اے رے پیڑ تیرے کتنے پات
علامہ اعجازفرخ
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 919848080612+
ای میل :
@@@@@-@@@@@-@@@@@-
نوٹ : جہانِ اردو میں’علامہ اعجازفرخ‘ کی تحریریں گزشتہ کئی ہفتوں سے آپکی خوش ذوقی کے نام پیش کی جارہی ہیں۔اس ہفتے علامہ کاجواہرنگار قلم معاشرے کے ایک رستے ناسور پرجراحت آزما ہے ۔ یہ ناسور اورامراض کی طرح مغرب کی دین ہے۔دیکھئے کہ علامہ نے کس مشاقی سے نہ صرف جراحت جاں کا اہتمام کیا ہے بلکہ مرہم کی فراہمی کو بھی فراموش نہیں کیا ہے۔زیرنظرتحریر’حیدرآباد کی مرصع تہذیب کی منہ بولتی تصویرہے ۔ الفاظ سے مُرقع کشی کوئی معمولی فن نہیں ہے۔ذرا سی چوک سے الفاظ کی شاہی دست رس سے نکل جاتی ہے،پھر اسکے بعد کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت بھی ہے،جس کیلئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ
قلم فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ
شمع تصویر پہ گرنے لگیں آ آکے پتنگ
آپ کی رائے جہانِ اردو، کے لئے بیش قیمت ثابت ہوگی کہ ہم علامہ اعجاز فرخ سے اور مضامین کی گزارش کر سکیں۔(یحییٰ خان)
@@@@@-@@@@@-@@@@@-
سچ بولنا پہلے بھی آسان نہ تھا ورنہ سقراط صرف اکیلا نہ ہوتا کہ جب اس کے ہاتھ میں زہر کا پیالہ تھما دیا گیا تھا تب بھی وہ بڑے صبر و تحمل کے ساتھ گھونٹ گھونٹ زہر پیتے ہوئے اپنے احباب اور شاگردوں سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہاتھا اور سچ بول بھی رہا تھا۔ جس زمین کی آبادی میں گھر برباد ہوئے اس زمین سے اپنے وجود کی توقیر میں اضافہ کرنے والے بھی کسی موقع پر مہر بہ لب ہوجاتے ہیں تو کم سے کم اتنا تو ہو کہ سچائی جب مخبروں میں گھر جائے تو علامتوں کے سپرد کردی جائے ورنہ جب تک نہنگ کے ہاتھوں میں تعویز دعا ہے سمندر کی تہہ میں صدفِ گہر بار کی بجائے کھوپڑیاں اور ڈھانچے ہی پائے جائیں گے۔
ابھی تو ہمارے بھی بزرگ سلامت ہیں جیسے ڈاکٹر حسن الدین احمد، نواب شاہ عالم خان، اورجناب سیدتراب الحسن،آی۔اے۔ایس، اگر صرف نام ہی گنواتا رہوں تو سارا اصفحہ بھر جائے لیکن فہرست ادھوری رہ جائے، ان لوگوں نے حیدرآباد کی پرشکوہ تہذیب کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ یہ تہذیب ان میں آج بھی رچی بسی ہے۔ میں تو صرف ساٹھ،پینسٹھ برس پہلے کی بات کر رہا ہوں کہ جب ورنگل کا عمدہ سفید چاول سانبر ایک روپیہ کا دوسیر اور پچاس روپیہ کا پلہ (جو ایک سو بیس سیر ہوتا تھا) مرہٹواڑہ کا عمدہ بنسی گیہوں ایک روپیہ کا تین سیر۔ بیدر کا اصلی دوہری چوکڑی کا گھی روپیہ کا سیر بھر اور بکرے کا گوشت صبح بارہ آنے سیر اور دوپہر کے بعد بارہ گنذے یعنی آٹھ آنے سیر بکتا تھا۔ کرڑ کاتیل صرف اچار، بگھارے بیگن ،ماہی خلیہ اور بگھار میں استعمال ہوتا، اگرچیکہ بناسپتی ڈالڈا بھی وجود میں آچکا تھا لیکن استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک تولہ سونے کی اشرفی 50 روپیہ میں اور چاندی دس آنے تولہ تھی۔ بھاجی ترکاری بیچنے والی تک نک چک سے درست تازہ سبزی کی طرح دھلی دھلائی ٹاٹ کے تھیلوں پر سبزیاں سجائے جب خریدار سے بھاؤ تاؤ کرتی تو خریدنے والے کی نظر کو تاڑ کر بھاؤ بتلاتی لیکن جب تولتی تو ترازو کے پلڑوں میں باٹ کا پلڑا اونچا ہوتا کہ جھکتا تول سستا مول اور اوھر سے ہری مرچ مسکرا کر تھیلی میں ڈال دیتی تو کوتمیر پودینے کی سوغات بھی ساتھ کردیتی۔ اور تو اور ناصرالدولہ کے دور کی پاڑ دن بھی آم اورسیتا پھل کے موسم میں چھکڑوں سے کھول کر شکر گٹھلی بیچتی تو دیتی چھ تھی اور گنتی پانچ تھی۔ میرے گھر سے قریب سہ پہر میں ایک سبزی بیچنے والی ساری سبزیاں سجائے اُس پر پانی کا چھینٹا دیدیتی تو گویا زمرد پر آب آجائے۔ کوئی پندرہ سولہ برس کا سن رہا ہوگا۔ سانولی سی تھی لیکن سورج ڈھلنے سے پہلے ہی سب کچھ بیچ کر ریزگاری ٹاٹ کی ایک پرت نیچے ڈال لیتی۔ شام ڈھلنے سے پہلے ایک لڑکا جو اس سے کچھ بڑا رہا ہوگا اس کے آگے آکر اُکڑوں بیٹھ جاتا، اس کو دیکھ کر اس کے چہرہ پر ڈوبتا ہوا سورج شفق بکھیر دیتا۔ منٹ دومنٹ میں نہ جانے کیا ہوتا وہ کچھ کہتا تو یہ شرما کر سرجھکا لیتی، یہ کچھ کہتی تو وہ ہنس پڑتا پھر ریزگاری پر جھپٹ کر مٹھی بھر ریزگاری لے کر بھاگ جاتا۔ جتنی دیر وہ دوڑتا ہوا مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا رہتا، یہ ہنستی رہتی۔ اسی کے سامنے ایک بزرگ شام کے وقت اپنے گھر کے چبوترے پر دری بچھائے بیٹھے رہتے اور تسبیح پھیرتے رہتے۔ ایک دن انہوں نے اس سے کہا کہ ’’تو اس لڑکے کو چاہتی ہے۔ لیکن وہ ہر روز جھپٹ کر ریزگاری لے جاتا ہے۔ تو محنت کرتی ہے۔ گن کر تو دیا ہوتا‘‘ تو بچی ہوئی ریزگاری کمر میں اڑس کر خالی تھیلے بانس کے ٹوکرے میں ڈال ،سر پر اٹھا کر جاتے جاتے کہہ گئی‘‘ میاں جس کو جی جان سے چاہا اسے گن کر کیا دینا‘‘۔ میری عمر تو سات آٹھ برس کی تھی میں تو سمجھ نہ پایا، دو لمحوں کے لئے اس بزرگ نے آسمان کی طرف دیکھا پھر نہ جانے کیا سوجھی تسبیح چھوڑ کر جو گھر میں داخل ہوئے تو میں نے ان کو پھر کبھی چبوترے پر نہ دیکھا۔
گھروں کے اندر کی تہذیب ایسی کہ بزرگ گھر میں داخل ہونے سے پہلے دیوڑھی ہی میں اپنے مخصوص انداز میں کھنکار کر رک جاتے کہ گھر کی لڑکیاں بالیاں بہویں اپنے ڈوپٹے آنچل ٹھیک کر لیں اور سر ڈھانک لیں اور سب کے سلام لیتے ہوئے دعائیں نچھاور کرتے کرتے گھر میں داخل ہوتے۔ بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ ساتھ میں ضرور ہوتا اور گھر بھر کے لئے موسم کا میوہ تو ہوتا ہی ہوتا۔ نواسے پوتے لڑکپن سے گزرکر مسیں بھیگنے کو آجاتے لیکن بیٹوں کی مجال نہ ہوتی کہ بوڑھے باپ سے اونچی آواز میں تو کجا آنکھ ملا کر بات کرلیں۔ بس وہ جو کہہ دیں وہی حرف آخر ہوتا۔میں غربت کا پالا مگر تہذیب کا پروردہ ہوں اور حیدرآباد کی تہذیب امیر غریب متوسط سب میں قدر مشترک تھی امراء کے دیوان خانے اگر ایرانی قالینوں سے مزین تو غریب کے گھر بوریے پر شطرنجی اور چہلواری کی سفید چاندنی۔ وہاں بانات کے پردے تو یہاں ٹاٹ کا پردہ، وہاں ریشم پر زردوزی کی آب و تاب تو یہاں سوت پر کشیدہ کاری کی بوٹیویں کی بہار۔ مگر سب کے دل آنگن کی طرح کھلے اور سب کی منڈیروں پر شگون کے پرندے کہ دستر خوان آنگن کے جس گوشے میں جھٹکا جاتا وہاں پرندوں سے لے کر چیونٹیوں تک کو اپنا اپنا رزق مل جاتا۔
میرے گھر میں ایک بہت بڑی دقیانوسی الماری تھی اور تھی بھی شاید دقیانوس ہی کے زمانے کی، اوپر کے دو حصوں میں کچھ موٹی موٹی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ باقی حصوں میں کہیں پیتل کا چھوٹا سا سماور لیٹا ہوا کہیں یکے اور دیوارگیری، کسی کا حباب ٹوٹا ہوا تو کسی کی بتی غائب۔ ایک قلمدان جس کی دواتوں میں سوکھی روشنائی اور سیاہی کچھ پتی کے قلم اور کچھ پتلے بانس کے گول قلم۔ میری ماں مجھے کبھی اس الماری کے قریب بھی پھٹکنے نہ دیتی۔ گرمی کی ایک دوپہر میں جب میری ماں کی آنکھ جھپک گئی تو میں نے چپکے سے الماری کھولی اس میں شیشے کا ایک چھوٹا سا وزنی گولا سا رکھا تھا جو نیچے سے چپٹا تھا لیکن اندر سے رنگ جھلک رہے تھے۔ میں نے اسے ہاتھ میں لے کر زمین پر لٹو کی طرح گھمایا تو اس کے بکھرتے ہوئے رنگ مجھے اور اچھے لگے۔ نہیں معلوم کب میری ماں کی آنکھ کھل گئی، مجھے اس شیشے کے لٹو سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فوراً جھپٹ پڑی میرے ہاتھ سے لٹو چھین کر طمانچہ مار کر بری طرح برس پڑی پھر اسے الماری میں جوں کا توں رکھ کر مجھے بلک بلک کر روتا دیکھ سینے سے لگا کر خود رونے لگی۔ میری ماں بھی عجیب تھی مجھے کسی چیز کے لئے مچلتا دیکھتی تب بھی رو دیتی تھی۔ جب بہت غصے میں ہو تب بھی رو دیتی تھی۔ پھر رندھی ہوئی آواز میں مجھے سمجھانے لگی بیٹا یہ الماری تمہارے دادا کی ہے، اس میں انہوں نے جو چیزیں استعمال کی تھیں ،وہ رکھی ہیں تم جتنا اپنے ابو کو چاہتے ہو وہ بھی اپنے ابو کو اتنا ہی چاہتے ہیں، وہ نہیں رہے تو ان کی چیزوں کو سنبھال کر رکھا ہے کبھی کبھی اسے چھولیتے ہیں تو ان کو بہت سکون سا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے تم اپنے ابو کے گلے میں جھول جاتے ہو تو تمہیں خوشی ہوتی ہے۔ اس دن سے پھر میں نے کبھی اس الماری کو نہیں چھیڑا۔ نہ جانے کیوں جب بھی اس کے سامنے سے گزرتا تو سرجھکا کے گزرتا جیسے کوئی اپنے بزرگ کے سامنے سے گزرتا ہے۔ جب میرا گھر بس گیا تو وہ الماری میرے گھر آگئی۔ کتابوں کو چھوڑ کر باقی چیزوں کو میں نے دودھیا لکڑی کے صندوق بنوا کر اس میں قرینے سے رکھ دیا اور جو کچھ کتابیں میرے پاس تھیں وہ میں نے اس الماری میں رکھ دئے۔ جب میرے بچے کھیلنے لگے تو میں دفتر جانے کے لئے بس کے بجائے پیدل چلا جاتا اور جو رقم مہینے بھر میں بچ جاتی اس میں کچھ روپیوں سے میں بچوں کے لئے کھلونے خریدلیتا۔ اور باقی رقم سے اتوار کو فٹ پاتھ پر بکنے والی پرانی کتابیں خریدلاتا۔ کبھی تنگ دستی ہوجاتی تو اتوار یونہی گزرنے والا ہوتا لیکن میری بیوی میرے چہرے کو ستا ہوا دیکھ کر پوچھتی ’’آج باہر نہیں جاؤ گے کیا؟‘‘ میں کہتا ’’نہیں آج گھر پر ہی رہنا اچھا لگ رہا ہے‘‘ وہ کہتی ’’اٹھو تو سہی‘‘ اور اپنے ہاتھ سے پریس کئے ہوئے کپڑے لے کر کھڑی ہوجاتی۔ میں لباس بدل لیتا تو دیکھتا کہ میری قمیض کی جیب میں اس نے کچھ روپئے جو گھر کے خرچ سے بچائے ہوئے ہوتے رکھ دئے ہیں‘‘ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میں خالی ہاتھ ہی لوٹ آتا تو وہ ہنستی ہوئی چھیڑتی ’’لگتا ہے آج کوئی ملی نہیں‘‘ میں تنگ کرتا ’’ملی کیوں نہیں مگر کسی میں وہ بات کہاں جو تم میں ہے‘‘ تو کنکھیوں سے میری طرف دیکھ کر کمرہ سے ایک دو کتابیں اور ایک سگریٹ کا پیکٹ اٹھالاتی اور کہتی کہ پچھلی کتابوں سے میں نے الگ کر لی تھیں، یہ سوچ کر کہ تم کو اس کے بغیر چین نہ آئے گا آخر کو میری سوتن ہے نا، میرا تو ایک تن ہے اس کے سوتن ہیں پھر چائے کا کپ دے کر بیٹھ جاتی میں کتاب دیکھ رہا ہوتا تو ہاتھ سے کتاب چھین کر چھیڑتی ابھی تو کہہ رہے تھے ’’جو بات مجھ میں ہے وہ کسی اور میں کہاں‘‘ اور اب جو سامنے بیٹھی ہوں تویوں انجان سے ہو جیسے میرا وجود ہی نہیں‘‘ اور جھوٹ موٹ روٹھ کر کتاب واپس ہاتھ میں تھما کر یہ کہتی ہوئی چلی جاتی کہ ’’تم کو تو تب قدر ہوگی جب میں نہ رہوں گی‘‘ میں بگڑتا ’’کیا اناپ شناپ جو منہ میں آیا کہتی چلی جاتی ہو‘‘ تووہ کہتی’’تم سگریٹ اور کتاب کے بغیر ہمیشہ ادھورے لگتے ہو۔ تم گھر پر نہیں بھی رہتے ہو تو یہ مہک مجھے احساس دلاتی رہتی ہے کہ تم میرے آس پاس ہی ہو‘‘۔ میں کتاب بتلا کر پوچھتا ’’اور تمہاری سوتن‘‘ تو کہتی ’’یہ تو میرا غرور ہے تمہیں میرا رکھ کر بھی مجھ سے چھینا ہے لیکن یہ ایک وقت کی میں ہر وقت کی، اب رہو اپنی البیلی کے ساتھ‘‘ کہہ کر کام کاج میں مصروف ہوجاتی۔
