علی سردارجعفری کا التہابی شعری آہنگ اور فکری ما خذ
ڈاکٹر قطب سرشار
موظف لکچرر، محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09703771012
اُردو شعری اظہارکی تاریخ کا دور متقدمین کا رہا ہے اوردوسرا متاخرین کا ۔ غالبؔ ، میر حسنؔ ، انیس دوبیرؔ اور سودا ؔ اپنے شعری اظہار کے لئے جن مو ضو عات کو چنا ان کے حوالے سے اردو شاعری کی شرو عات نہا یت و قیع تراور فنّی اظہار کا اعلیٰ ترین اعتبار ثابت ہو ئی ہے ان شاعروں نے غزل ، مثنوی مر اثی اور قصیدے کے سانچوں میں فکر و فن کے شاہکار تخلیق کئے غالب نے فکر وفلسفہ میر حسن نے تہذیبی منظر نامے انیس ودبیر نے شجا عت، شہادت اور حریت پسند جذبات کے نمائندہ کر داروں کے ایسے پکے اور روشن نقوش ابھار ے ہیں کہ جن میں شعری اظہار کے تمام تر داخلی و خارجی محاسن سے معمور بے پنا ہ کمال تخلیق کے گو نا گوں رنگوں کے انکشافات ہوئے ہیں ۔ مرزامحمد رفیع سوداؔ نے ذات و صفات کے رو شن پہلو ؤں کواس درجہ طاقتوراسلوب میں اُجاگر کردئیے کہ صدیوں کے بعد بھی ان کے رنگ پھیکے پڑ تے نظرنہیں آتے ۔ تا ہم شعرائے متقدمین و متا خرین کی سینکڑوں کی بھیڑ ، روایتی تقلید ی رجحانات کے باعث ، حر ف و ہنرکے اکتا دینے والے بے فیض سیلاب کے مترادف رہی ہے جمو د اور زوال پذیر رجحان اور بے سمت فکری میلا ن ، تکنیکی ور زش تخلیقی اظہار کے فقدان کے سبب پیدا شدہ یکسا نیت کو محسو س کر وا نے اور شاعری کے جمو د کو توڑنے کے سنجیدہ مشن کولے کرحالی اورمحمد حسین آزاد نے ترکےغزل اورنظم گوئی کے رجحان کی داغ بیل ڈالی۔
غزل سے گریز اور نظم گوئی کی صلا ح کو محدود فکراورگھسے پٹے مو ضوعات کو غزل کے اشعار میں رگید نے کے عادی اذہاں نے خا طرخواہ قبول نہیں کیا اس طرح جدید ادب کی تحریک نا پسند یدہ سہی خاطرخواہ کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ جدید ادب کی تحریک کے کمزور پڑ جا نے کے بعد اردو شعری اظہار’’ قحطِ موضوع‘‘کا شکار ہو گیا ۔ جبکہ زما نی تغیرات شاعری میں موضوعات کے تنوع کے متقاضی ہوتے رہیں۔ شاعری میں فکری ماخذ روح کا درجہ رکھتا ہے ابدیت اور آفاقیت کے حامل فکری ماخذ سے شعری اظہار کی عمرصدیوں پر پھیل جا تی ہے ابدی فکری ما خذ کے انتظار میں بیدارذہن رتجگے کرنے لگے تھے لیکن مشر قی اُفق کی دھند چھٹتی نظر آتی تھی ایسے میں ایک مشرقی دانشورسجاد ظہیرنے اہل مشرق کومغرب کی سمت سے طلوع مہرکا مثردہ سنا یا یہ مثردہ تھا ترقی پسند تحریک کا تعارف نامہ سجاد ظہیراورعبدالعلیم کی جانب سے پیش کردہ ترقی پسند تحریک کے منطقی اورفطری جواز کو سب سے پہلے پسند اور قبول کرنے والے اکابرین ادب پریم چند ، محمودا لظفر ، احتشام حسین ‘رشید جہاں ‘فیض احمد فیضؔ تھے بعد ازاں اس قافلے میں کرشن چندر ، اسرارالحق مجاز، مجروحؔ سلطان پوری اورعلی سردارجعفری شامل ہوگئے۔ ۱۰/ اپریل ۱۹۳۲ء لکھنو شہرمیں منعقد ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس میں ترقی پسند تحریک کی سیاسی اساس رکھی گئی۔ اوراس تحریک کو بتدریج مراٹھی ، بنگالی، پنجابی، گجراتی، کنٹری ، ملیالم، تلگو اور تامل ادیب اورشاعراپنے نئے اندازفکرکوموضوع بنا تے رہے اس طرح ہندو ستانی ادب کو ایک اچھو تا اور طاقتور فکری ماخذ دستیاب ہو گیا۔ مختلف ہندو ستا نی شاعروں اورادیبوں نے اپنی تحریروں کے وسیلے سے ظلم واستبد اد اوراستعماریت کے خلاف عوام الناس کے شعوروادا کو مہمیز لگائی اس سے سر مایہ دارانہ استحصال اور معاشی عدم توازن کے با عث بلکتی اورسسکتی ہوئی انسا نیت کو توانا ئی حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ انسان کو وجدانی اور جذباتی طور پر حساس بنا نے کی کامیاب کو شیش بھی ہو نے لگیں۔
یہاں ہمارا موضوعِ گفتگو ترقی پسند تحریک سیاسی معنویت کی کھو ج کرنا ہرگزنہیں بلکہ ہمیں سردارجعفری کے شعری اظہارکے موضوع پرگفتگو مقصود ہے ۔ اردو شاعری میں ترقی پسند تحریک کے فنی اورمنطقی ما خذ اورنتیجہ خیری کا جن اردو شاعروں نے ترقی پسند تحریک کےشعری اظہار کو موضوع بنا یا ان کی اگلی صفوں میں فیض احمد فیض ، مجروح سلطان پوری‘ اسرارالحق مجاز، معین احسن جذبی اورعلی سردارجعفری کے نام بہت ہی رو شن نظر آتے ہیں ۔ خصو صاً علی سردارجعفری ہمہ گیر قلم کار ہوئے ہیں ۔ انہوں نے شاعری کے علاوہ تنقید اورادبی صحافت میں اپنا لو ہا منو ایا نظم گوئی کے وسیلے سے اُردو دنیا کو التہابی شعری آہنگ سے متعارف کروایا ہے ۔ جعفری کا انقلابی شعری آہنگ منطقی و وجدانی سطحوں پر قارئین کی ذہن سازی کے امکانات کو بھی قوی بنا نے کے سمت نہایت مو ثر کر دار ادا کر تا رہا ہے ۔ علی سردارجعفری کے شعری آہنگ کا ان کے عہد کے ادبی تنا ظر میں جائزہ لیتے ہیں تو اہم تر ین انکشافات کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں ۔ ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی طاقتوراوراہم صفت یہ رہی کہ اس کے وسیلے سے قلم کاروں کو ایک ایسا جا مع اوراثرانگیز موضوع دستیاب ہوا جسے خوابیدہ ذہنوں پرانقلابی دستکوں کا تسلسل کہا جا سکتا ہے ۔ علی سردارجعفری نے اس طاقتوروتوانا فکری ما خذ کے ساتھ انصاف کرنے کے مرحلے میں کوئی کس نہیں چھوڑی ۔ ان کی حسب ذیل شعری تصانیف ہمارے استدال کا وثیقہ کہی جا سکتی ہیں۔
.1 پرواز (۱۹۴۳ء) .2 نئی دنیا کو سلام (۱۹۴۷ء)
.3 خون کی لکیر (۱۹۴۹ء) .4 امن کا ستارہ (۱۹۵۰ء)
.5 ایشیا جا گ اٹھا (۱۹۵۰ء) .6 پتھر کی دیوار (۱۹۵۳ء)
.7 ایک خواب اور (۱۹۷۷ء) .8 پیراہنِ شرر (۱۹۷۸ء)
.9 لہو پکار تا ہے ( ۱۹۷۸ء)
