ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
ڈاکٹر ستیہ پُجاری
حیدرآباد
نوٹ : یہ مضمون ای میل سے ملا لیکن مضمون نگار کا پتہ اور فون نمبردرج نہیں تھا۔ہم نے انہیں مکمل پتہ اور تصویر بھیجنے کی درخواست کی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
حیدرآباد کی ایک سنٹرل یونی ورسٹی میں حال فی الحال منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کئی اعتبار سے سنگ میل نصب کرنے والا سمینار تھا۔ مثلاََ حالیہ دنوں کا یہ سب سے منفرد اور اہم ’’بین الاقوامی‘‘ سمینار تھا جس میں بیرونی ممالک سے کوئی بھی مندوب شامل نہیں تھا۔ دو لوگوں کو بیرونی مندوبین کی حیثیت سے اس سمینار میں شریک کروایا گیا جن کی اصلیت یہ ہے کہ ایک محترمہ جن کا تعلق پاکستان سے ہے اور جو وہاں کی نیشنل یونی ورسٹی فار ماڈرن لینگویجز میں لسانیات کی ریسرچ اسکالر ہیں، وہ حیدر آباد کی اُسی سنٹرل یونی ورسٹی کے کسی دوسرے شعبے کے سمینار میں شرکت کے لیے تشریف لائی تھیں، انھیں منّت سماجت کر کے اس سمینار میں شامل کیا گیا۔ اس طرح ایک پنتھ اور دو کاج ہو گئے۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ’’ ہینگ لگے نا پھٹکری – رنگ بھی چوکھا آئے ‘‘۔ سمینار کے منتظمین
کو ایک بیرونی مندوب مل گیا تو اُن پاکستانی مہمان کے لیے یہ پورا تماشہ’’ ایک ٹکٹ میں دو کھیل ‘‘کے مترادف تھا۔ایسا اس لیے بھی ہوا ہوگا کیوں کہ بین الاقوامی سمینار کی فنڈنگ زیادہ ہوتی ہے، لہٰذاڈائریکٹر سمینار اور دیگر منتظمین نے اس پاکستانی ’’مہمان‘‘ کو ہاتھ پیر پکڑ کے روکا اور سمینار کو’’ مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ کی طرح زبردستی ’’بین الاقوامی‘‘رنگ دینے کی ناکام کوشش کی۔ یہ تو ایک بیرونی مندوب کا ذکر تھا، اب ذرا دوسرے بیرونی مندوب کا حال بھی دیکھتے چلیں۔ یہ صاحب لندنی تھے، جی ہاں لندن ہی کے تھے۔ آپ نے یقیناََ پہچان لیا ہوگا، نہیں۔ دیکھیے، خدارا ایسا غضب مت کیجیے۔ میں انھی حضرت کی بات کر رہا ہوں جو در اصل ہوٹل کے پیشے سے وابستہ ہیں اور’’ادبی ذوق‘‘ کی تسکین کے لیے لندن سے صدا بلند کرتے رہتے ہیں۔ ادبی شکل و صورت کا وہ ایک پرچہ نکالتے تھے، معاف کیجیے گا، ممکن ہے کہ اب بھی نکالتے ہوں مگر میں نے عرصۂ دراز سے اس کا کوئی بھی تازہ شمارہ نہیں دیکھا ہے۔میں اس بات کا اعتراف بھی کرتا چلوں کہ مجھ جیسے لا علم کا پڑھنے لکھنے سے کیا واسطہ اورطرہ یہ کہ بات ہو رہی ہے ادبی پرچے کی۔ اس سلسلے میں مجھے یہ مان لینے میں کوئی عار نہیں کہ کہاں ادب اور ادبی پرچہ اور کہاں میرے جیسا شخص جس کا دور دور تک ادب سے کوئی لینا نہ دینا۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اس سلسلے کو ختم کر دیا ہو اور اس کی وجہ اس پرچے کا خسارے کا سودا ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ تو یعنی کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان حضرت نے اس رسالہ کو محض منفعت کے لیے جاری کیا تھا، ہو سکتا ہے بھئی، تجارت کرنے والوں کو تو ہر جگہ ’’منافع‘‘ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جب ہی تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’ایں چیزے دیگری‘‘۔ اور ہاں، یہ صاحب حقیقتاََ ادب دوست واقع ہوئے ہیں۔ جب ہی تو ان کی موجودگی سے اس سمینار کا سب سے ’’مقبول ترین‘‘ پروگرام ’’بین الاقوامی مشاعرہ‘‘ اپنی مثال آپ بنا۔ آپ خود دیکھ لیجیے کہ ڈائریکٹر سمینار نے اس مشاعرے کے حوالے سے رپورتاژ میں کیا لکھا ہے:
’’اس اجلاس کے بعد شام 6:30 بجے ایک بین الاقوامی مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیاجس میں ملک اور بیرون ملک سے تشریف لائے ہوئے اساتذہ، شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالرز اور حیدرآباد، کڑپہ، کدری کے نمائندہ شعرا نے شرکت کی‘‘
روزنامہ سیاست، حیدرآباد ۔ 8 مارچ، 2014
اب آپ ہی بتائیے میں کیا لکھوں اور کیسے لکھوں؟کیا اس سمینار میں بیرون ملک سے کوئی استاذ تشریف لائے تھے؟ نہیں،بالکل نہیں۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ’’ شعبے کے ریسرچ اسکالرز اورکڑپہ، کدری کے نمائندہ شعرا‘‘…….. بس ہو گیا بین الاقوامی مشاعرہ۔توبہ توبہ۔ آپ ہی بتائیے ، کیا آپ اسے بین الاقوامی مشاعرہ کہیں گے؟ نہیں، بالکل نہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بین الاقوامی نہیں بلکہ ’’بین کڑپہ-کدری‘‘ مشاعرہ تھااورکہیں آپ کے ذہنوں میں یہ سوال تو نہیں آرہا ہے کہ آیا یہ کڑپہ، کدری ہندستان میں ہیں یاکسی دوسرے ملک میں؟
جب بات نکل ہی گئی ہے تو اس خاص سمینار اور مخصوص شعبۂ اردو کے حوالے سے بھی چندمعروضات آپ کے سامنے رکھتا چلوں۔ یہی وہ شعبۂ اردو ہے جہاں ماضی قریب میں مولانا رومی، قلی قطب شاہ، علامہ اقبال، مولانا آزاد وغیرہ کے علاوہ ناول، افسانہ، ہمعصر تنقید وغیرہ پر قومی اور بین الاقوامی سمینار بحسن و خوبی منعقد کیے گئے۔اسی شعبے میں ’’پس منظر- پیش منظر‘‘ کے دُم چھلّے کے ساتھ سمینار کا انعقاد۔ استغفراللہ۔ سمینار کے مندوبین میں شامل پروفیسر عتیق اللہ تو یہاں تک کہتے ہوئے سنے گئے کہ سمینار کا عنوان ہی غلط ہے۔ انھوں نے تو یہ بھی کہا کہ شاید سمینار کا موضوع طے کرتے وقت صلاح مشورہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ اس سمینار میں حالی اور شبلی جیسے نظریہ ساز ناقدین کو چھوڑ دیجیے توہرچھوٹے بڑے کو نظریہ ساز ناقد قرار دیا گیا۔ معاف کیجیے گا میں کسی کی توہین یا ہتک عزت نہیں کر رہا ہوں اور بہت ادب و احترام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ باقر آگاہ، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، محمد حسن، آل احمد سرور، خورشیدالاسلام، مغنی تبسم،قمر رئیس،شارب ردولوی، شمیم حنفی اور ابوالکلام قاسمی وغیرہ نے اردو تنقید کو کون سا نظریہ دیا ہے؟ ہاں بھئی، ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کچھ نظریات ضرور دیے ہوں، مگر مجھ جاہل کو اس کا علم نہیں ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ میں ٹھہرا کم علم اور نابلد۔ مگر خدا را آپ ناراض نہ ہوئیے اور مجھے ان ناقدین کے نظریاتی اجتہاد سے ضرور واقف کروا دیجیے۔یہ پورا سمینار گویا ہر کسی کو نظریہ ساز ثابت کرنے کی ناکام کوشش تھا۔اسی وجہ سے اس سمینار میں بحث و مباحثے کم ہوئے اور پورا سمینار چوں چوں کا مربہ زیادہ نظر آیا۔حیرانی تو تب ہوئی جب پرانی نسل کے ایک معتبر نقاد(نام نہاد ہی سہی)شارب ردولوی بھی سمینار میں نظر آئے مگر ہر وقت خاموش ہی رہے۔ ممکن ہے ان کے خاموش رہنے کی وجہ غالب کا یہ شعر بھی ہو:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
’’تماشائے اہل کرم‘‘ دیکھتے ہیں
البتہ، یہ ضرور تھا کہ اس سہ روزہ سمینار میں ہر طرف زوال ہی زوال نظر آرہا تھا۔ اس کی ایک مثال تو یہ تھی کہ چند ایسے اشخاص بھی مقالہ نگار کی حیثیت سے شریک سمینار تھے جن کا تنقید سے دور دور کا بھی کچھ لینا دینا نہیں تھا۔سب سے اچھی بات تو یہ ہوئی کہ تنقید کے موضوع پر منعقد اس سمینار میں مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ یہ مشاعرہ کم تھا اور دل کی بھڑاس نکالنے کی شعوری کوشش زیادہ تھی۔کئی لوگ تو آپس میں ایسی چہ می گوئیاں کرتے ہوئے بھی سنے گئے کہ گذشتہ سال یونی ورسٹی کے کسی مشاعرے میں موجودہ صدر شعبہ جو ’’شاعر اعظم‘‘ ہونے کا دعوا کرتے ہیں، انھیں شعر پڑھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ پھر کیا ہے؟ بس اس کے بعد سے کوئی بزم ہو کوئی انجمن’’شاعر اعظم‘‘ اپنے اشعار کسی نہ کسی بہانے سے سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ انھیں یہ بھی تمیز نہیں کہ نکاح کے موقعے پر مرثیہ اور میّت میں سہرا نہیں پڑھا جاتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اسے ہی بے وقت کی راگنی کہتے ہیں اور ایسے موقعے پر ’’شاعر اعظم‘‘ بھی ذلیل ہو جاتا ہے۔ ارے یارو، میں بھی کیا ’’ہاؤلا‘‘ ہوں اور’’ ہاؤلے‘‘ باتاں کر رہا ہوں۔ دراصل آپ کی توجہ کسی اور جانب مبذول کرانا چاہتا تھا مگرآپ کی اتنی اہم اور قیمتی توجہ اس ذلیل و خوار کی بے وقوفی سے غیر ارادتاََ کسی اور جانب چلی گئی۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی بین الاقوامی مشاعرے کی۔ یہ سچ ہے کہ اتنا ’’معیاری‘‘ اور ’’واقعی‘‘ بین الاقوامی مشاعرہ اس سے قبل حیدرآباد میں نہیں ہو ا تھا اور مستقبل قریب یا بعید میں اس طرح کے مشاعرے کے انعقاد کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔اس بین الاقوامی مشاعرے کی بس ایک مثال آپ لوگوں کے حوالے کرنا چاہتا ہوں کہ ایک متشاعر، ارے رے رے، نہیں نہیں، غیر شاعر کو دوران مشاعرہ دعوت کلام دے دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کا تعلق ملک کی اہم ترین دانشگاہوں میں سے ایک دانشگاہ جو دہلی میں واقع ہے اور جس کا نام ملک کے سابق وزیر اعظم کے نام سے منسوب ہے، وہاں سے تھا۔ یہ حضرت وہاں استاد کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آگے میں ان کا جو شعر آپ کے سامنے پیش کروں گا اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کالج اور یونی ورسٹیوں میں اردوپڑھنے والے ہمارے بچوں کا مستقبل ایسے اساتذہ کرام کے ہاتھوں میں کتنا مضبوط اور محفوظ ہے۔ خیر، حضرت میں اگر کوئی شعری ’’مادہ‘‘ ہوتا تو ضرور ’’مطلع حاضر ہے‘‘ فرما دیتے جیسا کہ عام اردو والوں کی تہذیب اور مزاج ہے مگر انھوں نے ایک شعر سنا کر اپنی نشست اختیار کی ۔ یہ شعر کسی اور کا بھی ہو سکتا ہے مگر گمان گزرتا ہے کہ یہ ان حضرت کا ہی اپنا شعر تھا کیوں کہ شعر کے دونوں مصرعے الگ الگ بحر اور وزن میں ہیں۔اس مقام پہ آپ کو یہ بتانا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ان موصوف کا تعلق سرزمین علامہ شبلی سے ہے۔ اللہ اللہ،دبستان شبلی اور سر زمین شبلی کی مٹّی پلید، خدا خیر کرے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس شعر کو دیکھیں اور’’شعر‘‘ اور’’ غیر شعر‘‘ کافیصلہ خود فرمائیں۔ میں ان کا شعر آپ کو سناؤں، اس سے قبل یہ بیان کرنا بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ ان حضرت نے مذکورہ محفل میں جو شعر سنایا اس شعر یا غیر شعر میں تخلص بھی موجود ہے۔ عقل اس بات پہ حیران ہے کہ آنجناب پر مطلع، حسن مطلع اور دیگر اشعار کو چھوڑ کر سب سے پہلے مقطع کا ہی نزول ہو گیا؟آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ کہیں یہ اشارۂ خداوندی تو نہیں کہ آپ جو چاہیں وہ کریں مگر کم از کم شاعری کو بخش دیں ورنہ فلم ’’پاکیزہ‘‘ کا راج کمار کے منھ سے ادا ہوا وہ مشہور مکالمہ لوگوں کے ذہنوں میں رقص کر جائے گا کہ ’’آپ اپنے پاؤں زمین پر مت رکھیے، میلے ہو جائیں گے‘‘ ( لیکن ان حضرت نے اگر میدان شاعری میں پاؤں نکالا تو پاؤں ہی کیا، پاؤں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ میلا ہو سکتا ہے)۔ فلم کی بات چلی توان موصوف کی شاعری کے حوالے سے آج کے زمانے کی ایک فلم’’گینگس آف واسع پور‘‘ کا وہ مکالمہ یاد آتا ہے جہاں مشہور اداکار تگمانشو دھولیانے اپنے ساتھی ادا کار کو کہا تھا کہ’’تم چھوڑ دو بیٹا، تم سے نہ ہو سکے گا‘‘۔ خیر ان موصوف کا وہ معرکتہ الآرا شعر سنتے چلیں۔ مگر اس سے قبل کہ آپ کے سامنے مَیں وہ شعر پیش کروں، یہ عرض کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس شعر میں ان کا نام بھی شامل ہے جس میں تحریف کر دینا مَیں نے ضروری سمجھا وگرنہ حضور والابر سرِ عام بے پردہ ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود مجھے اردو کے قارئین کی ذہانت و فطانت پر پورا پورا اعتبار ہے کہ ذرا سی کوشش سے آپ ان موصوف تک رسائی پا لیں گے۔خیر، آپ ان کا شعر سماعت فرمائیں اور فیصلہ کریں:
اُس کی یاد آنے سے چند اشک ٹپک آئے تھے
دَہریؔ مہکتا رہا برسوں دامن اپنا
یہ بات میں آپ تمام سے پوری ذمہ داری کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ بطور ثبوت جب چاہیں متحرک تصویر یا بصری اور سمعی شواہد سے سند پیش کی جا سکتی ہے۔
بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ اس مشاعرے میں ایک اور ’’زبردست‘‘ اور ’’نامور‘‘ شاعر تشریف فرما تھے۔ یہ محض اتفاق کہلائے گا کہ ان موصوف کا تعلق پہاڑی علاقے کی ایک سنٹرل یونی ورسٹی کے شعبہ اردو سے ہے اور ان کا تعلق بھی سرزمین شبلی سے ہے۔جی ہاں یہ وہی حضرت ہیں جنھیں’’عالِم‘‘ اور ان کے گھر کو ’’فاضل‘‘ ہونے کا ہَوکا لگا ہوا ہے ۔ جی ہاں، جی ہاں، آپ نے بالکل درست پہچانا، ابھی ایک- دو سال پہلے انھی صاحب نے پاکستان کے ایک صاحب کا مضمون قومی کونسل، دہلی کے جریدے میں اپنے نام سے شائع کروا لیا تھا جس کی پاداش میں قومی کونسل نے ان صاحب کی خوب نکیل کسی تھی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کو بلیک لِسٹڈ کر دیا ہے۔بے شرمی کی انتہا تو یہ ہے کہ اسی مضمون کو ’’حضرت سارق‘‘ نے آندھرا پردیش اردو اکیڈمی کے ترجمان رسالہ’’ قومی زبان‘‘ میں پاکستانی مضمون نگار کے ساتھ اپنا نام شامل کر کے دوبارہ شائع کروا لیا۔ ’’چوری اور سینہ زوری ‘‘ کا درس دینے کے لیے ان جیسے استاد کا کوئی ثانی نہیں۔ مدیر ’’تحریر نو‘‘ نے بھی ان صاحب کی اس مذموم حرکت کو اداریہ میں زیر بحث لایا اور اردو حلقے سے اس طرح کے سارق اور غیر ادبی لوگوں کا بائیکاٹ کرنے کی پُرزور اپیل بھی کی تھی۔اور ہاں،ایک بات اور بھی ہے کہ ہمارے یہ موصوف شاعر واقعی بہت دلیر شاعر ہیں، ارے صاحب دلیر ہی نہیں بلکہ دیدہ دلیربھی ہیں۔انھوں نے تو اردو شاعری میں ایک نیا تجربہ پیش کیا جس کو دیکھ کر عقل حیران ہے۔ خیال رہے کہ اس اسٹیج پرحیدرآباد کے نامور شعرا کے علاوہ بیرون حیدرآباد سے تشریف لائے ہوئے اساتذہ کرام بھی موجود تھے۔ایسی ایسی معتبر سماعتوں اور آفتاب و ماہتاب کی موجودگی میں ان صاحب نے جو قطعہ پڑھا وہ آپ بھی سن لیجیے:
حیات بن کے سدا جو ہمارے ساتھ میں تھا
ہمارے قتل کا خنجر بھی اس کے ہاتھ میں تھا
یہ اور بات کہ دامن میں آگئے کانٹے
وگرنہ میں تو سدا پھول کی تلاش میں تھا
میں کم عقل ،کم فہم اس ادھیڑ بُن میں ہوں کہ’’ ساتھ‘‘ اور ’’ہاتھ‘‘ کا قافیہ’’ تلاش‘‘ کیوں کر اور کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ ممکن ہے کہ مَیں اردو ادب کی تمام اصنافِ شعری سے واقف نہ ہوں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب تک اردو کی شعری اصناف میں کیا کیا تجربے ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں ، ان سے یہ بندۂ کم فہم نابلد ہو، جب ہی تو میں ساتھ، ہاتھ کے قافیہ کے بطور تلاش کو ہضم نہیں کر پا رہا ہوں۔ اس کی دوسری وجہ میری ’’جہالت ‘‘بھی ہو سکتی ہے جو میں اردو شاعری کی اتنی اہم تبدیلیوں سے بے بہرہ ہوں ورنہ اگر اس ناچیز میں ذرہ برابر بھی لیاقت ہوتی تو کم از کم کسی سنٹرل یونی ورسٹی کے شعبہ اردو سے ضرور وابستہ ہو جاتا۔ان دونوں واقعات میں جو بات سب سے حیران کرنے والی ہے وہ یہ کہ ان دونوں’’لائق – فائق‘‘ شاعروں کا تعلق دبستان شبلی اور سر زمین شبلی سے ہے۔ ان کی تمام اعلا علمی اور شاعرانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے بے اختیار منھ سے یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ’’ اے سر زمین شبلی، تیری مٹّی کو کیا ہوا؟‘‘ مگر اُسی وقت دل کو ذرا سا سکون اس کہاوت سے حاصل ہوتا ہے کہ’’ کیا کابل میں گدھے نہیں ہوتے؟‘‘
