خاکہ : پروفیسر سید نور الحسن : عظیم انسان ، مشفق استاد
پروفیسرمحمد شمیم جیراجپوری
سابق وائس چانسلر‘
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ۔ حیدرآباد
پروفیسر نور الحسن صاحب کا نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور پورے ہندوستان میں بہت جانا پہچاناہے۔ انھوں نے علی گڑھ میں قریب دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک قیام کیا اور شعبۂ تاریخ میں ریڈ اور بعد میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے پھر ہیڈ اور ڈین فیکلٹی ہوئے۔ علی گڑھ میں نور الحسن صاحب جب تک رہے ان کی منفرد پہچان رہی انھیں پڑھے لکھے اور قابل شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ انھیں اپنے شاگردوں سے بے پناہ ہمدردی اور محبت تھی اور ہر ایک کو ہمیشہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے تھے، یوں بھی یونیورسٹی کاکوئی شخص ان سے کسی بھی کام کے لیے ملتا وہ حتی الامکان اس کو صحیح رائے دیتے تھے، اگر ممکن ہوتا تو اس کام کو خود کروانے کی کوشش کرتے۔
لیکن میں یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ ان دنوں میں علی گڑھ کے سینئراساتذہ جنھیں تھوڑی بہت سیاست سے دلچسپی تھی وہ دو خیموں میں بٹے ہوئے تھے، ایک ’’مسلم گروپ‘‘ کہلاتا تھا اور دوسرا پروگریسیو (Progressive) یا کمیونسٹ(Communist) گروپ تھا اور ان دونوں گروپس (Groups) کے لوگ ایک دوسرے سے اچھی خاصی ذہنی مخالفت رکھتے تھے۔میں ظاہرہے اس وقت اپنے علی گڑھ کے دور کے ابتدائی مراحل طے کررہا تھا اوراس زمانے میں ہم لوگ اس طرح کے معاملات میں کوئی بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ لیکن میں تمام طالب علموں کے لیے نہیں کہہ سکتا، کچھ طلبہ ان سے رابطہ رکھتے تھے لیکن زیادہ تر یہ لوگ سیاسی مقاصد کے لیے ایسا کرتے تھے حالاں کہ سبھی لوگ اعتراف کرتے تھے کہ نور الحسن صاحب ایک بہت ہی سنجیدہ لائق اور ہمدرد شخصیت ہے۔
پڑھنے لکھنے میں یونیورسٹی میں بہت ہی کم لوگ تھے جنھیں نور الحسن صاحب کا ہم پلہ کہا جاسکتا ہے، میں بذاتِ خود نورالحسن صاحب سے واقفیت تو رکھتا تھا مگر ان سے کبھی میری ذاتی طور پر ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ ۱۹۸۸ء میں مجھے ایک بہت بڑے عہدے کا آفر (Offer) ملا جو میرے مضمون زولوجی کی مناسبت سے تھا۔ حکومت ہند کے مشہورادارے زولوجیکل سروے آف انڈیا کا مجھے ڈائریکٹر بنایا گیا جس کا ہیڈ آفس کلکتہ میں واقع تھا ۔ اس Capacity میں خاکسارکوحکومتِ ہند کا مشیرکاربھی مقررکیا گیا جوتمام ہندوستان کے جانوروں کے تحفظ کے سلسلے میں تھا۔ کلکتہ علی گڑھ کے مقابلے میں بہت ہی مختلف جگہ تھی جواچھی توضرورتھی لیکن چونکہ میں اس جگہ سے بالکل واقفیت نہیں رکھتا تھا، اس لئے تھوڑی اجنبیت محسوس ہوتی تھی۔ اس زمانے میں یہاں کے گورنر ہماری اپنی یونیورسٹی کی مشہورشخصیت جناب پروفیسرسید نورالحسن صاحب ہی تھے۔ کچھ دنوں تک تو میری ملاقات ان سے نہ ہوسکی لیکن میرے اپنے علی گڑھ کے استاد پروفیسرسید ظہور قاسم صاحب جو کہ ۱۹۶۲ء میں علی گڑھ چھوڑ چکے تھے اسی کے ساتھ ساتھ وہ سید نورالحسن صاحب کے ہم زلف بھی تھے۔ ان دونوں کی بیویاں رامپور کے نواب صاحب کی صاحبزادیاں تھیں۔ ظہور صاحب ایک بے حد حسین وجمیل شخصیت کے مالک تھے، مردانہ وجاہت میں علی گڑھ میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، اورعلمیت میں بھی وہ سائنس کی دنیا میں مچھلیوں کے اوپرمہارت رکھتے تھے۔ ظہور قاسم صاحب فشریز کے بہت سے اعلیٰ اداروں میں سربراہ بھی رہ چکے تھے، اس وقت حکومت ہند کے سکریٹری کے عہدے پر کام کررہے تھے، لیکن سائنس کے میدان میں ان کی دلچسپی کافی حد تک برقرارتھی۔ دوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ محکمۂ اوشن ڈیولپمنٹ (Ocean Development) کے سربراہ بھی تھے اوراس سلسلے میں وہ اکثرکلکتہ آتے جاتے رہتے تھے۔ سید ظہور قاسم صاحب کو یہ اچھی طرح سے معلوم تھا کہ میں بھی کلکتہ میں موجود ہوں کیونکہ وہ ہمارے Z.S.I. کی بھی کئی کمیٹیوں کے چیرمین یا ممبرہوتے تھے۔ جب بھی وہ آتے گوکہ یہ ایک یا دو دن سے زیادہ کا وقفہ نہ ہوتا پھربھی ان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں بھی ان کے ساتھ رہوں، کیوں کہ میں B.Sc. میں تھوڑے دنوں تک ان کا شاگرد رہ چکا تھا اوروہ مجھے کافی پسند بھی کرتے تھے۔ ان سے تعلقات میرے اپنے ادارے (Z.S.I.) کی ایک ضرورت بھی تھی۔
حکومتِ ہندنے جب انوائرنمنٹ منسٹری (Environment Ministry) بنائی تو ظہورصاحب اس کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے اوراس محکمے کی بھی انھیں بہت معلومات تھیں۔ اس کے علاوہ وہ کلکتہ میں خصوصاً سائنسی حلقوں میں ایک بہترین شخصیت کے طورپربھی جانے جاتے تھے۔ لوگ انھیں اچھے مقررکے طورپرجانتے تھے، وہ کبھی اپنے مضمون کے سلسلے میں مدعوکیے جاتے اورکبھی جلسوں کی صدارت کے لئے۔ چوں کہ ڈاکٹر قاسم صاحب ہمیشہ اپنی آمد پرگورنرہاؤس میں ہی قیام کرتے تھے اس وجہ سے وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے کروہاں جاتے تھے، اوراس طرح میری نہ صرف گورنرنورالحسن صاحب سے ملاقات ہوئی بلکہ انھیں بہت قریب سے جاننے کا موقع بھی ملا۔
قبل اس کے میں اپنے اورسید نور الحسن صاحب کے تعلق سے تفصیل میں جاؤں میں یہ بتلانا چاہتاہوں کہ وہ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں کانگریس میں شامل ہوگئے تھے کیوں کہ محترمہ اندراگاندھی نے تمام پرانے کانگریسیوں اورترقی پسند لوگوں کوجوکانگریس کی پالیسیزسے اتفاق رکھتے تھے یہ خواہش ظاہرکی کہ وہ سب لوگ آکرکانگریس میں شمولیت اختیارکرلیں۔ نورالحسن صاحب نے ان کی آوازپرلبیک کہا اورکانگریس میں باقاعدہ طورپرشامل ہوگئے، اور اس طرح راجیہ سبھا کے ممبر بھی ہوگئے اورحکومتِ ہند میں وزارتِ تعلیمات کے وزیربنائے گئے۔ اس منسٹری میں انھوں نے بہت کچھ اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر بہترتبدیلیاں لانے کی کوشش کی جسے زیادہ ترلوگوں نے پسند کیا۔ اس زمانے میں علی گڑھ میں آرڈیننس (Ordinance) کے ذریعہ نیا بل پاس کرایا جس کی یونیورسٹی میں لوگوں نے مخالفت بھی کی۔ جناب پروفیسرعلی محمد خسروکا علی گڑھ میں وائس چانسلرشپ (Vice-Chancellorship) کا دورمکمل ہوا توجناب پروفیسرخلیق احمد نظامی صاحب کے وائس چانسلر بننے کے کافی اچھے امکانات تھے اوریونیورسٹی کے لوگ بھی یہی چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ پروفیسر نظامی بھی ہسٹری ڈپارٹمنٹ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ نورالحسن صاحب نے نظامی صاحب کو ملکِ شام کاسفیراپنے اثرورسوخ سے بنوانے میں ہرطرح کی مدد کی، یہ ایک بہترین مثال ہے کہ نورالحسن صاحب کتنے وسیع القلب تھے اوروہ آدمیوں کی لیاقت میں یقین رکھتے تھے۔ مجھے ان کے اوربھی کئی شاگردوں سے بات کرنے کا موقع ملا ہے اورسب نے ہمیشہ ان کی تعریف ہی کی ہے۔ چوں کہ یہ لوگ پروگریسیو خیالات کے لوگ تھے۔ اسی لیے میں ایک دوسرے شخص اوران کے شاگرد جناب اشتیاق احمد ظلّی صاحب کا ذکرکرنا یہاں پرمناسب سمجھتا ہوں جو نورالحسن صاحب کی علمیت، شرافت وغیرہ پرگھنٹوں بے تکان گفتگوکرسکتے ہیں، جناب ظلّی صاحب اس وقت اپنے وطن اعظم گڑھ کے مشہورادارہ دارالمصنّفین کے انچارج کے طور پرکام کررہے ہیں۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا افسوس رہا ہے اوررہے گا کہ میں نے کبھی علی گڑھ میں نورالحسن صاحب جیسی بہترین اوربے مثال شخصیت سے پہلے ملاقات کیوں نہیں کی،جب کہ وہ ۱۹۴۹ء سے کم ازکم پچیس سال کے قریب یہاں رہے (گوکہ وہ علی گڑھ کے کبھی طالب علم نہیں رہے تھے)۔ ان کی کچھ ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں انگلش میڈیم اسکول میں ہوئی اورآعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ تشریف لے گئے اورآکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی۔
میں کلکتہ ۱۹۸۹ء میں گیا اوروہاں کے مشہورادارہ زولوجیکل سروے آف انڈیا میں اس کے ڈائریکٹرکے طورپرقریب تین سال تک قیام کیا۔ گوکہ مجھے اس بات کا علم تھا کہ پروفیسرنورالحسن صاحب یہاں گورنرہیں۔ اورمشہوربلڈنگ جس میں انگریزی دورمیں ہندوستان کے وائسرائے قیام پذیرہوتے تھے، اس میں وہ رہتے تھے اوران کا آفس بھی وہیں پرتھا۔ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد اسے گورنرہاؤس بنادیاگیا تھا۔ نورالحسن صاحب کا گورنری کا دور ختم ہونے کے بعد ۱۹۹۳ء میں ان کے انتقال کے چند سالوں کے بعد اس میں ہماری ہی یونیورسٹی کی دوسری شخصیت پروفیسراخلاق الرحمن قدوائی صاحب قیام پذیرہوئے اوراس زمانہ میں مَیں حیدرآباد کی اردویونیورسٹی کاوائس چانسلر تھا اوراس تاریخی بلڈنگ میں مجھے بھی کئی بار قیام کا موقع میسرہوا۔ کیوں کہ قدوائی صاحب سے قربت ہونے کی وجہ سے میرا کلکتہ جانا اکثروبیش ترہوتا رہتا تھا۔
جیسا کہ میں اوپرعرض کرچکا ہوں کہ ظہورقاسم صاحب مجھے پہلی باراس بلڈنگ میں ۱۹۸۹ء میں لے گئے تھے اوریہ میری اورنورالحسن صاحب کی پہلی ملاقات تھی اوروہ مجھ سے بہت ہی پرتپاک طورپرملے اورکہا کہ مجھے علم ہے کہ آپ یہاں کلکتہ میں زولوجیکل سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں انھوں نے مجھے اس عہدہ تک پہنچنے کی بہت مبارک باد دی اور بہت دیرتک مجھ سے زولوجیکل سروے آف انڈیا کے بارے میں بہت تفصیل سے گفتگو کرتے رہے اورساتھ میں اس بات پربہت خوش نظر آئے کہ میں ڈائریکٹر کے ساتھ ساتھ حکومت ہند کامشیر کاربھی ہوں، جو کہ ہرطرح کے جانوروں سے متعلق تھا اوراس میں وائلڈ لائف (Wildlife)وغیرہ بھی شامل تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا اتنے اہم ادارہ انڈین میوزیم کی سربراہی بھی آپ ہی کے سپرد حکومت ہند نے کی ہے جسے دیکھنے کے لئے ہرروزہزاروں لوگ آتے ہیں۔
