اسلامی کیلنڈر : تاریخی مطالعہ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

hijri

اسلامی کیلنڈر : تاریخی مطالعہ

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
ای میل :

صدی کا آغاز تاریخ کا ایک اہم باب اور قوموں کی زندگی میں ایک اہم سنگ میل ہوتا ہے ۔ دنیا میں متعدد کیلنڈر مروّج ہیں ٗ ان میں سنہ ہجری آفاقی اور عالمی اہمیت کا حامل ہے ۔
اسلامی دنیا کے وسیع وعریض رقبہ میں زائد از چودہ سو سال سے سنہ ہجری رائج ہے ‘ تمام اسلامی دنیا میں ہجری سال کا حساب قمری اصول کے مطابق ہوتا ہے اور چاند دیکھنے پر ہرماہ کی پہلی تاریخ متعین ہوتی ہے دن ٗ ماہ ٗ سال اور تاریخ مقرر کرنے کا علم انسانی عقل کی ایک کار آمد ایجاد ہے ۔ ایک عرب مورخ کا قول ہے کہ :
’’تاریخ ایک مینار ہے اور شک و شبہ کو ختم کردینے والی تلوار ۔ تاریخ سے حقوق میں امتیاز ہوتا ہے اور معاہدے طئے کئے جاتے ہیں ۔ ہر شئے کی غایت تاریخ سے مقرر ہوتی ہے ٗہر وقت پیمانہ کے عمل سے طے ہوتا ہے ۔ دنیا کے کارناموں کا تعین ٗقوموں کے کاموں کا حساب ٗ زمانوں کی حد بندی سنہ و سال تاریخ ہی سے ہوتی ہے ‘‘۔

یقین سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ابتداء میں دنیا نے کس طرح تاریخ کے مفید اصول کو نافذ کیا ۔ قیاس ہے کہ سنہ حضرت آدمؑ سے رواج پایا ہو۔قابیل شیثؑ اور حضرت ادریسؑ کی نسل میلاد آدمؑ سے حساب کرتی تھی ۔ طوفان نوح تک یہ صورت رہی ۔ طوفان کے بعد تاریخ کا تقرر طوفان نوح سے شروع ہوا کیونکہ اکثر کتابیں اس کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ اگلی قومیں طوفانِ نوح سے تاریخ کا حساب کرتی تھیں۔ زہری اور شعبی کی تاریخی روایت کے مطابق بنی اسماعیل حجاز کے قدیم باشندوں نے حضرت ابراہیمؑ سے اپنا تاریخی ربط قائم کیا ۔ بابل کے جابر شہنشاہ نمرود نے آپؐ کو آگ میں ڈال دیاتھا اور آگ قدرت خداوندی سے باغ و بہار بن گئی ۔ حق و باطل کی تاریخی جنگ ایک یادگار واقعہ بن گئی ۔ اسماعیلی عربوں نے اس واقعہ سے اپنا حساب شروع کیا۔ بیت اللہ کی تاسیسی تاریخ تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی مدد سے انسانیت عامہ کے پہلے ایوان(حرم کعبہ) کی تعمیر مکمل کردی تو ’’سنہ بناء بیت ‘‘ جاری ہوا۔ قبیلہ معد کے انتشار تک یہ صورت رہی ۔ کعب بن لوی کی موت تک سنہ معد جاری رہا ۔ سنہ معد کے بعد سنہ کعب کا استعمال شروع ہوا ۔ ایک زمانہ وہ آیا کہ یمن پر حبش کا اقتدار قائم ہوگیا ۔دنیا کی ہر حکومت ‘محکوم قوم کے مذہب ٗاخلاق اورمرکزِ اجتماعی کو خراب کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔ حبش کے وائسرائے نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ بیت اللہ کی مرکزیت کو ختم کیاجائے اس نے حبش میں ایک مرکزی عبادت گاہ تعمیر کی ۔ اہلِ یمن کو ہدایت کی کہ اب بیت اللہ کا رُخ کرنے کی ضرورت نہیں اور خود ایک ہاتھی پر سوار ہوکر بیت اللہ کو ڈھانے کے لئے روانہ ہوا ۔ خدائی طاقت کی اس پر ایسی مار پڑی کہ پارہ پارہ ہوگیا ۔ یہ واقعہ ٗ واقعۂ فیل کے نام سے موسوم ہے ۔ اور اس سے عام الفیل (سنہ فیل) رائج ہوا۔ اسلام سے پہلے یہی سنہ جاری تھا۔ حضور معظمؐ کی ولادت عظمت سنہ ۱ عام الفیل میں ہوئی یعنی ۳۸ جلوس نوشیروان میں۔
دنیائے اسلام اورعالم وقائع میں تاریخی بنیاد رکھنے کے لئے شریعت نے بارہ مہینے مقرر کردئے ہیں ۔دنیا و مافیہا کے تمام واقعات اسی دائرہ میں محدود ہیں ۔ کوئی تاریخی واقعہ اس دائرہ سے خارج نہیں۔ اگر شریعت کی طرف سے یہ حد متعین نہ ہوتی اور اس کی تحدید قمری حساب پر نہ کیجاتی تو اسلام کے وسیع حلقہ میں داخل ہونے والوں کے لئے صیامِ رمضان اور مناسکِ حج جیسے فرائض ادا کرنے میں دقتیں پیش آتیں ۔یہی ایک عدۃ الشہور سالانہ معاملات کی نگہداشت کا وہ زبردست آلہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے اموراسلاف کا از روئے تاریخ معائنہ کرسکتے ہیں ۔

