مدارس میں تعلیم ۔ کچھ حقائق‘چند گذارشات – – مولاناامانت علی قاسمیؔ

Share
امانت
مولاناامانت علی قاسمیؔ
مدارس
مدارس میں تعلیم

مدارس میں تعلیم ۔ کچھ حقائق‘چند گذارشات

مولاناامانت علی قاسمیؔ استاذ دار العلوم حیدرآباد
Email:
Mob: 07207326738

مدارس عربیہ اسلامیہ سرمایہ ملت کے نگہبان اورکردار سازی کے مراکز ہیں، یہ وہ فیکٹری ہیں، جس میں عمدہ اور قابل قدر اخلاق و عادات کے حامل افراد تیار کئے جاتے ہیں، یہ اسلام کے پاورہاؤس ہیں، جہاں سے مسلمانوں کو بجلی ملتی ہے اور اس بجلی کی روشنی میں مسلمان اپنے مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرتے ہیں، یہ اسلام کے مضبوط قلعے ہیں، جن کے محافظ اسلام کی فکری سلطنت کی حفاظت کرتے ہیں، یہ مدارس، ملت اسلامیہ کی بھنور میں پھنسی ہچکولے کھارہی کشتی کے کھیون ہار کا کردار ادا کررہے ہیں، مفکر اسلام مولانا علی میاں ندویؒ مدارس کی کردار سازی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

