ہم اردو مدارس میں بچوں کو داخل کیوں کریں؟ – – مہ جبین سید لطیف

Share
مہ جبین سید لطیف
مہ جبین سید لطیف

ہم اردو مدارس میں بچوں کو داخل کیوں کریں؟

مہ جبین سید لطیف
معلمہ ‘ضلع پریشد اسکول، پوسد، ضلع ایوت محل مہاراشٹر

اقوامِ متحدہ نے ۲۱ فروری کو یومِ مادری زبان کے طور پر منانے کا اہتمام کیا ہے ۔ یہ دن ساری دنیا میں یومِ مادری زبان کے طور پر منایا گیا۔ یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور بیداری کی ایک مہم کی ابتداء بھی۔
اردو ہماری مادری زبان ہے۔ مادری زبان کے تعلق سے ماہرینِ تعلیم کا ماننا ہے کہ بچے کو مادری زبان میں تعلیم دینی چاہیے۔ کم از کم ابتدائی تعلیم تو اس کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہیے۔ لیکن حیرت تو تب ہوتی ہے جب ہم اردو والے اپنے بچوں کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہ کر کانوینٹ اور انگریزی اسکولوں میں داخلہ دلواتے ہیں جب کہ وہ لوگ جن کی زبان ہم اپنے بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں، وہ خود اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔ ہے نا ستم ظریفی کی بات ؟ ایسا کمال تو ہم لوگ ہی دکھا سکتے ہیں۔ خیر!