سنہ ہجری کا آغاز :

حضرت سیدنا عمر بن الخطابؓ کے عصر رشد ہدایت میں سنہ ہجری کا آغاز ہوتا ہے ۔ایک مرتبہ عراق کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کوامیر المومنین کا ایک فرمان پہنچا ۔ اس پر کوئی تاریخ نہ تھی ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے حضرت امیرالمومنینؓ کو اس امرِ عظیم کی طرف توجہ دلائی اس زمانہ میں حضرت عیسیٰؑ کا سنِ ولادت چل رہا تھا ۔ جب شوریٰ (مشاورتی کونسل) میں مسئلہ پیش ہوا تو اس وقت تین رائیں قائم ہوئیں ۔ ایک رائے یہ تھی کہ حادثۂ فیل سے سنہ وسال شروع کیا جائے ۔ جب کہ دوسری رائے یہ تھی کہ بعثت رسالت سے( ۴۰ میلاد نبویؐ سے ) ۔ تیسری رائے یہ تھی کہ ہجرت مدینہ کے عظیم الشان اور عمیم الاثر واقعہ سے سنہ کا آغاز کیا جائے ۔ چونکہ ہجرت مدینہ کے نتیجہ خیز سفر نے اسلام کو سر بلند کیا تھا اورفتح مکہ معظمہ بھی اسی ہجرت کبریٰ کامبارک نتیجہ تھا ۔ اس لئے صحابہ کرامؓ آخری تجویز پر متفق ہوگئے اور اس طرح ہجرت کے پہلے سال کو سنہ ۱ ھ قرار دے کر سرکاری تحریروں کو اس سے مزین کیا جانے لگا چونکہ حضور رسول معظما ۱۶؍جولائی ۶۲۲ء کو مدینہ منورہ پہنچے تھے ۔ اس لئے بحکم امیر المومنین حضرت سیدنا عمرفاروقؓ اسلامی تقویم مقرر ہوکر ۱۶؍ جولائی ۶۲۲ء کو سنہ ہجری رائج ہوا ۔

سنہ ہجری میں ہفتہ کاتعین:

اسلامی کیلنڈر میں بھی ہر ہفتہ کے سات دن مقرر ہیں ۔پہلے دن کو الاحد (یکشنبہ) کہتے ہیں اسے اوہدؔ بھی کہتے تھے‘ دوسرے دن کو الاثنین (دوشنبہ) اور اہونؔ بھی کہتے‘ تیسرا دن الثلاثاء (سہ شنبہ) اور جُبارؔ بھی کہتے ‘ چوتھے دن کو الاربعاء (چہارشنبہ) اور دُبارؔ بھی کہتے ‘پانچویں دن کو الخمیس (پنجشنبہ) اورمؤنس ؔ بھی کہتے‘چھٹے دن کو الجمعہ(جمعہ) اورعروبہؔ بھی کہتے ‘ اورساتویں دن کو السبت(شنبہ) اورشیارؔ بھی کہتے۔ اور ان کا یہ خیال ہے کہ جمعہ کانام عروبہ کعب بن لوی نے رکھا تھا اور کہا گیا ہے کہ عروبہ سریانی زبان میں جمعہ کے دن کا نام ہے پھر اس کو معرب کرلیاگیا ۔ ایک شاعر نے ان سات دنوں کو اس قطعہ میں جمع کردیاہے ؂
علمت بان اموت وان موتی
باوہدؔ او باہونؔ او جبارؔ
اذا التالی دیارا و باوفی
بمؤنسؔ او عروبہؔ اوشیارؔ
مشہور ہے کہ عہدِ عتیق میں فارس اور مصری ہفتوں کا استعمال نہیں جانتے تھے سب سے پہلے ہفتوں کا استعمال اہالیؔ شام اور اس کے اطراف واکناف والوں نے کیا کیوں کہ حضرت موسیٰؑ نے توریت میں خبر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو ۶روز میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام پایا یعنی ان کے بنانے سے فراغت پائی ۔ اور پھر اس کا استعمال تمام اقوام عالم میں رائج ہوگیا اورعربوں نے بھی اس کو اپنے پڑوسی ملک والوں اور اہل شام سے سیکھا اور استعمال کیا اور کررہے ہیں ۔
آخر میں اسلامی کیلنڈر کے مطالعہ میں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مقدس دین مذہب اسلام کے تمام فرقے شرعی احکام میں رویت ہلال کا اعتبار کرتے ہیں اور مسلمانوں کا سنہ محرم سے شروع ہوتا ہے اور سال کے مہینے کچھ تو کامل ہوتے ہیں یعنی پورے تیس دن اور کچھ کم ہوتے ہیں یعنی انتیس دن تاکہ قمری سال پورا ہوجائے اورقمری سال کے کل دنوں کی تعداد ۵/۱ ۔۳۵۴ یا ۶/۱ ۔۳۵۴ ہوتی ہے ۔ امام مقریزی لکھتے ہیں کہ انھوں نے اس کسر کو دور کرنے کے لئے ایک دن ماہ ذوالحجہ میں بڑھایا جب کہ اس کسر کی مقدار نصف دن سے زیادہ ہو جاتی ہے پس ذوالحجہ کا مہینہ ایسے وقت پورے تیس دن کا ہوجاتا ہے ۔ اور اس سال کو سال کبیسہ کہتے ہیں اور اس سال کے مہینوں کے دنوں کی تعداد ۳۵۵ ہوجاتی ہے پس اس قاعدے سے ہر تیس سال میں کبیسہ کے گیارہ دن جمع ہوتے رہتے ہیں ۔ یہاں الفاظ ’’ہر تیس سال میں‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ ہر قمری تیس سال میں جس کو دوریؔ کہتے ہیں ان میں سے انیس سال لبیطؔ کے ہوتے ہیں اور گیارہ سال کبیسہ کے ۔ کبیسہ کے سال یہ ہیں دوسرا ٗپانچواں ٗ ساتواں ٗدسواں ٗ تیرہواں ٗ سولہواں ٗ اٹھارہواں اکیسواں ٗچوبیسواں ٗچھبیسواں اورانتیسواں ۔

