کتاب :دریافت (تحقیقی و تنقیدی مضامین)ISBN 978-93-5196-417-9
مصنف : ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل
مبصّر: ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ
قیمت :۱۵۰ روپئے ضخامت :۱۱۲ صفحات
ملنے کا پتا : بیت الجلیل، پلاٹ نمبر ۹، اسیر کالونی، پوسٹ وی ایم وی؛ امراوتی444604
پروفیسر ڈاکٹر محمد یحییٰ جمیل علم و ادب کی مختلف جہات میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ فکشن، جدید شاعری اور تحقیق میں انھوں نے سنجیدہ پیش رفت کی ہے۔ ’فارسی شاعری کے اسالیب کا مطالعہ‘(جون ۲۰۱۱ء)میں وہ ڈاکٹر انجم ضیاء الدین تاجی کے شریک قلم رہے۔اپنی افادیت کے باعث یہ کتاب آج امراوتی یونی ورسٹی میں بی. اے.(فارسی) کے کورس میں شامل ہے۔نیز موصوف کا افسانوی مجموعہ ’لیمپ پوسٹ کی حکایت‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء)ادب کے سنجیدہ حلقوں میں آج بھی گفتگو کا موضوع ہے۔لہٰذا، باذوق قارئین کے لیے ان کا نام محتاج تعارف نہیں۔ زیر نظر کتاب، ’دریافت ‘ ان کے دس تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
مصنف ، فارسی کے استاد ہیں اس لیے یہ مضامین ، فارسی ادب سے متعلق ہیں لیکن مقالات کے ذریعے تاریخ سے ان کی غیر معمولی دلچسپی کا بھی علم ہوتاہے۔کتاب کا دیباچہ سلیم شہزاد نے لکھا ہے جو عام طور پر دیباچہ نہیں لکھتے ۔ سلیم شہزاد صاحب نے کوزے میں دریا بند کے مصداق راے پیش کردی ہے کہ :
’’یہ مضامین محض تاریخ کا بیان نہیں بلکہ ان میں مصنف نے بشریاتی، سماجیاتی اور ثقافتی پہلوؤں کا بھی بنظر تحقیق مطالعہ پیش کیا ہے اور عصری تصورات سے ہم آہنگ نتائج کی تعمیم کی ہے۔‘‘
یہ مقالات بجا طور پر مصنف کے گہرے مطالعے کا ماحصل ہیں جو سادہ و سلیس لیکن معیاری زبان میں بڑے ہی مدلل طریقے سے سپرد قلم کیے گئے ہیں۔ ادبی تحقیق میں عام طور data collectionہی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے اور نتائج کی طرف سے غفلت برتی جاتی ہے۔ لیکن اس کتاب کے تمام مقالات میں مصنف نے بہترین نتائج اخذ کیے ہیں۔ ان مقالات کی زبان اتنی اچھی ہے کہ تخلیقی نثر کے زمرے میں رکھی جاسکتی ہے۔ بعض جگہ انشائیے کا لطف موجود ہے۔ مثلاً کتاب میں شامل پہلے ہی مضمون کے پہلے پیراگراف کو دیکھیے:
’’شاہان مغلیہ میں علم دوستی اور ادب پروری کا جذبہ، جذبۂ کشور کشائی ہی کی طرح نہایت عمیق اور خالص تھا۔ تیموری نسل کے کسی بادشاہ نے حصول علم میں البیرونیت اور اہل علم کی قدر دانی میں حاتم مرتبگی کا معیار قائم کرنے سے گریز نہیں کیا۔ بے شبہ دنیا کی تاریخ میں دودمانتیموری جیسے شمشیر بہ کف علمی خانوادے کی مثال کم ملتی ہے۔‘‘
یہ اقتباس ، ’علمی و ادبی روایات کا پاسبان۔ظہیر الدین محمد بابر‘سے ماخوذ ہے۔ کتاب میں شامل سبھی مقالات بالکل نئے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔’ اورنگزیب اور انسان کی تلاش۔کلمات طیبات کے حوالے سے‘بالکل نیا موضوع ہے اور شاید پہلی بار اس طرح سوچا گیا ہے۔ اسی طرح ’عہد وسطیٰ کے ذی جاہ مخنث‘ بھی نیا اور دلچسپ مضمون ہے۔ دیگر مضامین میں اردو شاعری میں گوتم بدھ اور ان کے افکارکا پرتو، کیا بابری مسجد ابراہیم لودھی کی تعمیر ہے؟ ہندستان میں رسم ستی اور فارسی شاعری، پانڈھورنا۔ سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے، پتھر بولتے ہیں۔کتبات کا مطالعہ ‘ وغیرہ کا شمار ہے۔ ان میں براری۔خطہ برار کی اردو بولی‘ قابل ذکر ہے کہ اس کے ذریعے شاید پہلی بار براری کو recogniseکیا گیا ہے۔ اس میں مصنف نے تقریبا دیڑھ سو الفاظ کی فہرست دی ہے اور عربی وفارسی زبانوں میں ان کی اصل کا پتا لگانے کی کوشش کی ہے۔ اسی کے پیش نظر سلیم شہزاد جیسے بالغ نظر ادیب نے لکھا ہے کہ، ’ڈاکٹر یحییٰ جمیل کا لسانی شعور خاصا بیدار ہے۔‘
کتاب برار مسلم لٹریری فورم ، امراوتی کے زیر اہتمام نہایت عمدہ شائع ہوئی ہے۔ سرورق پر ایرانیtiles پر مچھلیوں کی تصویر معنی خیز اور دیدہ زیب ہے۔ ہم محمد یحییٰ جمیل کو ایک بہترین اور کار آمد کتاب کی تخلیق پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ہر باذوق قاری سے اسے خریدنے کی پر زور سفارش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ
(صدر شعبۂ اردو جی ایس سائنس آرٹس اینڈ کامرس کالج کھام گاؤں ضلع بلڈانہ ، مدیر اعلیٰ سہ ماہی عالمی اُردو ادب کھام گاؤں (بین الاقوامی ادبی، تحقیقی و ریفریڈ جرنل)
لنک۔www.scholarsimpact.com/urdu
موبائل نمبر۔09422926544
Email-