مسلمانوں کےلیےعلم فلکیات کی ضرورت واہمیت
احسان اللہ سعید
فاضل جامعۃ الرشید
کراچی ۔ پاکستان
– – –
اسلام عالم گیراور سہل ترین مذہب ہے، سادگی وپرکاری کےساتھ لاریب کتاب میں ایسے علوم وحکم اورآفاقی نشانیاں پوشید ہ ہے کہ انسان آج بھی چودہ سو صدیاں گزرنے کے باوجود جب غوروفکراورتوجہ سے مطالعہ کرتاہے توششدر وحیران رہ جاتاہے۔
اسلام دین فطرت ہے جو اپنے واضح احکام وفرامین کی کشش کے باعث ہی قلب ِانسانی میں گھر کرتا ہے، فطرتِ بشری کی تجزیہ کاری اس کے متنوع علوم ومعارف کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی افادیت کی مظہر ہے۔ درحقیقت اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسان کو کائنات کے سربستہ اَسرار معلوم کرنے کی دعوت دیتاہے تاکہ اس کے ماننے والے محض نام کے مسلمان نہ کہلائیں بلکہ وہ اپنے قلب وذہن کی پوری آمادگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کے جملہ احکام پر ایما ن لانے والے ہوں۔ اس کا بنیادی مقصد حقیقی اور باعمل مسلمان کے نمونے کی تیاری ہے جوکفار کے لئے اسلام کی دعوت کا ذریعہ ثابت ہو۔
اسلام بجا طور پر جملہ مباح علوم کی اور بالخصوص سائنس کی افادیت کو نہ صرف تسلیم کرتاہے بلکہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے اس کی ترویج کو مقتضاے شریعت کی تکمیل تصور کرتا ہے۔ جو مذاہب انسان کو دنیا سے فرار کا درس دیتے ہیں، اسلام ان کے برعکس سائنس اور دیگر جائز علوم کو نظامِ قدرت میں مداخلت قرار نہیں دیتا بلکہ ایک سچے اور کھرے مسلمان کے ساتھ ساتھ دنیا میں مروّجہ علوم کا ماہربھی اسے درکار ہے جو اسلام کے پیغا مِ حق کو جدید ذرائع کی وساطت سے غیر مسلمانوں تک پہنچاسکے۔
فرقان ِحمید جوآقائے دوجہاں ﷺ کا زندہ وعالمگیرمعجزہ ہےاس میں عقائد وعبادات اوراخلاقیات کے ساتھ ساتھ ہزار سے زیادہ ایسی آیات ہیں جوجدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف علم فلکیات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔
مسلمانوں کوعلم فلکیات کی جس قدراس دور میں ضرورت ہے وہ شاید پہلے کبھی نہیں تھی یہ دوراسپیشلائزیشن کا دورہے، اسلام کے بہت سی عبادات گرچہ اس علم پر موقوف نہیں لیکن گہرائی وگیرائی اورکاحصول اورسمجھانے وسلجھانے کےلیے کافی ممد ومعاون ہے۔
نماز، روزہ اورحج کے اوقات وایام کاتعین ،برسوں کی گنتی، ماہ شوال کی ابتداء اورعید کے لئے شمس و قمر کا نظام، رؤیت ہلال کا فطری اور سیدھا سادہ اصول بتایا ، جس کا جاننا اور اس کے مطابق عمل کرنا تمام مسلمانوں کے لئے آسان ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاء وَالْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّہُ ذَلِکَ إِلاَّ بِالْحَقِّ ﭼ (يونس:5) ترجمہ: وہ اللہ ہی ہے جس نے سورج کو ضیاء ،اور چاند کو نور بنایا اور اس کے لئے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو، اللہ نے یہ چیزیں بے فائدہ نہیں پیدا کیں ۔
پوری دنیا میں ایک ہی چاند نظر آتا ہے البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ محل وقوع کے اعتبار سے الگ الگ موقعوں پر نظر آئے لیکن چاند ایک ہی ہے۔
