پروفیسر خالد سعید کی تنقیدی بصیرت
ڈاکٹرقطب سرشارؔ
موظف لیکچرر ۔ محبوب نگر ۔تلنگانہ
موبائل : 09703771012
(نوٹ : پروفیسرخالد سعید، مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی کے سینئرترین پروفیسرہیں جواس ماہ وظیفہ حسن خدمت پرسبکدوش ہونے جارہے ہیں.وہ بہ حیثیت صدرشعبہ اردو، ڈین فیکلٹی آف آرٹس، ڈائریکٹرمرکزبراے اردو ادب و ثقافت اورانچارج وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں.)
خالد سعید نے ادبی سفر کا آغاز شعر گوئی سے کیا۔ اور شب رنگ نمو (پہلا شعری مجموعہ ۱۹۸۵ء) کے حوالے سے نئے طرز اظہار کے شاعروں کی صف میں جگہ بنالی۔ شعر گوئی کے ساتھ ساتھ ابتدا ہی سے ان کا میلان تنقید کی جانب رہا ہے۔ انہوں نے نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے راہوار قلم کو تنقید کے دشوار گذار راستوں پر لگا رکھا تھا۔ ماہ ستمبر یا اکتوبر ۱۹۸۷ء کے آس پاس خالد سعید کا پہلا تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’تعبیرات‘‘ شائع ہوا۔
’’ پس تحریر‘‘ تنقیدی مضامین کا تیسرا مجموعہ ہے جو ۲۰۰۴ء میں پیش رفت پبلی کیشنز گلبرگہ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ ’’ تعبیرات‘‘ بارہ مضامین اور ’’ پس تحریر ‘‘خالد سعید کی تین کتابیں عمیق مطالعے اور جائزے کی متقاضی ہیں ان کے بارے میں چند صفحات نہیں بلکہ ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے بلکہ لکھی جانی چاہئے۔ ہماری گفتگو یا تمحیص مختصر اور سرسری ہوگی اس طرح کی تینوں کتابوں کے موضوعات زاویہ نظر اصطلاحی زبان، متن کے حسن وقبح کی تلاش تنقید نگاری کی عمیق نگاہی اور مستعدی کی حدوں تک قارئین کے ذہن کی رسائی ہوجائے۔
تعبیرات کی اشاعت کو پورے بیس برس کا عرصہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ایسا قطعی نہیں لگتا کہ یہ مضامین کسی مبتدی نوجوان کی شروعات ہیں۔ ’’تعبیرات‘‘ سے ’’پس تحریر‘‘ تک خالد سعید کی ساری تحریر میں فکر کی گہری وسعت مطالعہ، زبان وبیان ، اصطلاحات کو برتنے کا ہنر فن پارے کو جانچنے پرکھنے کا زاویہ نظر بحث وتمحیص کا منطقی انداز بے ساختگی اور روانی وغیرہ تمام تر توانائیوں کی حامل ہیں۔یہ دلیل ہے حرف و ہنر کے وہبی ہونے کی ۔ شاعری ہو کہ نثر نگاری کسی بھی حوالے سے خالد سعید کو وہبی قلم کار تسلیم کرنے میں کسی کو تامل نہیں ہوگا۔ تعبیرات کے ۱۰۴ صفحات پر پانچ تنقیدی مضامین اور دوتجزئیے شامل ہیں۔ مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں۔ ۱۔ نثری نظم کے باب میں کچھ گفتگو ۔۲۔ میلی چادر کے تانے بانے ۔ ۳۔آگ کا دریا۔ ۴۔ خلاء میں بکھرے ہوئے حروف کی پہچان ۔ ۵۔ زبان اردو حقائق مسائل اور تقاضے یہ پانچواں مضمون اردوزبان کے مسائل کا جائزہ ہے۔ آخر میں بلراج کومل اور محمود ایاز کی نظموں کے تجزیاتی مطالعے کو جگہ دی ہے۔ کتاب کی ابتداء مصنف کے الفاظ سے ہوتی ہے لکھتے ہیں میں کوئی نقاد نہیں ہوں سچ تو یہ ہے کہ میرے کندھوں سے یہ بار امانت اٹھایا بھی نہیں جاتا یہ دو چار مضامین دراصل ادبی تخلیقات اور ادبی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کا نتیجہ ہیں اس لئے ان میں تجزیاتی رنگ شامل ہوگیا ہے۔ (تعبیرات ۔ ص۔۹)