سنہ ہجری میں مہینوں کا تعین :

ہر قمری سال بارہ مہینوں پر مشتمل اور ایک مہینہ ۲۹ دن بارہ گھنٹے ۲۴ منٹ ۳ سکنڈ کے برابر ہوتا ہے ۔ اس حساب سے قمری سال میں ۳۵۴ دن ۸ گھنٹے ۴۷ منٹ ہوتے ہیں ۔ جبکہ شمسی سال ۳۶۵دن اور چند گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ لہذا ایک قمری سال ایک شمسی سال سے تقریباً ۱۱ دن چھوٹا ہوتا ہے اور یہ فرق ۳۳قمری سالوں کے بعد مکمل ایک سال کا ہوجاتا ہے اور اس طرح ۳۳قمری سال ۳۲شمسی سال کے برابر ہوتے ہیں ۔ اس حساب سے اگر کسی سال رمضان المبارک کا مہینہ سخت گرمیوں میں آئے تو ٹھیک ساڑھے سولہ سال بعد سخت سردیوں میں آئے گا کیونکہ دو قمری مہینوں کا حاصل ۵۹ دن ہوتا ہے ۔ اس لئے عموماً ایک مہینہ ۳۰ دن اور دوسرا ۲۹ دن کا ہوتا ہے ۔ عام طور پر پہلا ٗ تیسرا ٗ پانچواں ٗ ساتواں ٗ نواں اور گیارھواں مہینہ ۳۰ دن کا اور دوسرا ٗ چوتھا ٗ چھٹا ٗآٹھواں ٗدسواں اور بارھواں مہینہ ۲۹ دن کا ہوتاہے ۔ اس طرح ۳۵۴دن تو پورے ہوجاتے ہیں لیکن ۸ گھنٹے ۴۷ منٹ ۳۶سکنڈ باقی رہ جاتے ہیں ۔ اول یہ فرق ہر تیس سال بعد دور کردیا جاتا ہے یعنی ہر تیسویں قمری سال میں ۱۱دن بڑھالئے جاتے ہیں ۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسرے ٗ پانچویں ٗ ساتویں ٗ دسویں ٗ تیرھویں سولہویں ٗ اٹھارویں ٗاکیسویں ٗ چوبیسویں اور انتیسویں سال میں آخری مہینے ذی الحجہ میں ایک دن بڑھادیا جاتاجو کہ عام سالوں میں ۲۹دن کا ہوتا ہے اور اوپر بتائے گئے سال کبیسہ میں ۳۰ دن کا ہوجاتا ہے ۔
مقدس دین مذہب اسلام میں ہرماہِ نو ہلالی یعنی چاند دیکھنے پر شروع ہوتا ہے اور پھر نیا چاند نظر آتے ہی ختم ہوجاتا ہے ۔ اسلامی قمری سال کے بھی بارہ مہینے مقرر ہیں کیونکہ حضورِ اکرم ا نے ایک مرتبہ عید الاضحی کے خطبہ کے موقع پر فرمایا کہ ایک سال صرف بارہ مہینے کا ہوتا ہے جیسا کہ کائنات کی تخلیق کے وقت تھا (مشکوٰۃ) ۔ اسلامی قمری سال کے بارہ مہینے یہ ہیں : محرم ٗ صفر ٗ ربیع الاوّل ٗربیع الآخر ٗ جمادی الاولیٰ ٗ جمادی الاخریٰ ٗرجب ٗ شعبان ‘رمضان ٗ شوال ٗ ذوالقعدہ ٗ ذوالحجہ ۔ یہ تمام مہینوں کے نام کسی دیوی یا دیوتا کے نام پرنہیں بلکہ کچھ تو لغوی اعتبار سے ہیں اور کچھ واقعات سے متعلق ہیں ۔ یہاں یہ امر حیرت انگیز ہے کہ باوجود ۴۱۲ء سے قبل رکھے ہوئے یہ نام کسی دیوی ٗ دیوتا یا فرضی خداؤں کے نام پر نہیں ٗبلکہ اس زمانے میں تو اسلام کی روشنی بھی نہیں پھیلی تھی اور نہ ہی کسی خدائے واحد کا تصور عموماً موجود تھا ۔ سارے عرب پر سینکڑوں خداؤں کی حکومت تھی جن کی پوجا بڑے زور و شور سے کی جاتی تھی ۔ ۴۱۲ء ؁ میں عربوں کے کیلنڈر میں اضافی مہینہ شروع ہوگیا تھا جسکا سلسلہ دسویں ہجری تک جاری رہا ۔ یہ اضافہ ہر تیسرے سال کیاجاتاتھا ۔ اس اضافہ نے الجھنیں پیدا کردی تھیں ۔ کیونکہ اس طرح سے یہ سال نہ تو قمری ہی ہوتا تھا اور نہ ہی شمسی سال سے مطابقت ہو پاتی تھی اور یوں اس اضافے کا مقصد فوت ہو کر رہ گیا تھا ۔ اس تیرھویں مہینے کے اضافے کو حضورِ اکرم ا نے ہجرت کے دسویں سال سختی سے منع کردیا اور بحکمِ محمدیؐ یہ سلسلہ بند ہوگیا ۔
الغرض عربوں کو بعض اسباب اور اتفاقات پیش آتے تھے مہینوں کے موجودہ مشہور اور معروف ناموں سے موسوم ہوگئے ۔ ہر مہینہ کی وجہ تسمیہ اور اہم واقعات کچھ اسطرح ہیں:

۱۔محرم الحرام

محرم کے لغوی معنی حرمت والا ٗ حرام کیا گیا ٗ ممنوع وغیرہ ہیں ۔ اسلامی قمری مہینوں میں یہ پہلا مہینہ ہے ۔ایامِ جاہلیت میں اس مہینہ کا نام موجود نہ تھا اس کی جگہ صفر الاولیٰ تھا ۔ یاد رہے کہ اسلامی مہینوں کے نام قدیم عربوں کے رکھے ہوئے ہیں سوائے محرم کے اور قمری کیلنڈر میں اس کی جگہ پہلے صفر الاولیٰ ہوا کرتا تھا اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعدمحرام الحرام سے بدل گیا ۔ اور اس کے بعد کامہینہ صفر الآخرہ صفرالمظفر بن گیا ۔ کیونکہ جب ’’الاولیٰ‘‘ ختم ہوگیا تو ’’الآخرہ‘‘ کا کوئی مطلب نہیں ۔محرم کانام اس لئے محرم ہوا کہ اس میں قتال کو حرام سمجھا گیا ۔ یہ مہینہ ۴ متبرک مہینوں میں سے ایک ہے ۔ اسلام سے پہلے بھی اور بعد میں بھی یہ مہینہ متبرک سمجھا جاتا رہا ہے اس مہینے میں جنگ وغیرہ ممنوع تھی اور ہے ۔ ہجرت کے تقریباً ۱۷ سال بعد اسلامی کیلنڈر کی ابتداء ہوئی تو حضورِ اکرم ؐ کے سفرِ ہجرت یعنی ۱۵ یا ۱۶ جولائی سے اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے یعنی پہلا سنہ ہجری ۔ یہ مہینہ منسوب الی اللہ ہے ۔ ا س مہینے کا نام اس لئے بھی محرم رکھا گیا ہے کہ اس ماہ مبارک سے شیطان کا دخول جنت میں مطلقاً حرام ہوا ۔ قدرت نے ان تیس دنوں میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں برکات لامتناہی بھی عطا کئے ہیں ۔ اس کے ایک پہلو میں غم کی دنیا تو دوسرے پہلو میں دنیا کا غم ہے ۔ اس کے عشرۂ اولیٰ کے محبوب دامن میں ایک محبوبی شان والی صورت ٗ بصورت اجمالی باسم (یوم عاشورہ) جلوہ نما ہے۔کہ اس کی برکت سے اللہ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول کی ٗ حضرت ادریس ؑ کو مکاناً علیاً کی رفعت سے سرفراز کیا اور حضرت نوحؑ کو طوفان اورحضرت ابراہیمؑ کو نار سے نجات ملی حضرت موسیٰ ؑ کو شرف نزول توریت سے ممتاز فرمایا ٗ حضرت یوسفؑ قید سے نکالے گئے ٗ حضرت یعقوبؑ کو بینائی عطا ہوئی ٗ حضرت ایوبؑ سے تکالیف اٹھالی گئیں ٗ حضرت یونس ؑ سے بطنِ حوت کی ظلمت کافور ہوئی۔ حضرت داؤدؑ مقربِ بارگاہِ رب ودود ہوئے حضرت سلیمانؑ جلوہ آرائے سلطنت ہوئے ۔ اسی روز دنیا کا وجود عالم وجود میں آیا ۔ اسی روز پہلی بار بارانِ رحمت آسمان سے زمین کی طرف نازل ہوئی ۔ اسی روز اللہ نے عرش و لوح و قلم اور جبرئیل ؑ کوجامہ ہستی پہنایا ۔ اسی روز حضرت عیسیٰؑ کو آسمان پر اٹھایا ۔ یاد رہے کہ جس طرح دنیا کا سنگ بنیاد عاشورہ کے دن رکھا گیا اسی طرح دنیا کا خاتمہ بھی یعنی قیامت یومِ عاشورہ کو ہوگی ۔اسی روز حضور نبئ معظم اکے نواسے حضرت امام حسینؓ اپنے (۷۲) رفقاء کے ہمراہ میدان کربلا میں معرکہ حق و صداقت کے لئے جام شہادت نوش فرمائے ۔ اسی ماہ کی۱۶ ؍تاریخ کو بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ چنا گیا اور ۱۷ ؍تاریخ کو اصحابِ فیل نے کعبہ پر حملہ کیا تھا ۔ محرم الحرام مہینوں کا سرداربھی کہلاتا ہے ۔