چاند کیمنزلیں اللہ نے متعین کی ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے دنوں کا حساب لگایا جاسکے اورسورج کی حقیقی منزلوں کا انسان کو علم نہیں ہے لہذا اس کے ذریعہ دنوں کا حساب لگانا ممکن نہیں ہے۔
سمت قبلہ کی درستگی اورہرمہینے کی ابتدامعلوم کرنے میں اس علم کے حساب سے بہت سی آسانیاں فراہم ہوجاتی ہیں اور غلطیوں کا کم سے کم امکان بچ جاتاہے۔اتحاد واتفاق ویگانیت کی فضا ہموار ہوتی ہے۔اور امت میں افتراق سے بچنے کی سبیل بن سکتی ہے۔
علم فلکیات کے حصول کی تمنا صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے جس سے آپ اس علم کی اہمیت کابخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں،اسلاف کرام ؒ نے اس علم کو شریعت کے بقیہ علوم کے ساتھ پڑھانے کاباقاعدہ اہتمام کیا تھا۔اورماضی میں امت مسلمہ نے اس علم کے جاننے والے مشاہیرپیدا کئے ہیں ا س لئے بالاشبہ یہ وہی علم ہے جس کی باضابطہ ابتدا مسلمانوں نے ہی کی اور اس کوپروان چڑھایا، مسلمانوں نے بطلیموس کے غلط نظریات کی تصحیح کرکے جدید علوم کے مطابق بنا یا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری میراثوں کی طرح اس میراث کوبھی ہم بھلادیا۔
اب یہ علم نہ صرف ہمارے لیے اجنبی بن گیا ہے بلکہ اس کواغیار کی تحویل میں دے دیاگیا اوراغیار نے موقع سے فائدہ اٹھاکرمسلمانوں کی ایجادات اور دریافتوں کواپنے سرباندھنے کی بھرپور کوشش کی جس کانتیجہ یہ ہواکہ آج کے مسلمانوں میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بعض مشہورایجادات ودریافتیں مسلمانوں کی سعی کی مرہون منت ہیں۔
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یورپ نے فلکیات کی مشعل مسلمانوں سے حاصل کی اور مغربی دنیا کو منور کر دیا لیکن یہ اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیا کہ علم کی یہ روشنی کہا ں سے آئی ۔ اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے مشہور دانشوروں نے اپنے اپنے طور پر کیا ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے ہی مشاہداتجربات اور تحقیقات کی بنیاد ڈالی ۔ ہٹی (Hitti)نے اپنی کتاب”A shortstory of Arab” میں لکھا ہے کہ قرون وسطیٰ میں کسی قوم نے انسانی ترقی میں اتنا حصہ نہیں لیا جتنا کہ مسلمانوں نے ۔ ہینری پرمنے (Henri Pirmne)نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام نے کرہ ارض کی شکل ہی بدل دی۔
اب سوال یہ ہے کہ پھر تمام فلکیاتی ترقیاں یورپ سے منسوب کیوں کر ہیں ۔ یورپ میں اسلامی فلکیاتی ذخیرہ در اصل بغداد کی بیت الحکمہ نام کی انجمن کے ذریعہ پہنچا اس انجمن کو ۱۸۳۲ء میں بغداد کی حکومت نے قائم کیا تھا اور اس میں عربوں کی تصنیف شدہ کتابیں لاطینی(Latin)یونانی(Greek )وغیرہ زبانوں میں منتقل کی جاتی تھیں شاید اس کام کا مقصد یورپ میں بھی اپنا نام روشن کرنا تھا لیکن ہوا یہ کہ سب گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے اور اہل یورپ نے اس سے استفادہ کر کے تمام دنیا کو منور کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