یہ الفاظ اگرچہ کہ خالد سعید کے انکسار کے نمائدہ ہیں بلکہ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ انھیں منصب تنقید کی ذمہ داریوں کا مکمل ادراک ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قارئین ان کے بارے میں فیصلہ دیں۔ تعبیرات کا پہلا مضمون ہے نثری نظم کے باب میں کچھ گفتگو ۱۹۷۰ء اور ۸۰ء کے دہوں میں نثری نظم کو ملک بھر میں بہت سے شاعروں نے وسیلہ اظہار بنایاتھا۔ آئے دن نثری نظم کے موضوع پر ادبی جلسوں میں اور رسائل کے صفحات میں بہت سارے سوالات اٹھائے گئے۔ مخالف اور موافق آراء کا اظہار شدت کے ساتھ ہوتا رہا لیکن فنی سطح پر نثری نظم کی داخلیت اور خارجیت کے حدود اور پیمانوں کا تعین نہیں ہوسکا۔ خالد سعید نے شاعری کی ایک صنف محال کو موضوع بناتے ہوئے اس کی ہےئت ترکیبی اور خارجی پہلوؤں کا کوئی سترہ صفحات پر احاطہ کیا اور مختلف پیمانوں پر بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نثری نظم کو نثر پارے سے الگ کر کے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس طویل مدلل اور منطقی بحث کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ ’’ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر رکن اپنی مخصوص آواز لئے کے اتار چڑھاؤ کا حامل ہوتا ہے۔ اس لئے رکن کے تواتر اور تسلسل سے مصرعہ میں اک خاص لئے پیدا ہوتی ہے جو منتشر نہیں ہوتی جس کے سبب ہم اس مصرعہ کو نثر سے ممیز کرسکتے ہیں۔ غرض رکن کے تواتر اور تسلسل سے پیدا ہونے والی کیفیت کو میں موزونیت کہتا ہوں ایک بار یہ بھی دہرادوں کہ نثری نظم میں موزونیت والی نشانی ، نثری نظم کی شناخت کا ذریعہ (TOCL) ہے جس کی مدد سے ہم نثری نظم کو نثر پارے سے علاحدہ کرسکتے ہیں ‘‘ ۔ (تعبیرات ص ۳۲)
نثری نظم کو برتنے کا تجربہ شاعروں کے علاوہ تنقید نگاروں نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید الاسلام کی نثری نظموں کا ایک مجموعہ ’’ جستہ جستہ ‘‘ ڈسمبر ۱۹۷۷ء میں مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ دہلی نے شائع کیا تھا۔ خورشید الاسلام ایک نامور محقق اور نقاد ہیں۔ انہوں نے جو نظمیں کہی ہیں وہ اگرچہ کہ نثری نظمیں ہیں لیکن مکمل تخلیقی توانائی سے معمور ۔ ملاحظہ ہوں :
(۱) تمہیں اس کا اندازہ نہیں کہ میں ؍ تم سے کتنی محبت کرتا ہوں ؍ اگر تمہیں اس کا اندازہ ہوجائے ؍ تو تم رات دن ؍ یہ دعا مانگو؍ کہ خدا تمہیں ؍ ہمیشہ سلامت رکھے۔
(۲) خوشبو نے کہا؍ تم مجھ میں تیرنا سیکھو ؍ میں خود ؍ تمہارے انگ انگ میں ؍ تیرنے لگوں گی۔ (ص ۱۴۴)
یہ دونظمیں خالد سعید کی رائے کی توثیق کرتی ہیں جو انہوں نے نثری نظموں کے بارے میں دی ہے۔ رکن کے تواتر اور تسلسل کو انہوں نے موزونیت سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں موزونیت سے مراد کسی بحر کی تقطیع نہیں بلکہ مربوط خیال آرائی ہے جو نثری نظم کو نثر پارے سے الگ کرتی ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے بارے میں اپنے مضمون ’’ میلی چادر کے تانے بانے‘‘ میں خالد سعید لکھتے ہیں۔ ہمیشہ میرا یہ احساس رہا ہے کہ بیدیؔ کو پڑھنا ممکن ہے لیکن ان کی تخلیقات سے لطف لینا مشکل ہے۔ (تعبیرات ۔ ص ۳۵)