ایک دن شاید وہ روٹی بنا رہی تھی میرے لڑکے نے کہا ’’ممی اس الماری میں سے یہ پرانی کتابیں نکال دو۔ میں اس میں میرے نئے کھلونے سجادوں گا۔ اس نے لڑکے کو ایک نظر غور سے دیکھا پھر نہ جانے کہاں کھوگئی کہ توے پر روٹی جل گئی۔ پر اس نے اپنے ہاتھ سے بچوں کو دوسری روٹیاں نوالے بنابنا کر کھلائے اور جلی ہوئی روٹی خود کھانے بیٹھ گئی۔ دن بدل گئے میں نے بھی نوکری چھوڑ کر کاروبار شروع کردیا۔ اللہ نے برکت دی لڑکیاں ہاتھ پیلے کر کے اپنے اپنے گھر ڈولیوں میں رخصت ہوگئیں۔ میں نے مکان بنالیا، زندگی بھر جس گھر کا خواب وہ دیکھتی رہی میں نے ان خوابوں کو نہ صرف پڑھ لیا تھا بلکہ اس کے خدوخال بھی میرے لئے نہاں نہ تھے۔ میں نے مکان کے ہر گوشے کو اس کے خوابوں سے سجا کر اس کے حوالے کردیا۔ چھت میں نے کچھ اونچی ڈال دی تھی اس نے پوچھا ’’چھت کیوں اونچی ڈال رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’تمہارا قد بھی تو اونچا ہے‘‘ وہ پھر ہنس کر کہنے لگی ’’کرتے اپنی ہو اور میرے سر ڈال دیتے ہو‘‘ لڑکے جب کاروبار سے لگ گئے تو میری بیوی بڑے چاؤ اور ارمان سے بہویں بیاہ کر لائی اور ساری چابیاں حوالے کر کے یوں پرسکون ہوگئی جیسے ہر کام سے فراغت مل گئی۔ دو سال میں گود میں پوتا آگیا تو مجھے کچھ کمی سی محسوس ہونے لگی۔ وہ سارا وقت پوتے سے لگی رہتی۔ گھڑی دو گھڑی کے لئے کبھی کمرے میں آکر بیٹھ جاتی تو میں کہتا’’ تم تو مجھے بھول ہی گئیں۔ اب تو سب کچھ تمہارا پوتا ہی ہے‘‘ تو وہ میرے ہی لہجے میں مجھ سے کہتی ’’ارے اس میں وہ بات کہاں جو تم میں ہے۔ اور پھر سرہانے سے کتاب تھما کر کہتی ’’میں نہیں تو کیا یہ میری سوتن تو ہے، اس سے دل بہلاؤ۔ میرا پوتا رو رہا ہے‘‘۔
ایک رات اس کے سر میں شدید درد ہوا، کسی صورت سنبھلتی ہی نہ تھی۔ دواخانے میں شریک کروایا گیا تو پتہ چلا سر میں ٹیومر ہے اور اتنا بڑا ہے کہ دماغ میں کئی شاخیں پھوٹ چکی ہے۔ عارضی دواؤں سے دو چار دن کے لئے سنبھل گئی۔ مجھ سے ضد کرنے لگی ’’گھر نہیں لے چلو گے کیا؟ میرا جی پوتے پوتی کو دیکھنے کرتا ہے‘‘۔ ڈاکٹروں نے بھی کہہ دیا تھا بس اب زندگی کی لو بجھنے سے پہلے تیز ہوئی ہے۔ پوتے پوتی بچوں اور بہوؤں کو دیکھ کر مسکرائی پھر پلکیں موندھ لیں۔ دو چار گھنٹے کے بعد بھی نہ جاگی تو بچوں نے بہت آواز دی مگر اس نے جواب نہ دیا۔ آخر میں میں نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا، اس کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی اور دور سے آتی ہوئی آواز سنائی دی ’’ہاں جی‘‘ اور پھر وہ خاموش ہوگئی ہمیشہ کے لئے۔ اس بات کو تین سال بیت گئے۔ کچھ دن پہلے میری بہو میرے بیٹے سے کہہ رہی تھی ۔یہ دقیانوسی الماری یہ کتابیں یہ کاٹھ کباڑ یہاں سے ہٹاتے کیوں نہیں، یہ میرا گھر ہے یا کسی کباڑی کی دوکان۔ ان کتابوں میں نہ جانے کتنے جراثیم ہوں گے۔ لگتا ہے ان کتابوں کو یرقان لاحق ہوگیا ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو پاسچرائزڈ دودھ اور بسلیری کا پانی پلا کر پالا ہے۔ وہ مائکرو ویو OVEN کا پکا کھانا کھاتے ہیں۔ ان کو بڑے بڑے ڈاکٹرس سے ٹیکے دلوائے ہیں۔ وہ اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔اور تمہارے پا پا! ان کے کمرے سے دھواں گھر بھر میں پھیلتا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہPassive Smoking کتنی خطرناک ہوتی ہے۔ اور جانے دن بھر کیا بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے اپنی بیوی کی تصویر کے آگے کھڑے ہو کر کہہ رہے تھے۔
اب یہ آواز نہ آئے گی نظر
اب یہ چہرہ نہ سنائی دیگا
تومری یاد سے آہستہ گزر