میں ان کی معلومات پر انگشت بدنداں رہ گیا۔ کیونکہ ان کو اس بات کابھی علم تھا کہ میری ذمہ داری صرف کلکتہ تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ Z.S.I. کے اٹھارہ ریجنل سینٹرتھے جو ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہیں اوران سب کی نگرانی بھی میرے ہی ذمہ تھی۔ اس دن انھوں نے نہ صرف کافی دیرتک مجھ سے باتیں کیں بلکہ اس پربھی مجھے مجبورکیا کہ میں بغیرکھانا کھائے ان کے یہاں سے نہ جاؤں۔ کھانے کی میزپربھی میرے لیے کئی ایسی چیزیں تھیں جو میں نے کسی اورشخص کے یہاں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ وہ سب لوگ جو کھانے پرمدعو تھے ان کی تعداد چھ تھی اورنورالحسن صاحب نے سب سے بیٹھنے کے لیے کہا لیکن جس ترتیب سے انھیں بیٹھنا تھا وہ ایک ایک کرکے سب کو بتاتے رہے۔ ان کی بڑی بہن جن کووہ آپا کہتے تھے ان کو اپنے پاس بٹھایا۔ آپا ان دنوں انھیں کے ساتھ رہ رہی تھیں اور وہ ان سے عمر میں کچھ بڑی تھیں تبھی تو وہ ان کو آپا کہتے تھے۔ میرے خیال میں نور الحسن صاحب کو ان کی وجہ سے بہت تقویت بھی تھی پھر اس کے بعد مجھ کو اور قاسم صاحب کو ان کرسیوں کی طرف اشارہ کیا جن پر ہمیں بیٹھنا تھا۔ سب سے آخر میں انھوں نے ان دو مہمانوں کوبیٹھنے کی ہدایت کی۔ اس طرح سے ہم سب کو اپنی سیٹوں پر بٹھادیا اور اس کے فوراً بعد کھانا Serveہوا جو کافی انواع واقسام کا تھا۔ جب ملازمین کھانا لے کر آتے تو کس پلیٹ کو کہاں پر رکھناتھا اس کی ترتیب بھی نوکروں کو نورالحسن صاحب نے بتائی۔ مجھے لگا کہ ہر شخص کا مخصوص کھانا گورنر صاحب کی پسند کے مطابق ان کے سامنے رکھ دیا گیا۔ کھانے کے بعد میٹھا serve ہوا اور چونکہ یہ بھی دو تین طرح کا تھا، اس کے بھی احکامات انھوں نے دئیے کہ کس کو کونسا میٹھا دیا جائے۔ اگر ملازم نے غلطی سے کسی کے پاس وہ ڈش رکھ دی جو Sir کے ذہن میں کسی اور کے لیے تھی تو فوراً ہدایت کرکے صحیح شخص کے پاس اسے پہنچوادیا۔ میں حیرت زدہ رہ گیا کیوں کہ آج تک میں نے اتنی نفاست سے بنا ہوا اور Serve کیا ہوا کھانا نہیں دیکھا تھا اور نہ کھایا تھا ،جس میں ہر آدمی کی پسند کاخیال رکھا گیا ہو اور صاحب خانہ یعنی اعلیٰ حضرت گورنر صاحب خود ہی ہر ایک کے لیے ہدایت دے رہے تھے۔ عموماً تو یہی ہوتا ہے کہ جتنے طرح کے پکوان ہوتے ہیں سب دستر خوان پر سجا دیئے جاتے ہیں اور اس میں لوگ اپنی خواہش کے مطابق اپنی پلیٹوں میں نکال لیتے ہیں۔ ڈنر کے بعد کافی دیر تک ہم لوگوں سے محو گفتگو رہے۔ محترم نو رالحسن صاحب ہر ایک سے اس کی مخصوص مشغولیت پر ہی بات چیت کرتے رہے یہ ان کی بہت اعلیٰ شخصیت اور یادداشت کا ایک بہترین نمونہ تھا جو مجھے پہلی ہی ملاقات پر نظر آیا۔ تھوڑے سے وقفہ کے بعد میں نے ان سے چلنے کی اجازت مانگی، Sir نے کہا کہ ایسی کیا جلدی ہے، لیکن اگر ایسا ہے تو ضرور جائیے لیکن جب چاہیں مجھ سے ملنے کے لئے آجائیں، بس میرے ریسپشن والوں کو زیادہ سے زیادہ ایک دن اور اگر جلدی میں آنے کا ارادہ ہو تو ایک آدھ گھنٹہ پہلے بتادیں، آپ کو یہاں آنے میں کبھی بھی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ظہور صاحب تو کل چلے جائیں گے لیکن آپ آتے رہےئے گا، میں شام میں عموماً اکیلا ہی ہوتا ہوں۔ کچھ علیگڑھ اور یہاں کی مصروفیات پر بات چیت ہوتی ہی رہنی چاہیے اور آپ کی ZSI کی Progress پر بھی نظر رکھوں گا ۔ اگر کوئی بھی آپ کو دشواری پیش آئے تو ضرور مجھ سے بتلائیں۔
