داستانِ خیرالنسا ٔ:میرے ملبوس کی خوشبو مرے قدموں کے نشاں۔2۔علامہ اعجازفرخ

Share

علامہ اعجاز فرخ

داستانِ خیرالنسا

داستانِ خیرالنسا ٔ۔ قسط ۔ 2
میرے ملبوس کی خوشبو مرے قدموں کے نشاں

علامہ اعجاز فرخ
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :
نوٹ : محترم علامہ اعجازفرخ کی تحریرکردہ داستانِ خیرالنسأ کی پہلی قسط کو آپ نے ملاحظہ کیا ہے۔اس کی دوسری قسط کے لیے آپ منتظر ہوں گے۔بہت سے احباب نے دوسری قسط کا مطالبہ کیا ہے۔ اب تک کی کہانی میں آپ نے ریذیڈنسی کی تعمیر ‘کرک پیٹرک کا تعارف اور خیرالنسأ کا صرف دیدار کیا ہے ۔ آگے کی کہانی ملاحظہ ہو جس میں آپ خیرالنسأ کو محسوس کریں گے اورعلامہ کی جادوئی تحریر سے لطف اندوز بھی ہوں گے۔
اب تک کی کہانی پڑھنے کے لیے کلک کریں۔قسط ۔ ۱
کرک پیٹرک اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ وہ پالکی میں سوار ہوئی اور کہاروں نے پالکی اُٹھالی۔ کرک پیٹرک بوجھل قدموں سے چلتا ہوا لان پر رکھی اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ بٹلر دست بستہ کھڑا رہا کہ حکم ہو تو درِ میخانہ کُھل جائے۔ لیکن کرک پیٹرک نے منع کردیا اور چائے کے لئے کہہ دیا۔ TWININGS کی مہکتی ہوئی ارل گرے کی چائے نے اُسے تازہ دم کردیا تو دوسرے ملازم نے حقہ تازہ کرکے پہلو میں رکھ دیا۔
کرک پیٹرک ہندوستان ہی میں پیدا ہوا تھا۔ مدراس کے فورٹ سینٹ جارج میں اس کی ولادت ہوئی تھی۔ بچپن ہی سے اس کے ذہن پر ہندوستانی تہذیب کے نقوش مرتسم تھے۔ اس کی ابتدائی تعلیم تو فورٹ سینٹ جارج ہی میں ہوئی لیکن بعد میں اسے باقاعدہ تعلیم کے لئے لندن بھیج دیا گیا۔ اس کا باپ کرنل جیمس کرک پیٹرک مدراس پریسیڈنسی کا ریذیڈنٹ تھا اور گہرے رسوخ کا حامل تھا۔اچیلی کرک پیٹرک اس کا دوسرا لڑکا تھا۔ اپنی تعلیم اور فوجی تربیت کے بعد اسے ہندوستان روانہ کردیا گیا۔ جہاں مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد جب وہ لفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا چکا تو اسے اس کے

بھائی ولیم کرک پیٹرک کی جگہ حیدرآباد کا ریذیڈنٹ مقرر کیا گیا۔ وہ مشرقی تہذیب کا اتنا دلداہ تھا کہ بیشتر ہندوستانی تقاریب میں اسے مغلیہ لباس زیب تن کرتا ہوا دیکھا گیا۔ وہ اردو اور فارسی اس روانی کے ساتھ بولتا تھا جیسے وہ اس کی اپنی زبانیں ہوں۔ آصفیہ دربار میں اس کے رسوخ اور امراء سے تعلقات اور میل جول میں اس ک شیریں سخنی، حاضر جوابی، بذلہ سخی کے ساتھ ساتھ مشرقی لباس اور تہذیب کی آمیزش اس کے لئے بڑی سازگار ثابت ہوئی۔ چنانچہ میر نظام علی خاں نے اس پر اپنے لطف و کرم کی اتنی بارش کردی کہ اسے پہلے حشمت جنگ، پھر فخرالدولہ اور آخر میں موتمن الملک کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ چنانچہ جیسا کہ کہا گیا ریذیڈنسی کے مقابل حشمت گنج اسی کے نام سے موسوم ہے۔ حال تک حشمت گنج کے باب الداخلہ کی کمان موجود تھی۔ اب شہر میں کونسی عمارت سلامت رہ گئی ہے جو اس کی یاد دلائی جائے۔ جب محل، دو محلے، چومحلے نہ رہے اور ارباب اقتدار سارے تعمیری اور تہذیبی ورثوں کو مٹانے کے درپے پوں تو کس کس کو یاد کیجئے اور کس کس روئیے۔ امراء کی صحبتوں اور محفلوں نے اسے عطر، پان اور حقّے کے شوق سے بھی آشنا کردیا۔ چنانچہ کرک پیٹرک کی سوانح مرتب کرنے والے مشہور ادیب نے اس کی سوانح کا نام ہی THE WHITE MOGHAL رکھا ہے۔ اونچا پورا قد، مضبوط کسرتی بدن، فوجی چال کی استقامت، سفید اسٹالین گھوڑے پر مخصوص سواری کا انداز، سنہری بال، گورا رنگ، فراخ سینہ، مضبوط بازو، چہرے مہرے سے استقامت عیاں، شخصیت میں وجاہت اور چہرے پر تدبر اور متانت کے ساتھ تھوڑا سا کھلنڈرا پن۔ وہ صرف دربار کو جانے کے لئے چار گھوڑوں والی بگھی جسے دکن میں چوکڑا کہا جاتا تھا، استعمال کرتا تھا۔ ورنہ عموماً شام کو اپنے نمائشی مختصر دستے کے ساتھ گھوڑے پر سوار نکلا کرتا۔ آگے کو چتکبرے رنگ کے دو گھڑ سوار، کلاہ دار خوبصورت وردی میں ملبوس اور پیچھے چار گھوڑ سوار۔ تنو مند اور چاق چو بند۔ ملبوس کا یہ اہتمام کرک پیٹرک کا یہ بانک پن شریر کیوپڈ تو ان لمحات کی تاک میں رہتا ہے۔ ا س لڑکی نے پس چلمن سے جو اس بانک پن کو دیکھا تو کیوپڈ کی تیر نیم کش نے ناوک فگنی میں ایک لمحہ گنوانے کوبھی خطا جاتا۔ تیر نشانے پر بیٹھے تو لہو بہتا ہے لیکن کمبخت کیوپڈ کا تیر کبھی اپنا نشانہ خطا نہیں کرتا۔ لہو تو نہیں بہتا مگر خرمن دل میں ایک ایسی آگ لگا دیتا ہے کہ بجھائے نہ بنے۔
’’ ایک دوجے کے لئے‘‘ کا فلسفہ بھی عجب ہے۔ قدرت کے ان دیکھے ہاتھ جب مٹی کو محبت کا خمیر دے کر ایک کُرّہ کی تشکیل دینے کے بعد وقت کے حوالے کردیتے ہیں تو گردش دوراں انہیں سمیٹے رکھنے کے بجائے دو حصوں میں تقسیم کردیتی ہے کہ یہ اپنی کشش کے تئیں ایک دوجے کو خود تلاش کریں اور باہم پیوست ہوجائیں۔ یہ نصف کُرّے ایک دوسرے کی تلاش میں جانے کتنی صدیاں گزار چکے ہوتے ہیں اور پھر جب زمین پر اتر آتے ہیں تو یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کسی ملک، خطّے، یا طبقۂ ارض کے پابند ہوں۔ یہ تلاش انہیں زندگی بھر ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں رکھتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دونوں بہت قریب سے ہوکر گزر جاتے ہیں لیکن مقدر کی ساعتیں فصل رکھ چھوڑتی ہیں۔ کبھی ایک عارضی وقفہ کے لئے مل بھی جاتے ہیں تو اس کے بعد وصال آسودہ فراق کی تپش کے آگے ہر آگ اور اس کی تپش ہیچ ہے۔ اور اگر دونوں ایک دوسرے سے ملنے تک اگر اپنے وجود میں کچھ بکھر جائیں تو اس ہجر نصیب وصال کی ناآسودگی صرف بے منزل سفر اور آبلہ پائی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی۔شاید یہ بات درست نہیں ہے کہ بچھڑے ہوئے یہ وجود کسی اور کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ کسی اور کی نہیں بلکہ اپنے وجود کے اندر کے آئینہ میں نہاں اس تصویر کی تلاش میں ہوتے ہیں جنہیں کبھی کبھی خانۂ دل بھی کہا جاتا ہے۔ ان وصال آشنا ہجر نصیبوں کی داستانیں تو زندگی کے ہر گام پر یوں مل جاتی ہیں کہ کبھی کسی عمارت کی دیوار اور کبھی کوئی چٹان ان داستانوں کو سناتی ہوئی بلک اٹھتی ہیں تو دریاؤں کی موجیں اور سمندروں کا تلاطم اس داستاں گوئی کے وقت ساکت ہوجاتا ہے۔ ان داستانوں میں کرداروں کے نام الگ الگ سہی لیکن ان کی اصل ایک ہے۔
