محوحیرت آئینہ در آئینہ جیسے کہ میں
سب رنگ نہادہ ، شکیل عادل زادہ
علامہ اعجاز فرخ، حیدرآباد – دکن
موبائل : 919848080612+
ای میل :
(نوٹ: گزشتہ ماہ جہانِ اردو پر پہلی مرتبہ نامور فکشن نگار شکیل عادل زادہ پر علامہ اعجاز فرخ نے ایک تعارفی مضمون لکھا تھا جس کی بے حد پذیرائی ہوئی ۔دنیا بھر سے تعریفی کلمات موصول ہوے ۔ ایک صاحب نے یہاں تک کہا تھا کہ اتنے بڑے ادیب پر پاکستان اور دیگر ممالک میں شکیل عادل زادہ پر نہ تو کوئی تحقیقی مقالہ لکھا گیا اور نہ کوئی کتاب حالاں کہ شکیل عادل زادہ اور ان کے فکروفن پر کئی مقالے لکھے جاسکتے تھے۔اس لیے احباب کے بے حد مطالبہ پر علامہ نے شکیل عادل زادہ کے فکروفن پر لکھنے کا ارادہ فرمایا ۔ہم علامہ کے شکر گزار ہیں اور اس بات کے متمنی بھی ہیں کہ وہ اس موضوع پر اور مضامین لکھیں گے۔)
پہلا مضمون پرھنے کے لیے یہاں کلک کریں
داستاں،اور وہ بھی داستاں طراز کی، اُس دشت نورد کی جس نے ذرّہ ذرّہ ریت چنی ہو اور ہر ذرّہ میں ایک کائنات دیکھی ہو‘ اس کائنات نے محرم راز سمجھ کر اپنا سب کچھ کھول دیا ہو‘ ظاہر بھی، باطن بھی،تب تو پھر اُس کی خاموشی میں سخن آرائی اور تکلم میں سکوت کی موسیقی صاف سنائی دیتی ہے۔میری کوتاہ نظری، کم آگاہی، علمی بے بضاعتی اور نادارئ قلم کے تئیں میں اظہارِ خیال کم کم ہی کیا کرتا ہوں۔کچھ اس لئے بھی کہ اب جبکہ نہ مصر ہے‘ نہ مصر کا بازار‘ کوئی سوت کاتنے والی بھی یوسف کے خریداروں میں نہ ہو تو نہ حُسنِ یوسف ہی انگشت تراش ہے نہ تاثیر زلیخائی باقی رہی اور کچھ یوں بھی کہ اظہارِ خیال انسان کے اندر کی کائنات تک رسائی چاہتا ہے۔ظاہری قد و قامت‘وجاہت‘طاقت کے تو پیمانے ہیں جس کا
حساب ہے۔اُس کی تو میزان بھی ہے۔لیکن جو اندر ہے وہ بے شمار ہے‘ بے حساب ہے۔کسی فنکار کے دروں سیر کی راہ صرف اُس کے فن کے وسیلے سے ہوسکتی ہے کہ اُس نے اپنے اندر کی کائنات میں کتنے شہر آباد کئے ہیں‘ بحروبر کا تناسب کیا ہے‘کتنی ندیاں گنگناتی ہیں‘کتنے آبشاروں کی گھن گرج ہے‘ بے انتظاربارشوں کے بعد سیل رواں خس و خاشاک کو بہا لے گیا تو کہا ں سبزے نے اپنی بساط بچھادی اور کہا ں پیڑ پودوں نے اپنے چوپال ڈال دی۔زاغ و غن بلبل و پپہیے نے کہا آشیاں بسالئے۔فن کار کی اس کائنات میں سیر کے لئے یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ اک کانٹے کی کسک سے سیر بیاباں ہوجائے۔جہاں زخم زخم چلنے کا حوصلہ نہ ہو وہاں خار خار وادیوں کا تذکرہ کیوں ہو۔پتھروں کی بستی ہو اور دلِ گداز نہ ہو تو پھر خون رسے کیسے۔داستاں نگاری کے لئے روشنای کہاں سے آئے۔
ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے۔نیند گہری تھی بہت۔نیند کہیئے کہ اسے گردش ایام کے ماروں کی تھکن۔نیند کہیئے کہ اسے صورت حالات کے افعی کاپھن ۔نیند کہیے کہ اسے سانس کے چلنے کی چبھن۔خواب میں ایسے ہوا تھا محسوس جیسے ایوانِ تصور کے دریچوں پر کھڑا‘کوئی دستک سی دیئے جاتا ہے‘دل نے یہ سونچ کے کروٹ بدلی۔اجنبی ہوگا صدا دے کے چلا جائیگا۔پر نہ آواز رُکی اور نہ دستک ہی رکی‘ اور پھر تیز ہوائیں جو چلیں۔کھڑکیاں کھل گئیں،جوکھل نہ سکیں ٹوٹ گئیں۔کسی کھڑکی سے چمکتا ہوا جگنو آیا۔ہائے حیرانئ دل۔ایک کرن چوم رہی تھی میری پیشانی کو ہائے بیتابئ دل۔اک کرن سارے وجود کومنور کرگئی۔ہر سمت ہر جہت روشنی ہی روشنی تھی۔سمت سے ماورا جہت سے ماورا پھر اسی روشنی کے بیچ سے۔ایک پیکر ابھرا۔کندنی بدن کے مسامات سے اُٹھتی ہوئی دھانی بھاپ ۔سماعت میں جوشؔ کا سُر اُترا
یہ بھاپ نہیں چادرِ گل سر پر تنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کب ایسا سراپا دیکھا تھا۔پیشانی روشن روشن ۔ابروؤں کی کھنچی ہوئی کمانیں۔پلکوں کی چلمن۔نیند سے بوجھل آنکھیں‘اوپر سے جوانی کا خمار‘اُٹھتی ہوئی رنگین گھٹائیں‘ستواں ناک‘کندنی رخسار‘یاقوت کے قلم سے تراشیدہ لب‘دانتوں سے عدن کے موتیوں کو خجالت اور دہن ‘کہ گویا عدن کی ساری بضاعت یمن میں ہو۔صراحی دار گردن‘سانسوں میں کوک تو سینہ میں قیامت کا تلاطم۔آگے کوپڑی ہوئی گھنے سیاہ بالوں کی چوٹی گویا خزانہ پر ناگ کا پہرہ۔چھلاسی کمر‘قامت زیبا‘تکلم میں بھنور‘کن آنکھوں میں جھجک کہ کوئی دیکھتا نہ ہو۔تبسم میں کنایہ کہ ’’جو مڑ کے میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو‘‘بے نیازی میں ادائے دلبری‘کئی رنگ لہرائے لیکن رنگوں میں ایک رنگ تیرے سادگی کا رنگ۔دل نے کہا’’کورا‘‘ لیکن قلم نے اپنی ٹھانی بے ساختہ لکھا ’’شکیل عادل زادہ سب رنگ کے حوالے سے‘‘ بس یہی کچھ ہوا تھا۔چند سطریں تحریر کردی گئیں۔تشنہ لبی نے بڑھ کے ساغر اٹھالیا تو یارانِ میکدہ میں دھوم ہوگئی کہ’’دو گھونٹ کا اے ساقی الزام نہیں لوں گا‘‘دُنیا بھر سے ٹیلی فون،ای میل، فیس بک،ایک تانتا سے لگ گیا اس سے اندازہ ہوا کہ شکیل عادل زادہ عشق پیشہ ہی نہیں معشوق صفت بھی ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ پیاس کودوام ہے پانی کو نہیں۔تشنگی باقی رہ جاتی ہے اگر کوئی پیاسا ساحل سے لوٹ جائے ،تب تو دریا بھی پیاسا رہ جاتا ہے۔کراچی سے سید عقیل جعفری عباس صاحب کا گرامی نامہ آیا۔لکھا تھا’’شکیل عادل زادہ کی شخصیت اور فن پر ایک ضخیم کتاب کی تیاری پیش نظر ہے‘ میں نے کہا ’’دیر آید درست آید‘‘ انہوں نے عادل زادہ صاحب سے اپنے دیرینہ روابط کا اور محبتوں کا ذکرکیا۔