ڈاکٹرمسعود جعفری کے تبصرہ پرڈاکٹررؤف خیرکا جوابی تبصرہ

Share
Raoof Khair
ڈاکٹر رؤف خیر
مسعود جعفری
ڈاکٹرمسعود جعفری

ڈاکٹرمسعود جعفری کے تبصرہ پرڈاکٹررؤف خیرکا جوابی تبصرہ

(نوٹ : گزشتہ دنوں ڈاکٹر روف خیر کی کتاب ’’دکن کی ہستیاں‘‘ پر ڈاکٹر مسعود جعفری کا تبصرہ شامل کیا گیا تھا۔ تبصرہ کچھ حد تک تلخ تھا۔ اس تبصرے میں کچھ سوال اٹھاے گئے تھے۔ اب ڈاکٹر روف خیرکا جوابی تبصرہ پیش خدمت ہے۔)

مسعود جعفری کا ممنون ہوں کہ وہ مجھے راسخ العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں اور مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ امانت میں خیانت کرے چنانچہ میں نے شعرائے کرام کے اشعار من و عن شامل کیے جن کی اصلاح مسعود جعفری نے کی۔مخدوم، سلیمان اریب،ابن احمد تاب ،شاذ تمکنت،اوج یعقوبی صاحبان جیسے اساتذہ کرام کے اشعار میں نقص نکال کر ان کی اصلاح کرنے کی جسارت بے جا میں بھلا کیسے کر سکتا تھا ۔یہ حوصلہ مسعود جعفری کو مبارک۔ میری کتاب کے نام ہی پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ’’ اس کا نام حیدرآباد کے چند شاعر و ادیب یا چند قلم کار ہونا چاہیے تھا بلا وجہ دکن کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ دکن تو پاٹلی پتر ا اور کلنکا کی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکا ہے‘‘۔

