چھاپے خانے : ایک تعارف – – – ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز

Share

printing-press1

چھاپے خانے : ایک تعارف

ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
مدیر ہفتہ روزہ گواہ ۔ حیدرآباد – دکن
موبائل : 09395381226
چھاپے خانوں کے قیام سے پہلے پرنٹنگ ٹکنالوجی مخلتف ارتقائی مراحل سے گذرتی رہی۔ ویسے دور جدید کا چھاپا خانہ قائم ہونے کے لئے کافی وقت لگا جبکہ چھپائی یا پرنٹنگ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ تین ہزار سال قبل مسیح بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ شبیہات Images کی نقل بنانے کا رواج تھا۔ اُس زمانہ میں مٹی کے برتن سے لے کر مٹی کی دیواروں پر تصاویر، شبیہات مختلف اشیاء کی تصاویر کو نقل کرنے کیلئے استوانی مہر کا استعمال کیا جاتا تھا۔ چین اور مصر میں مہر کے ذریعہ بہت خوبصورت چھپائی ہوا کرتی تھی۔ یوروپ اور ہندوستان میں کپڑے پر چھپائی کا اُس دور میں بھی رواج تھا اور چین میں بھی اس کی روایت ملتی ہے۔ 17ویں صدی عیسوی تک یوروپ میں ریشم پر چھپائی کے آثار ملتے ہیں۔ قدیم یونانی طلائی تعویز 600سال قبل مسیح دستیاب ہوئی تھی جس پر روم کے دیومالائی سورج اور