۲۔ صفرالمظفر

صفرالمظفر لغوی اعتبار سے معنی خالی یا زرد کے ہیں ۔ ایامِ جاہلیت میں اس نام کے دو مہینے تھے صفر الاولیٰ اور صفر الآخرہ ۔ اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوا تو صفر الاولیٰ کی جگہ محرم نے لے لی اور صفر الآخرہ صفرالمظفر بن گیا ۔ صفر کو صفر اس لئے کہا گیا کہ عرب اس ماہ میں قتل و غارت گری کرتے تھے اور ان کے گھر خالی رہتے تھے ۔ یہ بھی روایت ہے کہ جب ابتداء میں یہ نام وجود میں آیا تو یہ مہینہ موسمِ خزاں میں آتا تھا اور درختوں کے پتے زرد ہوجاتے تھے۔ صفر کے ایک اورمعنی عربی میں پیٹ کے وہ کیڑے ہیں جو بھوک لگنے پر آنتوں کو کاٹتے ہیں ۔ اس ماہ میں حضرت آدمؑ جنت سے نکالے گئے۔ ۱۴ نبوی ‘ ۲۷ صفر کو آپؐ نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی ۔ اس ماہ میں حضور اکرمؐ بیمار ہوگئے اور اسی ماہ کے آخری چہارشنبہ کو طبیعت کچھ سنبھلی تھی ۔ یہ اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے ۔

۳‘۴۔ربیع الاوّل وربیع الآخر

یہ اسلامی کیلنڈر کے بالترتیب تیسرے اور چوتھے مہینوں کے نام ہیں۔ لفظ ’’ربیع‘‘ کے لغوی معنی موسمِ بہار کی بارش کے ہیں ۔ البیرونی کاخیال ہے کہ ربیع کے معنی موسمِ خزاں (خریف)کے بھی ہیں ۔ ربیع کا مطلب موسمِ بہار بھی ہے ۔ دوسرا یہ کہ عرب جو بھی مال لوٹ کرلاتے تھے اسی مہینہ میں تقسیم کرلیتے تھے ۔ وہ مال چارحصوں میں تقسیم کیاجاتا تھا جسے عربی میں تربیع کہا جاتا ہے ۔ یہی لفظ ’’ربیع‘‘ کا منبع خیال کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی روایت ہے کہ دونوں مہینوں کا نام ربیع اس لئے رکھا گیا کہ یہ اس وقت موسمِ ربیع (بہار) میں واقع ہوئے تھے ۔ ربیع الاوّل کا مطلب موسمِ بہار کا پہلا مہینہ اور ربیع الآخر کا مطلب موسمِ بہار کا آخری مہینہ ۔ عموماً لوگ ربیع الآخر کو ربیع الثانی کہتے اورلکھتے ہیں۔ ۱۲؍ربیع الاول بعداز صبح صادق حضور رسول معظما رونق افروز ہوئے اور ۱۲؍ربیع الاوّل ہی کو ۶۳برس کی عمر میں رحلت فرمائی ۔۱۴نبوی ۲۷ صفر کو آپؐ نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی اور ۸؍ربیع الاوّل کو مدینہ طیّبہ پہنچے ۔ انہی مہینوں میں جنگ یرموک لڑی گئی جس میں مسلمانوں نے عیسائیوں کی عظیم الشان حکومت کی کمرتوڑدی تھی۔

