د یمک ۔ خدا کی ایک ذ ہین مخلوق
محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں لاتعداد مخلوق پیدا فرمائی ہے۔ انتہائی چھوٹی سے چھوٹی و انتہائی بڑی سے بڑی اور ہر مخلوق انسان کے ترقی یافتہ ہونے کے باوجود انسان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ۔ ان کی پیدائش ، ان کی فطری صلاحیتیں ، ان کا عجیب و غریب کردار انسانی عقل کو دنگ کردینے کیلئے کافی ہیں۔
دیمک اللہ تعالیٰ کی ایسی ہی بے شمار مخلوقات میں سے ایک ہے جس کے بارے میں انسان کچھ کچھ جاننے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی تخلیق اور فطری صلاحیتیوں کے پیچھے کار فرما رازوں پر سے پردہ نہیں اٹھا سکتا ، انسان کو اپنی ہار ماننی پڑتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ اے اللہ اے خالق کائنات آپ جو چاہتے ہیں اورجیسا چاہتے ہیں پیدا فرمانے پر پورے پورے قادر ہیں اور وہ بھی کسی دقت یا مشقت کے بغیر۔
انسان سماجی زندگی کی باتیں تو بہت کرتا ہے لیکن سماجی زندگی ڈھنگ سے گزار نہیں سکتا۔ اس کے برخلاف دیمک کی جو بظاہر ایک معمولی سا کیڑا ہے ایک مکمل سماجی زندگی ہوتی ہے ۔ وہ کبھی تنہا یا الگ تھلگ نہیں رہتا بلکہ اس کی ایک منظم اجتماعی زندگی ہوتی ہے، رہائش کے لئے بڑی بڑی کالونیاں ہوتی ہیں جن کی حیرت انگیز اور لا مثال تعمیر خود دیمک انجام دیتی ہے ۔ کالونی میں مکینوں کی تعداد لاکھوں ، کروڑوں تک جا پہنچتی ہے ، اس کے باوجود کالونی کا ہر کام اجتماعی جبلت (Intelligence Swarm) کی بنیاد پر نہایت ہی ڈھنگ اور ترتیب سے ہوتا رہتا ہے۔ آپس میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آتا۔ کوئی بھگدڑ نہیں ہوتی۔ کوئی بے ترتیبی نہیں ہوتی، کوئی بدنظمی یا بد انتظامی نہیں ہوتی۔ اپنے اپنے کام اور ذمہ داری کے اعتبار سے دیمک کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
(۱) نر دیمک جس کو بادشاہ (King) کہا جاتا ہے ۔ (۲) مادہ دیمک جس کو ملکہ (Queen)کہا جاتا ہے۔ (۳) مزدور دیمک (Labour) (۴) سپاہی دیمک (Soldier) ۔
کام کی نوعیت کے مطابق ان کی جسمانی ساخت میں بھی فرق پایا جاتا ہے ۔ بادشاہ اور ملکہ کی ذمہ داری افزائش نسل ہے اور ان کی جسمانی ساخت ایسی ہی ہوتی ہے کہ اس مقصد کا حصول ممکن ہوسکے۔ نسلی اعتبار سے سب سے زیادہ پیدائش مزدور (Labour) دیمکوں سے ہوتی ہے کیوں کہ کسی کالونی میں ان کی ہی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد سپاہی (Soldier) دیمکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی اعتبار سے بادشاہ اور ملکہ کے ملاپ کے ذریعہ دیمک کے بچے پیدا کرتے ہیں جو بڑے ہو کر اپنی اپنی ساخت کے مطابق اپنے اپنے کاموں میں جٹ جاتے ہیں۔
مزدور دیمکوں کے ذمہ حسب ذیل فرائض ہیں جو وہ بڑے ہوتے ہی خود ہی اپنا کام انجام دینے لگتے ہیں۔ کسی کی ہدایت ، کسی کے احکامات یا کسی کے رہبری کے بغیرہی سب کچھ کرجاتے ہیں ۔