ان کی صحیح جگہ تو کوئی ذہنی امراض کا دواخانہ ہے یا انہیں کسی Old Age Home میں بھیج دو۔ میرے بیٹے نے کہا’’ یہ کیسے ہوسکتا ہے یہ گھر انہوں نے بڑے چاؤ سے بنایا ہے۔ ساری زندگی ہمارے لئے تج دی۔ ‘‘بہو نے کہا’’ تو کو نسا احسان کیا؟ ہم بھی تو اپنے بچوں کے لئے ہی کر رہے ہیں۔ تم کو تو کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ بھلے بچوں کی اور میری ضرورتیں رہ جائیں ہم گرما کی چھٹیوں میں سیر پر نہ جائیں مگر تمہارے پاپا کی Rothmans سگریٹ آتی رہے گی۔ اگر تمہاری یہ ضد ہے تو ہم سب کو زہر دے دو پھر اپنے پایا کے ساتھ رہ لینا۔‘‘ بہو تو یہ سب اپنے کمرے میں کہہ رہی تھی لیکن مجھے تو دیواروں کے پار بھی دکھائی دیتا ہے اور اتنا روشن جیسے رات کی سیاہی ۔ بیٹے کے جانے کے بعد میں نے کباڑی کو بلوایا کتابیں الگ کرلیں، وہ سارا سامان جو میرے دادا کا لکڑی کے صندوق میں تھا اور الماری اسکے حوالے کر کے کہا جتنے پیسے مناسب سمجھتے ہو دیدو۔ جانے اس نے کتنے کاغذ کے ٹکڑے میرے ہاتھ پر رکھ دئے، میں نے جیب میں رکھ لئے اور اپنے پلنگ کی چادر میں ساری کتابیں باندھ کر اسے اپنی پشت پرلادے قبرستان پہنچا اور گورکن کے ہاتھ میں کباڑی کے دئے ہوئے کاغذوں میں کچھ کاغذ نکال کر اسے دے کرکہا مجھے ایک قبر کی جگہ دے دو۔ وہ حیرت سے مجھے تکتا رہا اس لئے کہ اس نے کسی لاش کے کندھوں پر لاش نہیں دیکھی تھی۔ گھر کی جھاڑو دیکر جب گورکن کی بیٹی باہر آئی تو اس کے چہرے کی خوشی مجھ سے چھپی نہ رہ سکی کہ جب کبھی کوئی میت آتی ہے تو اس کے گھر عید ہوجاتی ہے۔ کتابیں دفن کر کے میں گل فروش کی دوکان پر پہنچا اور اپنی جیب خالی کر کے گل فروش کی ہتھیلی پر رکھ کر کہا سارے کھلے پھول دے دو گلاب اور موتیا کے اس نے کہا آپ اتنے پھول کیا کریں گے۔ آپ نے جو رقم دی ہے اتنے کے پھول تو میری دوکان میں بھی نہیں۔ میں نے کہا جتنے چاہو دے دو مگر برابر برابر آدھے کردینا۔ گل فروش نے پھول سمیٹ کر ایک ٹوکرے میں ڈال دئیے اور کہنے لگا صاحب میں گل فروش ہوں لیکن کفِ گل فروش خوشبو کا سوداگر نہیں ہوتا۔ آپ اسے اپنے کندھے پر پڑی چادر کے نیچے رکھ دیں۔ خود ہی آدھے آدھے تقسیم ہوجائیں گے۔ میں نے آدھے پھول اپنی بیوی کی قبر پر اور آدھے کتابوں کی قبر پر چڑھائے اور جب واپس اپنے گھر کی طرف لوٹا تو اتنی سی دیر میں نہ جانے شہر بدل گیا تھا یا دہر بدل گیا جس دو راہے سے میرا گھر ایک اونچے مکان کی طرح دور سے بھی دکھائی دیتا تھا وہ اونچا مکان راستہ ہوگیا تھا اور دوسرے راستے پر بورڈ لگا تھا۔Old age home a few steps ahead ۔ سرسید نے صرف انگریزی تعلیم پر توجہ دلوائی تھی تو مفتی نے کافر قرار دے دیا تھا۔ آج انگریزی تہذیب گھروں میں آگئی۔ ماں باپ گھروں سے نکالے جارہے ہیں، مگر مفتی چپ ہے اس لئے کہ سچ ہمیشہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں رات قبرستان میں ایک پیڑ کے نیچے یادوں کی چادر اوڑھ کر سوجاتا ہوں اور دن بھر اسی دوراہے پر چھڑی ٹیکے کھڑا رہتا ہوں۔ اپنے پوتے کے انتظار میں کہ کسی دن وہ ضرور آئے گا اور مجھ سے کہے گا دادا گھر چلو۔ الماری کی خالی جگہ اور آپ کی خالی آرام کرسی انتظار کر رہی ہے اور دادی کی تصویر بھی۔
مجھے دور سے کوئی مانوس آواز سنائی دے رہی تھی۔ رفتہ رفتہ آوازیں قریب آرہی تھیں۔ یکایک آواز بہت صاف اور شفاف ہوگئی میری بہو مجھے آواز دے رہی تھی۔ پاپا، پاپا، پاپا میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو میرے بیٹے بہویں پوتے پوتی سب گھیرے کھڑے تھے۔ میری کھلی آنکھیں دیکھ کر میری بہو مجھ سے لپٹ گئی اور رو کر پوچھنے لگی، پاپا آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ میں نے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا’’ ہاں بیٹی مجھے کیا ہوا‘‘ میری بہو بھی عجیب ہے بچوں پر غصہ کرتی ہے تب بھی رودیتی ہے۔ مجھے ذرا سی تکلیف ہوتی ہے تب بھی رو دیتی ہے۔ آخر کو وہ بھی ایک ماں ہے نا۔