۶‘ ۵ ۔ جمادی الاولٰی وجمادی الاخریٰ

یہ اسلامی کیلنڈر کے بالترتیب پانچویں اورچھٹے مہینے ہیں ۔ جمادی کا مطلب منجمد ہوجانا ہے ۔ اس زمانے میں یہ مہینے سخت سردیوں میں آتے تھے جس کی وجہ سے پانی منجمد ہوجاتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی روایت ہے کہ یہ دونوں مہینے ایسے موسم میں آتے جبکہ بارش نہ ہونے سے زمین خشک اور پیاسی ہوجاتی۔ لہٰذا جمادی زمین کی اس حالت کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔ اور لغوی معنی جمادی کے ’’آنکھ بے آنسو‘‘ لکھے جاتے ہیں ‘ اگر زمین کو آنکھ تصور کریں تو مطلب واضح ہوجاتا ہے ۔ ۲۲؍ ۲۳؍جمادی الاخریٰ کے درمیان ۶۳برس کی عمرمیں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے وصال فرمایا ۔ یہاں بھی عوماً لوگ جمادی الاخریٰ کو جمادی الثانی بولتے ہیں ۔

۷۔ رجب المرجب

رجب کے معنی وسط کے ہیں اور لغوی معنی تعظیم کرنا ہے ۔ اسلامی کیلنڈر کا یہ ساتواں مہینہ ہے ۔ یہ چار حرمت والے مہینوں میں سے بھی ہے ۔ رجب میں اہل عرب جنگ و جدال چھوڑدیتے تھے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ لوگ کہتے تھے ’’ارجبو‘‘ اپنی جنگ و جدال سے باز رہو ۔ ایام جاہلیت میں اس ماہ کی بڑی تعظیم تھی ۔ حضور ؐ نے ایک بار فرمایا کہ رجب ایک ٹھنڈے پانی کے چشمہ کی مانند ہے جو کہ آسمان سے بہہ رہا ہو ۔ اسی ماہ مبارک میں حضور کو معراج ہوئی ۔ آپؐ نے پہلی بار اسی ماہ میں جنگ میں حصّہ لیا ۔ اسی ماہ میں ۱۳ھ ؁ میں مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا ۔ رجب ہی میں حضرت عمرؓ نے فلسطین کا سفر کیا ۔ اسی ماہ میں پہلی بار بیت المقدس اسلامی سلطنت میں داخل ہوا ۔

۸۔ شعبان المعظّم

شعبان لفظ شعب سے ہے جس کے لغوی معنی علحدہ کرنا ہے ۔ یہ اسلامی کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ہے ۔ عرب اس ماہ میں پانی کی تلاش کے لئے نکل جاتے تھے انھیں ایک دوسرے سے علحدہ ہوناپڑتا تھا اس لئے اس ماہ کا نام شعبان پڑگیا اس کو شب برأت کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے ۔جس متبرک رات میں بندوں کے آنے والے سال کے اعمال کا حساب کتاب کیا جاتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

۹۔ رمضان المبارک

رمضان لفظ رمض سے نکلا ہے جس کے معنی موسم گرما کے ہیں یہ اس وقت موسم گرما میں واقع ہوتا تھا یہ اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے رمض کا مطلب جلانا بھی ہے اس ماہ اتنی سخت گرمی ہوتی تھی کہ پیروں کے تلوے جلتے تھے ۔ روایت ہے کہ روزوں کی وجہ سے روزداروں کے گناہ جلادئے جاتے ہیں یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن معظم نازل ہوااور اس میں ایک رات پوشیدہ ہے جس کی عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے جو شب قدر کہلاتی ہے ۔ ۳؍رمضان کو بی بی فاطمہؓ کا وصال ہوا ۔ ۱۵؍رمضان کو حضرت امام حسنؓ کی ولادت ہوئی ۔ ۱۷؍رمضان ‘جنگ بدر پہلی اسلامی جنگ ہوئی ‘۱۰؍رمضان کو حضرت خدیجہؓ وفات پائیں اور ۲۱؍رمضان کو حضرت علیؓ نے وصال فرمایا۔