دُنیا کا کونسا حصہ ہے جہاں شکیل عادل زادہ کے گھائل نہیں ہیں اور تقریباً سب کا یہی حال ہے۔میرے ذہن میں بس یہی ایک سوال گردش کرتا رہا اور ہنوز باقی ہے کہ صاحبانِ نقد ونظر سے یہ چوک کیوں ہوگئی۔ کیا قصہ گوئی،داستان طرازی یاکہانی یا پھر آج کی زبان میں فکشن کو یکسر ادب سے خارج کردیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر باقی کیا رہ جائے گا۔کسی انسان کی کوئی سوانح حیات نہیں ہوتی۔وہ تو اطراف کے کرداروں سے مل کر تشکیل پاتی ہے ورنہ کسی انسان کی کہانی کیاہے۔پہلی سانس سے آخری سانس تک انسان کہانی ہے اورکہانی انسان سے جسم وجاں کی طرح پیوست ہے۔کہانی نہیں تو خواب نہیں‘ خواب نہیں تو زندگی نہیں۔کہانی تو وجود میں رچی بسی رہتی ہے۔کہانی کار مشاہدے سے اور کبھی تخیل سے دوسرے انسان کے اندر سیر ذات کرکے تشنہ تمناوؤں اورآرزوؤں کے رنگ سمیٹ کر جب صفحہ قرطاس پر سجا دیتا ہے تب ساری کائنات کا درد سمٹ کر ایک نقطہ میں تبدیل ہوجاتا ہے یہی نقطہ پھیلے توکائنات ہے سمٹے تو سمت وجہت سے بے نیاز بھی ہے ماورا بھی۔یہی نقطہ ازل بھی ہے ابد بھی۔پھر اس کے بعد تو صرف’ ھو‘ ہے۔
شکیل عادل زادہ سے میں صرف ایک بار مل پایا ہوں وہ بھی کچھ دیر کے لئے۔کبھی کبھی ایک پل نظر بھر کر دیکھ لینا صدیوں کی رفاقت پر بھاری ہوجاتا ہے۔انسان کا سب کچھ کھل جاتا ہے۔یہ پل اُس عمر بھر کی ہم نشینی سے زیادہ قیمتی ہے جہاں تمام عمر کے بعد بھی دونوں اجنبی ہوں۔
انسان کے اندر کی کائنات تو ایک سربستہ راز ہے۔جتنا کھلتا ہے اُس سے کہیں زیادہ اور چھپ جاتاہے۔اتنی تہہ داریاں کہ ایک پرت اُلٹی جانے تک ہزار پرتیں اوربڑھ جاتی ہے وہ سب کچھ جو مشاہدے سے شعور اور لاشعور میں پنہاں ہوگیا ہو اور وہ بھی جو اندر کی تپش سے بھسم ہوکر اکسیر ہوگیا۔میرے اپنے خیال میں کسی انسان کے اندر کی سیر مشکل ہے‘ خلاء نوردی آسان ہے۔آتش فشاں سے اُبلنے والے لاوے کا تجزیہ کچھ اتنا مشکل نہیں لیکن جو اپنے ہی دل سے اُٹھے اپنے ہی دل پر برسے اُس کا حساب تو بے حساب ہے۔اندیشۂ سود وزیاں سے پرے۔تخلیق کے کرب کا کوئی پیمانہ نہیں۔خود شکیل عادل زادہ کے مطابق’’ میں آگ بھی نہیں تھا کہ جل جاتا‘پتھر بھی نہیں تھا کہ ٹوٹ کر بکھر جاتا‘لیکن میرے سینہ میں آگ لگی ہوئی تھی اور میرے پتھر آپس میں ٹکرارہے تھے ایک شور مچا ہوا تھا‘سمندر میں وہ شور نہیں مچتا جو آدمی کے اندر مچتا ہے۔صحرا میں وہ دھوپ نہیں پڑتی جس سے آدمی کا صحرا تپتا رہتا ہے اورآدمی یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔سمندر‘پہاڑ‘صحرا اورآگ کے تمام خواص اس میں موجود ہوتے ہیں لیکن یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔سمندر ‘پہاڑ‘صحرا اور آگ اپنے گرج،چمک،اپنے فشار کا اظہار کردیتے ہیں‘آدمی کا کچھ نظر نہیں آتا۔