افسانہ ۔ تعبیر
وسیم عقیل شاہ
(15 شاہکار ٗسالار نگر ٗ جلگاؤں ٗمہارا شٹر ٗ انڈیا ۔ 9322010089 )
()
عجب سی تھکن ہے اور ایک قسم کی تسکین بھی ۔۔۔
بدن ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرا جا رہا ہے۔کیا ہوا مجھے ۔ ۔؟
ایک درد رینگتا ہوا بار بار ہونٹوں پر تھر تھراہٹ چھوڑے جا رہا ہے۔جسم تو بے نشان ہے! پھر یہ کن زخموں کی تڑپ ہیں ؟اور یہ راحت کیسی؟کیا میں مبرّاکر دیا گیا ہوں؟یا پھر بڑی دور کے ریزہ ریزہ ہوئے مسافر کی طرح اپنی منزل پا چکا ہوں ؟
کہاں تھا میں۔۔۔؟ کہاں سے چلا تھا ۔۔۔۔؟
وہ کانٹے دار جھاڑیاں اوڑھے چٹیل زمیں تھی،سوکھی بھی اور بنجر بھی۔۔۔بے جان و بے نباتات،نہ چرند نہ پرند۔۔۔وہ تو بس تیز اور گرم ہواؤں کے بیچ زمین کا ایک بے ڈھنگا سا ٹکڑا تھا۔ جہاں سورج آگ کے گولے داغے رہتااور برسات بجلی کی طرح منہ دکھائی کی رسم ادا کرتی ہوئی روپوش ہوجایا کرتی تھی۔ یہ پیاسی ایک ایک بوند کو ترستی اور اپنی بد نمائی پر بن کے سائیں سائیں سناٹوں کی آوازوں میں آواز ملا کر دہا ڑے مارا کرتی تھی۔
مجھے ! ہاں ہاں مجھے ہی ان کانٹوں میں دیدارور کھلانے اتار دیا گیا ۔۔۔!جیسے عالم اروح سے ہی مجھے ان اجاڑ نگریوں کا امین مقرر کیا گیا ہو۔تو میں کیا کرتا ۔۔۔ایک بوجھ گلستا ں کاندھوں پر لیے ان گلوں کی آرزو میں نکل پڑا جن کو میرے لہو سے شادابی اور بہاریں نصیب ہونی تھیں۔
شدید زخموں کی تاب و ضبط سے بے نیاز میں ان کانٹوں کو ان کے انجام تک پہنچاتا رہا جنہوں نے اسے یرغمال بنائے رکھا تھا۔اس نے بھی سینہ چیرتے ہوئے میرا سواگت کیا۔درد سے کراہتے ہوئے بھی وہ لبوں سے تسکین آمیز تبسم بکھیر نے لگی۔پھر میں نے اپنے قوی کندھوں پر لٹکتے جھولے سے وہ نایاب گوہر نکالے جن کی بویائی سے میرے ضمیر پر چڑھی فرائض کی مالائیں ایک ایک کر کے اترنے لگی۔ اور د ھیرے دھیرے مجھے انوکھا سا ہلکا پن دے گئی۔میں اس کار خیر میں محو اور وہ پگلی اپنے کل کو لیکر مجھ سے اناپ شناپ سوال کیے جارہی تھی۔جس پر میں صرف یہی کہتا رہا ۔۔’’ہمت مرداں تو مدد خدا۔‘‘
کمبخت یہ بادل نہ ٹوٹ پڑتے تو میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر پانیوں کے چشمے بہا دینے والا تھا۔آخر وہ بھی تو رحیم کے آ غوش ہی میں تھے ،بھلا ان کو کیسے مجھ پر رحم نہ آتا۔۔۔! پھر اچانک ایک دن زمین کی ننھی ننھی کونپل بیٹیوں نے آسمان کا وسیع و عریض تخت دیکھا تو میں خوشی سے پھو لا نہ سمایا۔اور جب آن کی آن میں ان چھوٹی چھوٹی ہستیوں کے ہاتھ پاؤں میں سبزے کی جان نمایا ں ہونے لگی تو میں باؤلا سا ہو گیا۔وہ بڑھنے لگے ان کا قد بڑھنے لگا۔اب وہ صبح کی پیاسی کرنوں کو شبنم پلاتے،راتوں کو آسمانی مخلوق کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے،بارشوں میں ایک دوسرے پر چھنٹے اڑاتے،اٹھلاتے،اتراتے اور سر د ہواؤں سنگ جھو لتے تھے۔میں فرط مسرت سے انھیں دیکھتا ، ان کے تابناک مستقبل کی دعائیں مانگتا اورحسب معمول ہر طرح کی آفات و خطروں سے انھیں محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔
جب وہ بلوغت کی دہلیز پر قدم جما نے لگے اور اٹھ اٹھ کر اپنے وجود کو دکھانے لگے تو راہگیروں نے ادھر کا رخ کیا ،پرندوں نے اپنے نشیمن ان کے بازوؤں پر تعمیر کیے جن کی چہچہا ہٹوں سے سارا گلشن مترنم ہو اٹھا۔برسات نے رحمتیں لٹائی۔ہوائیں یہاں سے گزر کر ترو تازہ ہوجایا کرتیں اور ہر سمت پہنچ کر یہاں کے گلوں کی، خوشبوؤں کی اور رنگوں کی کہانیاں سنایا کرتی۔
لیکن ایک دن میں دیکھا کہی دو ر آسمانو ں میں ظلمت کے گھوڑوں پر سوارہزاروں بادل آنکھوں مین بدلے کی آگ لیے اسی طرف دوڑے آرہے ہیں۔اچانک سرد ہواؤں نے طوفاں کا پہلوں بدلا۔ آسمان نے کالی گھٹاؤں کی چادر اوڑھ لی ۔بجلیاں دل دہلادینے والی آوازوں کے ساتھ یلغار کرنے لگی ۔۔۔پھر جتنی بھی آفات ہوسکتی تھیں سب کے سب بیک وقت اس حسین گلشن پر ٹوٹ پڑیں۔وہ سب ایک دوسرے کو لا حاصل سہارے دینے لگے،مڑنے لگے ،ٹوٹنے لگے،اکھڑنے لگے ،بپھرنے لگے۔مسافربھاگ کھڑے ہوئے ،پرندے بانہوں سے اڑ گئے،تنکے تنکے سے بنے گھونسلے تنکا تنکا ہوگئے۔شاخیں پتوں سمیت ڈھیر ہوگئی،خوشبوئیں ہواؤں میں حذب ہوگئی اور پھولوں نے ٹوٹ کر ، بکھر کر زمین کو شردھانجلی ارپت کردی۔
ہر طرف ایک دل سوز شورمچا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔!
ٹش ۔۔۔چھن۔۔ن۔۔ن۔۔ن۔۔۔چِک۔۔۔۔چِک۔۔۔
کانچ کا خالی گلاس جو میرے سرہانے رکھی میز پر دھرا تھا فرش پر گر پڑا۔میں اپنے چول مول بستر پر ہوں جو میرے رات بھر کی کروٹوں کی داستان سنارہا تھا،اس پر پسرا تکیہ ہمیشہ کی طرح مجھ پر تبسم طراز تھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے میں کھڑکی تک پہنچتا ہوں،جھانکتا ہوں ۔نئی صبح نکھر انکھرا اجالا پھیلنے لگا ہے۔ابھی اتنی جسارت ان آنکھوں نہ تھی کہ سورج کے مقابل ہوجائے۔میں مڑ کراچٹتی نگاہ سے کمرے کا جائزہ لیتا ہوں جو اندھیروں اور اجالوں کے بیچ کی فضا میں لپٹا ہوا تھا۔ اچانک نظریں ایک گلدستے پر جا کر ٹھہرجاتی ہیں جو مجھے ابھی کل ہی اپنی پینتیس سالہ تدریسی خدمات کے اعتراف میں اپنی سبکدوشی کے موقع پر تحفتاً ملا تھا۔میں نے مسکراتی نظروں سے اسے نہارا گویا خوشبو سے معطر اس کے سلام کا جواب دیا ہو۔اس سے پہلے کہ میں اس میں سجے پھولوں کو چھوتا مجھے گمان ہو نے لگا کہ ان سے میں ایک پھول جو اد ھ مرا سا لگ رہا تھا اپنی مرجھائی ہوئی آواز میں اس سوال کے ساتھ گویا ہو اکہ۔۔۔ ۔
’’ ماسٹر جی ! اگر وہ خواب تھا تو اس کی تعبیر کیا ہوگی۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
جواباً میں خود اسے سوالیاں نگاہوں سے دیکھتا رہے گیا۔۔۔۔