علی سردارجعفری نے اپنی نظموں کے وسیلے سے مظلوم مضمحل اور ما یوس انسانو ں کے ذہنوں میں برسوں سے دبی چنگاریوں کو بے پنا ہ شدت کے ساتھ ہوا دی کہ ذہنوں میں التہا بی کیفیا ت کے ظہور نے حریت پسندی اوراحتجاجی تپش پیدا ہوگئی ۱۹۴۳ء میں ان کا پہلا شعری مجمو عہ’’ پر واز‘‘ شائع ہوکرمنظرعام پرآیا تو نظم کے مزاج داں حلقوں میں ہلچل سی مچ گئی افکار کا درجہ حرارت بڑھنے لگا ۔ مزدروں اور سرمایہ داروں کی معاشی کشمکش جب سردارجعفر ی جیسے باشعورشاعر کے الفاظ میں منعکس ہو جا تی ہے تو سچائیوں کو محسوس کرنے کی شروعات ہوجا تی ہے۔ نظم ’’ مزدورلڑکیاں‘‘ کا ۔ اقتباس ملا حظہ کریں۔
گردش افلاک نے گودی میں پالا ہے انہیں
سختی آلام نے سانچے میں ڈھالا ہے انہیں
گھورتی رہتی ہے گرمئی نگاہ آفتاب
آسماں کرتا ہے نازل ان پہ کرنوں کا عتاب
بیکسی ان کی جوانی مفلسی ان کا شباب
ساز ان کا سوز حسرت خامشی ان کا رباب
خشک لب پھیکی نظر مدقوق چہرے زدرگال
وہ دھنسی آنکھیں فسردہ رنگ گرد آلودہ بال
پپڑیاں ہونٹوں پہ زخموں کے کناروں کی طرح
گرم ہاتھوں پر عرق مدھم ستاروں کی طرح
یہاں تک مظلومیت کا منظرنامہ رقم ہوا ہے اب آگے مزدورلڑکیوں کی قوتِ احتجا ج اور جر أت سلاسل شکنی کی ترجما نی ملا حظہ کریں۔
لیکن ان کی پستیوں کو اپنی رفعت سے نہ دیکھ
ان کی غربت پر نہجا ان کو حقارت سے نہ دیکھ
اپنی نظروں سے یہ لکھ سکتی ہیں تاریخوں کے باب
ان کے تیور دیکھتی رہتی ہے چشم انقلاب
ٹھوکروں پہ ان کی جھک سکتے ہیں ایوان وقصور
توڑ دیتی ہیں ہتھوڑوں سے چٹانوں کا غرور
ایسا اکثرہوتا آتا ہے کہ شاعر کا ذوقِ حریت اورمجاہدانہ سوچ اس کے لفظوں میں انگارے سمو دیتی ہے اور وہ وجد کے عالم میں غیر منطقی جذبے سے سر شارہوکربولنے لگتا ہے یعنی اپنے سما ج کوزندہ قوموں پرگمان کرنے لگتا ہے ۔ مثلاً انقلاب روس کے پس منظرمیں نظم کا اقتباس ملا حظہ کریں۔
رقص کراے روح آزادی کہ رقصاں ہے حیات
زندگی مینا و ساغر سے اُبل جانے کو ہے
کامرانی کے نئے سانچے میں ڈھل جانے کو ہے
اُڑرہا ہے ظلم و استبداد کے چہرے سے رنگ
چھٹ رہا ہے وقت کی تلوار کے ماتھے کا زنگ
موت ہنس کر دیکھتی ہے آئینہ تلوار میں
زرپرستی کا سفینہ آگیا منجدھار میں
آگیا ہے وقت جو آتے ہی ٹلتاہی نہیں
اپنا لنگر آج اپنے سے سنبھلتاہی نہیں
ہل چکا ہے تخت شاہی گرچکا سرسے تاج
ہر قدم پر ڈگمگایا جارہا ہے سامراج
غم کے سینے میں خوشی کی آگ بھرنے دو ہمیں
خوں بھرے پرچم کے نیچے رقص کرنے دو ہمیں
رُوحِ آزادی کو سینے میں جکڑسکتا ہے کون
ناچتے سورج کی کرنوں کو پکڑسکتا ہے کون
قوم روس نے تو تصورانقلاب کو یقینی بنا لیا تھا لیکن ہندوستان ادراک حق حریت پسندی اورعظمت آدم کو یقینی بنا نے کے مر حلے میں مایوس کن رفتار کا مظا ہرہ کررہا ہے ۔ یہ حقیقت سردارجعفری سے کب پو شیدہ رہی ہے ۔ یقیناانہیں بھی اس حقیقت کا ادراک رہا ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد عہد گذشتہ کی استعماریت نئے استعاروں کے پیراہنوں میں زندہ اور سرگرم ہے ۔ ایک اورنظم انہوں نے کہی ہے جس کے اصلی سیاق و سباق سے ہٹ کرعصری تناظر میں نظم کا ادراک کریں تو لگتا ہے شاعر چیختا ہی رہ جائیگا لیکن زمانہ اپنے تیور بدلنے والا نہیں ۔