وہ شام دلفریب شام تھی۔ نواب محمود علی خاں گھر تقریب تھی وہ دیوان بہادر کے قریبی عزیز تھے اور خود بھی رئیس تھے۔ چنانچہ ارسطو جاہ کے علاوہ دولہ، جنگ، نواب، امراء،سب ہی مدعو تھے۔ موسم بہار نے اتنے سارے پھول کھلا دیئے تھے کہ نہ صرف خارِ نگہبان اپنے فرائض بھول بیٹھے بلکہ جن پتّیوں کے پہلو سے کلیاں پھوٹیں تھیں، پھولوں کے شباب نے انہیں بھی پچھلی صفوں میں ڈھکیل دیا۔ کِھل اٹھنے کا موسم بھی عجیب ہوتا ہے۔ بھونرا منڈلائے تو پھول تغافل آمادہ، نہ منڈلائے تو اپنے آپ سے حجل نہ اس پل چین نہ اس لمحے قرار۔
لان پر پر تکلف نشستوں کا اہتمام۔ باوردی خوش سلیقہ ملازم برف آب شربتوں کی بلوری صراحیاں اور جام بہ کف۔ کنیزیں خاص دانوں میں سونے چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی ٹھنڈی پان کی گلوریاں پیش کرتے ہوئے۔دو کنیزیں کرک پیٹرک کی طرف آگے بڑھ آئیں گویا وہ منتظر اسی کی تھیں۔ پہلی کنیز آگے بڑھی جُھک کر مجرا مجالائی۔ کرک پیٹرک نے نظر اٹھا کر دیکھا چمپئی رنگ سرخ قبا اور بند قبا پیچھے سے یوں کسی ہوئی کہ ہر زاویہ چست۔ چوڑی دار پاجامہ، گھٹنوں تک پیرہن کا گھیر، کہنیوں سے کچھ نیچے تک چُنی ہوئی، آستین کلائیوں میں طلائی کام والی کانچ کی چوڑیاں، ہر سلام پر جلترنگ چھڑ رہی تھی۔ مجرا بجا لاکر بڑھی تو گندھے بالوں کی سیاہ ناگن پلٹ کر ڈس گئی اور ڈس کر پلٹ
گئی۔ اس نے دوسری کنیز کے ہاتھ سے سونے چاندی کی منقش کشتی سنبھالی اور خاص دان آگے کو بڑھا کر کہا۔ حضور پان ملاحظہ ہو۔ پھر اس آہستگی سے جواہرات سے مرصع ڈبیا کھولی جیسے صدف چٹکے۔ پھر جھک کر آہستہ سے کہا ’’صاحبزادی نے اپنے ہاتھ سے آپ کے لئے بنایا ہے‘‘۔ کرک پیٹرک نے دیکھا ورق لپٹی گلوری کے ساتھ چھوٹا سا سادہ کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ اس نے کنیز کی طرف نگاہ کی تو اس کی نگاہوں نے چپکے سے پیام دیا ’’آپ ہی کے لئے ہے‘‘۔ اس نے کاغذ کو چھوا ہی تھا کہ پھر انگلی انگلی مہک اٹھی۔ وہی خوشبو، خوشبو کی اس طرزِ پذیرائی پر وہ حیران رہ گیا۔ اس نے کاغذ بائیں جانب جیب میں رکھا اور ادھر گلوری دہن میں رکھی ہی تھی کہ خوشبو سارے وجود کو معطر کرگئی۔ اس کی آنکھیں نشہ میں مخمور سی ہوئی جارہی تھیں۔ اس نے بے ساختہ مقابل میں دیکھا تو کنیز غائب تھی۔ نامہ بر خط بھی پہنچا گیا۔ پیغام زبانی بھی دے گیا اور شاید اس کے دیدہ حیراں سے جواب بھی لے گیا۔ خط کا مضمون بھی خوشبو، حال دل بھی خوشبو، سلام بھی اور پیام بھی خوشبو اور تو اور پتّہ بھی خوشبو۔ اس نے سوچا نازو ادا ے دلبری، رجھانا بھی جانتی ہے تڑپانا بھی۔ اسے شاید یوں بھی مزہ آتا ہے کہ میں ایک پہیلی ہوں مجھے بوجھو تو جانوں۔