۱)مٹی اور پانی کے مدد سے مضبوط کالونیوں کی تعمیر جس میں مکینوں کی تعداد اور ضرورت کے مطابق کمرے اور راہداریاں ہوتی ہیں۔ ملکہ کے انڈے دینے کے لئے حصے علیٰحدہ ، چھوٹے بچوں کی پرورش کے حصہ علیٰحدہ اور عمومی رہائش کے حصہ علیٰحدہ اور ان سب میں ہوا کے آنے جانے کا معقول بندوبست ہوتا ہے۔ بعض ممالک جیسے آسٹریلیا اور افریقہ میں دیمکوں کی ایسی کالونیاں دریافت ہوئی ہیں جن کی سطح زمین سے بلندی ۲ تا ۶ میٹر تک بھی پائی گئی اور اندرونی تعمیر انتہائی پیچیدہ(Complicated)۔ بعض اتنی مضبوط پائی گئیں کہ انہیں منہدم کرنے کے لئیتیز دھار مشنری کی ضرورت پڑی۔
۲) مزدور دیمکوں کی دوسری اور اہم ذمہ داری کالونی کے باقی مکینوں کے لئے غذا فراہم کرنا ہے۔ دیمکوں کی بنیادی غذا (Cellulose) ہوتی ہے جس میں خاصی انرجی پائی جاتی ہے۔ Celluloseدرختوں اور پودوں کے ریشوں (Fibers) میں پایا جاتا ہے اور انسانی گھروں کے اندر لکڑی کے سامان، دروازے، کاغذ، کارپٹ، وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ مزدور دیمکوں کے منہ میں ایسے دھار حصے (Biting Parts) ہوتے ہیں جو لکڑی ، کاغذ وغیرہ کو آسانی کے ساتھ کاٹ کھانے میں اور زمین کی کھدائی میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ صرف مزدور دیمک کا معدہ ہی اس قابل ہوتاہے کہ Celluloseکو ہضم کرسکے۔ اس لئے صرف مزدور دیمکوں ہی کو Celluloseکی تلاش ہوتی ہے جس کو حاصل کرنے اور استعمال کرنے کے بعد اپنے معدہ میں ہضم شدہ Celluloseاپنے منہ یا Anus کے ذریعہ خارج کرکے سپاہی دیمکوں ، دیمک کے چھوٹے بچوں وغیرہ کا پیٹ بھرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بچوں کو دودھ پلانے والے جانور اپنی غذا استعمال کرتے ہیں تو ان کی اپنی پرورش کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش کے لئے دودھ بھی پیدا ہوتا رہتا ہے جو وہ اپنے بچوں کو پلاتے رہتے ہیں۔
سپاہی دیمکوں کے سر بڑے ہوتے ہیں اور پنجے اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی غذا خود کھانے سے معذور ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان کے پیٹ بھرنے کی ذمہ داری مزدور دیمکوں کی ہوتی ہے۔ دیمکوں کا مضبوط دفاعی نظام ہوتا ہے ۔ اول تو ان کی موجودگی کا فوراً پتہ نہیں چلتا اور اگر چونٹیاں وغیرہ ان کی کالونی میں گھسنے کی کوشش کرتی ہیں تو ہر باب الداخلہ پر موجود سپاہی دیمک اپنا بڑا سا سر پھنسا کر اندر داخل ہونے کا راستہ مسدود کردیتا ہے اور اگر اس سے کام نہ چلے تو اپنے بڑے پنجوں کے ذریعہ دشمن پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور جب ان میں کا کوئی سپاہی شکست کھاکر گرجاتا ہے تو دوسرا سپاہی فوراً اس کی جگہ لے لیتا ہے۔
دیمکوں کو اس طرح سلیقے کی زندگی بسر کرنا اور اپنا دفاع کرنا کس نے سکھایا؟ صرف اور صرف ان کے خالق اور مالک اللہ نے۔ اور دیمکوں کو اس بات کا پورا پورا احساس ہوتا ہے۔