ان سے پہلی اور اتنی بھر پور ملاقات ہونے کے بعد جب بھی میں شہر کلکتہ میں ہوتا تو پندرہ بیس دنوں کے اندر ان سے ضرور ملتا اور وہ بھی ہر بار بہت خوش ہوتے اور وہاں پہنچنے پر میں نے ان کو ہمیشہ اپنا منتظر پاتا۔ صرف مجھے ریسپشن والوں کو صرف اطلاع کرنی پڑتی تھی اور وہ لوگ فوراً مجھے اندر بلالیتے تھے۔ چوں کہ وہ میرے اور Sir کے تعلقات کو جان چکے تھے۔ جب بھی ان کے پاس جاتا تو ہائی ٹی پلاتے تھے یا یہ حکم صادر ہوتا تھا کہ میں کھانے پر رک جاؤں کیوں کہ انھیں یہ احساس تھا کہ میں تن تنہا کلکتہ میں رہ رہا ہوں۔ اس بیچ میں ایک بار بقرعید پڑی تو یہ پتا چلا کہ ان کے گھر باقاعدہ بکرے کی قربانی ہوئی ہے جو ڈاکٹر صاحب نے یا آپا نے کرائی ہے۔ ویسے تو میں نے انہیں انشاء اللہ ماشاء اللہ کہتے بھی کبھی کبھی سنا ہے، ان کی بہن صاحبہ تو مجھے ہر لحاظ سے ایک پکی مسلمان خاتون ہی لگیں جیسا کہ میں اوپر بھی لکھ چکا ہوں۔
یہ دونوں بہن بھائی ہی اکیلے اس خوبصورت تاریخی اور وسیع بلڈنگ میں رہتے تھے۔ بذلہ سنج تو وہ تھے ہی ہوسکتا ہے کہ یہ خاندانی اثر رہا ہو یا علی گڑھ میں چوتھائی صدی گزارے ہوئے دنوں کی وجہ سے ایسا تھا۔ بات چیت بہت فراخ دلانہ طور پر کرتے تھے کیوں کہ وہ دل کے بہت صاف گو انسان مجھے لگے۔ وہ دوسروں کی مدد کرنے کے لئے ہر طرح سے تیار رہتے تھے۔ اپنی علی گڑھ کی گزری ہوئی زندگی پر اکثر وبیش تر باتیں کرتے تھے اور میری اپنی زندگی میں یوں بھی ہر طرح سے علی گڑھ ہی چھایا رہتا ہے۔ ایک بار باتوں باتوں میں میں نے ان سے کہا کہ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر ہم لوگ ابتدائی عمر میں بیس پچیس سال تک اسٹیشن کے دونوں جانب سے سیڑھیوں والے پل سے نہیں بلکہ آنے جانے والی سیڑھیوں کے پاس سے کود کر دونمبر کے پلیٹ فارم سے تین نمبر کے پلیٹ فارم پر اس خلیج کو پارکر پہنچ جاتے تھے، اس بات پر وہ خوب ہنسے۔ جب میں نے کہا کہ یہاں تک کہ میں نے پروفیسر آل احمدسرور صاحب کو ایک بار دو نمبر سے تین نمبر پلیٹ فارم پر اسی طرح کود کر جاتے دیکھا تھا لیکن اب اس بات کو ایک کو عرصہ گزر چکا ہے۔ جب میں نے یہ کہا کہ ہمارا سفر چاہے دہلی کا ہو یا لکھنو کی طرف کا، عموماً تھرڈ کلاس سے جاتے تھے اور ڈبے کے اندر کبھی اس کے دروازے سے داخل نہیں ہوتے تھے بلکہ پیر بڑھا کر ڈبے کے اندر سیدھے کھڑکی سے گھس جاتے تھے۔ جس میں ہمارے ساتھی لڑکے بھی مدد کرتے تھے، یعنی ایک دوسرے کو اندر کھینچ لینے میں، اور اگر کوئی ساتھی نہ بھی ہو تو چار پانچ دوست اور ہوسٹل فیلوز ضرور اسٹیشن پہنچانے آتے تھے اور ہم سے روایتاً چائے بھی ضرور پیتے تھے۔ یہ سن کر بہت مسکرائے اور بولے کہ علی گڑھ میں یہ کام تو ہم بھی کرچکے ہیں۔ اس پر میں نے دل دل میں یہ سوچا کہ یار یہ تو ہم سے بڑے علیگیرین نکلے کہ انھوں نے ریڈر شپ کے زمانہ میں بھی یہ کام کرڈالا جب کہ ہم یہ نہ کرسکے تھے۔
