انشائیہ ۔۔ ۔ اردوریل
احمد نثارؔ (نثار احمد سید)
شہر پونہ، مہاراشٹر، بھارت۔
Email :
شہر پونہ سے ممبئی جانے والی ریل، دکن کوین، اپنی تیز رفتار ی سے جارہی تھی۔ کھڑکی سے باہر بیش بہا مناظر ، مہاراشٹر کے مغربی گھاٹ جنہیں مہاراشٹر گھاٹ کے نام سے بھی جاناپہچانا جاتا ہے۔ فطرت کے خوشنما اور دلکش مناظر ذہن کے اندر ایک نئی دنیا کا نقشہ کھینچ رہے تھے۔ ریل کی دھڑدھڑاہٹ کی آواز۔۔۔ ہواکی سرسراہٹ سے تھوڑی مدھم ضرور ہوئی تھی۔۔۔ لیکن اپنی وہی پرانی پہچان سے آگے جاری تھی۔۔۔جسے اکثر سنا کرتے ہیں۔ اونچی پہاڑیوں سے گذرتی ریل، ریل کے باہر پہاڑی سلسلوں کادیدہ زیب منظرنہایت ہی خوبصورت تھا، یوں لگ رہا تھاکہ کسی ننھی لڑکی نے ریت کو استعمال کرکے اپنے نازک ہاتھوں سے پہاڑیاں بنائی ہو،اور ادھراُ دھر سے سبز پودے لاکر جوڑ دی ہو۔۔۔
سبز چادر‘ہوا کے ہلکے جھونکوں سے دلکش نظارا پیدا کر رہی تھی۔
ریل کے اندر سے آنے والی آواز نے میرے اس خیالی سفر سے ریل کے اندر کھینچ لائی۔
ریل کے اندر ایک عجیب منظر، چار اندھے لوگ، جن میں دو خواتین، ایک چھوٹی لڑکی اور ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ۔اردو نوازوں کے نام سے اپنی پہچان بنانے والوں کے لیے یہ ایک سبق آموز تجربہ ہے ۔
کہ یہ اردو کو کتابوں کے اوراق میں قید کرکے یا تو رسالوں یا مشاعروں کے ذریعہ عوام تک لے جا کر اپنے آپ کو تسکین دے لیتے ہیں
یا پھر تحقیق کے نام پرکچھ لکھ لیتے ہیں
لائبرری نام کی قبر میں
مقالہ نام کے مردے کو
دفن کرکے
ڈاکٹر نام کا کتبہ کندہ کردیتے ہیں۔
اورپھریہی لوگ بڑے بڑے اداروں کے سربراہ بن جاتے ہیں۔
اگر ان سے پوچھیں کہ انگریزی Parts of Speech کو اردو میں بتائیں؟
تو ان کے دیدے اتنے کھل جاتے ہیں کہ اس میں جامعات کے اردو شعبوں کا خاکہ دکھائی دیتا ہے۔جب کہ حقیقت میں اردو کو عام کرنے والوں میں ایسے ہی لوگ ہیں جن کو زمانہ ہمیشہ سے نظر انداز کرتا آرہا ہے۔ اور ان کا تذکرہ کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ ہندوستان میں عوام گو کہ اردو سے واقف نہ ہو اور ان کی مادری زبان ہندی، مراٹھی ، گجراتی تمل اور کنڑ کیوں نہ ہو اُن تک اردو کے تغزل اور ترنم کو پہنچانے والی میڈیا نہ تو رسالے ہیں نہ ہی کتابیں نہ ہی نام نہاد ڈاکٹر۔
ایسے لوگ جو نہ رسالوں سے نہ کتابوں سے نہ مشاعروں سے وابستگی رکھتے ہیں ، پر ان کی زبان پر اردو ضرور رقص کرتی ہے۔ ہم ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ کریں گے۔
مئی کا مہینہ ، دوپہر ۳بجے کی دکن کوین ایکسپریس ریل جس میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد اور جس میں مختلف دھرم اور زبانوں والے سفر کررہے تھے۔ ایک گروپ جو اندھوں کا تھا، ۴ افراد پر مشتمل، بھیک مانگ رہا تھا۔ اُن کی زبان پر دو گیت رقص کررہے تھے۔
۱۔نفرت کی دنیا کو چھوڑ کر پیار کی دنیا میں خوش رہنا میرے یار۔۔۔(فلم ہاتھی میرے ساتھی،گلوکار محمد رفیع صاحب)۔
۲۔آدمی مسافر ہے ۔۔آتا ہے جاتا ہے۔۔ آتے جاتے رستے میں یادیں چھوڑ جاتا ہے۔۔۔(فلم آدمی سڑک کا، گلو کار محمد رفیع صاحب اور لتامنگیشکر)۔
یہ گیت دونوں اردو سے لبریز تھے، ادب اور فلسفۂ زندگی سے ہمکنار تھے ،دھُن بھی دل کو چھو لینے والی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ لوگ بھی ان گیتوں کو گنگنا (Humming) رہے تھے۔
گنگنانے والے یا تو زندگی کے فلسفے پر جھوم اور گنگنارہے تھے یا زبان اور ترنم پر۔۔۔یا پھر الفاظ کی غنائیت پر۔۔۔ یعنی بالواسطہ طور پر اردو زندہ نظر آتی ہے۔ اردو کے چاہنے والوں کے نام سے اپنے نام کودعوے کے ساتھ منظم اور مستحکم کرنے والے حضرات، آواز بلند کرتے ہی رہتے ہیں کہ۔۔۔ اردو اُن کی بدولت زندہ ہے!