آ پ توجانتے ہی ہیں کہ فرانس کا فلسفی اور ماہرِ تعلیم روسو بچے کو اسکول بھیجنے ہی کے خلاف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بچے کو فطرت کا مشاہد ہ کرکے خود سیکھنے دیجئے۔ یعنی اس کی ابتدائی تعلیم میکانیکی طرز کی نہ ہو بلکہ فطری طرز پر ہو اور ہر بچے کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ماں سے نہایت جذباتی وابستگی رکھتا ہے، اسی طرح وہ اپنی ماں کی زبان یعنی مادری زبان سے بھی اتنی ہی وابستگی رکھتا ہے ۔ اگرہم بچے کو انگریزی یا کسی دوسری زبان میں تعلیم دلاتے ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم اسے ایک ایسی زبان میں تمام مضامین پڑھا رہے ہیں جو نہ اس کے گھر میں بولی جاتی ہے نہ اس کے ماحول میں، نہ اس کے رشتے داروں میں اور نہ ہی اس کے دوستوں کے حلقے میں۔ ایسی صورت میں آپ خود بتائیے کہ وہ کیسے اپنے آپ کو اس زبان سے جوڑ پائے گا جس زبان سے اس کا واسطہ سوائے چند کتابوں کے اور کہیں نہیں ہوتا؟ یہ تو سیدھا سیدھا تصنع اور بناوٹ ہے۔ یہ نفسیاتی اعتبار سے بچے پر ایک جبر ، ایک زبردستی ہے۔ یوں بھی مجھے ولیم شیکسپئر کی بات یاد آرہی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ’’It is a wise father that knows his own child ‘‘ پھر ایک ذہن سر پرست یا والد کی سوچ اپنے بچے کی فطری ضرورت کے خلاف کیسے جاسکتی ہے۔ اب ایک دوسرے پہلو کی طرف ہلکا سا اشارہ کرنا غیر مناسب نہیں ہوگا شائد۔ مرکزی حکومت کے قومی درسیات تیار کرنے والے ادارے NCERT نئی دہلی کے پروفیسر ، ڈاکٹر فاروق انصاری نے کہا ہے ک’’ہم اردو اسا تذہ کی سب سے بڑی کمزوری اپنی مادری زبان کے تعلق سے احساسِ کمتری ہے۔ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہم مسلمانوں اور اردو بولنے ، پڑھنے اور لکھنے والوں کے سامنے تو کہہ لیتے ہیں کہ ہم اردو کے استاد ہیں۔ یا اردو معلم کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن کسی اور کے سامنے یا تو منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیںیا پھر خود کو انگریزی ، ہندی کا کسی اور مضمون کا استاد بتاکر راحت کی سانس لیتے ہیں۔ ایسی مثالیں ملک کے ہر کونے سے میں نے جمع کی ہیں۔ اللہ رحم کرے۔‘‘ اب سوچئے کہ اگر اردو کے معلمین کے بارے میں ایک قومی درسیات تیار کرنے والے مرکزی حکومت کے ادارے کا ایک ذمہ دار پروفیسر کا یہ تجربہ ہے تو ہمارا اور آ پ کا معاملہ کیسا ہوگا۔ خیر، یہ تو ان چند معلمین کی بات ہوسکتی ہے جن سے ڈاکٹر فاروق انصاری صاحب کو واسطہ پڑا تھا۔ اردو کے معلمین کی اکثریت البتہ نہایت مخلص نظر آتی ہے۔ اگر اردو اسکولوں میں داخلے ہی نہیں ہوں گے تو اساتذہ بھی کیا کرسکتے ہیں؟ یہ سب تو بچوں کے سر پرستوں اور ان کے والدین کے بھی سوچنے کی بات ہے۔ خود میں جس گاؤں میں معلمہ کے فرائض انجام دیتی ہوں ، وہاں میں اور میرے ساتھی اساتذہ حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ والدین اردو اسکولوں میں داخلے کروائیں ۔ ابتداء میں اس گاؤں میں مسلم بچوں کو والدین بڑے شوق اور چاؤ کے ساتھ مراٹھی اسکولوں میں داخل کرواتے تھے۔ سر پرستوں اور والدین کی دلیل یہی تھی کہ ’’ ارے بھائی، اردو میڈیم سے پڑھ کر کسی کو نوکری نہیں ملتی۔ مراٹھی والے دیکھو، کیسے مراٹھی سے پڑھ کر نوکری حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘ وہ بے چارے یہی نہیں سمجھ پارہے تھے کہ کسی ذریعۂ تعلیم سے بچے پڑھانا ایک الگ بات ہے اور نوکری حاصل کرنا دوسری بات۔ دونوں باتوں کا آپس میں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن جب دھیرے دھیرے ہم نے انہیں سمجھایا کہ ذریعۂ تعلیم کو نوکری سے جوڑ کر نہ دیکھیں۔ بلکہ آج کل اردو میں روزگار کے جو مواقع حاصل ہیں ، وہ پہلے نہیں تھے۔ مثلاً اردو کمپیوٹر سے جوڑ دی گئی ہے۔ اردو کی ویب سائٹس ہیں۔ اردو سے بہت سارے کورسیس شروع کئے گئے ہیں۔ جو پیشہ ورانہ نوعیت کے ہیں۔اس سلسلے میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ، نئی دہلی، دہلی اردو اکیڈمی اور کچھ دیگر ادارے بھی اہم کام کررہے ہیں۔
آج ہماری اسکول میں ہم اساتذہ کی کوششوں اور محنت سے آج اسی گاؤں میں ایک سرکاری اور دو پرائیویٹ اردو اسکولیں چل رہی ہیں۔ ورنہ یہ سوچ تو بہت عام سوچ ہوچلی ہے کہ اردو سے پڑھ کر نوکری نہیں ملتی۔سیدھی سی بات تو یہی ہے کہ اگر تلگو میڈیم والے بچے ، تمل والے، مراٹھی والے، یا جس نے بھی مادری زبان سے تعلیم حاصل کی ہے ، وہ انجینئر اور ڈاکٹر سے لے کر وزیرِ اعظم تک بن سکتے ہیں تو پھر اردو نے کس کا کیا بگاڑا ہے؟