کرک پیٹرک نے سوچا وہ پہیلی کیا جو بوجھی نہ جائے۔ کرک پیٹرک جب لوٹ رہا تھا تو اسے چلمن کے پیچھے ایک روشن روشن چہرہ نظرآیا۔ قریب سے گزرا تو کسی نہ آہستہ سے ہاتھ ماتھے تک لیجاکر سلام کیا۔ کرک پیٹرک کے دل میں پھلجھڑیاں سی چھوٹ گئیں۔ دو تین دن بعد کرک پیٹرک اپنے دفتری کام ختم کرکے رہائش پر لوٹا ہی تھا کہ حاجب نے خبر دی نواب محمود علی خاں کی ڈیوڑھی سے پالکی آئی ہے۔ حضور تک کوئی سوغات پہنچانی ہے۔ کرک پیٹرک نے اجازت دی۔ وہی دونوں کنیزیں، ایک آگے آگے اور دوسری کشتی کو سنبھالے ہوئے۔ دونوں نے آہستہ سے کشتی کو سامنے کی میز پر رکھا اور تسلیم کو جھک گئیں۔ کرک پیٹرک نے پوچھا ’’اس دن پلک جھپکتے میں کہاں غائب ہوگئی تھیں؟‘‘ اس نے کہا ’’میری خوش بختی تھی کہ حضور نے پان قبول کرلیا۔ کنیز حکم کی پابند ہے، جو چیز پہنچانی تھی سو پہنچ گئی۔ آپ نے جو پیام دیا تھا ادھر بھی تو پہچانا تھا‘‘۔ ’’میں نے! میں نے کب پیام دیا تھا؟‘‘ کرک پیٹرک نے حیرانی سے پوچھا۔ کنیز نے ہلکے سے تبسم کے ساتھ مسکراکر سر جھکا لیا۔ ’’کہو تو! میں نے کب کوئی پیام دیا تھا۔ میں تو کچھ کہہ بھی نہ پایا کہ تم چلی گئیں۔ اور تم کہہ رہی ہو کہ ۔۔۔!‘‘ کرک پیٹرک نے کہا۔ کنیز نے عرض کیا ’’بے شک صاحب نے کچھ نہیں ، مگر پیام تو میں لے گئی تھی۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے ڈبیہ کو چھوکر اس میں سے گلوری اٹھائی اور شاید کچھ اور بھی اور جلدی سے ڈبیہ کو بند کردیا۔ میں نے اس ڈر سے کہ کہیں منافق ہوا راز فاش نہ کردے اور آپ کی انگلیوں کے لمس کو کوئی اور نہ چھولے اسے صاحبزادی تک پہنچا دیا‘‘ ۔’’پھر؟‘‘ کرک پیٹرک نے پوچھا۔ ’’پھر میں کیا جانوں کہ کس کے چہرے پہ ہلکی سرخی دوڑ گئی اور کس نے بے ساختہ اسی جگہ ڈبیا کو چوم لیا جہاں آپ نے چھوا تھا‘‘۔ کرک پیٹرک نے پوچھا ’’یہ کیا لائی ہو؟‘‘ اس نے کہا ’’جی حلوہ ہے۔ صاحبزادی نے خود اپنی ہاتھ سے آپ کے لئے بنایا ہے‘‘۔ کرک پیٹرک نے پوچھا ’’کچھ کہا نہیں کہ کب قدم رنجہ فرمائیں گی‘‘ کنیز نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف اتنا کہا ’’صاحب! حلوہ تازہ بھی ہے اور گرم بھی۔ آپ کے لئے پلیٹ میں تھوڑا سا نکال دوں۔ منہ میٹھا ہوجائے گا‘‘ کرک پیٹرک اندر سے جھینپ گیا۔ اسے کہا ’’تم شوخ بھی ہو حاضر جواب بھی‘‘۔کنیز نے کہا ’’گستاخی معاف فرمادیجئے شاید کنیز نے اپنی حد کو فراموش کردیا‘‘ کرک پیٹرک نے پوچھا ’’تمہارا نام؟‘‘ اس نے کہا ’’خوشبو‘‘۔ وہ چونک گیا پھر دوسری کنیز
کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’اور اس کا؟‘‘ ’’جی۔ جوہی۔ اس لئے دونوں ساتھ ہیں‘‘ کرک پیٹرک نے دریافت کیا ’’اور صاحبزادی کا نام؟‘‘ ’’یہ آپ ان ہی سے پوچھ لیجئے گا! کنیز کو نام لینے کی اجازت نہیں۔ آپ اس شام جن کے مہمان تھے ان کی اکلوتی پوتی ہیں اور وہ دیوان ریاست نواب میر عالم بہادر کے عزیز ہیں‘‘۔ کرک پیٹرک نے اپنی جیب سے سونے کے دو سکّے نکالے اور دونوں کنیزوں کو دیتے ہوئے کہا ’’صاحبزادی سے کہنا، ہم میٹھے کا شکریہ ادا کرنے بہت جلد حاضر ہونگے‘‘۔