ہمارا خیال ہے جب تک امجد حیدرآبادی،صفی اورنگ آبادی ،ڈاکٹر زور،شمس اللہ قادری ،نصیرالدین ہاشمی،سیدہ جعفر، زینت ساجدہ،مضطرمجاز اور رؤف خیر وغیرہ جیسے قلم کار وں کا فکر و فن سلامت ہے دکن کبھی بے نام و نشان نہیں ہو سکتا ۔ آج شمالی ہند میں قبروں کے کتبے تک ہندی میں لگائے جارہے ہیں۔ الحمد للہ اردو آج بھی دکن میں عوا م و خواص کی زبان ہے۔اردو کے کئی اخبارات ،رسائل و جرائد اس کے ’’گواہ‘‘ ہیں۔میری کتاب میں بنگلور کے مترجم اقبال سید احمد ایثار اور مدراس کے خواجہ ادب نواز علیم صبا نویدی کا ذکر بھی ہے۔اس طرح یہ دکن جنوبی ہند کی نمایندگی کر تا ہے۔
رات دیر گئے گواہ کا تازہ شمارہ دیکھ کر آنکھ لگی تو عالم خواب میں مخدوم ،سلیمان اریب ،ابن احمد تاب ،شاذتمکنت،اوج یعقوبی صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ تمام شعرائے کرام عالم برزخ میں حشر نشر کے منتظر ملے ۔ما شاء اللہ شعر و ادب ہی ان کی پہچان ہے تو وہ شعرو ادب ہی سے دل بہلاتے ملے۔میں نے ان کی خدمت میں گواہ کا تازہ شمارہ پیش کر دیا تاکہ ہر استاد شاعر مسعود جعفری کے اعتراضات کا خود جواب دے۔
مخدوم نے اپنے شعر
گلوئے یزداں میں نوک سناں بھی ٹوٹی ہے
کشاکش دل پیغمبراں بھی ٹوٹی ہے
کے دفاع میں فرمایا کہ بر خور دار مسعود جعفری سے کہو کہ یزداں و اہرمن ایرانی اسا طیری طاقتوں کی علا مات ہیں۔
ایرانی فرمارواوء ں کے زمانے لد گئے۔ان کے ہم نوا یعنے ملوکیت کی حمایت کرنے والے messengers کو ملک بدر ہونا پڑا اور عوامی جمہوریت کے لیے راہ ہموار ہوگئی۔مسعود میاں کو ہماری فکر تک پہنچنے کے لیے کئی جنم لینے پڑیں گے جو ممکن نہیں۔ جنم ایک ہی دفعہ ملتا ہے۔اسی میں سب کچھ حاصل کرلینا ہے تاکہ آگے کام آئے۔
آج وہ ہند کا شہری نہیں کہلا سکتا
جس نے اک بار نہ زنداں کی ہوا کھائی ہو
اپنے اس شعر کے بارے میں سلیمان اریب نے فرمایا کہ جعفری نے اسے خوامخواہ مولانا ابوالکلام آزاد سے جوڑ کر اس کے مفہوم کو کچھ کا کچھ بنا ڈالا۔میاں ہم’’ صبا‘‘‘ نکالتے تھے۔ بڑے بڑے شاعروں کا کلام چھاپا مگر ترمیم و اصلاح کی حماقت کبھی نہیں کی۔
وہ بھی اک وقت تھا خورشید بکف پھرتے تھے
یہ بھی اک وقت ہے شبنم بھی نہیں ساتھ اپنے
لگتا ہے مسعود جعفری کے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے۔ خورشید بکف کی علامت کو وہ کیا خاک سمجھیں گے۔یعنے ہم سورج کے غروب ہوتے ہی پیمانہ بکف طلوع ہوا کرتے تھے مگر حالات کی ستم ظریفی نے وہ دن بھی دکھائے کہ شراب تو دور قطرہء شبنم سے بھی محروم ہو گئے۔ اس غزل کے دیگر قوافی غم،ہم،دم وغیرہ ہیں۔میاں جعفری کی ہمت کی داد دینی پڑے گی،ہمارے شعر کی توہین کر دی۔ کیا بچکانہ اصلا ح کی ہے
وہ بھی اک وقت تھا شمع کو لیے پھرتے تھے یہ بھی اک وقت ہے تارا بھی نہیں ساتھ اپنے
شبنم،غم،ہم کے قافیوں کے ساتھ بھلا تارا کیسے آئے گا۔جعفری کو تو قافیوں کا تک شعور نہیں اور موصوف اساتذہ کے اشعار کی اصلاح کرنے چلے ہیں۔انھیں اوقات میں رہنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے شاذتمکنت سے رجوع کیا اور ان کے شعر کی جو اصلاح جعفری نے کی اس پر روشنی ڈالنے کی گزارش کی۔ شاذ کا شعر ہے
زنجیر گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا
اے باد بہار اپنی آمد کا پتہ دینا