جب مسلمان ماہرین فلکیات کی کتابیں یورپ پہنچی تو انہوں نے یہ خطرناک کام انجام دیا کہ ان کے مصنف کے ناموں میں تبدیلی کر کے انہیں یوروپی انداز میں ڈھال کر پیش کیا ۔مثلاً ٭ابن رشد (Averroes) ٭بوعلی سینا (Avicinna) اور٭موسی بن میمون کو (Memunides) لکھا گیا۔ اسی طرح کئی اور ناموں میں بھی تبدیلی کر دی گئی۔ اس سے لوگوں میں یہ تبدیل ہوئے نام مشہور ہوئے ۔ درحقیقت اہل یوروپ کی یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہی تھی۔ کہ دنیائے سائنس سے مسلمانوں کی خدمات کے علاوہ ان کے ناموں سے بھی دور رکھا جائے ۔ ان کی یہ کوشش کافی حد تک کامیاب بھی رہی لیکن ایسے سیکڑوں تاریخی حوالے دستیاب ہوئے ہیں جو یہ تصدیق کرتے ہیں کہ بلاشبہ عرب مسلمانوں کے ذریعہ ہی سائنس اور فلکیات کا سیلاب آیا اور ساری دنیا میں پھیل گیا آج کا جدید فلکیات بھی در اصل مسلمانوں کی تعمیر کردہ بنیاد پر منحصر ہے ۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے جس کا بدقسمتی سے ہمیں سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ مسلمان جس کی تخلیق دنیا کی راہنمائی کے لئے کی گئی تھی آج خود نشانِ منزل کھو چکا ہے اور سرابِ سفر کو مقصودِ حقیقی سمجھ کر اس پر قانع وشاکر ہے۔ اسی لئے ذلت ومسکنت کے گہرے بادل شش جہت سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے شاندار ماضی اور عبرتناک حال کو دیکھ کر مستقبل کو درخشان کرنے کی بہترمنصوبہ بندی کریں۔
آج پھروقت کا تقاضہ ہے کہ علم فلکیات اوراس جیسے دوسرے وہ علوم جو گردوغبار میں سڑرہے ہیں یا پھراغیارکی چنگل میں ہے ان کو صحیح طریقے سے اپنے اداروں جامعات میں نئی روح اورنئے ولولے کے ساتھ نافذ کیا جائے قدیم وجدید کا امتزاج کے ذریعے بہت سے مفید وکارآمد تحقیقات سامنے آسکتی ہیں۔
موضوع کی افادیت کو مدنظر رکھ کر حکومت کو اقدامات کرنے چاہئے، آج بھی مسلمان سائینس دان بہت زرخیز ذہن رکھتے ھیں لیکن حکومتیں ریسرچ پروجیکٹس پر توجہ نہیں دیتی جو سائنسی تحقیق کی اصل بنیاد ہے، یورپ کے لوگ اپنے طور پر بھی ریسرچ کرتے ہیں جو بعد میں مختلف سائنسی ادارے یا حکومتیں خرید لیتی ہیں۔
جب مغربی ادارے خود شمسی کے بجائے قمری نظام کوپرفیکٹ قراردے دے کراس پرعمل کرتے ہیں توآج ہمیں اس پر عمل کرنے میں کیا جھجھک اورخجلت کا سامنا ہے؟ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کا معروف ادارہ ناسا (NASA) بھی اپنے کاموں کی ترتیب قمری تاریخ کے حساب سے کرتا ہے ۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ فلکیات کے علم کو سیکھتے ہوئے قمری تاریخ کی حفاظت کی جائے۔اور فلکیات کے علم کو ہمارے تعلیمی اداروں میں رواج دیا جائے تاکہ مسلمان اپنی گمشدہ میراث پھر سے حاصل کر سکیں۔
۵ thoughts on “مسلمانوں کےلیےعلم فلکیات کی ضرورت واہمیت ۔ ۔ ۔ احسان اللہ سعید”