بیدی کے ناولٹ ’’ ایک چادر میلی سی‘‘ کے بارے میں خالد سعید کا خیال ہے کہ یہ ایجاز واختصار اور معنوی وحدت کے واقعات علامتی پیکر اور استعاروں کے برتاؤ اشاراتی وکنایاتی انداز، اساطیر کے استعمال اور لفظ ومعنی کے تخلیقی استعمال سے عبارت ہے۔ (ص۔ ۳۵) اس نظریے کے تناظر میں خالد سعید نے ناول کے کرداروں ، واقعات کے اہم نکات، کرداروں کی نفسیات اور تہذیبی اقدار کا نہایت منطقی اور تخلیقی زاویوں سے تجزیہ کر کے بیدی کے ناولٹ کے بارے میں ایک سلجھا ہوا زاوےۂ فکر دیاہے۔ ناولٹ کے کانسپٹ کی تہیں کھولتے ہوئے خالد سعید نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے ان ہی کے الفاظ میں ملاحظہ کریں :
’ ’ بیدی نے اس ناول میں شیومت کے اساطیر کے ذریعہ شکتی کے دوسرے روپ یعنی تخلیقی تسلسل اور زندگی کی معنویت کو نمایاں کرنے کی فنکارانہ سطح پر کوشش کی ہے ‘‘۔
اردو کی ممتاز ناول نگار قرۃ العین حیدر کے حوالے سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا یہ ماننا ہے کہ کرشن چندر کے بعد موجودہ دور قرۃ العین حیدر کا دور ہے۔ یعنی آپ کے فن پر بہت کچھ اور بہتوں نے لکھا ہے۔ ان تمام سے ہٹ کر لکھنا سخت مرحلہ سہی، خالد سعید نے اپنے لئے سہل بنالیا۔ چنانچہ وہ’’ آگ کا دریا‘‘ کے تجزیے کاآغاز ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’ ترقی پسند تحریک کے حامل ناول نگاروں کی صف میں قرۃ العین حیدر کے ناول کے بنیادی موضوع کے تعین کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ قرۃ العین کا شمار ترقی پسندوں کے گروہ میں ہوتاہے ۔۔۔‘‘
ترقی پسند تحریک کے عہد میں ابھرنے والے فنکاروں کے ایک الگ گروہ نے خارجیت یعنی طبقاتی نظام میں رائج استحصال اور معاشی نامساعدات سے پیدا ہونے والے مسائل ہی کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے جبکہ دوسرے گروہ کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں نے استحصال کے شکار انسانوں اور ۱۹۴۷ء کا تاریخی جبر بھوگنے والے انسانوں کی ذہنی اور روحانی پیچیدگیوں اور نفسیاتی کرب کو خصوصی طور پر اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ہے جس کے باعث ان کی تخلیقات میں زندگی کی ہمہ گیریت ابھر کر آئی ہے۔ قرۃ العین حیدر کا نام دوسرے گروہ کے ناول نگاروں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یوں تو قرۃ العین حیدر نے بہت کم ناول لکھے ہیں لیکن ان کا نام لئے بغیر اردو ناول نگاروں کی فہرست نامکمل رہے گی ‘‘۔ ( تعبیرات )
ناول کا موضوع اور تاریخی تناظر اور قرۃ العین حیدر کے مقام کے تعین کے حوالوں اور تجزیے سے گذرتے ہوئے خالد سعید یہ انکشاف کرتے ہیں کہ ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اردو کی روایتی اور سوانحی ناولوں سے مختلف ہے چونکہ اس میں ڈھائی ہزار سالہ ہندوستان کے مختلف ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے نیز عہد گذشتہ کے قدیم ہندوستان کی متاثر کن عکاسی سے اکثر قبول کرتے ہوئے خالد سعید لکھتے ہیں ’’ خصوصاً ابتدائی حصہ قرۃ العین حیدر نے بڑے چاؤ سے لکھا ہے۔ عہد عتیق کے ہندوستان کی طرز زندگی تہذیب وثقافت اس دور میں رائج فکر وفلسفیانہ نظریات، خصوصا فنون لطیفہ پر بہت گہرائی وگیرائی سے نظر ڈالی گئی ہے۔ گو کہ ابتدائی حصہ ناول کے بہاؤ کے ساتھ گھتا ہوا نہیں ہے لیکن بیش قیمت ہے۔ مسلم دور حکومت کے لکھنوں کی تصویر کشی اورمرقع نگاری کو پڑھتے ہوئے قاری اپنے جسم وجاں پر ۱۸۰۰ء کے لکھنو کی نرم سانسوں کی نمی محسوس کرتا ہے لیکن جہاں جہاں انہوں نے لکھنو کے تاریخی واقعات بیان کرنے میں کہانی پن کے سلیقیسے ہاتھ چھڑایا ہے صرف بیان پر اکتفا کیا ہے وہاں رپورٹنگ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ماضی کی بازیافت ماضی کی پرستش کے لئے قرۃ العین حیدر نے کرداروں کی یاد داشت سے کام لیا ہے یعنی یہ ناول ایک ’’ یاد تاژ‘‘ ہے کہ کردار اپنی یاد سیڑھیوں کے ذریعہ ماضی کے طویل سلسلے تک پہنچنے سے اس بناء پر اکثر قاریوں کو اور نقادوں کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ یہ اول شعور کی رو کی تکنیک پر لکھا گیا ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم اسے Flash Back کہہ سکتے ہیں۔ (خ س )
ناول کی تکنیک پر اظہار خیال کرنا بھی واجبات انقاد میں ایک اہم فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ کوئی بھی تخلیق کار تخلیقی اظہار سے قبل اسلوب نگارش یا طرز اظہار کی شعوری طور پر پلاننگ نہیں کرتا۔ جبکہ تنقید نگار ، اپنے اصولوں ، پیمانوں اور زاویہ گاہ کے خطوط پر چلتے ہوئے فن پارے کو مختلف جہتوں اور زاویوں سے دیکھتا پرکھتا اور اس پر حکم لگاتا ہے۔ فن پارہ چاہے وہ فکشن ہو کہ شاعری ما قبل تخلیق، تخلیق کار طئے نہیں کرتا کہ اسے کس طرح اور کس تکنیک کو بروئے کار لانا چاہئے۔ اظہار کے عمل کے ساتھ ہی تکنیک بھی خود بخود وجود میں آجاتی ہے۔ تکنیک دراصل تخلیق کار کی ایماء سے نہیں بلکہ کیفیت فکر واحساس سے جڑی ہوتی ہے۔ چنانچہ فن پارے کی تکنیک کے تعین کے مرحلہ میں تنقید نگاروں کی آراء ملتی جلتی ہوسکتی ہیں اور مختلف بھی۔
خالد سعید نے ’’ آگ کا دریا‘‘ کو تکنیک کے حوالے سے ’’ یاد تاژ‘‘ تعبیر کیا ہے۔ (یاد تاژ کی ترکیب انوکھی اور تخلیقی ہے) اور کہا کہ آگ کا دریا شعور کی رو کی تکنیک پر ہرگز نہیں ہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ فلیش بیک کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ پروفیسر بیگ احساس ’’آگ کا دریا‘‘ کو بہ اعتبار تکنیک ٹائم ناول Time Novel قرار دیتے ہیں۔ چونکہ اس میں شعور کی رو کا بھر پور استعمال کیاگیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : بیسویں صدی میں وقت پر جو تجربے کئے گئے ہیں اس کے باعث ٹائم ناول جیسی اصطلاح رائج ہوئی ہے۔
J.A.Cuddon نے ٹائم ناول کی تعریف یہ کی ہے کہ جس میں شعور کی رو کی تکنیک استعمال کیا گیا ہے، جس میں وقت ایک اہم تھیم کی حیثیت سے ابھر کر آتا ہے۔ آگ کا دریا کو ہم ٹائم ناول قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اس میں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ (شور جہاں۔ بیگ احساس ص ۹۷)
خود ’’ آگ کا دریا‘‘ کی مصنفہ کہتی ہیں ’’ کوئی بھی مختصر سا منظر یا کوئی امیج جو میری یادوں میں موجود مجھے تحریک دیتا ہے اور میں لکھنا شروع کردیتی ہوں تکنیک خود بخود پیدا ہوجاتی ہے‘‘۔ (طلوع افکار ، کراچی مئی ۱۹۸۸ء انٹرویو از قرۃ العین حیدر) اور ہمارے خیال میں شعور کی رو ہی ہے جس کے سبب ذہن انسانی کے پردے پراحوال گذشتہ عود کر آجاتے ہیں جو مرتب کے فلیش بیک کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ان احوال گذشتہ کے لئے خالد سعید نے ’’یاد تاژ‘‘ کی جامع اصطلاح وضع کی ہے جس کی وجہ سے ہمیں شعور کی رو کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ چنانچہ ہم آگ کا دریا کو بیسویں صدی کی کامیاب اور جامع یاد تاژ کا نام دے سکتے ہیں۔ لیکن کہانی کے تانے بانے کردار اور ماحول کا بوجھل پن قاری کے ذہن پر تھکن کے آثار پیدا کرتا ہے۔ فنی پہلوؤں پر گرفت کرنا اور تکنیکی محاسن کو باریک بینی سے سمجھنا تو با شعور قارئین اور نقادوں کا حصہ ہے۔ عام قاری تو کہانی اور کرداروں کے ساتھ ساتھ چلتے رہنے کا میلان رکھتا ہے۔ ناول میں کہانی پن ہو اور کہانی کے تانے بانوں میں ایسی لگن ہو کہ قاری کی توجہ کو مکمل طور پر گرفت میں لے رکھے۔ کردار جانے پہچانے، دیکھے بھالے ہوں یا پھران کی نفسیات اور احساسات کے کم از کم آس پاس ہوں۔ اجنبی ماحول، اجنبی کردار بس چند صفحات تک برداشت کئے جاسکتے ہیں البتہ دیو مالا اور مافوق الفطرت کہانیاں اور کردار ان شرائط سے مستثنی ہوتے ہیں۔ خالد سعید نے کہانی کی تکنیک اور زبان ومکان سے متعلق گفتگو کی ہے جو نہایت جامع اور عمیق تنقیدی شعور کی حامل ہیں۔
خالد سعید کی بالغ نگاہی فکشن کا احاطہ کرنے میں جس قدر نکتہ رس ہے اتنی ہی شاعری کی رمز شناس بھی ہے۔ انہوں نے غالبؔ کے اوج نظر اور ادراکات کے عمق تک رسائی حاصل کی ہے اور افکار اقبال کی تعبیرات بھی نہایت عمدگی سے کی ہے۔ کلاسیکی شاعری کے رموز کی جویائی کے ساتھ ساتھ انہیں جدید شاعری کا بھی خاصہ درک ہے۔ ان کی تنقیدی بصیرت کا خاصہ یہ ہے کہ جب یہ کسی صنف ادب پر گفتگو کرتے ہیں تو اپنی تعبیرات کو چیستاں بننے نہیں دیتے۔ ان کی تحریر کا اسلوب نہایت نرم منطقی اور متوازن ہوتا ہے۔
کسی فن پارے کے تجزیے کے دوران حکم لگانے کی بجائے ان کی ترجیحات دلائل پر منحصرہوتی ہیں۔’’ خلاء میں بکھرے ہوئے حروف کی پہچان‘‘، یہ تعبیرات، میں شامل چوتھا مضمون ہے۔ اس میں کرناٹک کے حساس شاعر حمیدالماس کی منتخب نظموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ خالد سعید جدید شاعری کے رمز شناس اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ تنقید نگار شاعر ہیں۔ ان کی تخلیقی توانائی وہبی ہے۔ جدید حسیت جو بیسویں اور اکیسویں صدی کے دوران شعری اظہار کا خاصہ ہے ان کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔
ہماری حکمت کا ماحصل یہ ہمارے جینے کا یہ خلاصہ
رگوں میں باردو سی رواں ہے، زمیں پہ بہتا لہو بہت ہے
(خالدؔ سعید)
حمید الماس کی نظموں پر گفتگو سے پہلے انہوں نے ایف ایم حسین کی ایک تخلیقی اظہار پر مبنی پینٹنگ کے حوالے سے اس کمال کے ساتھ تمہید باندھی کہ حمید الماس کی نظموں کا ماحول قاری کے پردہ ذہن پر روشن ہوجاتا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ نیوکلیر دھماکے پر ایم ایف حسین کا رد عمل :زمین سے پھوٹے ہوئے تابکاری کے درخت کی ٹہنیوں اورشاخوں سے پھوٹتے ہوئے یورانیم کے ذروں سے بنا اک احاطہ اوراس احاطے سے باہرنکلنے کی کوشش کرتا ہوا کبوتر۔ یہ اس بات کا احتجاج ہے کہ ہماری سانسوں کو یورانیم سے آلودہ نہ کرو جو پہلے ہی کاربن سے آلودہ ہوگئی ہیں۔ یہ احتجاج ان سارے فنکاروں کا ہے جن کے ذہنوں میں تشکیک کے سپولے پرانی قدروں کی لاش پے بیٹھے پھنک رہے ہیں۔ فنکار چاہے آرٹ کی دنیا کا ہو یا ادب کا۔ وہ ہر شئے ہر رشتے کو شک وبے یقینی سے دیکھتا ہے اوریہ احساس اپالو کی رفتار سے ترقی کرنے والے سائنسی سماج کا ہے۔ اس لئے آج کا آدمی کاربن زدہ ماحول اور تشکیک کے اندھیرے سے اٹے ہوئے سماج میں زندگی کا سفر جاری رکھنے کیلئے خوابوں اور خواہشوں کے سورج تراشتا ہے۔ (تعبیرات۔ص ۶۵)