۱۰۔شوال المُکرّم

ہ اسلامی کیلنڈر کادسواں مہینہ ہے ۔ اس کا چاند ’’ماہِ نو‘‘ دیکھنے پر عیدالفطر ہوتی ہے ۔لفظ شوال شائلہ سے نکلاہے شائلہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو سات آٹھ ماہ کے حمل کے دوران اپنا دودھ دینا بند کردیتی ہے ۔ایام جاہلیت میں یہ ایسے موسم میں آتا تھاجب کہ اونٹنیوں کا دودھ اٹھ جاتا تھا لہٰذا شوال نام رکھاگیا ۔ عرب اس کو نحوست کی علامت اورنحوست کامہینہ سمجھتے تھے خاص طور پر شادی بیاہ سے دور رہتے تھے حضور اکرمؐ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے اسی ماہ معظم میں عقد مسعود فرماکر اس نحس خیالات کی جڑیں کاٹ دیں یہی وجہ ہے کہ آج ماہ شوال المکرم میں بھی شادی کرنا نعمت عظمیٰ ہے ۔ ۱۵؍شوال ۳ھ ؁ غزوۂ اُحد واقع ہوا تھا ۔

۱۱۔ ذوالقعدۃالحرام

ذوالقعدہ اسلامی کیلنڈر کا گیارہواں مہینہ ہے ۔ اس کانام ذوالقعدہ اس لئے ہوا کہ عرب اُس زمانہ میں اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے ۔ ذوالقعدہ لفظ قعود سے نکلا ہے جس کے معنی بیٹھنے کے ہیں ۔ یہ مہینہ بھی ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جو حرمت والے اور متبرک ہیں ۔ عرب ان چار مہینوں میں جنگ سے سخت پرہیز کرتے تھے اور اگرکہیں جنگ ہورہی ہوتی تب بھی اسے ملتوی کرکے عارضی صلح کرلی جاتی تھی اور تمام چیزوں کوچھوڑ چھاڑ کر امن پسندی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں میں قیام کرتے تھے اس لئے اسے بیٹھے رہنے والا مہینہ قرار دیاگیا ۔لیکن ۵ھ ؁ میں جنگ خندق اسی مہینہ میں ہوئی تھی جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے ۔

۱۲۔ ذوالحجۃ الحرام

ذوالحجہ اسلامی کلینڈر کا آخری اور بارہواں مہینہ ہے ۔ ذوالحجہ نام اسلئے ہوا کہ اس میں حج ہوتا تھا اورتاقیامت ہوتا رہے گا ۔ ذو کا مطلب مالک ہے اوریہ مہینہ حج کا مالک ہے ۔ اس ماہِ معظم کی ۲۷؍تاریخ کو ۲۳ھ میں حضرت عمرؓ زخمی ہوئے اور یکم محرم ۲۴ھ وصال فرمائے ۔ ۱۸؍ذوالحجہ ۳۰ھ حضرت عثمان غنیؓ نے جام شہادت نوش فرمایا ۔
اسلامی کیلنڈر کے بارہ مہینوں کی اہمیت واضح ہوگئی کہ آج سارے عالم کے لئے سنہ ہجری ایک نعمتِ عظمیٰ ہے ۔
ہاں ! یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ رمضان المبارک کے بارے میں علمائے کرام کے نزدیک یہ کہنا جائزنہیں ہے کہ ’’رمضان آیا‘‘ بلکہ ’’ماہ رمضان آیا ‘‘کہنا چاہئے ۔ اور یہ اس حدیث شریف کی بناء پر ہے :لا تقولوا رمضان فان رمضان اسم من اسماء اللّٰہ تعالیٰ ولکن قولوا جاءً شھر رمضان یعنی صرف رمضان نہ کہو اسلئے کہ رمضان اللہ کے ناموں سے ایک ہے بلکہ ماہِ رمضان آیا کہو۔اور یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہ تمام اتفاقی امور جو ان مہینوں کے نام رکھنے کے وقت واقع ہوئے تھے اوریہ اس وقت کاذکر ہے جبکہ اہل عرب قمری سال کے مطابق کرنے کی غرض سے کبیسہ کو استعمال کرناجانتے تھے اورجو مہینے اس حال پر قرار پاتے ان میں تغیر واقع نہیں ہوتا تھا ۔
سنہ ہجری سے ہرماہ کی پہلی تاریخ معلوم کرنے کے طریقے
(۱) اگر کسی ہلالی ماہ کی ستائیس تاریخ کو نماز فجر کے بعد چاند دکھائی دے تو رواں مہینہ (۳۰) دن کا ہوا کرے گا اور اگر چاند دکھائی نہ دے تو پھر رواں مہینہ صرف(۲۹) دن کا ہوگا ۔
(۲)سنہ ہجری کے کسی بھی ماہ کی پہلی تاریخ معلوم کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی سنہ کو ۸ سے تقسیم کیجئے اور جو بھی عدد باقی بچے اس کو درج ذیل جدول میں اس ہندسہ کے نیچے متعلقہ مہینوں کی پہلی تاریخ معلوم کرسکتے ہیں ۔