جو سرپرست اور والدین اردو میں اپنے بچوں کو داخل کروانے سے بچتے ہیں، ان کے لئے ہم مندرجہ ذیل حقائق پیش کرنا چاہیں گے۔
۱۔ اردو میڈیم کی اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے سے بچے کی خود اعتمادی بنی رہتی ہے۔
۲۔ اردو ذریعۂ تعلیم ہونے کی وجہ سے بہت سے مضامین جو انگریزی میں مشکل ہوتے ہیں، مادری زبان میں آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتے ہیں۔
۳۔ اردو چونکہ بچے کی مادری زبان بھی ہوتی ہے اور اس کی تعلیمی زبان بھی، اس لئے وہ دو زبانوں کی چکی کے درمیان پِسنے سے بھی بچ جاتا ہے ، یعنی جو زبان وہ گھر میں بولتا ہے ، اسی زبان میں وہ تعلیم بھی حاصل کرتا ہے۔
۴۔ چونکہ بچہ مادری زبان سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران اپنی زبان میں علم کو سیکھتا ہے اس لئے اس کی فہمائش بھی نہایت آسان اور پختہ ہوجاتی ہے۔
۵۔ ذریعۂ تعلیم مادری زبان ہونے کی وجہ سے بچے کو تعلیم کے عمل سے اپنائیت بھی محسوس ہوتی ہے۔
۶۔ بچے کی تعلیم مادری زبان میں ہونے کی وجہ سے مختلف مضامین کی بہت کی الجھنین آسانی کے ساتھ اس کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔
۷۔ بچے کی شخصیت میں کوئی الجھاؤ پیدا نہیں ہوتا۔
۸ ۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے بچہ اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار سے بھی جُڑا رہتا ہے۔
۹۔ چونکہ ہمارا کثیر مذہبی سرمایہ اردو زبان میں ہے اس لئے جو بچہ اردو زبان سے تعلیم حاصل کرتا ہے ، اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ مذہبی اعتبار سے بھی نسبتاً راسخ پختہ ہوتا ہے۔
یہ وہ نکات ہیں جن کو پیش کرنے سے بچوں کے سر پرست مطمئن ہوکر اپنے بچے کو اردو مدارس میں داخل کرواسکتے ہیں۔امید ہے ان نکات سے اساتذہ، سرپرست اور ماہرینِ تعلیم اتفاق رکھتے ہوں گے۔
ایک اور بات جس کی وضاحت میں یہاں ضروری سمجھتی ہوں اور شائد اس حقیقت کو جان لینے کے بعد اکثر اساتذہ اور سرپرستوں کے ذہن میں اردو کے تعلق سے کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجائے گا۔ امریکہ کا ایک بہت ہی معتبر ادارہ ہے جس کا نام ہے ماڈرن لینگویج اسوسی ایشن۔ اس ادارے نے حال ہی میں ایک سروے کیا ہے کہ کتنے امریکی طلباء اپنے ملک کے زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان سیکھتے ہیں۔ اس سروے کی رپورٹ یقیناًآپ کو خوش کردے گی۔ ہندوستانی زبانوں میں ہندی کے بعد اردو دوسری زبان ہے جسے سب سے زیادہ امریکی طلباء سیکھتے ہیں۔ ہم اس رپورٹ کی مختصر رپورٹ درج کرتے ہیں تاکہ آپ کے ذہن میں اس ملک میں اردو کی اہمیت کی بات کھُل جائے جو آج سُپر پاور ہے۔
ہندی سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 1800
اردو سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 533
پنجابی سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 124
تمل سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 82
بنگالی سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 64
تیلگو سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 52
ملیالم سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 44
گجراتی سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 06
مراٹھی سیکھنے والے امریکی طلباء کی تعداد 05
ہم یہاں اس بات کی طرف اشارہ کردینا مناسب سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں گجراتی بولنے والے تجارت پیشہ لوگ کافی تعداد میں آباد ہیں ۔ اور اب تو ہمارے ملک کے وزیرِ اعظم بھی گجراتی ہیں۔ اس کے با وجود صرف 6 امریکی طلباء گجراتی سیکھتے ہیں جب کہ اردو سیکھنے والے امریکی
طلباء کی تعداد 533 ہے۔ لہٰذا اردو والے اگر اپنے گھر کی زبان کو عزت نہیں دیں گے تو کسی غیر کو کیا پڑی ہے کہ وہ اسے اپنائے؟ اپنی زبان کی ، مادری زبان کی حفاظت خود کیجئے، اسے بولئے، اسے پڑھئے، اسے پڑھائیے اور غلط فہمی کے خول سے باہر نکل آئیے۔

Share

One thought on “ہم اردو مدارس میں بچوں کو داخل کیوں کریں؟ – – مہ جبین سید لطیف”

Comments are closed.

Share
Share