کرک پیٹرک نے میر عالم کو رقعہ روانہ کیا کہ وہ ملنے کے لئے تشریف لائیں۔ اسی شام میر عالم ملنے کے لئے پہنچے تو علیک سلیک اور مزاج پرسی کے بعد کرک پیٹرک نے کہا ’’میر صاحب! ہم ایک بہت بڑی الجھن میں گرفتار ہیں۔ شاید ہماری اس الجھن کا حل آپ کے پاس ہے لیکن ہمیں کہنے میں تامل ہے‘‘۔ میر عالم نے کہا ’’ریذیڈنٹ بہادر! ایسی کیا بات ہے جو آپ اس قدر پریشان ہیں اگر اس کا حل ہمارے پاس ہے تو آپ میں اور مجھ میں کوئی غیریت تو ہے نہیں۔ آپ تامل نہ فرمائیں اور بلا تکلف فرمائیں کہ مسئلہ کیا ہے۔‘‘ ریذیڈنٹ نے کہا ’’پچھلے دنوں ہماری جو طبیعت بگڑ گئی تھی اس کی وجہ ہم نے آپ کو نہیں بتلائی۔ آپ کو نہیں بلکہ کسی کو نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے شادی نہیں کی۔ ہمارے مزاج سے بھی آپ کو اندازہ ہے کہ ہم مشرقی تہذیب کے کتنے دلداہ ہیں اور پھر حیدرآباد کی سر زمین نے ہمیں بہت نوازا۔ عزت، خطاب، رُتبہ اور ان سب سے زیادہ آپ لوگوں کے وسیع دل اور بے پایاں محبت۔ ہم دراصل ایک حیدرآبادی نژاد لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں لیکن بخدا ہم سچ کہہ رہے ہیں۔‘‘ میر عالم حیران رہ گئے، پوچھا ’’لیکن کس سے؟کیا نام ہے اس کا؟کس گھرانے سے اس کا تعلق ہے؟‘‘ کرک پیٹرک نے کہا ’’نام تو ہم نہیں جانتے، نہ ہم نے کبھی اس کی آواز سنی ہے۔ بس اتفاقاً اسے اک دو بار دیکھا ہے۔ شرافت کا نور اس کی پیشانی سے عیاں ہے۔ کم سخنی اس کی نجابت کا ثبوت اور شرم و حیا اس کا زیور۔ ہم تو راست اس سے یا اس کے گھر والوں سے شادی کے لئے کہہ نہیں پائیں گے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ ہماری سفارش کردیں تو اسے انکار نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں اگر اسے یا اس کے اہلِ خاندان کو ہماری کسی حیثیت پر اعتراض ہوا تو ہم ان کی ہر شرط پوری کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر انہیں ہمارے عہدے پر اعتراض ہوا تو ہم یہ عہدہ چھوڑ دیں گے۔ ہمارے مذہب پر کوئی اعتراض ہو تو ہم آپ کا دین اختیار کرلیں گے لیکن شاید وہی لڑکی ہماری عمربھر کی تلاش ہے۔ ہم نے آپ سے کہا تھا کہ نہ جانے وہ کونسی مبارک ساعت تھی کہ جب آپ نے یہ زمین دلوادی تھی اور ماہر تعمیرات نے اس ریذیڈنسی کی تعمیر بھی اس طرح کی ہے گویا وہ اپنی غیر مرئی انگلیوں سے ہمارے خواب ٹٹول کر ہمارا گھر بنا رہا ہو۔ یہ بس جائے گا تو حیدرآباد ہم کو آباد کردے گا ورنہ شاید ہم برباد ہوجائیں گے‘‘۔ میر عالم حیرت میں ڈوب گئے۔ ان کی زبان گنگ ہوگئی۔ آخرکار انہوں نے بہ مشکل کہا ’’ریذیڈنٹ بہادر! ہم نے پوری سنجیدگی سے آپ کو سنا اور بڑی اپنائیت سے اسے محسوس کیا لیکن آخر وہ ہے کون؟‘‘
جاری ہے
,Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4
,SILVER OAK, EDI BAZAR
,NEAR SRAVANI HOSPITAL
HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
afarruq[@]gmail.com

Share

۳ thoughts on “داستانِ خیرالنسا ٔ:میرے ملبوس کی خوشبو مرے قدموں کے نشاں۔2۔علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share