اور یہی کچھ اگر نظر آجائے تب پھر جوتار سے نکلی ہے وہ دُھن کچھ نہیں ہوتی دیکھنا تویہ ہوتا ہے کہ ساز پہ کیا گذری۔دھن‘ تار‘ سازندہ‘ ساز‘ آگ‘ تپش‘ لئے‘ راگ‘ دیپک‘ چنگاری‘ شعلہ‘راکھ‘برکھا‘برسات‘گیت‘سکھی‘ساجن‘ملہار‘ناؤ‘ندی‘مانجھی‘ اُس پار یہ داستان در داستان خود ایک ہزار داستان ہے اور کوئی ہزار شیوہ اس داستان ہزار داستان کے یوں بند قبا کھولے کے ہر گرہ کشائی کے بعد پھر قبا کچھ اور چست ہوگئی ہو تو شکیل عادل زادہ کو کوئی کیا کہے؟ ’دل صاحبِ انصاف سے انصاف طلب ہے۔
تاریخ طبیعات میں Albert Einsteinکے نظریہ اضافت نے ایک انقلاب برپا پیدا کیا۔اتنی سے پہلی سوچ کے تار میں برقی رو کس رفتار سے سفر کرتی ہے اگرانسان اسی رفتار سے سفر کرے تو پھر تیز روی کا کوئی تقابل وتصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کے لئے ساکن ہیں۔اس نظریہ کے بعد ابStephen Hikingکا نظریہ Warm holeایک اور نئی جہت کی تلاش میں ہے۔ادب میں ان اصطلاحات کا صرف اور گنجائش ایک علاحدہ موضوع ہوسکتا ہے لیکن اس سے ہٹ کر یہ بات طئے ہے کہ خیال ماضی ومستقبل میں کس رفتار سے سفرکرتا ہے‘ کن کن وادیوں کی سیر کرتاہے‘ کن غیر مانوس جزیروں کی بازیافت کرتا ہے‘ کن اجنبی پگڈنڈیوں پر اپنی غیر مرئی نقش قدم ثبت کرتا ہے اورپھر اس سفر نامہ کو کس وسیلے سے پیش کرتا ہے۔یہ غور طلب ہے ۔ماضی کے کھنڈر کو آباد کرنا اُن عجائب گھروں کی سیر‘ نوادرات سے گفتگو‘ اُن کی کہانیاں‘قصے‘ واقعات‘ حکایات‘کرداروں کی واردات ان سب کی یکجائی اپنی تسلسل کے ساتھ ماضی کا حال میں اور حال کا ماضی میں سفر دراصل سالماتی سفر سے زیادہ نازک ہے جہاں اگر کوئی سالمہ غیر متوازن ہو تو خیال کی کائنات بکھر کر رہ جاتی ہے۔داستان دراصل اسی محشر خیال کا دوسرا نام ہے۔
داستاں گوئی میں وہ ہنر مندی کے جو سننے والے یا قاری کو ہمہ تن گوش بنادے تو ساری داستاں آواز،سُر،گیت،لَے، تال، نغمہ ہوجاتی ہے اور ایسے میں خوش ذائقہ سماعت کے ساتھ دل اپنا مزہ چاہے،جاں اپنا مزہ چاہے۔ اس کیف و کم میں داستاں کا اپنا ذائقہ ہے‘لفظ کا اپنا ذائقہ ہے‘سماعت کا اپنا ذائقہ ہے۔وصف تو یہ ہے کہ شکیل عادل زادہ یا تو ہر سماعت کو ہم ذائقہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں یاپھر ہر ذوقِ ذائقہ کا سامان فراہم کرتے ہیں یہی تو وہ ستم ہے کہ انہوں نے ایک ہی ناوک کو ہردل میں یوں ترازوکیا کہ’’یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا‘‘
