دکنی محاورے اورضرب الامثال ۔ قسط ۔ 1 ۔ ڈاکٹرمحمد عطااللہ خان

Share
ataulla
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

دکنی محاورے اور ضرب الامثال ۔ قسط ۱

ڈاکٹرمحمد عطا اللہ خان
(شکاگو)

فون ۔ 17732405046+
آدھی روٹی چھوڑ کو ساری کو گئے ساری بھی گئی آدھی بھی گئی
دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی انسان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سکون سے آدھی روٹی تو کھارہا تھا لیکن لالچ میں آکراس نے اچھی خاصی ملازمت کو چھوڑ کر دوسری ملازمت کرنے لگتا ہے وہاں کچھ تنخواہ زیادہ ملتی ہے ۔ دوسری ملازمت بھی اس وجہہ سے چھوڑ تا ہے کہ وہاں حد زیادہ تکالیف ہیں۔ اس طرح اس کی دوسری ملازمت بھی جاتی رہی اور پہلی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔


آدمی میں بس کو دیکھو سونے کو گِھس کو دیکھو
دکنی کی اس ضرب المثل میں اُس انسان کی مثال دی جارہی ہے جو دیکھنے میں بہت اچھا ہے بات چیت بہت خوب صورت انداز میں کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ رہ کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر خود غرض اور کم ظرف ہے ۔
اس کی مثال اُس چمکتی چیزکی طرح ہے جو دور سے دیکھنے میں سونا معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس چیز کو گھس کردیکھا جاتا ہے تو وہ پیتل رہتا ہے ۔

آڑی کی بلا باڑی پو ۔۔۔ باڑی کی بلا میلی ساڑی والی پو
دکنی کے اس محاورے میں چالاک عورت گھر کے کسی کام میں کچھ خرابی کردیتی ہے ۔ اور اپنی غلطی دوسروں پر ڈالنا چاہتی ہے ۔ اپنے کام کی خرابی ماننے تیار نہیں ہوتی۔ اس کام میں جو دوسری غریب عورت جس کی ساڑی میلی ہوتی ہے ۔اُس کی طرف اشارہ کرکے کہتی ہے یہ کام خراب میں نہیں کی بلکہ وہ میلی ساڑی والی عورت نے کیا ہے ۔

آسمان پو تھو کے تو اپن پوچ گرتا
دکنی کے اس محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جوغصہ میں آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور آسمان کی طرف منھ اُٹھاکر تھو کتا ہے ۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تھوک خود اُس کے منھ پر گرے گا۔

آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے
دکنی کے اس محاورے میں اُس لا لچی شخص کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دنیا حاصل کرلیتا ہے پھر بھی اس کی لالچ پوری نہیں ہوتی ۔ ہر وہ چیز حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے جو اس کی پہنچ سے کافی دور ہے۔ بے وقوفی سے آسمان کے تارے حاصل کرنے کے لئے بلندی پر چڑھ جاتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے۔

آگے کنواں پیچھے کھائی ۔۔۔ جان مشکل میں آئی
اس محاورے میں اُس چور کی طرف اشارہ ہے جو چور ی کر کے فرار ہونا چاہتا ہے اُس کو آگے کنواں دکھائی دیتا ہے اور پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے تو کھائی یعنی گڑھا نظر آتا ہے یعنی فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا‘ ان حالات میں کہا جاتا ہے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی ۔ جان مشکل میں آئی۔

آفت کی پوڑیہ
اس محاورے میں اُس لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو اپنی کم عمری کے باوجود چالاک اور مکار اس قدر ہے کہ قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے اور ہر کسی کو اپنے جال میں آسانی سے پھانس لیتی ہے ۔ بڑی بوڑھی خواتین ایسی لڑکی کو آفت کی پوڑیہ کہتے ہیں۔

ابھی کچھ نئیں ہوا تیل دیکھو تیل کی دھاردیکھو
دکنی کے اس محاورے میں قدیم زمانے میں ساس کا کردار بہت اہم رہتا تھا وہ اپنے گھر کی مختار کل ہواکرتی تھی۔ ایک ساس اپنے بیٹے کی شادی کر کے بہو گھر لاتی ہے ۔ پانچ جمعگیوں کے بعد بہو کو گھر کا کام کرنے کے لئے باورچی خانے میں بلاتی ہے ۔نھی نویلی دلہن گھبراتے گھبراتے کھڑائی میں تیل انڈیلتی ہے اس دوران کچھ تیل باہر گرجاتا ہےچوں کہ ساس کا کام بہو کی نگرانی کرنا ہوتا ہے وہ کہتی ہے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔

اتاولی چھوری کو دوپہر کا جلوا
قدیم زمانے میں ایک گاوں کے لڑکے سے دوسرے گاوں کی لڑکی کی شادی ہوتی تودلہن کے گاوں میں صبح صادق کے بعد عقد کر دیا جاتاتھا تاکہ رشتہ داروں کو اپنے اپنے گاوں جانے میں سہولت ہو۔ شام یعنی مغرب کے بعد جلوے کی رسم ادا کر کے دلہن کو رخصت کیا جاتا تھا۔ یہاں ایک ایسی لڑکی کی شادی ہوئی جو اپنے شوہر یا دلہے سے جلد ملنا چاہتی تھی ۔ وہ دلہن اپنی ماں سے کہتی ہے جلوہ دوپہر میں ڈال دو ۔ اس پر گاوں کی بزرگ خواتین سخت نالا ں ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوپہر کا جلوہ نہیں ڈال سکتے۔ یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے کہ اتاولی چھوری کو دوپہر کا جلوا۔

اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا شادی سے قبل تک والدین کا فرما ں بردار رہتا ہے ۔ شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کی طرفداری کرنے لگتا ہے یا نافرمان ہوجاتا ہے ۔ ان حالات میں ماں کہتی ہے ۔ اپنا بیٹا ہی اچھا نہیں ہے بہو کا کچھ قصور نہیں ۔ اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا۔۔۔
مشمولہ :
رکنی 2

Share

۲ thoughts on “دکنی محاورے اورضرب الامثال ۔ قسط ۔ 1 ۔ ڈاکٹرمحمد عطااللہ خان”

Comments are closed.

Share
Share