کتاب کا نام – دکن کی چند ہستیاں
مصنف :ڈاکٹر روف خیر
مبصر: ڈاکٹرمسعود جعفری
روف خیر جانے ما نے شاعر ،ادیب اور نکتہ داں ہیں۔وہ تحت میں شعر پڑھ کر مشاعرے لو ٹٹے ہیں۔ان کی تخلیقات ہند و پاک کے رسائل میں چھپتی رہتی ہیں۔ا ن کے شعروں پر اپنے تو خیر اپنے ہیں بیگانے بھی دل کھول کر داد دیتے ہیں۔انہیںImage Breaker بھی کہا جاسکتا ہے۔وہ اساتذائے سخن پر بھی بڑی بے باکی سے نکتہ چینی کرتے ہیں۔وہ حسن ظن اور عقیدتوں کے بت توڑتے چلے جا تے ہیں۔ خار زار راہوں سے گزرنا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے۔
زیر نظر کتاب کا نام حیدرآ باد کے چند قلم کار یا حیدرآ باد کے چند شاعر و ادیب ہو نا چا ہیئے تھا۔انہوں نے بلا وجہہ دکن کا لفظ کا استعمال کیا ہے۔ دکن پاٹلی پتر اور کلنگا کی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکا ہے۔ شاعروں اور ادیبوں کے لئے ہستیوں کا لفظ بھی غرابت پیدا کر رہا ہے۔روف خیر نے شاعروں کے اشعار تو درج کئے ہیں لیکن ان کا بڑے پیمانے پر لسانی و معنوی جا ئزہ نہیں لیا۔ کئی مقامات پر بہت سے شعر زبان و بیان اور مفہوم کے اعتبار سے کھٹکتے ہیں۔روف خیر کی سوچ میں گہرا تضاد پا یا جا تا ہے۔وہ ایک را سخ العقیدہ مذہبی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔پھر بھی وہ ایسی شاعری کا انتخاب کرتے ہیں جو معتقدات کا پیرہن چاک چاک کر دیتی ہے۔مخدوم کا یہ شعر ملا حظہ کیجیئے۔
گلوئے یزداں میں نوک سناں بھی ٹوٹی ہے
کشاکش دل پیغمبراں بھی ٹوٹی ہے
خدا کے گلے میں نیزے کی نوک کیسے ٹوٹ سکتی ہے؟کشاکش کا خاتمہ ہوتا ہے کشاکش ختم ہوتی ہے۔ کشاکش ٹوٹتی نہیں۔یہ غلط زبان ہے۔ اس شعر کو یوں بھی کہا جاسکتا تھا
گلوئے ظلم میں نوک سناں بھی ٹوٹی ہے
کمان ظالم نو شیر واں بھی ٹوٹی ہے
مخدوم کا یہ شعر بھی دعوت فکر دے رہا ہے ۔ملا حظہ کیجیئے۔
کیسے ہیں خانقاہ میں ارباب خانقاہ
کس حال میں ہے پیر مغاں دیکھتے چلیں
پیر مغاں یعنی شراب بیچنے والا۔اس کا تعلق خا نقاہ سے نہیں میخانے سے ہو تا ہے۔ پیر مغاں کا لفظ خا نقاہ سے آنکھیں چرا رہا ہے۔یہ شعر یوں بھی ہوسکتا تھا۔
کیسے ہیں خانقاہ میں ارباب خانقاہ کس حال میں ہیں چارہ گراں دیکھتے چلیں
سلیمان اریب کے ایک شعر میں شہری کا لفظ بے معنی ہو گیا ہے۔دیکھیئے
آج وہ ہند کا شہری نہیں کہلا سکتا جس نے اک بار نہ زنداں کی ہوا کھائی ہے
آج وہ ہند کا آزاد نہیں کہلاتا جس نے اک بار نہ زنداں کی ہوا کھائی ہے
یہاں آزاد سے مراد مولانا آزاد ہیں جو مجاہدتحریک آزادی تھے۔اگر کوئی شخص جیل نہیں گیا تو وہ مجاہد آزادی Freedom Fighterنہیں کہلا یا جاسکتا البتہ وہ ملک کا شہری ہوتا ہے۔اس کی شہریت منسوخ نہیں ہوتی۔ایک اور شعر دیکیئے۔اس میں شبنم ساتھ نہیں ہے کہا جا رہا ہے صحیح زبان نہیں ہے۔خورشید بکف کی ترکیب بھی محمل ہے۔سورج آگ کا گولہ ہے اسے کیسے لے کر چل پھر سکتے ہیں۔اس کے بجائے شمع لئے پھرتے تھے کہا جاسکتا ہے۔اس میں معنویت ہے۔شبنم کی جگہ تارے کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔اریب کا شعر د یکھیئے۔