انسان کو نقصان پہنچانے والی بہت ساری مخلوقات میں دیمک نہایت خطرناک مخلوق ہے۔ جنگلوں میں انسان کے کام آنے والے درخت دیمک کے سبب ناکارہ اور کھوکھلے ہوجاتے ہیں اور جب وہ کسی بلڈنگ کا رُخ کرتی ہے تو پھر کیا لکڑی کے دروازے یا دوسرا سامان کیا کتابیں ، کیا کارپٹ یا اسی قسم کی دوسری اشیاء سب کا بیدردی کے ساتھ صفایا کردیتی ہے اور انسان کو اس وقت تک پتہ نہیں چلتا جب تک تباہی ہو نہیں جاتی۔ پھر ان کے خاتمہ کے لئے انسان کو بہت زیادہ تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ لیکن یہی دیمک اپنے خالق اور مالک ’’اللہ‘‘ کی اتنی زیادہ شناسا ہوتی ہے کہ جہاں کہیں اسم’’اللہ‘‘ لکھا ہو اس کو بطور احترام چھوتی بھی نہیں ۔ ۵؍ دسمبر ۲۰۰۵ء کے دکن کرانیکل میں ’’اللہ‘‘ کے چاہنے والوں کے لئے ایک انتہائی مسرت بخش خبر آئی تھی کہ ایک صاحب کے قرآن مجید کو دیمک نے نشانہ بنایا لیکن اسم ’’اللہ‘‘ اور اللہ کے کلام کو دھکا بھی نہیں لگایا اور سارے اردو ترجمے کا صفایا کرڈالا۔ اردو ترجمے میں اللہ کی جگہ ’’خدا‘‘ استعمال ہوا ہوگا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ورنہ اگر کہیں اسم اللہ لکھا ہوا ہوتاتو دیمک نے اس کو بھی جوں کا توں چھوڑ دیا ہوتا۔
اب میں دیمک کو نیست و نابود کرنے کے لئے چند مفید ترکیبیں پیش کرتا ہوں جس کے اپنانے سے بہت حد تک دیمک کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
۱) نیم کی کھلی کو پیس کر بطور کھاد کے کھیت کی مٹی میں ملادیں۔ اس سے دیمک فوری مرجاتی ہے لیکن یہ کھلی زیادہ تیز نہ ہو۔
۲) مٹی کے تیل کا پانی اس کا ۳ فی صد مرکب دیمک مارنے کے لئے بہت مفید پایا گیا ہے۔ یہ مرکب تین چیزوں سے بنایا جاتاہے مٹی کا تیل، مچھلی کا صابن اور پانی۔ ۲۰ حصے تیل کا صابن اور اسی حصے مٹی کے تیل کو ملاکر چھوٹے چھوٹے بواوں میں بھردیں۔ یہ بواے کھیت میں پانی دیتے وقت نالیوں میں رکھ دی جائیں تاکہ تھوڑی تھوڑی دوا پانی کے ساتھ مل کرکھیت میں مل جائے ۔ اس سے بھی دیمک کا خاتمہ ہوجاتاہے۔
۳) گنا جیسی فصلوں میں بونے والے ٹکڑوں کو توتیا یا مٹی کے تیل کے مرکب میں ڈبوکر بونے سے دیمک سے محفوظ رہ جاتا ہے ۔
۴) کچے گوبر میں دیمک بہت لگتی ہے اس لئے خوب سڑا ہوا گوبر کھیت میں ڈالنا چاہئے اس کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔
۵) باغات میں ہینگ کا پانی دیمک کو مارنے کے لئے بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔
۶) دیمک سے محفوظ رہنے کے لئے مکانات کی جس لکڑی میں دیمک لگتی ہو اسے فور نکال دینا چاہئے ۔بنیاد میں لکڑی کبھی نہیں لگانا چاہئے۔ دیمک مرطوب مقامات پر زیادہ لگتی ہے اگر کوئی لکڑی زمین میں نصب کرنی ہو تو لکڑی کے اس حصہ کو جو زمین کے اندر کولتار میں ڈبوکر نصب کرنے سے دیمک سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