۱۹۸۹ء جب دردانہ اور میرے تینوں بچے کلکتہ آئے تو ہم سبھی لوگ ان سے ملنے گئے۔ سب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور جب میں نے اپنی اہلیہ کا تعارف کرانے کا ارادہ کیا اور یہ کہناہی چاہا کہ یہ ہیں……تب وہ فوراً بولے، ارے! بھائی میں انہیں اچھی طرح سے جانتا ہوں، یہ ہیں دردانہ شمیم جیراجپوری صاحبہ جو کہ زولوجی میں ریڈر ہیں اور آپ کے ساتھ ہی زولوجی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی ہیں ۔ اس کے بعد میری تینوں بچیوں کو اپنے پاس بلایا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کانام دریافت کیا۔ پھر سب سے چھوٹی بیٹی، جو اس وقت تقریباً نو سال کی تھی، اس میں خصوصی دلچسپی دکھائی اور اسے اپنے پاس ہی بٹھایا ۔ اس سے باتیں کرکے لطف اندوز ہوتے رہے پھر اپنے خادمین کو بلا کر چائے لانے کو کہا۔ جس میں زیادہ تر چیزیں جیسے کیک ، پیسٹریز، آئس کریم اور انواع واقسام کی ٹافیاں وغیرہ شامل تھیں، اور ہم سبھوں کو نوش کرنے کے لیے کہا اور ان میں سے خود کسی چیز کی طرف انھوں نے ہاتھ بھی نہیں بڑھایا۔ ظاہر ہے اس وقت ان کی جسامت بہت زیادہ ہوچکی تھی اور مٹاپے کی وجہ سے ان کو چلنے پھرنے میں بڑی دقّت پیش آتی تھی یعنی ان کی موبلٹی بہت محدود ہوگئی تھی۔ خاص طور سے ہوائی جہاز پر بھی انھیں ایک ایسی گاڑی سے بٹھایا جاتا تھا جس میں ایک پلیٹ فارم ہوتا ہے اوراس پرکھڑے ہوکر بغیرجہازکی سیڑھیوں کے چڑھے جہازکے دروازے تک پہنچادیا جاتا تھا۔ یہی فریضہ انہیں سفر ختم ہونے کے بعد بھی انجام دینا پڑتا تھا، کیونکہ زیادہ ترایرپورٹ پراس وقت ایرو برج نہیں بنے تھے۔
میں اورنورالحسن صاحب جب بھی اکیلے ہوتے کسی نہ کسی پہلو پر باتیں کرتے رہتے تھے۔ لیکن زیادہ تر موضوع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہی ہوتی تھی۔ لطیفوں کو سننے اورسنانے میں وہ خود بھی بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ ایک بار جب میں نے انھیں بتایا کہ کچھ یونیورسٹیاں خصوصاً شمالی ہند میں جہاں پی. ایچ.ڈی. نے کم وبیش تجارت کا رخ اختیار کرلیا ہے اور اکثر امتحانات تک Farce ہوتے ہیں اور تھیسس ایسے جانے پہچانے لوگوں کو بھیجی جاتی ہے جو اس خصوصی سبجیکٹ سے اکثر نابلند ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ایگزامنر بنادئیے جاتے ہیں۔ ایسی تھیسس کی افادیت کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ کہیں کہیں تو ٹیچرپیسے لے کر ادھر اُدھر سے نقل کرکے یا بہ الفاظ دیگر ’’ٹیٖپ‘‘ کر پوری کی پوری تھیسس لکھ کر اسٹوڈینٹس کو بعوض ایک موٹی رقم کے پیش کردیتے ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت معنی خیز انداز میں مسکرائے اور بولے کہ مجھے امید ہے کہ علی گڑھ کی پی ایچ ڈی. ڈگریوں میں ایسا نہ ہوتا ہوگا۔ میں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اب بھی وہاں خاصی ایمان داری برتی جاتی ہے۔ ایک ایگزامنربیرونِ ملک کابھی ہوتاہے، تو انہوں نے یہ سن کر اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے بعد وہ خود بولے کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام صرف ہندوستان میں ہی ہوتا ہے، ایک واقعہ میں آپ کو سناتاہوں، علی گڑھ میں ہمارے ڈپارٹمنٹ کی ایک تھیسس آکسفورڈ گئی تھی، جب تین ماہ تک کوئی جواب نہیں آیا تو ان کو ایک ریمائنڈر بھیجا گیا اور کچھ ہی دن کے بعد ان کی رپورٹ بھی آگئی جو بہت اچھی اور مثبت تھی۔ متعلقہ اسٹوڈنٹ کو پی ایچ.ڈی. ڈگری ایوارڈ دینے کے لیے یونیورسٹی نے منظور بھی کرلیا۔ چوں کہ کنوکیشن جلد ہی ہونے والا تھا اس لئے اس کو ڈگری بھی مل گئی۔ ڈگری ملنے کے کچھ ہفتوں بعد انگلینڈ سے بذریعہ پانی کے جہاز سے بھیجی ہوئی اس کی تھیسس کی کاپی بھی دستیاب ہوگئی، جب اس کے کور کھولا گیا تو نیچے رکھی ہوئی تھیسس جوں کی توں تھی جیسی کہ رجسٹرار آفس Examination Section سے بھیجی گئی تھی۔ وہ اسی کور میں لپٹی ہوئی تھی اور اس پر رجسٹرار آفس کی لگائی Lac کی سیل بھی جوں کی توں محفوظ تھی۔یعنی کہ جناب ایگزامنرنے، جو کہ آکسفورڈ کے مشہور پروفیسر تھے، اس تھیسس کو کھولا بھی نہیں تھا اور غالباً اس کی summary کو ہی دیکھ کر اس کی رپورٹ بنادی تھی، اب آپ کا اس بارے میں کیا خیا ل ہے؟
میں نے ۱۹۹۰ء میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے زولوجیکل سروے آف انڈیا کے پچھترویں celebrations کا اہتمام کیا جو کہ میری نگرانی میں منائے گئے۔ پہلے روز ہی پروفیسر نور الحسن صاحب کو یعنی گورنر مغربی بنگال کو اس کا افتتاح کرنے اور کلیدی خطبہ پیش کرنے کے لیے مدعو کیا۔ انھوں نے بڑی خوشی سے میرے دعوت نامہ کو قبول کیا اور مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی اپنے لاؤلشکر کے ساتھ تشریف لائے اور کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس طرح انھوں نے نہ صرف مجھے بلکہ پورے زولوجیکل سروے آف انڈیا کو رونق اور عزت بخشی۔ ان کی تقریر کاموضوع تھا ’’زولوجیکل سروے آف انڈیا کی افادیت اور ماحولیاتی توازن‘‘۔ اس سے پہلے کبھی میں نے اتنا بہترین اور عمدہ لکچر نہیں سنا تھا۔ بہت دیر تک ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ چائے کے وقفہ پر سب لوگوں نے گورنر صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور وہ ان سے ملے بھی، اور ہر ایک کے سوالات کا بہت سکون کے ساتھ جواب دیتے رہے۔ اس کے بعد قریب قریب سبھی لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہمارے گورنر صاحب ہماری Discipline کے آدمی ہیں۔ میں نے کہا نہیں بھائی! یہ تو ہسٹری کے مشہور پروفیسر ہیں، اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے گنے چنے عالموں میں ان کا شمار ہوتاہے اور ہر طرح کے موضوع پر وہ قدرت رکھتے ہیں۔ آج بھی میرے پاس اس کانفرنس اوردوسرے مواقع کی سیدنورالحسن صاحب کے ساتھ ان گنت تصویریں ہیں۔ یوں تو میں ان کے بارے میں لکھنا بہت کچھ چاہتا ہوں لیکن یہ کام میں ان کے شاگردوں کے لیے چھوڑتا ہوں۔ میرے پاس ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کی ان گنت یادیں محفوظ ہیں جو میرا سرمایۂ حیات رہیں گی۔ مجھے زندگی بھر اس کا ملال رہے گا کہ کاش میں ان سے علی گڑھ میں ہی مل لیا ہوتا۔