وہ بھی اک وقت تھا خورشید بکف پھرتے تھے یہ بھی اک وقت ہے شبنم بھی نہیں ساتھ اپنے ا صل
وہ بھی اک وقت تھا شمع کو لئے پھرتے تھے یہ بھی اک وقت ہے تارہ بھی نہیں ساتھ اپنے متبادل شاذ تمکنت کا مصر عہ مناسب لفظوں سے محروم ہو گیا ہے۔دیکھیئے۔
ترے رنگ و بو کے وہ قافلے ترے پیرہن سے چلے گئے
قافلوں کا لباس سے نکل جانا نہ روز مرہ محاورہ ہے او نہ ہی زبان۔ اس طرح کہا جاتا تو غنیمت ہو تا۔
ترے رنگ و بو کے وہ سب نشاں ترے پیرہن سے چلے گئے
شاذ کہتے ہیں۔زنجیر گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا ۔گل و لالہ کے ساتھ زنجیر کا استعمال بے محل ہے۔
اسے یوں کہا جاسکتا تھا۔ ٹہنی گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا ۔ یا پھر تو شاخ گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا۔
ٹہنی گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا ائے باد بہار اپنی آمد کا پتہ دینا
روف خیر نے ابن احمد تاب کا ایک شعر ابتدا میں کوٹ کیا ہے جو معنوی اعتبار سے غلط ہے۔
حریر پوش ہو ابلیس تو خدا کہیئے لباس خستہ میں پیغمبری بھی جھوٹی ہے
حریر و اطلس و کمخواب کا لباس زیب کر لینے سے شیطان کو خدا کیوں کہا جائے ۔نعو ذ با للہ کیا خدا ایسے ملبوس میں رہتا ہے ۔وہ تو ایک تجلی ایک نور ہے۔اسے لباس سے کیا تعلق؟دوسرا مصرعہ بھی واہیات ہے۔پیغمبر معمولی لباس ہی زیب تن فرماتے ہیں۔وہ ریشمی اور قیمتی پیرہن زیب نہیں کرتے۔اس کے باوجود ان کی نبو وت ور رسالت سچی ہوتی ہے۔اس شعر کو یوں ہو نا تھا۔
حریر پوش ہو ابلیس تو تعجب کیا لباس خستہ میں جادو گری بھی جھوٹی ہے
تاب کا ایک مصرعہ محل نظر ہے۔
لوگ نا حق مجھے نغموں کا مسیحا سمجھے اصل
لوگ نا حق مجھے نغموں کا شہنشاہ سمجھے متبادل
تم بہاروں میں جو سنجیدہ قدم ہو جا تے اصل
تم بہاروں میں ذرا تیز قدم ہو جا تے متبادل
سنجیدہ گفتگو ،سنجیدہ آدمی کہا جا تا ہے ۔سنجیدہ قدم نہیں کہا جا تا۔تیز قدم ،آہستہ قدم کہا جا تا ہے۔اوج یعقوبی کا ایک شعر دیکھیئے۔
آپ کیا جلوہ گر ہو گئے گل پسینے میں تر ہو گئے
ماتھا پسینے سے تر ہو گیا۔جسم پسینے سے تر ہو گیا۔پھول پسینے سے تر ہو گیا نہیں کہا جا تا۔یہ خلاف محاورہ ہے۔اس کو یوں باندھا جاسکتا ہے۔
آپ کیا جلوہ گر ہو گئے گل بھی شبنم سے تر ہو گئے
فکر ہوتی رہی تقسیم نظر بٹتی رہی اصل
زیست ہوتی رہی تقسیم نظر بٹتی رہی متبادل
ہم نے صرف چار شاعروں کے فن کا سر سری احاطہ کیا ہے۔اس میں دیگر شاعروں کی کہکشاں بھی ہے۔ ذکی بلگرامی اور رضا وصفی کی غزلیں تخلیقی وفور میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ذکی کایہ شعر دل کو چھو رہے ہیں