بلبل ہزار داستاں کی بھی ایک داستان ہوتی ہے۔رات بھر شاخِ گل پر نغمہ سرائی اپنے جگہ لیکن اُسی شاخِ گل کا ایک کانٹا اگر بلبل کے سینہ میں چبھ کر گلاب کے لئے سرخی سینچے تب سرخئ گل تو نظر نواز بھی، دل فریب بھی،صبح کی پہلی کرن پیڑ تلے بلبلِ خوش نوا کی بے نوا ئی بھی دیکھے۔رخِ گل پر آنسو کی صورت قطرۂ شبنم بھی۔لیکن یہ کوئی داستاں نہ ہوئی داستاں تویوں ہوئی کہ
پھر صبا سایۂ شاخِ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
شاید اس بات سے اتفاق ہو کہ کہانی،افسانہ،قصہ،ناول ان سب کی صورت الگ الگ سہی لیکن کسی نہ کسی رشتے سے ان کا تعلق داستان ہی کے قبیلے سے ہے۔ اس اعتبار سے کہانی کار،افسانہ نویس،قصہ گو، ناول نگار،داستان طراز یہ سب فنکار اپنے وجود کے اندر خود بھی داستان ہیں۔یہ داستاں اس لائق ہے کہ اسے ورق ورق پڑھیئے، سطر سطر پڑھیئے،لفط لفظ پڑھیئے، حرف حرف پڑھیئے اور ان سب سے زیادہ الفاظ کے درمیان خاموشی کے تکلم کا ذائقہ حکایت حرف و لفظ سے ماورا ہے اس کے لئے وہ سماعت چاہئے جو کلی چٹکنے کی موسیقی کی رمز آشنا ہو۔
کہنے کو تو یہ آسان ہے کہ کسی انسان کے ظاہر و باطن میں تضاد نہیں۔لیکن شاید یہ محال ہے۔ہر ظاہر کے کئی باطن ہیں اور اُس کے رسائی کے لئے انسان کے دروں رسائی چاہئے۔ایک عجیب رسم چل پڑی ہے انسان کی قیمت اُس کی آرائش،زیبائش،سجاوٹ، فرش، قالین،فرنیچر، رنگ،روغن، پردے، الماریوں،تصاویر،میز،کرسیوں اوراسباب تفاخر سے ہونے لگی ہے گویا انسانی یہی کچھ ہے۔شکیل عادل زادہ نے اپنے تحریروں سے شہرآباد کئے ہیں۔یہ خواہش بھی فطری سی ہے کہ اُن کے ایوانِ ذات کے دروں ’’کیاکچھ ‘‘تک رسائی ہو لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ کمندیں ڈال کر بالا خانہ تک تورسائی ہوسکتی ہے لیکن نہاں خانہ تک نہیں۔ دربان ،پاسبان،نگہبان ،سب سد راہ در، دروازہ، دریچہ،کھڑکی،روشن دان، تنبی،جھروکا،درز، شگاف، روزن،کچھ تو ہو‘ لیکن لگتا تھا سب کچھ قلعہ بند ہے۔
جانے کہاں سے سُرابھرا۔دور کوئی گارہا تھا۔کوئی لَے تھی۔کوئی گیت تھا۔کوئی راگ تھا۔ایک لپک سی تھی۔شاید راگ راگنی کو تلاش رہا تھا۔لگتا تھا غمِ ہجراں سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے مگر ،ہَوا سنبھال رہی تھی۔شاید وہ اسی سمت آرہا تھا‘ وہ وارث شاہ کی ہیر گارہا تھا۔گارہا تھا کہ شعلہ سا لپک رہا تھا لگتا تھاکلیجہ اُس کا غم سے پھٹ رہا تھا۔ قریب پہنچا تو رُک گیا،سرگم تھم گئی،لیکن ہَوا بلک رہی تھی پھر ہر طرف خاموشی،سکوت،سناٹا۔وہ مجھے غورسے دیکھ رہا تھا گویا ایک ہی نظرمیں سب کچھ پڑھ لیناچاہتاہو۔بالوں کی سفیدی ،شکن آلودچہرہ،ہاتھوں کی جھریاں،پاؤں کے آبلے،زخموں کی کھرنڈ، صدیوں کی مسافت،پڑھنے کو بہت کچھ تھا۔