’’اے رے پیڑ تیرے کتنے پات، حیدرآباد تیرے کتنے ہات‘‘۔
– – – –
Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4
,SILVER OAK, EDI BAZAR
,NEAR SRAVANI HOSPITAL
HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
ای میل :
۱۳ thoughts on “اے رے پیڑ تیرے کتنے پات – – – علامہ اعجازفرخ”
جی، آپ نے بہت اہم نکتہ کی نشاندہی فرمائی- اہم ترین بات تھی اور نظر انداز ہو رہی تھی،
واقعی ساری دنیا کے ہمدرد و مونس و غمخوار مل کر بھی ایک شریکِ حیات کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے- "لتسکنوا إلیھا مودۃ و رحمة” (الروم: 21) کا خطاب جس کے متعلق خاص ہے، اس کے خصوص میں عموم کہاں؟ کون اس مرتبہ میں داخل ہو سکتا ہے اور مودت و رحمت کے حقیقی معانی و مفاہیم کا ادراک کر سکتا ہے، صرف ایک دوسرے کے "لباس” ہی کو یہ استحقاق حاصل ہے-
حضرت علامۂ محترم کی تحریر کے اس پہلو کو میں نے بغور دیکھا، محسوس کیا، بار ہا مضمون پڑھا، لیکن لکھنے کی جرأت و جسارت نہ کر سکا- آپ نے بتمام و کمال ایجاز و اختصار کے ساتھ بہت کچھ لکھ ڈالا ہے،
@ جنابِ محترم اسحاق مرزا بیگ صاحب Ishaq Mirza Baig صاحب!.
علامہ کا یہ مضمون ابھی ابھی ختم ہوا. کچھ مصروفیت اور کچھ باریک تحریر کے پڑھنے میں دقت کے سبب ٹال مٹول کرتا رہا تھا. لیکن جب ایک دفعہ شروع کیا تو پھر ختم کئے بغیر چارہ نہ تھا. دوسرے قارئین نے بھی جو تبصرے فرمائےہیں وہ نہ صرف علامہ کی قابلیت کا ثبوت دے رہے ہیں بلکہ تبصرہ کرنے والوں کی قابلیت کو بھی ظاہر کررہے ہیں. میں اولڈ ایج ہومس سے قطع نظر دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا یعنی آپ نے اپنی نصف بہتر کے کردار کی جو عکاسی کی ہے وہ بھی بے حد جذباتی ہے وہ عورتیں اپنے شوہر کا کتنا چاؤ اورمان کرتی تھیں اور ان کی جذباتی وابستگیوں کا بھی کتنا خیال رکھتی تھیں. لگا جیسا کہ میرا ہی فسانہ بیان کررہے ہوں. علامہ کی تحریر کا یہ پہلو بھی کچھ کم جذبات انگیز نہیں ہے. شائد اس کا ادراک وہی لوگ بہتر کرسکتے ہوں جنہوں نے اپنی شریک حیات کو کھودیا ہے.
آج کا دور بہت تیزی سے دوڑ رہا ہے انسانی زندگی مشنری بن چکی ہے ایک کتابی اور ایک تجروباتی زندگی کا یہ رد عمل ہے سر سید اخلاق مذہب اور دین اسلام چھوڑ کر ا نگریزی طرز عمل کو اپنانے کی دعوت نہیں دی پہلے سر سید اور ان کے رفقاء کا مطالعہ کریں تو ہم لوگ صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں گے۔
علامہ کا ایک اور جواہرپارہ – ایک اور دلنشیں ، متاثرکن اور سچی تحریر – جس میں حیدرآبادی تہذیب کے پس منظر میں ماضی کی خوشگوار یادوں کو حال کی بےحسی سےمربوط کر کے ایک صاحب احساس کی بےبسی ، اضطراب اور ذہنی کرب کی تصویر کشی نہایت پر اثر انداز میں کی گیی ہے – اس تحریر میں کئی مقامات ایسے آے کہ جہاں آنسوؤں پر قابو پانا ممکن نہ ہوا – چند لفظوں نے وہ کام کیا کر دکھایا کہ ایک طویل داستان بھی اس قدر متاثر نہ کر سکتی ‘”میاں جس کو جی جان سے چاہا اسے گن کر کیا دینا‘‘ کس قدر فصاحت ہے اس ایک جملے میں –"گھر کی جھاڑو دیکر جب گورکن کی بیٹی باہر آئی تو اس کے چہرے کی خوشی مجھ سے چھپی نہ رہ سکی کہ جب کبھی کوئی میت آتی ہے تو اس کے گھر عید ہوجاتی ہے”–"گل فروش نے پھول سمیٹ کر ایک ٹوکرے میں ڈال دئیے اور کہنے لگا صاحب میں گل فروش ہوں لیکن کفِ گل فروش خوشبو کا سوداگر نہیں ہوتا۔” کہ خوں دل میں ڈوبولی ہیں انگلیاں میں نے کے مصداق علامہ کی تحریروں میں ایک عجیب کشش اور مقناتیسیت ہے جو راست دل پر اثر انداز ہوتی ہے – خدا انہیں سلامت رکھے ، آمین
ہمیشہ کی طرح متاثر کن تحریرآپ کی جناب علامہ صاحب !!!
