گوہرِ آبدار نظام آباد سے برآمد
رحمن جامیؔ
الحرا ہل کالونی، مہدی پٹنم ، حیدرآباد
ایک زمانے کے بعد اچانک ’’گوہرِ آبدار‘‘ہمارے پرانے اور بے تکلف دوست کا مریڈ اقبال متینؔ کے ذریعہ سے نظام آباد سے برآمد ہوا ہے جو واقعی آبدار بھی ہے اور ازحد بیش قیمت بھی چونکہ اس ’’گوہرِ آبدار‘‘ کو اُردو دنیا کے مشہور و معروف افسانہ نگار و ناول نگار(اور شاعر) جناب اقبال متینؔ نے اپنے ہاتھوں سے بڑی توجہ اور دلجوئی کے ساتھ تراش خراش کے بعد دورِ حاضر کے اہل نظر و اہلِ دانش و بینش کے سامنے پیش کیا ہے اس لئے اس ہیرے کی پیش کشی پر اپنے حصے کی پوری پوری داد حاصل کرنے کے مستحق بھی ہیں۔
عزیزی ڈاکٹرمحمد عبدالعزیز سہیلؔ جب اپنے بھائی محمد عبداللہ ندیمؔ کا شعری مجموعہ ’’گوہر آبدار‘‘ کا مبیضہ میرے پاس لے آئے اور اس بات کی وضاحت کی کہ’’ مجھے اقبال متین ؔ صاحب نے بھیجا ہے اور آپ سے اس کا دیباچہ لکھ دینے کی سفارش کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ رحمن جامی ؔ سے دیباچہ لکھانے کا مطلب ہے اقبال متین ؔ ہی سے دیباچہ لکھانا اس لئے کہ رحمن جامی ؔ میرا پرانا یار ہے وہ انکار نہیں کرے گا۔‘‘ اور میں سچ مچ انکار نہیں کرسکا اگرچہ کہ میں اضلاع کے شعراء کے مسودوں کے نوک پلک درست کرنے میں مصروف تھا اُردو اکیڈمی میں مسودے داخل کرنے کی تاریخ کا اعلان ہوچکا تھا ایسی صورت میں دیباچہ لکھنے کا مطلب تھا پوری توجہ کے ساتھ سارا مبیضہ پڑھنا اور پھر پوری ایمانداری سے پیش لفظ لکھنا جناب اقبال متینؔ سے پرانی اور بے لوث دوستی کے پیشِ نظر انکار کی گنجائش ہی نہیں تھی۔
زیرِ تکمیل سارے امور کو پس پشت ڈال کر ’’گوہر آبدار‘‘ کے مطالعہ میں کھوگیا مجھے سچائی کے اظہار میں کوئی باک نہیں ہے کہ گوہر آبدار کا مبیضہ دیکھ کر میری آنکھیں واقعی چندھیاگئیں۔اس بات کااعتراف بھی مجھے کرناپڑا کہ محمد عبداللہ ندیمؔ اگرچہ کہ اقبال متینؔ کے واحد شاگرد ہیں مگر لاکھوں میں ایک ہیں۔ محمدعبداللہ ندیمؔ کی شاعرانہ سوچ عصر حاضر کے دیگر شاعروں کی طرح ہوتے ہوئے بھی بالکل الگ ہے ۔محمدعبداللہ ندیم ؔ کا طرز اظہار بھی جداگانہ ہے آج تک کی روایت یہی ہے کہ شاعر نے غزل میں اپنے محبوب کو تذکیر میں مخاطب کیا ہے لیکن عبداللہ ندیم ؔ نے اپنے محبوب کو صیغۂ تذکیر کی جگہ بہ بانگِ دہل اکثر تانیث میں مخاطب کیا ہے
کئی دنوں سے نہ آیا خیال بھی اس کا
کبھی کبھی وہ خیالوں میں آنکلتی تھی
بعض غزلوں کی زمینیں نئی نئی ہیں۔ اکثر و بیشتر جگہ لہجہ بھی نیا اور چونکادینے والا ہے ۔
ہم سے مل کر ہمیں سناؤ کچھ
دل میں آؤ اسے جتاؤ کچھ
صرف کہنے سے کچھ نہیں ہوتا
بات جب ہے کہ کر دکھاؤ کچھ
بعض جگہ انداز سادا ہوتے ہوئے بھی Demandingاور بہت Challenging ہے۔
اب تو ائے دل ترا خدا حافظ
چارہ گر بھی سنا ہے بسمل ہے
موت کو اپنی بھول مت جانا
زندگی کی وہی تو منزل ہے
