباتک کی زبانی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس کے پاس حذیفہ ،اسامہ اور صہیب رضی اللہ عنہم کو اسلام کا دعوت نامہ لے کر بھیجا تھا اور اس نے اسلام قبول بھی کر لی تھی مگر یہ روایت خود ابن حجر اور حافظ ذہبی کی تصریحات کے مطابق غیر معتبر ہے اس روایت کے غلط ہونے بڑی دلیل یہ کہ اس کا انتقال ۳۳۴ھ میں ۸۹۴سال کی عمر ہوا ہے جبکہ محدثین کا کہنا ہے کہ ابو طفیل عامر بن واثلہ سب آخری صحابی ہیں جو ایک روایت کے مطابق ۱۱۰ھ میں دنیا سے تشریف لے گئے ان کے بعد دنیا کی آنکھ کسی صحابی کو نہیں دیکھ سکی اس لئے یہی کہنا صحیح ہے کہ عہد نبوی میں کسی صحابی کی ہندوستان آمد صحیح نہیں ہے ۔
خلافت راشدہ اور ہندوستان
علامہ بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ۱۵ ؁ھ عثمان بن ابی العاص ثقفی کو بحرین اور عمان کا حاکم مقرر کیا عثمان نے اپنے بھائی حکم کو طا ئف سے بلا کر بحرین بھیج دیا اور خود عمان پہونچ کر متطوعین اور فدائیان اسلام کی فوج تیار کی اور اس کی قیادت اپنے بھائی حکم کو دے کر ہندوستان روانہ کیا اس مہم میں نے تھانہ(بمبئی )اور بھروچ(گجرات )پر حکم نے فوج کشی کی اور فتح حاصل کی ،اسی طرح اپنے دوسرے بھائی مغیرہ بن ابی العاص کی زیر قیادت ایک رضاکارانہ بحری فوج دیبل روانہ کی جہاں سے اسلامی لشکر مظفر ومنصور واپس ہوا(فتوح البلدان ص۴۲۰)البتہ چچ نامہ کے مصنف نے لکھا ہے کہ مغیرہ بن ابی العاص ثقفی دیبل میں شہید کر دئے گئے تھے ۔یہ کاروائی حضرت عمرؓ کے علم اور منشاء کے خلاف تھا اس لئے لشکر کی واپسی پر عثمان نے جب اس کی اطلاع حضرت عمرؓ کو دی تو حضرت عمر نے عثمان بن ابی العاص کے اس اقدام کو نا پسند کیا اور تہدید آمیز خط لکھا پھر عہد فاروقی میں کوئی جنگی کاروائی ہندوستان میں نہیں ہوئی حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے دور خلافت میں ہندوستان کی طرف توجہ فرمائی اور حضرت عمرؓ کی محتاط روش کی روشنی میں حکیم بن جبلہ عبدی کو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ سرحدی مقامات کے سیاسی اور ملکی حالات کا جائزہ پیش کریں ،حکیم بن جبلہ عبدی نے جو رپو رٹ پیش کی اس کے اعتبار سے یہاں کے حالات جنگ کے لئے مناسب نہیں تھے اس لئے مزید کاروائی نہیں کی ،جب حضرت علی کا دورخلافت آیا تو آپ نے ۳۰ ؁ھ میں حارث بن مرہ عبدی کو اجازت دی کہ وہ متطوعین کی ایک جماعت لے کر ہندوستان کا رخ کریں چنانچہ انہوں نے ہندوستان کے شمالی مغربی سرحد پر حملہ کیا اور مال غنیمت حاصل کیامگر بعد میں قیقان کے ایک معرکہ میں حارث بن مرہ اور بہت سے مسلمان شہید ہوگئے (فتوح البلدان ص۴۲۱)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفاء راشدین کے عہد میں حضرات صحابہ کا ورود مسعود ہندوستان کی سرزمین پر ہوگیا تھا اور اس عہد میں بعض صحابہ اس سرزمین میں پیوند خاک بھی ہوئے گو خلفاء راشدین کے عہد میں عرب ہند تعلقات کی نوعیت وقتی معرکہ آرائی کی رہی لیکن ہندوستان میں بزم نبوت کے حلقہ نشینوں کی مبارک آمد کا سلسلہ اسی وقت سے شروع ہوگیا تھا اور آج انہی مقدس انفاس کی تاثیر سے ہندوستان میں اسلام اور مسلمان زندہ اور تابندہ ہیں اور انشاء اللہ قیامت تک تابندہ رہیں گے ۔

Share

One thought on “عرب ہند تعلقات:عہد نبوی اورخلفاے راشدین کے دورمیں – – مفتی امانت علی قاسمیؔ”

Comments are closed.

Share
Share