سادہ ورق پڑھنے میں زندگی بیت جاتی ہے‘ اُس کی عمر چالیس بیالیس برس تھی ابھی اندر سے وہ آگ تھا اورراکھ کا بھید جاننا چاہتا تھا میں نے اُسے غور سے دیکھا۔ خد وخال پنجابی تھے۔لگتا تھا اُس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے میں نے پوچھا’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ کہا ’’کبھی منڈی بہاء الدین میں رہتے تھے جی۔ اب توجہاں سانجھ ہوجاتی ہے وہی شام کرلیتے ہیں۔‘‘
’’کیانام ہے تمہارا؟‘‘ میں نے بڑی اپنائیت سے پوچھا۔
اُس نے رکتے رکتے کہا۔’’نام کیاہوتاہے جی! وہ تو ایک شناخت ہے‘ اُس کی اپنی‘جو کسی دوسرے میں ضم ہوجائے اُس کا اپنا کیارہ جاتاہے۔ گوندل قبیلے سے ہوں‘ ماں باپ نے حسن رضا نام رکھا تھا‘اب تو تن بھی اُس کا من بھی اور نام بھی۔ آپ توگیانی ہو بابو جی سب جانتے ہو پھر بھی پوچھتے ہوں۔‘‘ پھر خود ہی کہنے لگا۔’’یُگ بیت گیا۔چیت کے مہینے میں ملی تھی۔بیساکھ میں قریب آئی،ساون بھادوںیوں گذر گئے،پھاگن میں رات کو دن بناگئی،چیت میں بچھڑ گئی ،کہتے ہیں جو چیت میں بچھڑ جاتا ہے پھر کبھی نہیں ملتا پر میرا دل نہیں مانتا۔یہاں بہت لوگ آتے ہیں جی۔جب تک دردسہا جاتا ہے کھلی آنکھوں سے تکتے رہتے ہیں پر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بندکرلینے سے پہلے ایک ہی لفظ کہتے ہیں’’کورا‘‘ پھر سوجاتے ہیں۔میں نے جی، برسوں میں اندر جانے کا راستہ کھوج لیا ہے لیکن وہ ہر کسی سے نہیں کھلتا آپ بھی دیکھ لوبابو جی شاید آپ سے کھل جائے پھر وہ مجھے دوسری طرف لے گیا چھوٹا سادروازہ تھا‘ بند تھا دیوار پرتختی لگی تھی’’سب رنگ‘‘میں نے جیسے ہی دروازہ پر ہاتھ رکھا دروازہ کھل گیا۔ بہت قدیم عمارت تھی۔بہت ہی پرشکوہ۔لیکن اتنی پر شکوہ عمارت میں سامان کچھ نہیں تھا۔وسیع ایوان میں صرف ایک قد آدم آئینہ تھا اور میں تھا۔کیفیت یہ تھی
لمحہ لمحہ منکشف ہوتا ہوا جیسے کہ تو
محوِ حیرت آئینہ در آئینہ جیسے کہ میں
جاری ہے
۱۳ thoughts on “سب رنگ نہادہ ، شکیل عادل زادہ – از- علامہ اعجاز فرخ”
اچھا
علامہ اعجاز فرخ کا مضمون معنون شکیل عادل زادہ پڑها اور بار بار پڑها.بار بار پڑهنے کی وجہ وہ تلاش تهی جو اس مضمون کے اخیر میں ہے.خوبصورت مسجع عبارت کے آخر میں وہ ایک آدمی کا زکر کرتے ہیں.اچانک زکر کرتے ہیں.اچانک ختم کردیتے ہیں.چالیس بیالیس سال کا ایک شخص،خدوخال پنجابی،نام حسن رضا ہے،قبیلہ گوندل ہے،اندر آگ ہے مگر راکهه کی جستجو کرتا ہے.بہت حیرت انگیز آدمی ہے.کسی طلسم کدے کے آثار کهلتے ہیں.آنکهه آئینے کے دوسری طرف دیکهنے کی منتظر ہے کہ اچانک ہی دروازہ بند……..