بہت خوبصورت طنز ہے ان اشعار میں ناقابل تردید حقیقت ہے آج کل مریض چلتا ہوا کسی بھی Corporateدواخانے جاتاہے اور واپس ایمبولینس میں گھر آتا ہے کبھی زندہ کبھی مردہ حالت میں اور اس کے ساتھ کبھی ہزاروں اور اکثر لاکھوں روپیئے میں ڈاکٹروں اور دواخانے کا بل ہوتا ہے ۔ یوں تو اس تلخ حقیقت سے کون واقف نہیں ہے کہ موت ہی زندگی کی حقیقی منزل ہے لیکن اس کا احساس کتنے لوگوں کو ہے شاعر نے یہاں بڑی متانت سے اس کا احساس دلایا ہے کہ انسان کو موت یاد رہے تو وہ ازخود گناہوں سے بچتا رہے گا اوروں سے زیادہ اپنے آپ پر زیادتی کرنا چھوڑدے گا۔ گویا شاعر نے مذکورہ بالا شعر میں اپنے ناصح ہونے کا فرض بھی بڑی خوبی سے نبھایا ہے جو اس کی شاعری کا اہم مقصد بھی ہے
بستی کو جلادیتا لٹیروں کی میں اب تک
ایسا مجھے کرنے نہ دیا آپ کے گھر نے
باعزم و باعمل آدمی کیلئے بھی کیسی کیسی مروتیں اور مزاحمتیں بھی راہ کا روڑا بن جاتی ہیں اس کی خوبصورت مثال اس مذکورہ شعر میں ہے کن کن اشعار کا ذکر کیا جائے ویسے تو کئی خوبصورت اشعار اس گوہر آبدار میں ملیں گے جنہیں پڑھ کر بے ساختہ واہ نکل جاتی ہے۔ زندگی کے مسائل اور کئی جذبے پڑھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی شعر کسی نہ کسی کو متاثر کرہی دیتاہے۔ یہی گوہر آبدار کی خاص بات ہے۔ معاحیث الکل ندیمؔ انسانیت کا درد رکھنے والا شاعر ہے جو مسلمان بھی ہے وہ کسی ازم کا شکار نہیں گویا فطری شاعر ہے ۔
میں وہ اشعار نیچے پیش کررہاہوں جو گوہر آبدار کے دورانِ مطالعہ میرے دامن کشاں رہے ۔ہوسکتا ہے آپ کو ان سے ہٹ کر ندیم کے دیگر اشعار اچھے لگیں۔
یہ تو نہ دیکھ کہ وہ کس کا کون ہے ائے دوست
کسی گرے ہوئے انساں کو تو اٹھا پہلے
وہ کہہ رہا ہے کہ طوفاں میں ہاتھ ہے میرا
جو مجھ کو کہتا تھا کشتی کا ناخدا پہلے
۔۔۔*۔۔۔
خواب آسا ہے امیدوں کا سفر آجاؤ
تھک گئے ہوتو سنو لوٹ کے گھر آجاؤ
۔۔۔*۔۔۔
سچ ہے تنہائی سے بڑھ کر تو نہیں رسوائی
اب زمانے کا نہیں مجھ کو بھی ڈر آجاؤ
۔۔۔*۔۔۔
موسم گل کو ترے درد سے نسبت ہے کہ یہ
دل کا سوکھا ہوا ہر زخم ہرا کرتاہے
۔۔۔*۔۔۔
قرض خوشیوں کا ہے باقی مگر آنکھوں سے مری
خون بہہ بہہ کے فقط سود ادا کرتاہے
۔۔۔*۔۔۔
ہوکر جنوں پر ست ملا کس قدر سکوں
سولی پہ آگہی کی لٹکتا رہا تھا میں
۔۔۔*۔۔۔
دونوں دلوں کو پیرجی ’’تعویذ ضبط‘‘ دیں
کچھ ان پہ پڑھ کے پھونک دیں کچھ مجھ پہ دم کریں
۔۔۔*۔۔۔
جیتے جی پانا تو ممکن ہی نہیں ہے مجھ کو
میں تصور ہوں زمیں کا تو گگن کا احساس
۔۔۔*۔۔۔
مشکل سے نیند آئی تھی قسمت سے سوئے تھے
ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے یہ کس نے جگادیا
۔۔۔*۔۔۔
صبح وہ بھلادے گا تو بھی بھول جا ائے دل
اس سے جتنے بھی پیماں رات بھر ہوئے ہونگے
۔۔۔*۔۔۔
تجھ پر نہیں الزام یہ ویرانہ تو مجھ کو
محبوب تھا محبوب ہے محبوب رہے گا
۔۔۔*۔۔۔
قسم خدا کی وہ رخ آفتاب جیسا تھا
میں بے بصر ہوا بس اس پہ اک نظر کرکے
۔۔۔*۔۔۔
آپ کا کیا ہے کہ ہیں آپ بلند کے مکیں
ہم نشیبوں میں ہیں سیلاب میں بہہ سکتے ہیں
۔۔۔*۔۔۔
کوئی مجرم نہیں معصوم ہیں ہم دونوں ہی
کھودیا میں نے تجھے تو نے گنوایا مجھ کو
۔۔۔*۔۔۔
’’آپ گھر پر نہیں‘‘ پر بولنے والے سے مجھے
بات یہ آپ کی کہلائی ہوئی لگتی ہے
خود اپنے دل پہ کسے اختیار ہوتاہے
وہ میرے آگے سے سوبار بے سبب گزری
۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کی قیمت : 250/-
کتاب ملنے کا پتہ ۔
۱۔ ھدیٰ بک ڈپو۔پرنای حویلی حیدرآباد
۲۔ مصنف ۔ مجید منزل لطیف بازار۔نظام آباد۔
فون۔ 09440785863