شاید ان کا دعویٰ اردو رسم الخط کے تحفظ کو لے کر ہے۔ وہ بھی ایسی اردو جسے آج کل ایک عجیب نام دیا گیا ہے،
جِنّاتی اردو۔۔۔
جسے نہ عام وخاص مروجہ دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی پڑھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔
ایسی اردو جسے دیکھ کر لوگ ڈر جائیں، اور اردو کا نام لینا چھوڑدیں۔۔۔
لیکن یاد رہے کہ زبان رسم الخط میں رہے یابولی کی شکل میں ، عوام کی زبان زبان ہو تی ہے۔
جسے عوام اپناتی ہے، استعمال کرتی ہے، پروان چڑھاتی ہے اور ورثہ کے طور پر اپنی آنے والی نسلوں کو عطیہ دیتی ہے۔۔
اوریہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔۔۔
عوام کی زبان پر ، بولی کی شکل میں جو زبان زندہ رہتی ہے وہی زبان متواتر تر و تازہ اور زندہ رہتی ہے اور آنے والی نسلوں تک ترسیل کرتی جاتی ہے۔
گیت کار ، گلوکار ، موسیقی کار، اور دیگر فنکار،اور دوبارہ اُس کو گانے اورگنگنانے والی عوام ، اس سے زیادہ مضبوط ابلاغ (strong media) اور کیاہو سکتا ہے؟
ملک بھر کے جامعات کے اردو شعبہ میں جتنے طلبا اور مدرسین ہیں، ان سے زیادہ تو اس ریل میں اردو کے چاہنے والے ہیں!
جو صرف اپنے شوق سے اردو کو زندہ رکھا ہے، نہ انہیں تنخواہیں ملتی ہیں نہ کوئی رعایتیں۔۔۔ نہ یہ سیمینار جاتے ہیں نہ مقالے پڑھتے سنتے ہیں ۔۔۔
ایسا لگ رہا تھا، ریل ڈبے کا یہ منظر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا!
اور کیا چاہئے اردو کو زندہ رکھنے کے لیے؟
اردو کے علم بردار، آنکھیں کھولیں!
اردو رسم الخط کو عام کرنا شروع کریں جو جامعات تک محدود نہ ہو بلکہ عوام الناس تک پہونچے۔
اردورسم الخط کو رومن اردو خط سے تباہ نہ کریں ۔ترکستان کے کمالزم کا کمال یہاں نہ دکھائیں!
جائیں اور یہ فکر چھوڑیں کہ اردو زبان مر رہی ہے۔۔۔
Ahmed Nisar – Pune
Email :
۳ thoughts on “انشائیہ ۔ ۔ ۔ اردوریل – – -@- احمد نثارؔ”
اردو کے پروفیسرز لکیر کے فقیر ہوتے ہیں۔نئی تکنالوجی کا استعمال وہ ہرگز نہیں کریں گے۔البتہ اردو کے نئے اساتذہ اس جانب گامزن ہیں ۔اس کے باوجود اردو والے تیزی سے ترقی کرنا نہیں چاہتے۔آپ نے اچھا مضمون لکھا جو ہلکا پھلکا ہے ۔کوشش کرتے جایے کبھی نہ کبھی کامیابی ملے گی ۔مبارکباد
سید مہدی
لاہور
Dr fazal saheb,jahan-e-urdu maen ahmed nisar ka inshaiya urdu rail ke hawale se Urdu ke farough maen kuch shoobe urdu ke Dr ya kooe our kuch kirdar ada nahee karte.iss ziman maen unhoune Englesh ganoow koo pesh kiya hae ye geet 40 sal khabel mashhoor thae our aaj bhee hae,fee zamana arjit singh 2014 se hindustani nawjawano belke lakhoo deloo per raj ker rahen haen in kee madery zaban kuch bhe hoo ye urdu kee methas hae aap sirf rael kee bat ker rahen hae,shoobe urdu ya urdu dr es maen kuch rool ada nahe ker sakte.angrezy zaban saree dunya mea cha gaye hae.urdu wale hee nahee dunya ke our badee zaban wale bhee hairan haen.yahan amirica maen kutub khanoo maen books nahee haen dvd cd ke shelf haen yaha 80 sal ke log bhee inter net se bat karte haen hum sub kee zemedary hae urdu ko bachaien ye inshyaa nahee hae balke urdu per tabsera hae is ka naam urdu par tabsera hoona chahye.
Dr Ataullah Khan
Chicago
ڈاکٹر صاحب، آداب! آپ کے تبصرے کا تہہ دل سے استقبال ہے۔ آپ سے ادباً گذارش ہے کہ آپ اردو میں تحریری فرمائیں۔ ڈاکٹرز بہت کچھ کر سکتے ہیں، اگر وہ سوج اور ٹھان لیں تو۔ میری درخواست ہے، آپ گوگل ان پٹ ٹولز زیر اثقال کرلیں، اور پاک انسٹالر بھی انسٹال کرلیں۔ جس سے اردو فونٹ آپ کے سسٹم پر انسٹال ہوجائے گا۔ پھر دیکھئے آپ کی یہ تبصرہ والی تحریر کتنی خوبصورت رہے گی۔ میرے اس مضمون میں، میں نے یہی بات پیش کی تھی کہ اردو کی بقاء کے لئے اردو رومن تحریریں ترک کرنی چاہئے۔۔۔۔ آپ ڈاکٹر ہیں، میری اس درخواست کو رد مت کیجے۔