اگلی قسط کی تلاش
اس کے آغاز میں آنکهیں کسی غواض کی طرح لرزاں….گوہر نایاب کو پالینے کی آرزو میں مضطرب مگر گوہر مقصود ندارد….
یہ حسن رضا گوندل کون ہیں.شکیل عادل زادہ سے ان کی کیا نسبت ہے.ان کا زکر کیوں ضروری تها…علامہ صاحب نے سب کچهه ادهورا چهوڑ دیا…..
میں بہت عرصہ سے علامہ صاحب کی داستانوی طرزکی تحریروں کی مداح ہوں.ہمیشہ پڑهتی ہوں.مگر اس تحریر میں حسن رضا گوندل کا جو ادهورا پورٹریٹ انہوں نے کهینچا ہے اس میں رنگ بهر کے اسے مکمل کردیں تو میں بہت شاکر ہوں گی
علامہ اعجاز فرخ کا خاکہ پڑها.کئی بار پڑها اور بار بار پڑها.تاکہ اس شخص کے زکر کا کوئی تسلسل بنا سکوں جومضمون ہذا کے آخر میں مزکور ہے.اچانک ہی وہ حسن رضا گوندل کا ذکر کرتے ہیں اور اچانک ہی ختم کردیتے ہیں.کچهه تو تفصیل لکهتے….یہ صاحب کون ہیں.شکیل عادل زادہ سے ان کی کیا نسبت ہے.ان کا زکر کیوں ضروری تها
بعض اوقات جو دل اوروں کے لیے دهڑکتے ہیں.ان کے لیے بهی کچهه مخصوص دل تخلیق کیے جاتے ہیں.یہ تزکیہ کی منزل ہے.یہ تصفیہ کا مقام ہے.یہ عجیب سلسلے ہیں کہ حسن رضا گوندل ،شکیل عادل زادہ کی نسبت سے جانے جاتے ہیں.کئی ایسے محبت کرنے والے موجود ہیں.
وہ کیا بهلا سا نام ہے ان مصور کا ،”مادهوری”جن کی پہچان ہے…محبت پہچان تو دے جاتی ہے
شاید میں بهی کسی ایسی ہی ٹوٹی ہوئی لڑی کا کوئی گم شدہ حصہ ہوں
علامہ صاحب کا بہت شکریہ
میں ان کی تحریر کی مداح ہوں.کاش ایسا لکهنا ہمیں بهی آجائے.کوئی "کورا”ہمارے باطن کے دریچے بهی روشن کردے.اگر ہوسکے تو اس چالیس بیالس شخص کا ذکر ضرور کریں تفصیل سے….جس کے اندر آگ تهی…اور جس کی لو ہم تک بهی آتی ہے
کیا خوب لکھا ہے، بہت عمدہ . الف لیلی کی طرح جاگ کر کاٹی ہوئ سب راتیں یاد آ گیں کہ جب سب رنگ پڑھننے کو ملتا تھا .
کیا ہی اچھا ہو کہ شکیل صاحب سے درخواست کی جانے کہ اپنی اس کہانی کو مکمل بھی فرما دیں .
جناب ! بہت دن ہوگئے شکیل ژادہ پر کوئی اور مضمون نہیں آیا۔کیا یہ سلسلہ وار مضمون ہے یا اس کو یہیں پر ختم کیا جارہا ہے۔ان کے فکر و فن پر کچھ لکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔سکندر
جناب شکیل عادل زادہ سے کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ ان کی کوئی تصنیف بھی ہماری نظر سے نہیں گزری۔ مگر ان سے ایک غائبانہ تعارف ضرور رہا۔ آج آپ کا مضمون پڑھنے کے بعد یہ معمولی سا تعارف ایک والہانہ عقیدت و محبت میں بدل چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور جناب شکیل صاحب کو ہمیشہ اپنی امان میں رکھے۔ آمین!
