کہانی : ہذیان ۔ ۔ ۔ از۔ بختیارخان خویشگی ۔ پشاور

Share

بختیار خان خویشگی

کہانی : ہذیان

انجینیئربختیارخان خویشگی
پشاور

گرمی اور ساون کی حبس سے جھینگروں کی کان کے پردے پھاڑنے والی آوازیں مجھے پریشان کر رہی تھیں ـــ
میں چارپائی سے اتر کر تہہ خانے کی لائبریری میں دبے پاؤں چلا گیا ــ تاکہ بُل ڈاگ جاگ نہ جائے ــ پھر وہ دُم ہلاتا رہتا ہے اور میرے پیچھے پیچھے ادھر ادھر ہپ ہپ کرتے ہوئے پھرتا رہتا ہے ـــ
میں نے امام ابن تیمیہ کی کتاب اٹھاکر اسکی ورق گردانی کرنے لگا ــ
اچانک صدر دروازے پر آہستہ آہستہ دستک ہونے لگی ــ

بل ڈاگ بھونکنے لگا ـ میں نے کتاب رکھ دی ــ ریسٹ واچ پر نظر ڈالی.. رات کے دو بج رہے تھے ـ میں نے لمبے لمبے ڈگ بھرکر تہہ خانے کی سیڑھیاں چڑھنے لگا ــ
چارپائی میں تکیے کے نیچے سے لوڈڈ تیس بور پستول نکال کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا ـ
بل ڈاگ مجھ سے پہلے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا تھا ــ میں نے دروازے کی طرف منہ کرکے اونچی آواز میں آنے والے کو مخاطب کیا ــ
” کون ـــ؟ ”
” خان صاحب ! میں ہوں ــ گلشن ترویدی ـ”
میں نے دروازہ کھولا ــ سامنے پستہ قد ، کالا بھجنگ گلشن ترویدی ( ترویتی) کتاب بغل میں دبائے کھڑا تھا ـ وہ اندر آیا ـ مجھ سے مصافحہ کیا ــ بل ڈاگ نے بھی دونوں پاؤں پر کھڑے ہوکر اُس کا سواگت گیا ـ میں اُسے تہہ خانے میں لے آیا ــ
میں نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرکے اُسے بیٹھنے کو کہا ــ وہ بیٹھا نہیں بس کھڑا ہی رہا ــ
اُس نے بلاتمہید کہا ـ
"خان صاب ! میں نے سنا ہے کہ آپ آواگون ( تناسخ) اور آتماؤں کے واپس آنے کا منکر ہے ـ؟ ”
میں نے زیرِ لب مسکرا کر کہا ـ
” آپ نے ٹھیک سنا ہے ـ”
” دیکھیں ! ابھی آپ بالک ہیں ــ آتماؤں کے فلسفے سے ناواقف ہیں ــ”
میں نے کہا ـ
” آچھا ”
اُس نے کہا ـ
” جو آتمائیں سنسار میں پُن سمیٹ کر پرلوک(عالمِ بالا) چلی جاتی ہیں تو وہ وہاں شانت ہوجاتیں ہیں اور جو آتمائیں اپرادھی ہوتی ہیں تو وہ آکاش تک تو پہنچ سکتی ہیں لیکن آگے نہیں جا سکتیں ــ پس وہ( ملیچھ آتما) بد روح بن کر دھرتی پر بھٹکتی رہتی ہیں ــ
بعض آتمائیں اپنے ادھورے کام نمٹانے کیلئے پھرتی رہتی ہیں .. اور …….”
میں نے ہاتھ اٹھاکر کہا ــ
” بس .. بس مجھے ان سب باتوں کا پتہ ہے ــ
لیکن میرا یہ عقیدہ ہے اور مجھے اس پر ایمان بھی ہے کہ نیک روح علّیین اور بد روح سجّیین میں جاتی ہے ــ
بد روح کو سجّیین میں قید کردی جاتی ہے ــ اور جسم میں قیامت کے دن داخل ہوگی ـ”
اس نے کہا ـ
” آپ کے دھرم کا ایک گوت کہتا ہے کہ قبر میں شریر کو کشٹ ( عذاب ـ تکلیف) دیا جاتا ہے ــ
شریر تو بے جان ہے اسے تکلیف کیسی پہنچتی ہے ــ؟
اس میں آتما ڈال کر عذاب دیا جاتا ہے ـ ظاہر ہے شریر دھرتی پر ہے اور آتما بھی شریر میں دوبارہ داخل کرنے کیلئے دھرتی پر ہی آتی ہے ــ”
میں نے کہا ــ
” لیکن ہمارا ایک فرقہ یہ بھی کہتا ہے کہ عذاب صرف روح کو دیا جاتا ہے ـ جسم کو نہیں جبکہ روح سجیین میںً ہے اور جسم دھرتی پر ـ سجیین اور دھرتی دونوں الگ الگ جہان ہیں ـ؟
اور یہ کہ جس جسم کو عذاب دیا جاتا ہے وہ دوسرا جہان ہوتا ہے .. جسے ہم برزخ کہتے ہیں اور برزخ کا ادراک یہ خاکی آنکھیں نہیں کرسکتیں ــ”
ہم ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے ـ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی میرے پیچھے کھڑا ہے ــ یکایک پیچھے مڑکر دیکھا … وہی گھاٹی والا مجذوب کھڑا تھا ــ
میں اس کی آمد پر حیران نہیں ہوا ــ
” حضرت ! یہ ..یہ … کیا کہہ رہے ہیں ـ؟ ”
مجذوب آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے ہمارے قریب آیا ـ ہم دونوں کے کاندھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر اتنی تیز آواز کے ساتھ …
” ہذیان ” لفظ بولا کہ گلشن ترویدی زمین پر گر گیا اور میں خواب سے بیدار ہوگیا –

راقم الحروف: انجینیئر بختیارخان خویشگی

Share
Share
Share