سیہ رنگ پھریرے ہوا میں اُڑتے ہیں
کھڑی ہوئی سیہ رات سر اٹھائے ہوئے
سیاہ گھوڑوں ٹاپوں سے ہل رہی ہے زمین
سیہ عقاب سیہ آسماں پہ چھائے ہوئے
سیہ سینوں کو تانے ہوئے سیاہ پہاڑ
سیہ لوہے کی دیوارسی بنائے ہوئے
سیاہ وادی وصحرا سیاہ دریا ہیں
سیہ دشت سیہ کھیت لہلہائے ہوئے
سیاہ فیکٹری کی سیاہ چمنی پر
سیہ دھویں کا سیہ ابر تھرتھرائے ہوئے
سیاہ تیرسیہ زہر میں بجھائے ہوئے
سیاہ دار سیہ پھانسیاں سیہ پھندے
سیاہ جبر سیہ عصمیتں سیاہ چیخیں
سیاہ غول سیہ کلغیاں لگائے ہوئے
ضمیر عہد غلامی کی تیرگی ہے یہ رات
جو پھر رہی ہے اجالے سے مہنہ چھپائے ہوئے
کہاں ہے روشنی صبح انقلاب کہاں؟
ضمیر حضرتِ انساں کا آفتاب کہاں؟ (نئی دنیا کو سلام)
اس نظم کی معنوی فضاء میں شاعرگمان انقلاب کی دھند کو چیرتا ہوا نکل آیا ہے اورسیاہیوں کے ادراک نے اسے روشنی صبح انقلاب اور ضمیرانسان کی کھو ج میں اندھروں میں سرگرداں کررکھا ہے ۔ شاعرجب کرب حیات سے بلک اٹھتا ہے تواس کا قلم روشنائی کے بدلے لہو اُگلنے لگتا ہے ۔ شعری اظہارمیں آگہی اورفنی اظہار کے امتزاج سے لفظوں کا بر تاو بھی بدل جا تا ہے تب اک نئی معنویت بے آواز دستکوں کی صورت گو نج اُٹھتی ہے ۔
نظم آنسوؤں کے چراغ کا یہ اقتباس۔
میں سن رہا ہوں وہ سسکیاں
جوزمین سینے میں داغ بن کررہ گئی ہیں
وہ ہچکیاں جن کے سخت پھندے
رباب وبربط کی گردنوں میں پڑ ے ہوئے ہیں
وہ آہیں جو ظالموں کے ڈرسے
دلوں میں محبوس ہوگئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خواب ہے کس قدر پریشاں
ہزاروں سہمی ہوئی نگا ہیں
بلکتی آنکھیں سسکتی پلکیں۔۔۔۔۔۔(آنسوؤں کے چراغ)
علی سردارجعفری کا شعورظلم واستبد اد اورجبرکی بھٹی میں تپ کرکندن ہوا تواس کندن سے انہوں نے بندوق بنالی۔ ان کا قلم انگلیوں سے پھسل گیا۔ اور پھر شعری اظہار کی دہاڑ میں تبدیل ہو گیا۔
ساتھیوں اب میری انگلیاں تھک چکی ہیں
اورمیرے ہو نٹ دکھنے لگے ہیں
آج میں اپنے بے جان گیتوں سے شرمارہا ہوں
میرے ہاتھوں سے میرا قلم چھین لو
اور مجھے ایک بندوق دے دو ۔۔۔۔۔۔!(رومان سے انقلاب تک)
قلم کی اثرانگیزی جب اپنی معنویت سے محروم ہوجا تی ہے تو آگ بارود سے ہم آہنگ ہو جا تی ہے اوردھما کا ہوجا تا ہے تب زلزلوں کی دہشت سے استبداد کی اونچائیوں کے کلیجے شق ہو نے لگ جا تے ہیں بقول کسے
پستیوں نے جب بھی لیں انگڑائیاں
زلزلوں سے ہل گئیں اونچائیاں
جہاں تک انقلاب کا تصور ہے ’’وہ انقلابِ فکر‘‘ ہے جو عسکری انقلاب سے کہیں زیادہ پرامن اورپائیدارہوتا ہے ۔ علی سردارجعفری کوجس لمحہ ’’مشقتِ افکار‘‘ نے ادراک وآگہی کی جہت سے آشنا کیا وہ پھرسے سنبھل کر اس طرح گویا ہوئے۔
شاعر و ساتھیو!