calender1

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ جب محرم کی پہلی کویکشنبہ واقع ہوتو صفر کی پہلی کو سہ شنبہ ربیع الاوّل کی پہلی کوچہارشنبہ ربیع الآخر کی پہلی کو جمعہ اور جمادی الاولیٰ کی پہلی کو شنبہ اور جمادی الآخر کی پہلی کودوشنبہ رجب کی پہلی کو سہ شنبہ شعبان کی پہلی کو پنجشنبہ رمضان کی پہلی کو جمعہ شوال کی پہلی کو یکشنبہ ذوالقعدہ کی پہلی کو دوشنبہ اور ذوالحجہ کی پہلی کو چہارشنبہ واقع ہوگا ۔ اور اگر پہلی محرم کو دوشنبہ ہوتو پہلی صفر کو چہارشنبہ پہلی ربیع الاوّل کو پنجشنبہ علی ہذا لقیاس ۔ اور اگر پہلی محرم کو شنبہ ہو تو پہلی صفر کو دوشنبہ پہلی ربیع الاوّل کو سہ شنبہ علی ہذا القیاس ۔
ذیل کے جدول میں اسی کو تفصیلی طور پر واضح کیا گیا ہے :

calender2

’’شریعتِ اسلام نے چاند کے حساب کو اس لئے اختیار فرمایا کہ اس کو ہر آنکھوں والا افق پر دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے‘ عالم‘ جاہل‘ دیہاتی‘ جزیروں‘ پہاڑوں کے رہنے والے جنگلی سب کو اس کا علم آسان ہے ‘ بخلاف شمسی حساب کے‘ کہ وہ آلاتِ ر صدیہ اور قواعدِریاضیہ پر موقوف ہے‘ جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کرسکتا‘ پھر عبادات کے معاملہ میں تو قمری حساب کو بطورِ فرض متعین کردیا اور عام معاملاتِ تجارت وغیرہ میں بھی اسی کو پسند کیا‘ جو عبادتِ اسلامی کا ذریعہ ہے اور ایک طرح کا اسلامی شعار ہے‘ اگرچہ شمسی حساب کو بھی ناجائز قرار نہیں دیا شرط یہ ہے کہ اس کا رواج اتنا عام نہ ہوجائے کہ کرنے میں عبادت روزہ و حج وغیرہ میں خلل لازم آتا ہے‘ جیسا کہ اس زمانہ میں عام دفتروں اور کاروباری اداروں بلکہ نجی اور شخصی مکاتبات (خط و کتابت) میں بھی شمسی حساب کا ایسا رواج ہوگیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو اسلامی مہینوں کے نام بھی پوری طرح یاد نہیں رہتے‘ یہ شرعی حیثیت کے علاوہ غیرت قومی اور ملی کا بھی دیوالیہ پن ہے‘جبکہ ماضی میں الحمدللہ حضرات و خواتین محترم صرف ہلالی اور صرف مہینوں ہی کو ازبر یاد رکھتے تھے اور اسطرح سے ان مہینوں کے نام کہا کرتے تھے اور آج بھی انہیں اسی طرح نام یاد آتے ہیں۔ محرم ، تیرہ تیزی (صفر)، بارہ وفات (ربیع الاول) ، گیارھویں (ربیع الآخر) ، مدار (جمادی الاولیٰ) ، حسین شاہ ولی (جمادی الاخریٰ) ، رجب ، شعبان ، رمضان ، شوال ، بندہ نواز (ذوالقعدہ) ، بقرعید (ذوالحجہ) ۔ اگر دفتری معاملات میں جن کا تعلق غیر مسلموں سے بھی ہے‘ ان میں صرف شمسی حساب رکھیں ‘ باقی نجی خط و کتابت اور روز مرہ کی ضروریات میں قمری اسلامی تاریخوں کا استعمال کریں تو اس میں فرض کفایہ کی ادائیگی کا ثواب بھی ہوگا اور اپنا قومی شعار بھی محفوظ رہے گا۔اور اجر عظیم ہے‘‘۔
کتابیات:
۱۔ محبوب الارب ۲۔ ضاجۃالطرب فی تقدمات العرب
۳۔ اٰثار الباقیۃ ۴۔ تقویم العرب الاسلام
۵۔ رسالہ سیارہ ڈائجسٹ نومبر ۱۹۶۴ء ۶۔ رسالہ ہمجولی جولائی ۱۹۴۰ء ۷۔ روزنامہ سیاست ۸۔ تاریخ طبری
vvv156شنبہ
– – –
Mohd.Raziuddin Moazzam
Hyderabad – Deccan
محمد رضی الدین معظم

Share
Share
Share