مادیت پرستی انسان کو بےحس بنا گئی ہے اور اب انسان یہ سوچنے سے قاصر ہے کہ خود اس کے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط ‘ بس معاشی ترقی کی اندھی دوڑ میں ہانپتے کانپتے بھاگا جا رہا ہے یہ سوچے بغیر کہ کہاں جانا ہے اسے ۔ پہلے جوائنٹ فیملیز ہوا کرتی تھیں ‘ خاندان کا کوئی بزرگ بوڑھا ہو تو کسی نہ کسی رشتہ دار کے یہاں پناہ مل ہی جاتی تھی ۔گھر میں ناں صرف دادا/دادی ہوا کرتی تھیں بلکہ خاندان کے دور پرے کے رشتہ دار بھی رہا کرتے تھے ایک ساتھ ۔ خود میرے گھر میرے ابا کی تائی اماں ( انکے اپنے بیٹے کے ہوتے ہوئے ) رہا کرتی تھیں ‘حتیٰ کہ دادی اماں/ دادا حضرت کے گزرنے کے بعد بھی تقریباً ٦۔٨ سال تک ہمارے ساتھ ہی رہیں ‘ امی ان کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتی تھیں باوجود ان کے کلاسیکل ساسوں والے رویے کے اور ہمیں بھی ہمیشہ ان کی خدمت اور عزت کرنے کی تلقین کرتی رہیں۔
آپ کے مضامین تو چشم کشا ہیں ۔
علامہ کا مضمون پر آپ کے حوالے سے کہنا چاہتا ہوں جس کے دل میں خدا کا خوف ہوتا ہے وہ ما ں باپ کے ساتھ رہتے ہیں
امریکہ میاں جس کو ماں باپ کی فکر نہیں ہے انھیں اسلام سے خارج کر دینا چاہے ان کی اولاد سماجی بائیکاٹ کرنا چاہیے
عطااللہ خان
Masha Allah..bohat khobsort tehreer hai..unhoun ny mazi aur hall ky ainay mai khob naqsha khencha hai…Alfaaz rooty howy mehsoos hoty hain..Ajj ky dour ky ensaan ki nafsa nafsi,khud garzi,mufaad parasti aur khud pasandi ny muashray ki banyadoun ko hila kar rakh diyaa hai…..Allama sahib ny hasib-e-rwaiet apny zor-e- Qalam sy enmool naginay paroo diyay hain…mai unhien Salam karta houn…
Izhar Ahmed Gulzar
Faisalabad
ابراہیم خان صاحب ‘ میں آپ سے متفق نہیں ۔ جس طرح والدین اپنے بچوں کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے اور کوئی بہانے نہیں بناتے تو پھر اولاد کیوں اپنی مجبوریاں دکھاتی ہے ۔؟ مغربی ممالک ہی کیوں مشرق کچھ کم بدماش نہیں ہے؟میں قطعی اولڈ ایج ہوم کے حق میں نہیں ہوں۔ مگر مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ علامہ نے مضمون لکھا ہے یا افسانہ ؟
داستان خیر النسا کی وجہ سے میں نے میرامن کی داستان باغ و بہار خرید لی ہے ‘پڑھنا شروع کیا ہے۔ بہت مزہ آرہا ہے۔
خالدہ فرحت
سر، اولڈ ایج ہوم میں کیا برائی ہے؟ کیوں یہ سمجھا جاتا ہے کہ بچے اپنے والدین کی خدمت سے بچنے کے لیے انہیں اولڈ ایج ہوم میں ڈالاجاتا ہے. جب سے مشترکہ خاندان کارواج ختم ہوا ہے. یہ بدعت شروع ہوئ ہے. مغربی ممالک میں یہ وبا عام ہے. چوں کہ میاں بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں، بچے اسکول کالج میں بزی ہوتے ہیں، ایسے ان بوڑھے والدین کی خدمت کون کرے؟ وقت پر کھانا دینا اور دوائی کون دے؟ اگر یہ اٹھتے بیٹھتے میں گرگئے تو ان کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے. اس لیے انھیں ان اداروں میں شریک کروایا جاتا ہے. جہاں ان کے ہم عمر لوگ ملتے ہیں. گپ شپ ہوتی ہے. دیکھ بال ہوتی ہے اور انہیں عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے. ہاں، کوئی مجبوری نہ ہوتے ہوئے بھی محض خدمت سے بچنے کے لیے انہیں اولڈ ایج ہوم میں شریک کرنا شاید صحیح نہیں. مجھے علامہ سے اختلاف نہیں مگر اس نقط نظر سے بھی غور کیا جائے.