کا کلوں کی گھنی چھاؤں سے
سرخ پرچم کے سائے تلے آؤ
اورگیت گاؤ
گاؤمزدور کے سازپر
آہنی کاروانوں کے قدموں کی آوازپر
گاؤ! جس طرح میدان میں کوئی مجاہد رجزپڑھ رہا ہو
گاؤ جیسے سمندر میں طوفان کا دیو تا چڑھ رہا ہو
گاؤ گرجتے ہوئے بادلوں کی طرح
گاؤ کڑکتی ہوئے بجلیوں کی طرح
آندھیوں کی طرح زلزلو ں کی طرح
گولیوں کی طرح اپنے الفاظ دشمن پہ برساؤ
سارے عالم پرچھا جاؤ ۔ (نظم ’’رومان سے انقلاب تک‘‘)
یہ گھن گرج الفاظ کی نہیں بلکہ تجربات کی کوکھ سے آفریدہ اٹل اورفیصلہ کن اندازِفکرکی ہے ۔ محض رسمی دعوتِ فکربھی نہیں بلکہ شاعروں اور ساتھی قلمکاروں کوجھنجوڑنے والی سنسنی خیرآواز ہے ۔ علی سردارجعفری کے شعری اظہار کی بنیادی صفت یہ کہ وہ اپنے الفا ظ کے رنگوں سے ایک طاقتورعسکری ماحول کی ولو لہ انگیز صورت گری کرتے ہیں ۔ جعفری صاحب کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ سرزمین ہند کی تاریکیوں کو محو کرنے کے لئے انقلابِ روس کا ’’ سورج‘‘ مستعار لینے لگے تھے ۔ کہنے لگے۔
شاعرو المودانشورو!
آج سے روح و دل ذہن و افکارآزاد ہیں
سازآزاد ہیں گیت آزاد ہیں
اورتم اپنی دانش فروشی کی لعنت سے آزاد ہو
گاؤ اپنے دلوں کے ترانے
اپنے آزاد ملک اورآزاد محنت کے افسانے لکھو
تم توانسان کی روح اور دل کے معما رہو ۔ (امن کا ستارہ)
غلام قوم کے قلمکارودانشورجب ’دانش فروشی‘کے جبریہ ماحول کی گھٹن سے آزاد ہوجا تے ہیں توان پرلازم ہوجا تا ہے کہ وہ علم ودانش کے حلقوں کو انسانوں کے دلوں اورروح کی تربیت گاہ بنا لیں تا کہ انسا نی سماج پرچھا ئی ہوئی ’ قحطِ افکار ‘کی دھند چھٹ جائے اس طرح معاشرتی ومعا شی عدم توازن کا فتنہ ختم ہو جائے ۔
خواب کی ایک حقیقت یہ بھی ہو تی ہے کہ وہ لمحا ت آئندہ کے من پسند ماحول کی امکانی صورت گری ہے ۔ خواب اورشکستِ خواب تو’’ تواُترلمحات ‘‘ کے غیرمتوقع تجربے ہو تے ہیں علی سردارجعفری کا ساتواں شعری مجموعہ ’’ ایک خواب اور ۱۹۷۷ء ‘‘ میں منظرعام پرآیا ۔ اس نام سے انکشاف ہوتا ہے کہ شاعرشکستہ خوابوں کے ڈھیرپرایستا دہ ’’ایک اورخواب‘‘ کے افق پراُمید کے سور ج کا منتظر ہے ۔گویا خوابوں کی شکست وریخت حوصلوں کی شکست کا سبب نہیں ہوسکتی ۔ اورخود سردارجعفری لکھتے ہیں ۔