مدرسہ ہر ممکنہ سے بڑھ کر مستحکم، طاقتور زندگی کی صلاحیت رکھنے والا اور برکت و نمو سے لبریز ہے،اس کا ایک سرا نبوت محمدی کے چشمہ حیواں سے پانی لیتا ہے اور زندگی کے کشت زاروں میں ڈالتا ہے وہ اپنا کام چھوڑ دے تو زندگی کے کھیت سوکھ جائیں اور انسانیت مرجھانے لگے، مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں ، مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر ہے، جہاں سے اسلامی آبادی؛بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کارخانہ ہے، جہاں قلب و نگاہ، ذہن ودماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانیت کی نگرانی کی جاتی ہے۔(پاجا سراغ زندگی:۹)
اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے، لیکن مدارس میں تعلیمی سال کا آغاز شوال سے ہوجاتا ہے، نئے سال پر نئے عزائم اور منصوبے بنتے ہیں، پروگرام طے ہوتا ہے، پورے سال کا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے، آج جب کہ وقت کا فرعون، مغربیت کا طوفان ، مادیت کا سیلاب اور عیسائیت کی دسیسہ کاری پورے نظام اسلام کو نیست و نابود کردینا چاہتی ہے،اسلام مخالف طاقتیں اسلام اور اسلامی تہذیب وروایت کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دینے کی کوشش کررہے ہیں، ایسے ناگفتہ حالات میں مدارس کے تعلیمی ڈھانچے کو درست کرنا سب سے زیادہ ناگزیر ہے، ارباب مدارس اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مدارس میں آنے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے، قوم کے دو تین فیصد بچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، اگراس شرذمۂ قلیلہ کے مستقبل کو بہتر اورتابناک نہیں بنایا گیا، اگر ان کے اندر اسلامی روح نہیں پھونکی گئی، اگر ان کے اندر مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ، سینوں پر گولی کھاکر آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ملک و ملت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ نہیں پیدا کیا گیا تو مستقبل میں مدارس کے جلتے چراغ کی لو اور مدھم ہوجائے گی، مدارس کی افادیت و نافعیت پر سوال اٹھنے لگیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ مدارس کو منظم کیا جائے، اس کے تعلیمی نظام کو مزید فعال بنایا جائے تاکہ اس خاک کے ذرے سے ایسے افراد تیار ہوں، جن کے حوصلے نہ صرف جوازی ہوں، بلکہ بوڑھوں میں بھی جوانی کی روح پھونک سکتے ہیں، ان کی صلاحیتیں اتنی پختہ ہوں کہ حق کی آواز کو حق طریقے پر پورے عالم میں پہنچاسکتے ہوں، وہ اسلامی تہذیب کی حسن وخوبی سے آراستہ ہونے کے ساتھ اخلاق کی اس بلندی پر فائز ہوں کہ لوگ ان کی سیرت سے متأثر ہو کر اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
مدارس کے ذریعہ جو خواب حضرت نانوتویؒ نے دیکھا تھا کہ ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں اور فکر و نظر کے اعتبار سے اسلامی ہوں، اس خواب کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے، جب کہ ارباب مدارس حالات سے ہم آہنگ لائحہ عمل طے کریں، علماء کے لیے حالات اور زمانہ سے واقفیت انتہائی ناگزیر ہے، فقہاء لکھتے ہیں: ’’من لم یعرف بعرف أہل زمانہ فہو جاہ‘‘حالات اور احوال زمانہ سے واقفیت کے لیے رائج اور متداول زبان انگریزی سے گہری واقفیت ضروری ہے، اس کے بغیر کسی ادارے، تحریکات، کمپنی ، کمپنیوں کے معاہدے اور تجارت کی متنوع صورتوں سے ہم اچھی طرح باخبر نہیں ہوسکتے ہیں، ارباب افتاء اس کی ضرورتائید کریں گے کہ آج نئی نئی کمپنیوں کی مصنوعات ، ان کے معاملات، ان میں شرکت، ان میں ملازمت کے جواز و عدم جواز میں بہت دشواری پیش آرہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کمپنی کی تمام تر معلومات اور تعارفی کتابچے انگریزی زبان میں ہیں، جس سے ہم اچھی طرح واقف نہیں ہیں، اس لیے ضرورت ہے کہ انگریزی اول سے آخر تک ایک موضوع کے طورپر نصاب میں شامل کیا جائے، ہندوستان کے مختلف مؤقر اداروں میں اعدادیہ تاچہارم اور تخصصات کی شعبوں میں انگریزی کو داخل کیا گیا ہے اگر تمام مدارس میں اس حد تک بھی داخل کرلیا جائے تو کسی حد تک اس کمی کی تلافی کی جاسکتی ہے۔