ابراہیم خان … حال مقیم دبئی
سبحان اللَّه
علامہ اعجاز فرخ صاحب قبلہ کی تحریر ہمیشہ کی طرح متاثر کن اور ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی ہے
آپ نے جس موضوع پر لکھا ہے، یقیناً دل کو چھو لیتا ہے، میں اس تحریر کو پڑھ کر اپنے جذبات میں تموج محسوس کرنے پر مجبور ہوں، بجا طور پر آپ نے نوجوان نسل کی دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھی ہیں، آج ہم سب اپنے والدین سے بہت حد تک غافل اور دور ہوتے جا رہے ہیں، ہم نے اپنے ماں باپ کو دادا دادی اور نانا نانی کے ساتھ جس رویہ کو اختیار کرتے دیکھا، اس کا دسواں حصہ بھی ہم سے نہیں ہو پا رہا ہے
کبھی کبھی تو بہت تعجب ہوتا ہے کہ علامہ اعجاز فرخ صاحب قبلہ کی تحریر اس قدر جزئیات نگاری کے کمال کے ساتھ کس طرح از دل خیزد و بر دل ریزد کی عملی تفسیر معلوم ہوتی ہے
آج اس تحریر نے دل میں طوفان برپا کر دیا ہے
ایک گونہ یہ اطمنان ہوا کہ میں اپنے والدین کے پاس آ گیا ہوں، لیکن انہوں نے اپنے والدین کے ساتھ جو حسن سلوک کیا اور خدمت کا حق ادا کیا، کیا مجھ سے اس کا عشرِ عشیر بھی ہو پائے گا؟ شاید نہیں.
جہانِ اردو کا شکریہ کہ آج اس چشم کشا تحریر نے مجھے بہت متاثر کیا،
آج علامہ اعجاز فرخ صاحب قبلہ مدظلہ العالی و دامت برکاتہم العالیہ نے اس موضوع کو تاریخ کے صفحات سے ممزوج کیا اور سرسید کے حوالے سے کفر کے فتوے کی ضمن میں سوال قائم کیا، اس پر کوئی جواب ہم سے بن سکے گا؟
نہیں
سرسید نے جدید تعلیم کی حمایت کی اور انگریزی زبان کی تعلیم کی وکالت کی اور اس کے لیے مدرسۃ العلوم قائم کیا، تو بہت سے کفر کے فتوے جاری کئے گئے، لیکن آج مشرقی تعلیم کے باوجود اگر مغربیت اور انگریزی تہذیب ہمارے گھروں میں متمکن ہے اور ہم اس حصار میں پوری طرح محصور. تو اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے
علامہ قبلہ حفظہ اللّٰہ تعالٰی کو اللَّه رب العزت صحت و تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے اور ہم آپ کی تحریروں سے جہانِ اردو کے توسط سے مستفید ہوتے رہیں
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
بہت ہی متاثر کن مضمون ہے۔ایسا لگتا ہے کہ آپ نے ہر بوڑھے باپ کی کہانی بیان کردی ہے۔‘حیرت ہے کہ اولڈ ایج ہوم کا تصور انڈیا میں بھی عام ہوتا جارہا ہے۔اکثروالدین کو میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ ہم جو کچھ بھی محنت کررہے ہیں اور کمارہے ہیں وہ سب بچوں کے لیے ہے ۔ ۔ ۔ کیا آپ نے کسی بیٹے کو یہ کہتے ہوے سنا ہے کہ وہ جو کچھ بھی محنت کررہا ہے اور کمارہا ہے وہ سب کچھ والدین کے لیے ہے ؟
محترم شاکر حسین صاحب ۔
علامہ محترم کا مضمون اور آپکا تبصرہ آنکھیں نم کرگیا ۔۔ اللہ رب العزت آپکو حوصلہ دے ۔۔ آمین
یہ آج کے دؤر کا المیہ ھیکہ اس نسل کو قدیم چیزوں سے تو بہت محبت ھے سوائے اپنے بوڑھے والدین کے !!
یہ اپنے گھروں میں قدیم فرنیچر، گاڑیوں، گلدانوں ، گراموفونس کو تو ” اینٹک پیس ” مان کر بڑے فخر سے سجاکراوربچاکر رکھتے ھیں لیکن خود انکے والدین انکو بوجھ محسوس ھوتے ھیں ۔۔
مغربی موسیقی انہیں بہت پسند آتی ھے جسے یہ روزفخرکیساتھ اونچی آواز میں سنتے ھیں ۔۔
لیکن !!
بوڑھے ماں باپ کی ” کھانسی ” انہیں گراں گزرتی ھے !!
سچ ھی ھیکہ
ایک ماں اور ایک باپ اپنے دس بچوں کو پال سکتے ھیں لیکن یہی دس بچے ملکر بھی اپنی ایک ماں اورایک باپ کو نہیں پال سکتے !!
ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاھئے کہ ‘ ببول بوکر گلاب کی امید رکھنا بیوقوفی ھوتی ھے ‘ کل کو یہ خود بھی اپنی حرکت کا شکار ھونگے !!
وقت اور حالات کا بدلنا فطری بات ہے ۔مگر نگاہیں نہیں بدلنی چاہیے۔علامہ آپ کا مضمون پڑھ رہاتھا اور رورہا تھا کہ آپ نے میری زندگی کی کہانی کو کیوں کر لکھ ڈالا۔حرف حرف لفظ لفظ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ماں باپ کو بوجھ سمجھنے والی قوم ہر اعتبار سے ترقی کرسکتی ہوگی مگر اخلاقی و روحانی سطح پر اک دم پسماندہ ہی رہے گی۔مغرب میں اولڈ ایج ہوم کا تصور نیک سہی مگر ہمارے لیے یہ سوہان روح ہے۔دونوں وقت ایک ایک پھلکا کھانے والے والدین بچوں کے لیے بوجھ کیسے بن جاتے ہیں۔؟مگر افسوس صد افسوس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شاکر حسین
مہدی پٹنم ۔ حیدرآباد