گوپال مِتل ۔ذات و صفات @ رؤف خیر

Share
گوپال مِتل
گوپال مِتل

گوپال مِتل ۔ذات و صفات
(ایک جائزہ)
رؤف خیر

’’تحریک ‘‘ کے روح ِ رواں جناب گوپال مِتل پر ان کے فرزند ار جمند جناب پریم گوپال مِتل نے یہ ایک جامع کتاب شائع کی ہے جو آں جہانی کی ذات و صفات کا مکمل احاطہ کرتی ہے ۔
یوں تو اس کتاب میں کئی مشاہیر کے مضامین ہیں مگر دیوندر ستیارتھی ،جگن ناتھ آزاد ،رشید حسن خان ،ش ۔ک ۔نظام ،حامد اﷲ ندوی اورا ن کے ہم کار و ہم مشرب مخمور سعیدی کے تاثرات گوپال مِتل کی شخصیت کو سمجھنے میں مددگار ہیں۔پریم گوپال نے اپنے پتاجی کو جو خراج ِ عقیدت پیش کیا ہے وہ بھی اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
کتاب میں بعض واقعات دہرائے گئے ہیں کیونکہ مختلف لکھنے والوں نے انھیں اپنے اپنے مضامین میں بیان کیا ہے۔جیسے جب حفیظ جالندھری کو حکومت ِ ہند نے سانگ پبلسٹی ڈائرکٹر بنا دیا تو حفیظ نے متل سے کہا :
’’متل مجھ سے چوہے تک فائدہ اٹھارہے ہیں لیکن تو کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا ‘‘گوپال متل نے جواب دیا ’’میں چوہا نہیں ہوں‘‘۔
پگڑی باندھے ہوئے گوپال متل کو چھیڑ نے کے لیے چراغ حسن حسرت نے کہا :
’’جیوتشی جی ذرا میراہاتھ تو دیکھ لیجئے؟۔گوپال متل نے شوخی سے جواب دیا :’’آپ نے تو

کثرت ِ استعمال سے اپنے ہاتھ کی لکیریں ہی مٹا ڈالیں۔‘‘
جگن ناتھ آزاد نے اپنے والد تلوک چند محروم کے آریہ سماجی ہونے اور اپنے اشترا کی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے گوپال متل سے اپنی دوستی اور یگانگت کا تذکرہ کیا حالانکہ گوپال متل اشتراکیت کے مخالف تھے اور آریہ سماجی بھی نہیں تھے ۔
رشید حسن خان نے جناب گوپال متل کی نثر کی تعریف کرتے ہوئے ان کی کتاب ’’لاہور کا جو ذکر کیا ‘‘ سے کئی مثالیں دیں جن سے گوپال متل کے صائب الرائے ہونے کی تصدیق ہوتی ہے ۔جیسے یہ جملے:
۱۔ ہری چند اختر کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو ان کی بذلہ سنجی اور لا ابالی پن نے نقصان پہنچایا ۔
۲۔ جو ناکام ادیب غیر مسلم ہوتے ہیں انھیں اپنی ناکامی میں مسلمانوں کی سازش نظر آتی ہے ۔بہ ہر حال جہاں تک ہندو شاعروں کے احساس ِ مظلومی کا تعلق ہے ،یہ رائیگاں نہیں گیا ۔ملک تقسیم ہوا تو ہندوستان میں اردو کی حالت ابتر ہوگئی بہ طور تلافی ان کی (ہندوؤں کی )پذیرائی شروع ہوگئی ‘‘۔
گوپال متل نے کتنی کھری اور سچی حقیقت کو واشگاف کیا ۔حکم چند ،گیان چند ،گوپی چند ،فراق گور کھپوری ،کرشن چندر ،جگن ناتھ آزاد وغیرہ کو حکومتی سطح پر خوب نواز ا گیا اور خود مسلمانوں نے بھی ان کی دل کھول کر پذیرائی کی ۔ یہ کشادہ دلی دونوں طرف سے دکھائی گئی ۔گیا ن چند نے انورالدین کی سرپرستی کی تو گوپی چند نارنگ نے ش ۔ک ۔نظام اور جینت پرمار کے ساتھ ساتھ مشتاق صدف ،ساجد رشید ،بیگ احساس اور مجتبیٰ حسین کو سرفراز فرمایا ۔اپنے زیر اثر اداروں میں ان کے قدم جمائے گوپی چند نارنگ نے بلاشبہ وہ اقدامات کیے جو کوئی مسلمان کرہی نہیں سکتا تھا ۔
گوپال متل نے چند گروبانیوں کا منظوم اردو ترجمہ ’’سچے بول‘‘کے عنوان سے کیا۔ انھوں نے لکھا :
’’ایک سکھ مہنت ہمارے گھر آیا کرتے تھے اور سکھ مت کے بارے میں ہمیں اچھی اچھی باتیں بتاتے تھے ۔ان کی باتوں میں دل چسپی بڑھی تو میں گردوارے بھی جانے لگا اور جو باتیں مجھے پسند آتی تھیں میں انھیں لکھ لیا کرتا تھا ۔‘‘جیسے :
چت بولیاں تت پائیے سو بولیے پردان پھکا بول وگچھنا سن مورکھ انجان