اوپر بتائے گئے نسخوں پر عمل کرنے سے قبل اگر کاشتکار اپنے کھیتوں کو مٹی پلٹنے والے ہلوں سے جوتا کریں تب بھی یہ کیڑے بہت کچھ نیست و نابود ہوسکتے ہیں۔ خصوصاً موسم گرما میں جو جوتائی ہوتی ہے اس کے استعمال سے کافی سود مند ہوتا ہے۔ موسم گرما کی جوتائی کے لئے سب سے ہلکا مٹی پلٹنے والا ہل گورجر مٹن ہل کے نام سے دستیاب ہوتا ہے جس کی قیمت بھی بہت سستی ہوتی ہے اس ہل کو جوتائی سے نہ صرف دیمک ہی بلکہ دوسرے نقصان پہنچانے والے کیڑے جو پرانی فصل کی جڑوں میں رہتے ہیں تباہ و برباد ہوجاتے ہیں اور آئندہ فصل کو نقصان پہنچتا ہے ۔ لہٰذا زراعت کرنے والوں کو چاہئے کہ اس ہل کے استعمال سے نہ صرف نقصان رساں کیڑوں کا قلع قمع کریں بلکہ اپنے کھیتوں کو زیادہ پیداوار دینے والا اور مضبوط بھی بنائیں کیوں کہ جوتائی کی خرابی سے پیداوار بہت اثر لیتی ہے۔
اس کے علاوہ تمباکو کے ڈنٹھل دو سیر دیسی صابن آدھ پاؤ، بچ( جو ایک دوا ہوتی ہے) آدھ سیر توتیا ایک چھٹانک کوٹ پیس کر پانی میں جوش دیاجائے اور چھان لیا جائے اس کے بعد ایک بوتل مٹی کا تیل اور آدھ سیر گیہوں یا جو کا بھوسہ اس پانی میں ایک لکڑی کے ذریعہ ملادیا جائے یہاں تک کہ یہ دونوں چیزیں اس میں خوب مل جائیں ۔ اب اس مرکب کو اسی قدر پانی میں ملا کر جہاں دیمک دکھائی دے تھوڑا تھوڑا دال دیا جائے ۔ فوری دیمک کا خاتمہ ہوجاتاہے۔
آخر میں دیمک کے خاتمہ کے لئے ایک اور ترکیب پیش کرتا ہوں آدھ سیر دیسی صابن کے پتلے پتلے ٹکڑے کرکے تھوڑے پانی میں جوش دیا جائے اور آدھ سیر تار کول اس میں ڈالکر کر کسی لکڑی سے ہلاتے رہیں تاکہ تارکول اس میں اچھی طرح مل جائے اس کے بعد اس میں اور پانی ملا کر جہاں دیمک نظر آئے ڈال دیاجائے ۔ بہت جلد دیمک دور ہوجائے گی۔
ہاں! اگرآپ کسی بھی کتاب کو محفوظ رکھنا چاہتے ہوں تو اِس کتاب کے پہلے صفحہ سے پہلے سادہ کاغد پر لفظ کبیکج جلی حروف میں لکھ دیجئے ۔
اس طرح اس عمل سے انشاء اللہ آپ کی کتاب وغیرہ دیمک سے محفوظ رہے گی ۔ یہ عمل بندۂ عاجز کا کئی بارآزمودہ ہے ۔ کبئیب ھی کتاب شائع کرتے وقت ابتداء میں ایک صفحہ ہر لفظ کبیکج ضرور شائع کروادیں پھر آپ کی کتاب ہمیشہ کے لئے دیمک لگنے سے محفوظ رہ جائے گی ع
کرکے عمل اس طرح ‘ پھرشانِ رحمت دیکھئے ۔
Article : Termide an intellectual insects
Written by Mohammad Razi Uddin Moazzam
۲ thoughts on “د یمک ۔ خدا کی ایک ذ ہین مخلوق ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم”
دیمک پر آپ کا معلوماتی اور دلچسپ مضمون ہے. بہت پسند آیا. آپ نے نہ صرف دیمک اور اس کی ذہانت اور پلاننگ سے متعارف کروایا بلکہ اس سے بچاؤ کے طریقے بھی بتاے ہیں. ممنون و مشکور…. ایسے عام سائنسی مضامین کا انتظار رہے گا.
خالدہ فرحت
کویت
مصنف نے نہایت محنت سے یہ مضمون لکھا ہے. مبارک باد قبول ہو. عام موضوعات پر بہت کم مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں. یقین ہے کہ معظم صاحب اور مضامین ہمیں پڑھنے کے لئے عنایت کریں گے.
عبدالماجد
نئی دہلی