سری نگر کی جامع مسجد
Jama Masjid, Srinagar
(وہ مسجد جس مین آج بھی غیور کشمیری نماز ادا کرنے کتراتے ہیں)
ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی – ورنگل
09866971375
باغوں کی وادی کشمیرکا علاقہ سری نگر ایک قدیم شہر ہے اس شہر کے قلب میں ایک جامع مسجد واقع ہے جس کی ندرت اور خوبصورتی عام آدمی کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے،اس مسجد کو 1400ء میں سلطان سکندر ؔ نے تعمیر کروایا تھا۔لیکن نمازیوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر اس کے فرزند زین العابدین ؔ نے مسجد کی توسیع انجام دی ، یہ مسجد اسلامی اور کشمیری تعمیری تہذیب کی آئینہ دار ہے، اسی لئے ہم اس میں Indo-Saracenic تعمیری جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں یہ مسجد تین مرتبہ آگ کے حادثے سے دو چار ہوئی، مسجد کی موجودہ عمارت1674ء راجہ پرتاپ سنگھ کے دور میں بنائی گئی،راجہ نے اس مسجد کی تعمیر و توسیع کے سلسلے میں کافی دلچسپی لی۔یہ مسجد صرف اسلامی تعمیری تہذیب کا اظہار نہیں کرتی بلکہ اس میں کئی ایک تعمیری روایات آکر مل جاتی ہیں اور بحیثیت مجموعی اس کو حسن عطا کرتی ہیں روایتی مساجد کی طرح اس میں کوئی گنبد نہیں ہے ، بلکہ مسجد میں چار عجیب انداز کے مینارے ہیں جو مینار کم اور عیسائی و یورپی تعمیری تہذیب کے نقیب زیادہ نظر آتے ہیں ، یہ مینارے جس عمارت پر قائم ہیں اس میں ایک بڑی کمان ہے یہ کمان دوہری ساخت رکھتی ہے کمان کے اوپر تین مزید کمانیں بنی ہوئی ہیں،جس میں اسلامی تعمیری
تہذیب کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں ان کمانوں کے اوپر چھجے بنے ہوئے ہیں کمان کے اوپر کی چھت چاروں طرف سے ڈھلوان ہے جو علاقائی موسمی حالات کی مطابقت میں بنائی گئی ہے،اس کمان میں دروازہ ہے اور اس دروازے کی عمارت کے دونوں کونوں پر چھوٹی مینار جیسی ساختیں ہیں جن پر چھتری جیسی شکل بنی ہوئی ہے، اسی عمارت پر مینار بناہے جو اوپر پہنچ کر مخروطی مندر کے گوپورم جیسی ساخت یا ’’پگوڈا ‘‘ جیسی تعمیر میں تبدیل ہوجاتا ہے اس ساخت کے اوپر ایک کلس لگا ہوا ہے جو مسجد کی شناخت کا اعلان کرتا رہتا ہے۔مسجد کے چاروں بڑے دروازوں کے سامنے چبوترے بنے ہوئے ہیں جن میں پانی کے حوض بھی موجود ہیں، مسجد کی اصل عمارت میں کئی کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں جو دروازوں کی مناسبت سے کمان جیسی ساخت رکھتی ہیں ، اس مسجد کی اہم خصوصیت اس کے اندرون موجود ستون ہیں جو تعداد میں کثیر ہیں اور Cedrus deodara کے بنے ہوئے ہیں یہ ایک مشہور درخت ہے جس کو اردو،ہندی میں ’’دیودار‘‘ اور عربی میں’’ شجرۃ ارز ‘‘ کہا جاتا ہے،یہ درخت اپنی نوعیت کا انوکھا درخت ہے جس کی عمر ایک ہزار سے پانچ ہزارسال تک ہوتی ہے یہ درخت تقریباً چالیس میٹر لمبا ہوتا ہے، اس درخت میں سخت سردی برداشت کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے ان کا تنہ چوڑا ہوتا ہے، کشمیر میں عام طور پر ہاؤز بوٹس اسی لکڑی سے بنائے جاتے ہیں ،جامع مسجد کشمیر میں اسی درخت کے ستون ہیں، ہر ستون درخت کے ایک ہی تنے میں تراشا گیا ہے ،ستون تقریباً گول ہیں لیکن قریب سے دیکھنے پر اس میں کثیر ضلعی تراش دکھائی دیتی ہے۔مسجد میں ان ستونوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 370ہے ،مجموعی طور پر مسجد میں لکڑی کا استعمال زیادہ ہے،لکڑی سے بنایا گیا صدر دروازہ متاثر کن ہے جس کے اطراف پانچ قطاروں میں نیلے رنگ کے پتھر جڑے ہوئے ہیں۔،مسجد کا اندرونی صحن بڑا ہے یا مسجد بڑے صحن کے اطراف بنائی گئی ہے جو اس کی منفرد خصوصیت ہے، یہ مسجد 384فٹ لمبی اور 381فٹ چوڑی ہے مسجد میں تقریباً تیس (30) ہزار سے زائد نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں ، لیکن جمعہ اور عیدین کے موقعہ پر نمازیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ کمپاؤنڈ کی قدرتی آرائش مغلوں کے باغوں جیسی شان رکھتی ہے، علاقے کی مناسبت سے مسجد کا اندرونی صحن بہت خوبصورت اور دیدہ زیب ہے،کئی جگہ فوارے نصب ہیں ۔اندرونی صحن میں چار بڑی راہداریاں ہیں جو مسجد کے حسن کو قدرتی خوبصورتی عطا کرتے ہیں ۔مسجد کا اندرونی باغ جیسا صحن ، لکڑی کے ستون اور پگوڈا جیسے مینار اس مسجد کو ایک منفرد خصوصیت عطا کرتے ہیں جو ہمیں ہندوستان کی دوسری مساجد میں دیکھنے میں نہیں آتا۔