Saeed sultan
Shaeel aadil zada k aashiq hm bhee haen, Bazigar aur sabrang se hamaray parhnay ka aaghaaz howa, aur aaj usi taaluq ki bina pr kuch likh laitay haen.
حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ نقادوں نے شکیل زادہ پرکچھ نہیں لکھا. ان نقادوں نے ادب کو کئی سطح پر تقسیم کررکھا ہے. معیاری ادب اور پاپولر ادب… شکیل عادل زادہ چونکہ پاپولر ادب کے ترجمان ہیں، اس لیے ان پر کچھ نہیں لکھا جاسکتا جس طرح ابن صفی پر نہیں لکھا گیا. یونیورسٹی میں ہمیں یہی پڑھایا گیا اس وقت بھی میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا تھا کہ جوادیب عوام میں مقبول ہو، اس کی تحریر پاپولر ہو وہ معیاری ادب میں کیوں شامل نہیں ہوسکتا؟ اور یہی سوال آج بیس برس بعد علامہ سے پوچھ رہی ہوں کہ پاپولر ادیب ہونا جرم ہے کہ اس کے فن پر گفتگو نہ کی جاے. ابن صفی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے. علامہ کی یہ تحریر صرف تمہید ہے. شکیل زادہ کے فن پر گفتگو ہونی چاہیے. امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا.
جویریہ فاطمہ ___ دمام . سعودی عرب
Main aapki baat se ittefaq karta hoon. popular adab aur meyari adab ki istelahat waza karne walon ki nazar men kya meyari hai aur meyar i hai aur kya meyari nahin hai yeh gaur talab baat hai . pahle to yeh taye hona chahiye ke adab ka taluk moashre se hai ya nahin . sinf agar moashre men insani nafsiyat ki akkas hai aur agar maqbool ho rahi hai to use gair meyari qarar dena shayad durust nahin hai.Ahmad Nadeem Qasmi sahib ka yeh shair ke ” sar bacha laye ho laikin ye zian to dekho –Kitna veeran hai ta had e nazar manzar e daar.ki gahrai tak pahunchne ke liye ek zindzgi chahye. Laikin ham Sahir Ludhyanavi ki maqbooliyat ki wajah se unhen nazar andaz nahin kar sakte. unhon ne naslon ke shairi shaoor ki abyari aur tameer men garan qadr hissa ada kiya hai.Baat sirf itni hai "HAM SUKHAN FAHM HAIN GHALIB KE TARAF DAR NAHIN ” agar hai tab to agar yeh halqa e zanjeer toote to phir kuch baat bhi hai.
Shakeel Aadil zada ek bohut bada naam hai.kia ye afsana nigar hain ya novel nigar ya phir dastan goo?kyon ke barsoun se kora bhatak rahi hai.sawal ye hai ke pakistan min shakeel zada per kyon nahi likha gaya?maine tho inper koi kitab nahi dekhi.University ke asatiza kia karrahe hain?kia unke nazdeek Shakeel Adil zada research ke qabil mauzu nahi hai?iski wajuhat ka tayyun zaruri hai.unper islie nahi likha gaya ke wo muhajir hain?digar muhajir ne unper qalam kyon nahi utthaya?Aakhir acha khaasa digest tha sabrang,unhoune kyoun baich dia?wo kaunsi majboorian thi?inn sab ki tahqeeq zaruri hai.Allama Farruq ne pahel ki hum tamam pakistani unke mamnoon hain..umeed ke ye silsila jari rahega.
Syed Umar Farooq – Multan
متشکرم
شکیل عادل زادہ، سب رنگ ، باغی ، امربیل اور کورا….. سب کچھ یاد دلایا اس مضمون نے.. پھر علامہ اعجازفرخ کا دلچسپ انداز بیان… سونے پر سہاگہ… مزہ آگیا. مبارک علامہ کو اور شکریہ جہان اردو کا کہ اس بوڑھے شریر میں جوانی دوڑادی
عبدالماجد. نئی دہلی
Masha Allah bahut hi aala mazmoon hai.mauzu ,mawad aur usloob bahut khoob hai.Allama ko bahut mubarakbad.aur mazameen ka intezar rahega.
Mohammad Adil – Patna