جمیل شیدائی :ایک منفرد تمثیل نگاراورمترجم
ڈاکٹرقطب سرشارؔ
موظف لیکچرر ۔محبوب نگر ۔تلنگانہ
موبائل : 09703771012
نوٹ :جناب جمیل شیدائی(وفات :۶/ اگست ۲۰۱۵) کو جدا ہوے آج ایک ماہ کا عرصہ ہوچکا لیکن یہ بات دل ماننے کو تیار نہیں ہے کہ وہ ہم میں نہیں رہے۔یوں لگ رہا ہے کہ وہ ابھی کال کریں گے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کریں گے‘ یا فیس بک کے گروپ ادبی محاذ پر آئیں گے اور اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے یا میری بیاض پر اپنے انداز میں اشعار کی تشریح کریں گے۔ ڈاکٹر قطب سرشار‘ جمیل شیدائی کے خاص رفیق کاررہے ہیں۔انہوں نے جمیل شیدائی کی حیات میں ہی ان کے فکروفن پرمضمون لکھا تھا وہ احباب کی خدمت میں پیش ہے۔(ج۔ا)
ایسا اکثر کیوں ہوتا ہے کہ دانشوروں اور فنکاروں کی شخصیت اور فن میں بُعد زیادہ اور توازن کم ہوتا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کی دنیا میں ایسی بیشتر مثالیں ملیں گی ۔ قلم جتنا طاقتور ترین اتنی ہی ضعیف ترین شخصیت۔ تاہم بلند پایہ قلمکاروں کی صفوں میں ایسی ہستیاں بھی ہوئی ہیں اور اب بھی پائی جاتی ہیں جن کی افق ادب پر جتنی آب و تاب ہے۔ اتنی ہی روشن ان کی شخصیت بھی نظر آتی ہے۔ حیدرآباد کے ممتاز و معروف تمثیل نگار ترجمہ نگار اور شاعر جمیل شیدائی کا قد فن اورشخصیت کے آئینے میں یکساں نظر آتا ہے۔ یعنی انہیں پڑھ کر جتنی مسرت ہوئی تھی اتنی ہی خوشی ان سے مل کر بھی ہوتی ہے۔جمیل کی ادبی اور سماجی زندگی میں ایک منطقی نظم اور سلجھا ہوا توازن پایا جاتا ہے۔ نجی زندگی میں جمیل شیدئی نے (ماضی میں) ایک اطاعت گذاربیٹے کا کردار عمدگی سے نبھایا تھا تو اب ایک سنجیدہ شوہر، شفیق اور ذمہ دار باپ کا کردار بڑی خوبصورتی سے نبھارجارہے ہیں۔جمیل کا حلقہ احباب بھی بہت خوب ہے۔ شاید ہی ان میں کوئی غیر ادبی شخصیت ہے۔ ان کے دوست یا رابطے کے لوگوں میں زیادہ تر اعلیٰ معیار کے قلمکار اور دانشور نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی کے معیار کا اندازہ کرنا ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھو یعنی کبوتر با کبوتر باز بہ باز۔
جمیل شیدائی بنیادی طور پر تمثیل نگار ہیں۔ باقاعدہ شعرنہیں کہتے۔ کم کم ہی سہی انہوں نے غزلیں ، قطعات اور پیروڈیاں لکھی ہیں۔ ترجمہ نگاری کے فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ شاعری اور ترجمے کا ہنر انہیں ورثہ میں ملا ہے۔ آپ کے والد ماجد حضرت شیدؔ امجد بہت ہی زود گو پرگو شاعرتھے۔ رباعی گو میں کمال رکھتے تھے۔ دنیائے ادب مرحوم کو ان کے دو شعری تصانیف’’سرمایہ دل‘‘ اور ’’جہان خیال‘‘ کے حوالے سے جانتی ہے۔ اُردو کے علاوہ انگریزی، فارسی اور عربی زبانیں بخوبی جانتے تھے۔ انہیں ترجمہ نگاری کے فن سے خاصا شغف تھا۔ انہوں نے موپاساں کی کہانیاں اور رومیو جولیٹ کے ڈرامے کا ترجمہ کیا ۔ وہ کل(۲۲) کتابوں کے مصنف تھے۔ ایسی خوبیاں ایسی خوبیاں جمیل شیدائی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ بھی اُردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ زبانوں پر دسترس ترجمہ نگاری کا میلان اور تخلیقی مزاج کے امتزاج کے سبب انہوں نے جو ترجمے کیے ان میں ترجمہ نگاری کی تمام تر صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ سائنس کے گریجویٹ ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں تک کوالٹی کنٹرول کیمسٹ ہوا کرتے تھے۔ علم و ادب سے عملی رابطے کے سبب سائنس کے طالب علم نہیں لگتے۔ تمثیل نگاری، ترجمے اور شاعری کے علاوہ کتابوں پر تبصرے اور تنقیدی مضامین بھی لکھا کرتے ہیں۔ کئی شاعروں ، افسانہ نگاروں کی کتابوں پر ان کے سلجھے ہوئے متوازن تبصرے پسند کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں ہر دل عزیز اور غیر نزاعی موقف رکھتے ہیں۔ منطقی فکر کے حامل ہیںَ منظّم اور منصوبہ بند زندگی جیتے ہیں۔ تاہم ان کے سینے میں ایک محبت بھرا دل بھی ہے اور اس دل کی آواز ان کے لب و لہجے اور مخلصانہ رویوں میں سنائی بھی دیتی ہے۔
جمیل شیدائی گذشتہ چار دہائیوں سے لکھ رہے ہیں۔ تمثیل نگاری کے وسیلے سے انہوں نے اپنی شناخت بنائی۔پچاسوں ریڈیائی ڈرامے لکھے۔ ٹی وی سیریل اور اسٹیج ڈرامے بھی تحریر کیے۔ جس زمانے میں ٹی وی عام نہیں ہوا تھا۔ ریڈیو عوامی تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔ ان دنوں جمیل شیدائی کے ریڈیائی ڈرامے آل انڈیا ریڈیو کے لیے نا گریز ہو گئے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد(نیرنگ پروگرام) میں جمیل کے پچاسوں ڈرامے نشر ہوئے اور اتنے مقبول عام ہوئے کہ عوام کے اصرار پر انہیں بار بار ریلے کیا جاتا رہا ہے۔بلا شبہ ایک دہے سے جمیل شیدائی نے ریڈیو پر حکومت کی ہے۔ وہ دور ایسا تھا کہ آج کی طرح ہر ایر اغیرا ریڈیو اور اخبارات کے دفتروں کی جبہ سائی کرتا نہیں پھر تا تھا اور غیروں کو گھاس ڈالنے کا چلن بھی کہاں تھا۔ جمیل شیدائی کا شمار ان خوش نصیب ڈرامہ نگاروں میں ہو تا ہے جنہیں بہت زیادہ شہرت نصیب ہوئی۔
جمیل شیدائی کی تمثیل نگاری مقبول خاص وعام اس لیے بھی ہوئی کہ جمیل اپنے ڈراموں میں عام فہم زبان میں سلجھے ہوئے مکالموں سے پر کشش کرداروں کی تعمیر و تشکیل کر تے ہیں۔ پھر ان کرداروں کے تال میل سے ایسا ماحول تخلیق کرتے ہیں جس سے ہمارے معاشرے کی مانوس اور جیتی جاگتی تصویریں صاف اور نمایاں رنگوں میں ابھر کر آجاتی ہیں۔ ایک نظر یۂ حیات جو صالح اور سلجھا ہوا ہوتا ہے اس کو عمدگی سے ٹریٹ کر تے ہوئے قاری کے ذہن کو اعتماد میں لے کر دلتے ہیں اور آخر میں جب نتیجہ برآمد کرتے ہیں تو قاری کا ذہن چونک اٹھتا ہے۔ ڈرامے کے آغاز ہی سے جو قاری کی توجہ کو اپنی گرفت میں لیے چلتے ہیں تو کلائمکس تک ان کی گرفت بر قرار رہتی ہے۔ یہ عمدہ فنی محاسن ہیں جو ہمیں اُردو کے مشہور سرّی ادب خالق ابن صفی کی ناولوں اور جمیل شیدائی کے ڈراموں میں قدر مشترک کے بطور نظر آتی ہے۔ جمیل شیدائی نثری اظہار کے لیے سادہ عام فہم اور سلجھی ہوئی زبان پر یقین رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ تبصروں اور تنقیدی مضامین میں بھی اپنے اس نظریے کو بروئے کار لاتے ہیں۔ جمیل شیدائی نے اپنی تمثیل نگاری میں نفسیات، عاشقانہ جذبات و احساسات کی سائنٹفک توضیحات اور توجیحات کو نئی نسل کے فکری اور تہذیبی تنا ظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سلجھے ہوئے انداز میں کسی نظر یے کا تجزیہ کر تے ہوئے قاری کو ایک مستحکم نتیجے تک پہنچا دیتے ہیں۔