اس عبارت کے تناظر میں حمید الماس کی نظم ’’ سورج کا تعاقب‘‘ کے مصرعوں کو اس کمال کے ساتھ ابھارا ہے کہ نظم کا کانسپٹ روشن ہوگیا۔ حمید الماس کی محولہ نظموں میں اندھیرے اور روشنی کے تضادات کے حوالوں سے شاعر کی وحشت اور اضطراب کی نفسیات ہویدا ہیں۔ البتہ شاعر کا لہجہ نرم توانا اور تخلیقی صفات کا حامل ہے۔ خالد سعید شاعر کی مخصوص حروف سے رغبت اور ان کے صوتی تاثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : (صوتیاتی لحاظ سے یہ سارے الفاظ ترنم ریز اور سرل ادا ہونے والے ہیں۔ ص۷۱)
خالد سعید کی نظر میں حمید الماس روماٹنگ اور حساس طبیعت کے حامل ہیں۔ ان کی زود حساسیت گہرائی تک رسائی حاصل کرنے میں مانع ہے۔ تجزیہ نگاری ہو کہ تنقید نگاری دونوں میں ’’تخلیق شناسی‘‘ قدرِ مشترک ہے۔ شاعری کے تجزیے کے مرحلہ میں اگر تجزیہ نگار شاعر بھی ہے، سونے پہ سہاگہ کہ وہ شاعری کے تمام ابعاد کا بھر پور ادراک رکھتا ہے۔ اس سبب سے خالد سعید کے تجزیے بھر پور لگتے ہیں کہ وہ خود بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ دکن میں شاعری کی متوازن تجزیہ نگاری کے حوالے سے مضطر مجاز ، اسلم عمادی ، ڈاکٹر محسن جلگانوی ، علی ظہیر، ڈاکٹر مغنی تبسم، رؤف خلش، ڈاکٹر یوسف اعظمی اور جمیل شیدائی کے نام بہت معتبر مانے جاتے ہیں۔ تنقیدنگار کے باب میں پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر بیگ احساس جدید نقادوں کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
تعبیرات کا آخری مضمون بہ عنوان ’’ زبان اردو ، مسائل حقائق اور تقاضے‘‘ جو اردو زبان کے موقف سے متعلق ایک بھر پور جائزہ ہے۔ چونکہ یہ مضمون تنقید نگاری کے ذیل میں نہیں آتا اس پر گفتگو کسی اور موقع پر کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ خالد سعید نے اپنے تنقیدی اظہار کا آغاز اگر بقول ان کے جائزہ نگاری سے کیا ہے ، اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ مستقبل میں دکن کے نمائندہ تنقید نگاروں کے حوالوں میں شمار کئے جائیں گے۔ خالد سعید اگر اپنی تنقید یا تجزیہ نگاری کے سفر کو یوں ہی رکھتے ہیں تو حیدرآباد کے ادیب وشاعر ان کے رشحات قلم کا موضوع بن سکتے ہیں۔ امید ہے مستقبل قریب میں خالد سعید اپنی توجہات کو حیدرآباد کے قابل اعتنا شاعروں اور ادیبوں کی طرف منعطف کریں گے۔
Dr.Qutub Sarshar
Mahboob Nagar, TS – India
۳ thoughts on “پروفیسرخالد سعید کی تنقیدی بصیرت – – – ڈاکٹرقطب سرشارؔ”
dr.sarshar ne prof. khalid sayeed ki tanqeedi baseerat par bada umda tabsira kiya hai masha allah
ماشاءاللہ خالد سعید صاحب پر قطب سرشار کا ایک مختصر اور جامع مضمون گو کہ اس مختصر مضمون میں خالد سعید کے فکر و فن اور تنقید نگاری کا وسیع پیمانے پر جائزہ نہیں لیا گیا پھر بھی خالد سعید صاحب پر ایک جامع مضمون ہے.
ماشاءاللہ خالد سعید صاحب پر ایک جامع مضمون. بہت مبارک جناب قطب سرشار صاحب.