اور ہاں، ایک بات اور۔ اس سمینار میں ایک اور انوکھی چیز سامنے آئی، وہ یہ کہ ڈائریکٹر سمینارنے پورے سمینار کی روداد لکھی اور ’’رپورتاژ‘‘ کی شکل میں ایک دو نہیں بلکہ تین اخبارات میں اپنے نام کے ساتھ شائع کروایا۔ اسے ہی کہتے ہیں’’اپنے منھ میاں مٹھّو بننا‘‘۔ یہ رپورتاژ انھوں نے خود لکھا ہوگا، اس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ جملے اور حقائق کی خامیاں جو ایک رپورٹ میں تھیں وہی بقیہ جگہوں میں بھی شائع ہوئیں۔ہماری یہ روایت رہی ہے کہ ہمارے کاموں کو کوئی دوسرا evaluate کرتا ہے مگر یہ سمینار تو نئے نئے نقوش ثبت کرنے والا تھا، لہٰذا اس سمینار کی رپورٹ خود ڈائریکٹر سمینار نے لکھ دی اوردیدہ دلیری کے ساتھ کئی جگہ خود اپنے نام کے ساتھ شائع بھی کروا دیا۔کیوں نہ کروائیں صاحب؟ آخر ان موصوفہ ہی نے تو بیرونی مندوبین کو اپنے ’’گاڈ فادر‘‘ کی خواہش پر زبردستی مہمان بنا کر سمینار کو ’’بین الاقوامی‘‘ حیثیت عطا کی۔لطف اس امر میں ہے کہ انھی کے کئی ریسرچ اسکالر اور طلبا و طالبات نے یہ کہا کہ جو ڈائریکٹر سمینار ہوتا ہے وہ اپنے سمینار کی رپوٹ خود پیش نہیں کرتا۔ اس بات کے لیے بچوں نے خوب ’ہا ہا ہی ہی‘ کی مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ پھر ذلّت اُٹھانا بھی واقعی دل گُردے کا کام ہے۔ مگر مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ ہماری نئی نسل روایات سے واقف ہے اور کالج اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ ان سب باتوں سے نابلد ہیں۔ خدا خیر کرے۔ آمین، ثُمّ آمین۔
One thought on “ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکسترمیں تھی – – – ڈاکٹرستیہ پُجاری”
جہانِ اردو کا شکریہ
جناب ستیہ پُجاری صاحب اپنے آپ کو اسی نام کے پردے میں مستور اور اسی قلمی نام بلکہ فرضی نام کے رمز میں مستور و مرموز رکھنا چاہتے ہیں
موصوف کی یہ تحریر پہلے بھی نظر سے گزر چکی ہے
کب اور کہاں… یاد نہیں
یہ آپ نے اچھا کیا کہ موصوف کا ای. میل پتہ درج فرمایا
اب جہانِ اردو… اس سلسلے میں بری الذمہ اور غیر جانبدار ہے
یادش بخیر…! ہمارے کرم فرما ڈاکٹر رؤف خیر صاحب نے بھی مذکورہ سمینار کی روئیداد لکھی تھی، جو اخبارات اور رسائل میں ڈائجسٹ ہوئی، اگر وہ بھی جہانِ اردو پر شامل کی جائے تو بہت اچھا ہوگا
شکریہ
اور یہ سرخی تو ما شاء اللَّهُ تعالٰی آپ ہی کی عنایت کردہ ہے
ایسی چنگاری بھی یا رب! اپنے خاکستر میں تھی؟
ڈاکٹر سید وصی اللّٰہ بختیاری عمری
صدرِ شعبۂ اردو
گورنمنٹ ڈگری کالج
رائے چوٹی، ضلع کڈپہ
آندھرا پردیش