بھلا سعودی عرب سے ہم اور کیا لاتے
یہی بہت ہے بچا لائے آبرو اپنی
بدن پہ گرد کثافت جمی ہوئی ہے ذکی
نہاوں دھو وں تو پھر تذکرہ کروں اس کا
روف خیر نے جدید لب و لہجہ کے بانکے قد آور شاعر رضا وصفی پر بہت مخٹصر لکھا ہے۔ادبی بقالت سے کام لیا ہے۔ وصفی کے خوبصورت اشعار ملا حظہ کیجیئے اور لطف اندوز ہو یئے۔
اپنی پہچان کیسے دوں تجھ کو ایک ہی تو لحاف ہے میرا
اس بدن کے مکان میں وصفی کچھ دنوں اعتکاف ہے میرا
یوسف قادری کے ایک شعر میں سوتی ہے سے سوقیانہ پن پیدا ہو گیا ہے ۔
روز یوسف کے ساتھ سوتی ہے اک غزل قا فیوں کے بستر پر
سوتی ہے کو ہوتی ہے سے تبدیل کیا جائے تو رکاکت زائل ہو جا ئے گی۔ مثال کے طور پر ملا حظہ کیجیئے۔
روز یو سف کے ساتھ ہوتی ہے اک غزل قا فیوں کے بستر پر
روف خیر نے یوسف قادری کے بارے میں لکھا ہے کہ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی کتاب کے مصنف۔اس جملہ میں دو لفظ غلط استعمال ہوئے ہیں۔ایک بڑی اور دسرا مصنف۔وہ بڑی نہیں ضخیم کلیات ہیں ۔مصنف نہیں شاعر۔یوسف قادری شاعر ہیں۔انہوں نے اپنی شاعری کا ا نگریزی زبان میں تر جمہ کیا ہے۔ درست جملہ یوں ہوگا۔ اکیسویں صدی کے ایک ضخیم شعری مجموعہ کے شاعر۔ روف خیر نے نے کل 32 مضامین لکھے ہیں۔کتاب میں بہت سی اغلاط ہیں۔پروف ریڈینگ ا چھی طرح نہیں کی گئی۔کتاب دہلی کے ایجو کیشنل پبلیشنگ ہاوس نے شا ئع کی ہے۔اس کی قیمت مبلغ200 ہے۔اس مو بائل پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔09440945645 ۔کتاب کا سر ورق جاذب نظر ہے۔کتاب مجلد ہے۔روف خیر نے اسے اپنے نھنے سے پیارے سے پوتے کے نام معنون کی ہے۔کتاب کی پشت پر روف خیر کی تصویر ہے۔سر ورق پر تین رنگوں لال ،اودے اور سفید کا حسین امتزاج ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ان کی اور تصانیف کی طرح اس تصنیف کا بھی ادبی دنیا میں خیر مقدم کیا جا ئے گا۔
۲ thoughts on “دکن کی چند ہستیاں – مصنف:روف خیر- – مبصر: ڈاکٹرمسعود جعفری”
تبصرہ پڑھ کر بہت افسوس ہوا. کیا جعفری صاحب کو کتاب میں کوئی خوبی نظر نہیں آئی؟ ایسا لگتا ہے کہ صرف خامیاں دکھانے کے لیے کتاب کا مطالعہ کیا گیا ہے. یہ ایک بددیانتی ہے.
محمد مزمل. اورنگ آباد
Dr Raoof Khair sahab ki kitab deccan ke chand hasteeyan per dr jaffery sahab ka tabsera padh ker afsoos howa . Kia hyderabad maen ek adeeb doosre adeeb ko bardasht nahee kerte? Tabsera maen marhoomean shoora ke kalam mean tarmeem karke farsi ke saadi sheerazy ke khool kee nafee karte kya? woo khete haen ke khata ast buzrugaan gireftan khata ast.
Ataullah Khan
chicago USA