اس کا گوپال متل نے سات اشعار میں منظوم اردو ترجمہ کرڈالا ۔دوشعر دیکھیے:

ہرحال میں پرہیزکر اس عادت بد سے ہر عیب سے ہے عیب برا تلخی گفتار

یہ چیز بنا دیتی ہے احباب کو دشمن حق میں ہے محبت کے یہ چلتی ہوئی تلوار
حدیث شریف میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے بدگوئی ،عیب جوئی اور غیبت کے تعلق سے کہا کہ اپنے کسی بھائی کی غیبت کرنا مردار جانور کا گوشت کھانے کے برابر ہے ۔
مگر قرآن وحدیث کی ایسی اخلاقی باتیں بتانے والا انھیں کوئی نہیں ملا کیونکہ گوپال متل زیادہ تر پینے کھانے والے مسلمانوں کے ہم مشرب تھے وہ بھلا انہیں کیا اچھی اچھی باتیں بتاپاتے۔وہ خود کوسوں ان سے دور تھے ۔
1951ء میں جشن جمہوریت کے لال قلعے کے مشاعرے میں شبیر حسن خاں جوش ؔ ملیح آبادی نے پنڈت جواہر لال نہرو کی موجودگی میں جرأت ِرندانہ سے کام لیتے ہوئے حکومت کی شراب بندی کی پالیسی کے خلاف رباعیات سنائیں جیسے :
آتے نہیں جن کواور دھندے ساقی اوہام کے بنتے ہیں وہ پھندے ساقی
جس مئے کو چھڑا سکانہ اﷲ اب تک اس مئے کو چھڑا رہے ہیں بند ے ساقی

گوپال متل نے فی البدیہہ جوش ؔ کامنہ توڑ جواب مشاعرے میں سنا کر خوب داد پائی

کمربستہ وطن ہو جب پئے تکمیل آزادی وہ بے غیرت ہے جو ساقی کا دامن تھام لیتا ہے
شرابِ ناب کیسی شیرِ مادر ہے حرام اس پر جوایسے وقت میں بادہ کشی کا نام لیتا ہے