دینی مدارس میں تعلیمی انحطاط یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، تدریس سے وابستہ ہر فرد کا یہ احساس ہے کہ تعلیمی معیار روبہ زوال ہے، ہر چند اس کی کوشش ہورہی ہے کہ معیار تعلیم بلند ہوں، قوم کو توقع کے مطابق ان کی خدمت کرنے والے افراد مہیا ہوسکیں، وقت اور حالات کے ہر چیلنج کو قبول کرنے کی نئی نسل میں صلاحیت پیدا ہوسکے ، لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے،اس انحطاط کے دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے کہ کتابوں کی تقسیم میں اساتذہ کی صلاحیت اور ان کے ذوق کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے، ایک استاذ کو نحو، صرف ، ادب ، فقہ ، منطق اس طرح کے کئی مضامین کی کتابیں دے دی جاتی ہیں، جب کہ ایک استاذ کو ایک یا دوفن میں ہی مہارت ہوتی ہے، ایک ڈاکٹر صرف آنکھ کا ماہر ہے اور ایک عام ڈاکٹر ہے جو ہر بیماری کا علاج کرتا ہے، ظاہر آنکھ کے مریض کو آنکھ کے ماہر ڈاکٹر سے جو فائدہ ہوسکتا ہے، دوسرے ڈاکٹر سے اس فائدہ کی امید نہیں کی جاسکتی ہے، ایک مرتبہ ایک عرب عالم سے راقم کی ملاقات ہوئی، انھوں نے دریافت کیا آپ کن موضوعات کا درس دیتے ہیں، میں نے کہا: حدیث ، فقہ، نحو وہ عرب عالم حیرت میں پڑگئے کہ آپ تین تین کے فنون کا درس کس طرح دیتے ہیں، ہمارے یہاں تو جو جس فن کا ماہر ہوتا ہے، اسی موضوع کا درس دیتا ہے، اس عرب عالم کے سامنے احقر نے مزید منظر نامہ پیش کرنے کے بجائے خاموشی میں ہی عافیت محسوس کی ، لیکن ہم ارباب مدارس کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ضرورہے کہ اسباق کی تقسیم کے وقت اساتذہ کی صلاحیت اور ذوق و بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے، ایک استاذ کو منطق اور بلاغت سے بالکل دلچسپی نہیں ہوتی ، ان کو یہ دونوں موضوع پڑھانے کے لیے دے دیا جاتا ہے، جب کہ اس استاذ کو نحو اور صرف سے گہری واقفیت ہوتی ہے اور ان کو اس سے دوررکھا جاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ موضوع سے استاذ مانوس ہوپاتاہے اور نہ بچوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچتا ہے۔
ایک ایسا انداز جس کے ذریعہ بچے استاذ کی بات سمجھ کر محفوظ کرلیں اور دوبارہ اس کا اعادہ کرسکیں، اس کو ہم طریقۂ تدریس سے تعبیر کرتے ہیں، طریقۂ تدریس نہ کوئی جامد شئ ہے اور نہ اس میں تقلید ضروری ہے، بچوں کے ذہن کو پڑھ کر ان سے اس سطح پر گفتگو کرنا ایک کامیاب استاذ کی علامت ہے، بعض مرتبہ اساتذہ قدیم روایتی انداز پر ہی درس دینا ضروری سمجھتے ہیں، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ بچے پہلے کے اعتبار سے حافظہ اور ذہن دونوں میں کمزورہوتے ہیں، اس لیے چہارم تک کی تدریس میں طریقۂ تدریس کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے، آج کل طریقۂ تدریس کو مؤثر بنانے کے لیے بلیک بورڈ پر مثالوں کی وضاحت کی جائے ، تمرین کے لیے ہوم ورک دیا جائے، کتاب سے ہٹ کر قواعد اور اس کی مثالوں کا اجراء کرایا جائے، انشاء اللہ اس کے بہتر اور مفید نتائج سامنے آئیں گے۔
دینی مدارس میں استعداد سازی پر توجہ دینے کے ساتھ طلبہ کی اخلاقی وروحانی تربیت کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، مادیت اور موجودہ عہد کے آلات لہو و لعب نے بلا شبہ طلبہ مدارس کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور طلبہ میں روحانی و اخلاقی اقدار کا فقدان نمایاں طور پر دکھائی دے رہا ہے،مادیت ومغربیت کی اس طوفان بلاخیز نے طلبہ کو لہو ولعب اور عیش وطرب کا ایسا بھیانک ہتھیار مہیا کردیا ہے کہ طلبہ کا ذہن بالکل دینی تعلیم اور نصابی کتابوں سے ا چاٹ ہو کر غیر ضروری اور مہلک کھیلوں اور انٹرنیٹ کی مضر مصروفیتوں میں صرف ہورہا ہے، ارباب مدارس کو حسب صواب دید اسے اقدامات کرنے چاہئے، جس سے بچوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کی نشو ونما اسلامی ماحول میں ہوسکے، موبائل کی کثرت اور انٹر نیٹ کے استعمال پر ہر ممکن بند لگانا چاہئے، غرضیکہ طلبہ مدارس کو اسلام کا غازی وسپاہی قوم کا رہبر و قائد بنانے کے لیے ارباب مدارس کو سنجیدگی سے غور کرنے اور چند نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

Share

One thought on “مدارس میں تعلیم ۔ کچھ حقائق‘چند گذارشات – – مولاناامانت علی قاسمیؔ”

Comments are closed.

Share
Share