مسعود جعفری نے شاذ کے پہلے مصرعے میں یوں اصلاح دی ’’ٹہنیِ گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا ‘‘۔ شاذ نے کہا میاں اس طفل مکتب کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہندی لفظ ’’ ٹہنی‘‘ کو اضافت نہیں دی جاسکتی۔اس سے کہو زبان و بیان کے رموز سے آگہی حاصل کرے، ابھی بزرگوں کے منہ نہ آئے۔زنجیرِ گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا میں جو زبان و بیان کا حسن ہے وہ کیا جانے۔
ایک کونے میں ابن احمد تاب پڑے ہوئے تھے۔ہم نے انھیں سلام کیا اور گواہ میں ان کے شعر پر مسعود جعفری کا اعتراض سامنے رکھ دیا کہ’’ کیا خدا حریر پوش ہوتا ہے وہ تو نور ہے اور پیغمبر ریشمی اور قیمتی لباس زیب تن نہیں کرتے‘‘۔تاب کا شعر ہے
حریر پوش ہو ابلیس تو خدا کہئے
لباس خستہ میں پیغمبری بھی جھوٹی ہے
تاب کہنے لگے ۔ میاں یہ تم کس معترض کو گواہ کے ساتھ لائے ہو۔ میں تو خیر ان پڑھ آدمی ہوں مگر موصوف کی علمی استعداد پر بھی مجھے شبہ ہونے لگا ہے۔اسے شعر کا مطلب سمجھا دو کہ ظاہر پرست دنیا کا یہ حال ہے کہ بہترین لباس و وضع میں اگر ابلیس بھی نمودار ہو تو اسے خدا سمجھنے لگتی ہے اور اگر اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا مبعوث کردہ پیغمبر بھی سیدھے سادے روپ میں جلوہ گر ہو تو اس کی نفی کر بیٹھتی ہے۔میاں جعفری نے میرے اتنے اچھے شعر کو لفظی ترازو میں ڈال دیا اس کے معنوی حسن تک ان کی نظر ہی نہیں گئی۔اب ایسے آدمی کی بات کا کیا برا ماننا۔ اور موصوف نے میرے مصرعے ’’لوگ ناحق مجھے نغموں کا مسیحا سمجھے۔‘‘ کی یوں اصلاح فرماکر ’’لوگ ناحق مجھے نغموں کا شہنشاہ سمجھے‘‘۔،یہ ثبوت دیا کہ وہ عروض سے بھی نابلد ہے۔ لفظ ’شہنشاہ، مصرعے میں بیٹھتا ہی نہیں۔ مصرع وزن سے خارج ہو جائے گا۔ اور یوں بھی میں غریب آدمی ،بلدیہ کا ملازم۔ میں کہاں کا شہنشاہ؟ میں بوریہ نشین ہی بھلا۔
ہم نے محترم اوج یعقوبی صاحب کے سامنے گواہ رکھ دیا ۔ان کا شعر ہے
آپ کیا جلوہ گر ہو گئے
گل پسینے میں تر ہو گئے
جعفری کا اعتراض ہے کہ ماتھا پسینے سے تر،جسم پسینے سے تر کہا جاسکتا ہے پھول پسینے سے تر نہیں کہا جاسکتا یہ خلاف محاورہ ہے۔ اوج صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے بے چارے کو محاورے کی تعریف نہیں معلوم۔وہ میرے شعر کی یوں اصلاح کر رہا ہے
آپ کیا جلوہ گر ہو گئے
گل بھی شبنم سے تر ہو گئے
پھول اگر شبنم سے تر ہو تو یہ شعر کہاں بنا؟ میرا مطلب ہے وہ جب چمن میں تشریف لائے تو ان کا حسن دیکھ کر پھول پانی پانی ہو گئے۔میاں یہ کل کے بچے بھی ہمارے شعرپر انگلی رکھنے لگے۔ اللہ کا کرم ہوا کہ یہ دن دیکھنے سے پہلے ہمیں اٹھا لیا۔ اس قسم کے بے معنی بلکہ لا یعنی اعتراضات کے جوابات کے لیے تم مخدوم،اریب،شاذتمکنت اور اوج جیسے شاعروں کے آرام میں بے کار خلل انداز ہوئے۔ اس معترض کو یہاں بھیج دو اسے ہم سمجھائیں گے مقام کبریا کیا ہے۔
اتنے میں ہماری آنکھ کھل گئی۔ہم نے ان اساتذہ کرام سے جو کچھ سنا، سب قلم بند کر دیا ہے۔اب وہ اساتذہ جانیں،مسعود جعفری جانیں اور آپ جانیں۔
ڈاکٹر رؤف خیر
Dr. RAOOF KHAIR,
MOTI MAHAL, GOLCONDA, HYDERABAD, 500008.
CELL : 09440945645.
EMAIL:

Share

۳ thoughts on “ڈاکٹرمسعود جعفری کے تبصرہ پرڈاکٹررؤف خیرکا جوابی تبصرہ”

Comments are closed.

Share
Share