جمیل شیدائی کا پہلا ڈرامہ 1946ء کو ماہنامہ’’ شاعر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑا تو ماہنامہ ’’گل نو ‘‘حیدرآباد،’’شب خون‘‘ الٰہ آباد، ’’کتاب‘‘ لکھنو کے صفحات پر جمیل کے ڈرامے نظر آنے لگے۔ڈی آرڈی ایک کے لیے بھی انہوں نے بیسیوں ڈرامے تحریر کیے۔ ان کے ڈراموں کا پہلا مجموعہ ’’لب گفتار‘‘ ہے جو ان کے مطبوعہ ڈراموں پر مشتمل ہے۔ دوسرا مجموعہ’’غالب خستہ کے بغیر‘‘ یہ ان مقبول ترین ڈراموں کی ترتیب ہے جن کی آل انڈیا ریڈیو پر بڑی دھوم دھام ہو ا کرتی تھی۔
تمثیل نگاری کے باب میں جمیل شیدائی کی نظر میں امتیاز علی تاج ، ابراہیم یوسف، مرزا ادیب اور محمد حبیب کے نام معتبر ہیں۔ دیگر زبانوں کے ڈرامہ نگاروں میں شیکسپیر اور ہاراوڈ پینٹر، کارلس ورتھی ، بر نارڈ شاہ، یوجین اونیل، ٹینس ولیم نے جمیل شیدائی کو متاثر کیا ہے۔جمیل شیدائی کے ڈراموں میں قوت مشاہدہ ، ذوق مطالعہ ، سلاست زبان اور تخلیقی توانائی عناصر رابع کی صورت، شدت تاثر اور پذیرائی کے سامان فراہم کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گذشتہ چند برسوں سے جمیل شیدائی کے تخلیقی سفر کا رخ ترجمہ نگاری کی طرف ہو گیا ہے۔ گویا ترجمہ نگاری کے لیے وقف سے ہوگئے ہیں۔ ذہنی مشتقوں میں بھر پور انہماک کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ ترجمہ نگاری کے ہنر کو جمیل نے ادبی خدمت، تکمیل ذوق کے علاوہ وقت اور محنت کی قیمت وصول کرنے کا وسیلہ بھی بنا یا ہے۔ یہ جمیل کی خصوصیت ہے کہ وہ بیک وقت دونوں زبانوں اُردو سے انگریزی اور انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔ کسی فعل کا انجام دینا ور فعل میں بھی کمال پیدا کر نا دونوں الگ حقیقتیں ہیں۔ ترجمہ کرنا اور خصوصاً ادبیات کا ترجمہ محض ذہنی مشقت سے آگہی روز مرہ بول چال اور محاوروں وغیرہ کی تخلیقی ترجمانی کی صلاحیت کے باوصف ادبیا ت کے ترجمے کو بڑی حد تک متن کی اصلیت اور بنیادی تاثر کو ممکن بنا یا جا سکتا ہے۔ جمیل شیدائی نے لگ بھگ (۲۰) اُردو افسانہ نگاروں کی منتخب کہانیوں کے ترجمے انگریزی زبان میں کیے ہیں۔ جن میں مظہر الزماں خاں کی پانچ کہانیوں کے علاوہ ڈاکٹر بیگ احساس، قاضی مشتاق احمد، سعیدسہر وردی اور یٰسین احمد کی کہانیاں ہیں۔ غیر ملکی ادب کی طرف توجہ کی تو مو پاساں ، ارنسٹ ہیمنگ وے، ٹفنی ماس، پمیلا موشر کی کہانیوں کو اُردو قالب میں ڈھا لا ۔UNICEF کی تین کتابوں کا جوایڈز سے متعلق ہیں ترجمہ متعلق انگریزی سے اُردو میں کیا۔ان کے علاوہ چار کتابوں کا تعلیم بالغان کے لیے ترجمہ کیا ہے۔ جمیل کہتے ہیں کہ اب وہ ترجمہ نگاری کے سلسلے کو منطقع کرنا چاہیں گے تاکہ تمثیل نگاری اور دیگر تخلیقی کام کا احیاء ہو سکے۔امید ہے کہ عنقریب میڈیا کی دنیامیں جمیل شیدائی کے ڈراموں کا چلن دوبارہ ہونے لگا۔
یہاں گنجائش نہیں ہے کہ کسی نثری ترجمے کی مثال دی جاسکے بس ایک چھوٹی سی انگریزی نظم کاترجمہ ملاحظہ کریں، عنوان ہے’’صبح‘‘:
ایک فرشتے نے لیا جھک کر بوسہ رات کا
راگ جاگی کسمسائی ، شرم سے پانی ہوئی
ہم نے دیکھی رات کی شر مندگی
آخر میں ہم اپنی بات ان اعترافی لفظوں کو ختم کرتے ہیں کہ جمیل شیدائی اپنی قابل لحاظ ادبی خدمات کے حوالے سے اُردو زبان و ادب کے افق پر روشن ستارے کی طرح ہیں۔ بلا شبہ قابل قدر بھی ہیں اور باعث فخر بھی۔ الحمد اللہ۔
***