طاقت کے دیوتا ’’اپولو‘‘ کی شان میں دعائیہ کلمات کی تانبے یا کانسہ کے بلاک سے چھپوائی کی گئی تھی۔ یہ چھاپا یا نقش و نگار بے رنگ تھا۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر اسی طریقہ کار کو بلاک میکنگ میں اختیار کیا گیا ہو۔ مشرقی ایشیاء میں کپڑوں پر چھپائی اسی طریقہ سے کی جاتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ چھپائی کے بلاکس کی ایجادات میں تنوع پیدا کیا جاتا رہا۔ چین میں بدھ مت کے پیروؤں نے بدھا کی شبیہات کی چھپائی کیلئے اسے فروغ دیا۔ چین میں 220سال قبل مسیح میں بھی لکڑی کے بلاکس سے کپڑے پر چھپائی کا ثبوت ملتا ہے۔ مصر میں چوتھی صدی عیسیوی سے چھپائی کا ثبوت ملتا ہے۔ Ukiyo-e- جاپانی ووڈ بلاک آرٹ پرنٹ کا سب سے جانا پہچانا طریقہ ہے۔ بیشتر یوروپین ممالک لکڑی کے بلاکس سے ہی کاغذ یا کپڑے پر چھپائی کرتے تھے۔ ہندوستان میں بدھ مذہب کے پیروؤں نے گوتم بدھ کے اقوال کی نقل اور اس کی حفاظت کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ اقوال اور خیالات اور ارشادات کو سننا، سمجھنا، یاد کرنا، ان کا مطالعہ کرنا اور ساتھ ہی ساتھ اسے نقل کرکے اس کی حفاظت کرنا Sukhavativyuha Sutra کا اہم جز ہے۔ دعائیہ الفاظ کی نقل کے لئے لکڑی کے بلاکس بنائے جاتے اور ان سے مٹی ٹھیکریوں، اینٹوں پر نقل کئے جاتے۔ چھٹی صدی عیسویں میں مٹی کی ٹھیکریوں پر چھپائی کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ یہ روایت چین اور پھر تبت کو منتقل ہوئی۔ جہاں تک یوروپ کا تعلق ہے چھٹی صدی میں بلاک پرنٹنگ کا رواج عام ہوا۔ اس سے کتابوں کی چھپائی ہونے لگی اور پھر موویبل ٹائپ کی ایجاد سے چھپائی عام ہونے لگی۔ متحرک (موویبل ٹائپ) چین کے Bi Sheng نے 1040ء میں ایجاد کیا تھا۔ دھاتی موویبل ٹائپ کوریا نے 1230ء میں ایجاد کیا تھا مگر یہ چینی حروف تہجی کے ساتھ عام نہ ہوسکا۔ جرمن شہری Johannes Gutenberg نے 1439ء میں یوروپی موویبل ٹائپ پرنٹنگ ٹیکنالوجی ایجاد کی۔ کہا جاتا ہے کہ جوہان فوسٹ اور پیٹرشوفر نے بھی انکے ساتھ تعاون کیا تھا۔ چونکہ لکڑی کے بلاک کے مقابلے میں یہ طریقہ سہل اور تیز رفتار تھا اس لئے صرف ایک دہا ئی میں یوروپی پرنٹنگ ٹکنالوجی نے ایک نئی بلندی کو چھولیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گوٹنبرگ کو پہلا کلر پرنٹ نکالنے کا بھی اعزازحاصل ہوا۔
پرنٹنگ پریس یا چھاپا خانے کی ایجاد ایک نئے انقلاب کی نقیب تھی۔ 1469ء میں شہر وینس میں پہلا پرنٹنگ پریس قائم ہوا اور 1500ء تک اس شہرمیں چار سو پرنٹرس کا وجود پیدا ہوگیا تھا۔ 1470ء میں جوہان ہینلن نے پیرس میں پرنٹنگ پریس قائم کیا۔ 1473میں کیسپر اسٹروب نے جنتری طبع کی۔ 1474ء میں Krakow میں ڈرک مارٹن نے پریس قائم کیا انہوں نے دو ایسے پریمیوں کی داستان محبت پر مبنی کتاب شائع کی جو بعد میں پادری اور راہب بن گئے۔ ولیم کاکسٹن نے 1476ء میں انگلینڈ میں پہلا پرنٹنگ پریس قائم کیا۔ 6؍اگست 1517ء کو فرینسک اسکارنیا نے پہلی کتاب سلاویا زبان میں شائع کی۔ 1539ء میں میکسیکو سٹی میں جووان پابلوس نے امپورٹیڈ پریس قائم کیا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں فلپائینیوں نے 1593ء میں پہلا پریس قائم کیا۔ 1638ء میں ریورنڈ جوز گلوور نے انگلینڈ کی امریکی کالونیوں کے لئے 1638ء میں پہلا پرنٹنگ پریس خریدا تھا مگر دوران سفر ان کا انتقال ہوگیا ان کی اہلیہ ایلزبیتھ ہیرس گلوور نے پرنٹنگ ہاؤز قائم کیا جو کیمبرج پریس بن گیا۔ گیوٹن برگ کا ایجاد کردہ پریس بہت ہی کارآمد ثابت ہوا۔ 300برس بعد لارڈ اسٹانہوپ نے مکمل کاسٹ آئرن سے پریس کی ایجاد کی جس میں مطلوبہ توانائی کی 90فیصد بچت ہوئی اور چھپائی کا سائز دوگنا ہوگیا۔ لارڈ اسٹین ہوپ کی میکانیکل تھیوری نے فی گھنٹہ 250شیٹس کی چھپائی کو ممکن بنایا۔ جرمن پرنٹر فریڈرک کوئینک نے بھاپ کے استعمال سے ایسا چھاپا خانہ ایجاد کیا جس میں انسانی محنت کا عمل دخل نہیں تھا۔ 1804ء میں انہوں نے لندن میں تھاؤمس بنسلے سے ملاقات کرکے اپنے پراجکٹ کے لئے مالی تعاون حاصل کیا اور 1810ء میں بھاپ کے انجن سے مربوط پرنٹنگ پریس ایجاد کیا۔ 1811ء میں انہوں نے تجربات کا آغاز کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پرنٹنگ پریس مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا ہوا موجودہ دور کے پرنٹنگ پریس تک پہنچا 1847ء میں ریچرڈ مارچ ہوپ نے روٹری پرنٹنگ پریس کی ایجاد کی جسے بعد میں 1863ء میں ولیم بولک نے مزید بہتر بنایا جس میں پرنٹنگ امیج ایک سیلنڈر کے اطراف نقش ہوجاتے ہیں پھر کاغذ، کارڈ بورڈ، پلاسٹک یا کسی اور شئے پر طباعت کی جاتی ہے۔
آفسیٹ پریس 1870ء میں ایجاد ہوا۔ آفسیٹ کے معنی منتقل ہونے کے ہے۔ اس میں روشنائی کا امیج ایک پلیٹ سے ربر بلائینکٹ میں منتقل ہوتا ہے اس کے بعد یہ پرنٹنگ کی سطح پر پہنچتا ہے۔ اس میں روشنائی یا انک Ink رولرس سے حاصل کی جاتی ہے اور نان پرنٹنگ ایریا کو روشنائی سے محفوظ رکھا جاتاہے۔
آج کا دور ڈیجیٹل پریس کا ہے۔ بہرحال پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے لے کر آج کے سائبر دور میں پرنٹنگ مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے دہے تک 3D پرنٹنگ، فریسکو گرافی جس میں ڈیجیٹل پرنٹنگ کے طریقہ کو کمپیوٹر کے مختلف سافٹ ویر پروگرام کی مدد سے مختلف ڈیزائنس میں چھاپا جاسکتا ہے۔ کلر پرنٹنگ نصف صدی مکمل کرچکی ہے۔آج کا ایک کمپیوٹر آپریٹر کمپیوٹر اسکرین پر ایڈیٹر بھی ہوسکتا ہے‘ پبلشر بھی اور پرنٹر بھی کیونکہ کمپیوٹر سسٹم کے ذریعہوہ بیک وقت تمام کام انجام دے سکتا ہے۔

fazil
Dr Fazil Hussain Parwez
Chief Editor Gawah weekly ,Hyderabad
email:

Share

One thought on “چھاپے خانے : ایک تعارف – – – ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز”

Comments are closed.

Share
Share