Afsos ke hum ko aaj wo karna padh raha hai, jise Europe 1000 saal pahle karta thaa…. Aligarh movement ne bhi Islami sciences ka janaza utthaane me apna kaandha zaroor diya… Ab Aligarh MU ki zimmedari hai ke phir nishaat-e-saaniua kareN…. warna taareekh me gunehgaar wahi honge…
Ahmed Nisar – Pune
Ihsan Ullah ! Europe k logon nay jaa boojh ker kisi k naam ko nahin badlaa…. us waqt Europe khud bhi mazhabi shhikanjon main phanza huwa tha awr Europe k mumaalik aapas main aik dusray per hamla-aawar hotay thay… Europe ki mukhtalif zubaanon main Arbi naam badal jaatay hain…. maslan Brazil ka qaanoon hai k wo kisi ko bhi shehriyat daitay waqt likhtay hain k aap k naam ko Portuguese language k mutaabq aasaani k laiy badla jasakta hai…. lehaza unhon nay mera naam "Khan" ko "Kahn" likha keunkay Portuguese language main "Khay" nahin hai…. yaa naam k shuru main nahi aati… baaqi musulmaanon nay khud akser uloom Europe k yonaani falsafay say liay thay… aaj bhi madaaris main Yoonaani falsafi awr mantiq ki laa-thaadad kitaabain parhaayi jaati hai… musulmaan madrason main aj tak "sharah-e-chaghmaini" naami falkiyaat ki kitaab parhaatay thay jis main zameen ko kainaat ka markaz maan ker suraj ko us k aid gird ghumaaya jata hai…
Behadd malumati mazmoon,
Afsos ye hai k jis ummat ko pehla lafz ” Iqra ” padhaya gaya tha aaj uss ummat mein illiteracy ki sharah doosri qaumon ki banisbat zyada hai.
Ilm-e-falakiyaat mein Maher ek naam mere zahen mein saraha hai ” Abul Wafa Buzjani.”
Chand ki harkat par jo research hue hai woh ” Abul Wafa ” ki studies par based hai.
آپ نے جو کچھ لکھا اس سے صد فیصد اتفاق ہے اور عرض ہے کہ آج کل ان جدید علوم کو فقظ سیکھنے ہی کی ضروررت نہیں بلکہ ان مقمات تک بھی پہنچنے کی ضرورت جہاں ان سے کما حقہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور ان میدانوں میں ہونے والے نقصانات کا تدارک بھی کیا جاسکتا ہے
مثلا فلکیات ہی کو لے لیجئے -اتنا کافی نہیں کہ ہم فلکیات میں مہارت حاصل کرکے اپنی رصدگاہ قائم کرلیں اور ہر ماہ اپنی سطح پر رویت کا اعلان کریں بلکہ ہمیں ان سرکاری مناصب تک پہنچنا چاہئے جہاں سے ہمارے رویت اعلان کو کوئی اہمیت حاصل ہو اور اس باب میں ہونے والے نقصان کا تدارک ہو-
سوفیصد درست باتیں کی هیں اور بہترین علم جو آہستہ آہستہ ہمارے جامعات میں اجنبی بنتا چلا جا رها هے کی طرف رہنمائ فرمائ.
آنگریز کا تو کام ہی یہی هے کہ تمام شعبہ جات میں دوسروں کی محنت کو آسانی سے اپنی محنت قرار دینا اور داد و تحسین وصول کرنا لیکن ہاتهہ پر ہاتهہ دهرے بیٹهنا کوئ عقلمندی نہیں بلکہ ہمیں دوبارہ خود کفیل بننا هوگا اور اس علم کو کماحقہ دوبارہ حصل کرنا پڑےگا…
میرا مشورہ یہ هےکہ اگر آپ کو اس علم پر مکمل دسترس حاصل هے تو رمضان المبارک سے پہلے قسط وار سلسلہ شروع کیجئے ہم بے علموں کو بهی فائدہ هوگا اور کچهہ نہ کچهہ سیکهنے کو ملےگا….