جب میں ۱۹۹۰ء میں اپنے قریب قریب تین سال پورے ہونے کے بعد اور EOL کے ختم ہونے کے وقت ان سے آخری مرتبہ ملنے گیا تو بولے شمیم صاحب! میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا اور میری آپ کو جب بھی اور جہاں بھی ضرورت پڑے آپ فوراً مجھ سے رجوع کریں، میں آپ کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہوسکے گا وہ ضرور کروں گا، خصوصاً تعلیمی میدان میں۔ مجھے آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی تھی۔ جیسا کہ میں نے آپ سے خود کئی بار کہا تھا کہ میں علی گڑھ اور اپنے وہاں کے ساتھیوں کو کبھی بھی بھول نہ سکا اور نہ بھول سکوں گا۔ میری صحت اب ایسی نہیں رہ گئی ہے کہ میں اس خام خیالی میں پڑوں کہ میں اکیسویں صدی میں جاؤں گا لیکن میں اپنے طور پر اپنی زندگی سے مطمئن ہوں اور جو کچھ بھی بن پڑا میں کرتا رہا اور جب بھی ایسا موقع آئے گا کرتا رہوں گا۔ آپ میرے تمام علی گڑھ کے ساتھیوں کو میرا پیغام پہنچادیجئے گا اور کلکتہ جب بھی آپ آئیں اور میں یہاں موجود ہوں تو مجھ سے ضرور ملئے گا اور اگر آپ مجھے پہلے سے اطلاع کردیں گے تو میں چاہوں گا کہ آپ میرے ساتھ ہی گورنر ہاؤس میں قیام کریں۔
گورنر ہاؤس کی اس تاریخی لفٹ سے اترتے وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے کیوں کہ میں نے اتنے مشفق استاد اورعالم شخصیت کو شاذونادر ہی دیکھا تھا۔ ۱۹۹۳ء میں وہ بیمار ہوئے اور کلکتہ کے بلاویواسپتال میں بھرتی ہوئے، وہیں انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لیں اور ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ میں نے زندگی میں ایسے لوگوں کو بہت کم ہی دیکھا ہے جو ہر لحاظ سے بے لوث تھے اور دوسروں کے لیے بہت کچھ کر گزرنے کے لیے کمربستہ رہتے تھے۔ ان کو علی گڑھ اور اس کی تمام چیزوں سے بے انتہا محبت تھی اور وہ علی گڑھ میں گزرے ہوئے اپنے بہترین دنوں کو ہمیشہ دہراتے رہتے تھے، میں ان سے جتنی بار بھی ملا وہ علی گڑھ کے لوگوں کے بغیر نام دہرائے ہوئے سب کو سلام کہتے تھے۔ میں نے کبھی بھی ان کے منہ سے کسی کے لئے کوئی برائی نہیں سنی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کو اپنے علی گڑھ میں گزرے ہوئے دن سب سے سنہرے اور قیمتی لگتے تھے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ کاش علی گڑھ میں ان کی کوئی یادگار ہوتی جیسے کسی اقامتی ہال کا نام وغیرہ۔ ویسے ان کے شاگرد ان کی یادگار تو ہیں ہی۔ خدا ان کو غریق رحمت کرے۔ آمین
مرسلہ : ڈاکٹرمحمد شجاعت علی راشد
– – – – – – – –
Prof Shamim Jairaj puri
First Vice Chancellor of Manuu
۲ thoughts on “پروفیسرسید نورالحسن : ایک تعارف – – پروفیسرمحمد شمیم جیراجپوری”
Yun to mera watan Rampur hai lekin ,AMU se mera ta’alluq 1956 se hai,aur aaj bhi main Aligarh mein,Prof Shamim Jairajpuri ko main ne Aligarh mein dekha hai,Prof Noorul Hasan (Histoy) ,V.M.Hall mein,mere provost the,aur Prof Noorul Hasan Naqvi(Urdu) mere behtareen shanasa the.
Is liye main keh sakta hun ke aaj bhi,hamaari University ka research standard wohi hai,jiski ham ummeed karte hain
پروفیسر سید نو ر ا لحسن پر مضمون بہت ہی عمد ہ اور معلوماتی ہے ۔ محتر م رشید حسن خا ن سے بھی ان کا اکثر ذ کر رہتا تھا ۔
اللہ آپ کو سلامت رکھے ۔آمین ۔
حنیف سید ۔ آ گر ہ ۔