ڈاکٹر حامد اﷲ ندوی نے اپنے طویل مضمون میں گوپال متل کا کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑا۔ایک نوجوان جو خاکسار تحریک سے وابستہ ہو کرمرنے مارنے کی بات کررہا تھا اور کہتا تھا کہ میں سچا مسلمان ہوں اگر قتل ہو ا بھی تو جنت ہی میں جاؤں گا ۔اس پر گوپال متل نے ظریفانہ ریمارک کیا ’’صاحب زادے اس عمر میں جنت میں نہ جانا ۔جنتی آپ کو غلمان سمجھ نہ لیں۔‘‘ یہ دراصل ایک مذاق ہے ورنہ کہا گیاہے کہ جو غیر مسلم معصوم کم سن بچے فوت ہوتے ہیں وہ غلمان بن کر جنتیوں کی خدمت کریں گے ۔جیسے عیسائی تصور ہے کہ غیر عیسائی معصوم روحیں لمبو میں رکھی جاتی ہیں۔
عبداﷲ کمال کے ایک سوال کے جواب میں گوپال متل نے پتے کی بات کہی :
’’تنقید کے نام پر جو کچھ لکھا جاتا ہے اسے ستائش باہمی کانام تو دیا جاسکتا ہے تنقید کانہیں ۔‘‘اوریہ کہ وہ سمجھتے تھے :
’’نئے حالات میں اردو زبان سے جذباتی وابستگی بنیادی طورپر مسلمانوں ہی کو ہوسکتی ہے ‘‘
افسوس کہ بیشتر نا م نہاد مسلمانوں کی نام نہاد اولاد آج اردو ہی سے نابلد ہے ۔اردو ادب تو دور کی بات ہے ۔
؂ پریم گوپال متل نے اپنے آں جہانی پتاجی کی تگ ودو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
’’پھر ایک خاص سکیم کے تحت جب وسیع پیمانے پر ہندوستانی بھاشاؤں میں کتابوں کی نشرو اشاعت کاسلسلہ شروع ہوا تو پتاجی نے وہاں بھی رسائی حاصل کرلی ․․․لوگوں نے جی بھر کر بڑے بڑے گھپلے کیے اور پانچ سو کتابیں چھاپ کر پانچ ہزار کے بل وصول کیے مگر اس اسکیم کی کتابیں جب مکتبہ تحریک کی سسٹرکنسرن نیشنل اکاڈمی سے شائع ہوئیں تو پوری ایمانداری سے شائع کی گئیں․․․و ہ گھوم گھوم کر ایک روپے میں چار کتابوں کے حساب سے کتابیں فروخت بھی کرتے تھے (اگرچہ کہ وہ مفت تقسیم کرنے کے لیے ہوتی تھیں اور مفت دیں تو کتاب کوئی پڑھتا ہی نہیں )۔
ماہ نامہ ’’تحریک ‘‘ کے نائب مدیر مخمور سعید ی کا مضمون بھی گوپال متل کو خراج عقیدت کا درجہ رکھتا ہے وہ ان کے قریبی ہم مشرب تھے ۔تحریک میں ہمیشہ چونکانے والی تحریریں شائع کرتے ہوئے گوپال متل نے (امتیاز علی خاں) عرشی صاحب کا وہ مضمون شائع کیا تھا جس کے ذریعے پہلی بار یہ انکشاف ہوا تھا کہ مولانا فضل حق خیر آبادی کا 1857ء کے فتوی ِ جہاد سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔
درحقیقت اصلی فضل حق تو وہابی تحریک کا سرگرم کارکن تھا ۔وہ اہل حدیث تو بچ گیا مگر نام کی یکسانیت کی وجہ سے مولانا فضل حق خیرآبادی دھر لیے گئے اور کالے پانی کی سزا پائی حالانکہ وہ کہتے ہی رہ گئے کہ وہ تو انگریزوں کے وفادار ہیں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتوے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔وہ جب کالے پانی کی سزا کاٹ رہے تھے ان کا بیٹا انکی بے گنا ہی کے ثبوت پیش کرکے ان کی رہائی کے احکام لے کر جب جزائر انڈمان پہنچا تو ان کا جنازہ جارہا تھا ۔ناکردہ گناہی کی سزا کا ٹنے والے فضل حق خیر آبادی کے تعلق سے پہلی بار ’’تحریک ‘‘ میں مضمون تو چھپا مگر ان لوگوں پر یہ انکشاف بم کی طرح گرا جو انھیں آزادی کا ہیرو بنائے ہوئے تھے ۔
ماہ نامہ ’’تحریک ‘‘ مارچ 1953ء میں شروع ہوا اور جنوری 1980ء اس کا آخری شمارہ ثابت ہوا۔اتفاق سے میری کوئی تخلیق اس میں کبھی نہیں شائع ہوئی۔قطب سرشار نے بتایا کہ وہ جب تک اس کا زر سالانہ بھیجتا رہا چھپتا رہا ۔خریداری بند تو پھر اس کی تخلیق چھپنا بھی بند ہوگئی ۔میں اس شرط پر اپنی تخلیقات شائع کروانے کا کبھی قائل نہیں رہا ۔آج بھی نہیں ہوں۔
گوپال متل نے اپنے معاصرین کے تعلق سے اپنے نیک جذبات کا خوش اسلوبی سے ذکر کیا ہے جیسے مولانا تاجور نجیب آبادی جو خود کو علامہ اقبال سے بہتر شاعر سمجھتے تھے۔ڈاکٹر محمد دین تاثیر جو بلا کے ذہین مگر کم گو شاعر تھے ۔مولانا صلاح الدین جو گوپال متل کے مربی تھے ۔تقسیم ہند کے موقع پر ان کا گھر فسادیوں نے جلا ڈالا تھا جو ہندوبستی میں تھا ۔اسرالحق مجاز جو خوش درخشیدہ ولے شعلہء مستعجل بود۔جگر مراد آبادی جو ستر سال کی عمر کو پہنچ کر بھی محض تبرک بن کر نہیں رہ گئے ۔حفیظ جالندھری جو شاہ نامہ ء اسلام لکھ کر معززین کی صف میں شامل ہوگئے تھے اور اپنی کوٹھی بھی بنوالی تھی مگر کامیابی پر غرۃ نہیں کرتے تھے ۔ پنڈت ہری چند اختر جو نثر میں بھی وزن قائم رکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔ گوپال متل نے کہا کہ کرشن چندر اور اوپندرناتھ اشک کی آمد اس بات کا اعلان تھی کہ اب ادب کے میدان میں قلندری کا دورختم ہوا۔کرشن چندر نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف قدم اٹھایا تھا پھر اسی پارٹی سے جاملے تاکہ پذیرائی ہو وہ بغاوت کے ذریعے اپنی قد رو قیمت بڑھاناچاہتے تھے ۔ساحر لدھیانوی بھی پروپیگنڈے کا فن خوب جانتے تھے۔اپنا پہلا مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ صرف ڈھائی سو کی تعداد میں پہلے چھاپ کر دوستوں میں تقسیم کردیا یوں دوسرا ایڈیشن چھاپ کر اپنی مقبولیت کا چکر چلایا ۔مخمور سعیدی جیسے ہم مشرب کی بھی تعریف گوپال متل نے کی ۔
گوپال متل کے بیشتر فقرے ان کی حق گوئی وبے باکی کے غماز ہیں۔ماہ نامہ ’’تحریک ‘‘ کے شمارے ان کے ادب پاروں سے بھرے پڑے ہیں ۔وہ کمیونزم کے خلاف تھے اس لیے ان پرامریکہ نوازی کا الزام لگایا جاتاتھا ۔
گوپال متل نے شاعری سنجیدگی سے نہیں کی پھر بھی جتناکچھ سرمایہ چھوڑا اس میں ایسے کئی شعر ہیں جو ضرب المثل کی طرح مشہور ہیں جیسے:

مجھے زندگی کی دعا دینے والے 7ہنسی آرہی ہے تری سادگی پر
اور کس کو ہو مرے زہر کی تاب اپنے ہی آپ کو ڈستاہوں میں
خدا یا ناخدا اب جس کو چاہو بخش دو عزت حقیقت میں تو کشتی اتفاقاً بچ گئی اپنی
بہت جی چاہتا ہے یہ فقط نقص ِ بصارت ہو بڑی سرعت سے دنیا کھورہی ہے دل کشی اپنی

سلیم احمد کی مشہور زمانہ غزل کا ایک شعر بے پناہ مقبولیت پاگیا
شاید کوئی بندۂ خدا آئے صحرا میں اذان دے رہاہوں

گوپال متل نے اپنے شعری مجموعے کانام ’’صحرا میں اذان ‘‘رکھا اور اسی زمین میں بعض اچھے شعر بھی نکالے جیسے :

مصرف کے بغیر جل رہا ہوں میں سونے مکان کا دیا ہوں
اے اہل ِ کرم نہیں میں سائل رستے پہ یوں ہی کھڑا ہوا ہوں
منصور نہ دعوی اناالحق سولی پر مگر لٹک رہا ہوں
اب شکوۂ سنگ و خشت کیسا جب تیری گلی میں آگیا ہوں

پریم گوپال متل قابلِ مبارکباد ہیں کہ انھوں نے اپنے آں جہانی بتاجی کے چھوڑے ہوئے نظم و نثر کے سرمائے کو کتابی شکل دے کر اسے بے نام و نشاں ہونے سے بچالیا اور موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی کے زیر اہتمام روایتی معیاری انداز میں شائع کیا ۔

گوپال

RAOOF KHAIR,
MOTI MAHAL, GOLCONDA, HYDERABAD 500008.
CELL: 09440945645, EMAIL:

Share

One thought on “گوپال مِتل ۔ذات و صفات @ رؤف خیر”

Comments are closed.

Share
Share