ہمیں خصو صاً ایک خواب اور کا شعری اظہاربیانیہ اورخطیبانہ کم تخلیقی زیادہ لگتا ہے ۔ ایک مکمل اورصوری حسن کی حامل نظم ہے ۔ اس میں لفظوں کے شاعرانہ برتاونے ایسی فضا پیدا کردی ہے جس طرح طوفان یا زلزلوں کے تھم جا نے کے بعدکی صورت حال ہوتی ہے ۔ نظم کے چند اقتباسات ملا حظہ کریں۔
یہ تو ممکن نہیں بچپن کا کوئی دن مل جائے
یا پلٹ آئے کوئی ساعت نایاب شباب
آہ پتھرکی لکیریں ہیں کہ یادوں کے نقوش
کون لکھ سکتا ہے پھرعمرگذشتہ کی کتاب
***
جانے کس موڑپہ کس راہ میں کیا بیتی ہے
کس سے ممکن ہے تمناؤں کے زخموں کا حساب
آستینوں کو پکاریں گے کہاں تک آنسو
اب تو دامن کو پکڑتے ہیں لہو کے گرداب
جانے کیا بات ہے شرمندہ ہے انداز خطاب
دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے پھرتے ہیں سوال
تشنگی کوآبلہ پائی سے تعبیرکرنا اورمو جِ سراب کو شعلہ بکف، یادوں کے نقوش پتھرکی لکیریں ، لہو کے گرداب انداز خطاب کا خجل ہونا اورسوالات کا اپنے جوابات کی کھوج میں ٹھوکریں کھانا وغیرہ لفظوں کی ایسی استعاراتی فضا ہے جس میں زما نی تغیرات کے سچے ادراک کا ایک مضمحل احساس پا یا جا تا ہے نظم کے قاری کا ذہن اگرشاعر کی سوچ کے قدم بہ قدم چلنے لگے تو لمحۂ گذشتہ سے لمحۂ موجود تک معدوم وموجود کے حقائق کا ازسر نو ادراک ہو نے لگتاہے ۔
تر قی پسند تحریک نے اُردو شاعری کو ابدیت اورآفاقیت سے معمورکیا ہے کوئی فکری ماخذ نہیں دیا تاہم شعری اظہارکی فضاؤں میں زلزلہ خیزی ضرورپیدا کردی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ مظلوم کے اندردرد کا ادراک اور ذوقِ احتجا ج بھی بیداربھی کردیا ہے ۔ شاعری میں عموماً دو طرح کے فکری ما خذ کا انکشاف ہوتا رہا ہے ۔ پہلا زمانی ومکانی اوردوسرا ابدی وآفاقی۔ اُردو شاعری نے مشقتِ فکر ، تہذیبی رنگ آمیزی اور بلندآہنگ لہجوں کے وسیلے سے یقیناً کئی سنگ میل طئے کرلئیے لیکن برسوں سے تا حال شعری منظرنامے میں ابدی وآفاقی فکری ماخذ کی سمت شاعروں کی توجہات خاطرخواہ تعداد میں نظرنہیں آتی غالبؔ و اقبالؔ پیدا نہ ہوئے ہوتے توشاید اُردو’’شعری اظہار‘‘ دنیا کی مہذب زبانوں کے شعری اظہارسے آنکھیں نہ ملا پا تا ترقی پسند شعری اظہار کے حوالے سے علی سر دار جعفری کی شبیہ اس لئے بھی روشن نظرآتی ہے کہ انہوں نے اس وقت دنیا ئے شاعری کوتازہ اور زندہ موضوع سے روشنا س کروایا ہے جبکہ اُردو شاعری کے لئے ایک گر تازہ طاقتوراورمنطقی موضوع محسوس کی جارہی تھی۔ تب اس مرحلہ میں علی سردارجعفری کا شعری اظہار بیش قیمت عطیہ ثابت ہوا ہے ۔